پلیسز آف ورشپ ایکٹ اور سنبھل شاہی جامع مسجد کیس: ایک قانونی تجزیہ
پلیسز آف ورشپ ایکٹ اور سنبھل شاہی جامع مسجد کیس: ایک قانونی تجزیہ
از:محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال
_____________________
صوبہ اتر پردیش کے شہر سنبھل میں واقع شاہی جامع مسجد کے سروے کو لے کر ہونے والے تشدد اور اس میں ہلاک ہونے والے افراد کے واقعے نے پورے ملک میں سیاسی اور قانونی بحث چھیڑ دی ہے۔ 19 نومبر 2024 کو مقامی عدالت میں دائر کی گئی ایک درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سنبھل کی شاہی جامع مسجد کی جگہ پر دراصل ایک مندر تھا جسے مغل حکمراں بابر نے 1529 میں توڑ کر اس کی جگہ پر مسجد تعمیر کرائی تھی۔ اس دعوے کے بعد عدالت نے فوراً مسجد کے سروے کا حکم دیا، جس پر 19 نومبر کو سروے کیا گیا، لیکن یہ عمل تشدد کی صورت میں تبدیل ہو گیا، جس کے نتیجے میں چار افراد کی ہلاکت اور متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں۔
پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 کا پس منظر:
پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 بھارت میں مذہبی مقامات کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت، 15 اگست 1947 کے بعد کسی بھی عبادت گاہ کی حالت یا نوعیت میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی، یعنی اگر کسی عبادت گاہ کو مسجد، مندر، گرجا گھر یا کسی دیگر مذہبی نوعیت کا عبادت خانہ کہا گیا ہو تو اس کی نوعیت میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی اجازت نہیں۔ اس قانون کا مقصد مذہبی مقامات کے درمیان تنازعات کو ختم کرنا ہے اور امن و سکون کی فضا قائم کرنا ہے۔
یہ قانون خصوصی طور پر اس وقت کے حساس سیاسی اور سماجی ماحول میں منظور کیا گیا تھا جب بھارت میں ایودھیا تنازعہ اور دیگر مذہبی مسائل کی وجہ سے ملک بھر میں کشیدگیاں اور تشدد ہو چکا تھا۔ اس قانون کا مقصد ایسی صورت حال کو روکنا تھا جہاں عبادت گاہوں کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے اور اس کے نتیجے میں مذہبی جذبات بھڑکیں۔
سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے سروے کا حکم:
مقامی عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے مقام پر ایک مندر تھا، اور عدالت نے اس دعوے کے تحت فوراً سروے کا حکم دیا۔ اس حکم پر عمل کرتے ہوئے سروے ٹیم 19 نومبر کو موقع پر پہنچی، جس کے دوران احتجاج اور تشدد کی فضا پیدا ہو گئی۔ پولیس کے مطابق، بعض افراد نے سروے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں پتھراؤ اور دیگر پرتشدد واقعات ہوئے۔ اس دوران کم از کم چار افراد کی ہلاکت ہوئی، اور کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
قانونی نقطۂ نظر:
اس واقعے کے قانونی پہلو پر بات کرتے ہوئے، یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 کے تحت اس طرح کے سروے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ چونکہ یہ قانون واضح طور پر کہتا ہے کہ 1947 کے بعد کسی بھی عبادت گاہ کی نوعیت میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی، لہٰذا اس قانون کے تحت اس مسجد کے سروے کا حکم دینا غیر قانونی ہے۔ قانونی ماہرین اور سیکولر سیاستدانوں نے اس سروے کی غیر ضروری عجلت پر سوال اٹھایا ہے اور اسے پلیسز آف ورشپ ایکٹ کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
پلیسز آف ورشپ ایکٹ کا مقصد ایسی کارروائیوں کو روکنا ہے جو مذہبی مقامات کی نوعیت یا حیثیت میں تبدیلی کی کوشش کریں۔ اگر سنبھل کی جامع مسجد کے حوالے سے ایسا کوئی سروے کیا جا رہا ہے جس کا مقصد اس کی نوعیت کو دوبارہ متعین کرنا ہے، تو یہ صاف طور پر اس قانون کی خلاف ورزی ہے۔
سیاسی اور سماجی اثرات:
سنبھل کی شاہی جامع مسجد کا سروے نہ صرف قانونی تنازعات کو جنم دے رہا ہے بلکہ اس نے علاقے میں سیاسی اور سماجی کشیدگی بھی پیدا کر دی ہے۔ حکمران جماعت نے اس معاملے کو اپنے مفادات کے تحت استعمال کرنے کی کوشش کی ہے، خاص طور پر اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ حالیہ دنوں میں اتر پردیش میں ضمنی انتخابات ہوئے تھے اور یہاں کی مسلم آبادی نے حکمران جماعت بی جے پی کے خلاف بھاری تعداد میں ووٹ کیا تھا۔
مذہبی مقامات پر اس طرح کے تنازعات کے حل کے لیے ضروری ہے کہ تمام فریقین کو سنجیدہ اور غیر جانبدارانہ طریقے سے سنا جائے تاکہ کسی بھی قسم کی کشیدگی سے بچا جا سکے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ حکومت اس معاملے میں غیر جانبداری دکھائے اور عوامی امن و امان کو برقرار رکھنے کے لئے تمام اقدامات کرے۔
نتیجہ:
سنبھل کی شاہی جامع مسجد کا سروے ایک سنگین قانونی اور سیاسی مسئلہ بن چکا ہے، جس میں پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 کی اہمیت اور اس کے اثرات پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس طرح کے معاملات میں قانونی حکام کو غیر جانبدار ہوکر آئین اور ایکٹ کی روشنی میں کر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مذہبی مقامات کے تقدس کی حفاظت کی جا سکے اور سماجی ہم آہنگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس معاملے کی مزید قانونی اور سیاسی پیچیدگیوں کو حل کرنے کے لیے اعلی عدالت کی مداخلت ضروری ہوگی تاکہ قانون بالخصوص پلیسز آف ورشپ ایکٹ کی بالادستی قائم رکھی جا سکے اور عوامی امن و امان کو یقینی بنایا جا سکے۔
ایسی صورت حال میں جہاں مذہبی مقامات اور ان سے جڑے تنازعات عوامی سطح پر پھیلنے کا خطرہ رکھتے ہوں، یہ ضروری ہے کہ قانونی ادارے اپنے فیصلے آئین اور ایکٹ کی روشنی میں کریں، نہ کہ مذہبی جذبات کی بنیاد پر اور قانونی و آئینی بالا دستی قائم کریں تاکہ کسی بھی جماعت کے مذہبی جذبات کو مجروح نہ کیا جائے اور ملک بھر میں موجودہ فرقہ وارانہ توازن کو برقرار رکھا جا سکے۔