شبیر شاد بھی ناشاد کرگئے
شبیر شاد بھی ناشاد کرگئے
از: مفتی ناصرالدین مظاہری
ــــــــــــــــــــــــــــــ
زندگی ایک ناؤ کے مانند ہے جب تک پانی پر چل رہی ہے ، چل رہی ہے ، پاربھی ہوسکتی ہے ، دریامیں بھی رہ سکتی ہے، خدا اور ناخدا میں یہی تو فرق ہے ،خدا وہ ذات ہے جو خود سے وجود میں ہے، اس کو کسی نے پیدا نہیں کیا اور ناخدا وہ ہے جس کو خدا نے پیدا کیا ہے ،خدا کی غالبیت مسلَّم ہے اور ناخدا کی مغلومبیت مسلم ہے ، کامیاب ترین شخص وہ ہے جو دل سے خدا کی خدائی کو تسلیم کرلے اور ناکام وہ ہے جو خداکی خدائی کو تسلیم کرنے میں اتنی دیر کرے کہ خدا کی طرف سے ہی بلاوا آجائے ۔
یہ دنیا بھی ایک کشتی کے مانند ہے ،اب تو سائنس دانوں نے تحقیق بھی کرلی ہے کہ دنیا کا وجود دوعدم کے درمیان تو ہے ہی یہ زمین پانی کے اوپر بسی ہوئی ہے ،جس دن خدا نے چاہا یہ ساری سجاوٹ اور بناوٹ زیر زمین سماجائے گی، باقی رہ جانے والی ذات تو صرف خدا کی ہے ، حاکمیت اسی کو زیب دیتی ہے ،موت تو اطاعت کاایک نام ہے خواہی نخواہی اس حکم کے آگے سر تسلیم خم کرناہی ہوگا۔
میرے بہت ہی کرم فرما، قدیم تعلقات کو نبھانے والے ،پوری زندگی صحافت کے میدان میں بسرکرنے والے ،چھوٹوں ، بڑوں، امیروں، وزیروں، فقیروں، شاہوں، گداؤں اور ہر پڑھے لکھے اور ان پڑھ سے تعلقات بناکر رکھنے والے ، ہردل عزیز صحافی محترم شبیر شادیوں اچانک چلے جائیں گے اندازہ بھی نہیں تھا حالانکہ اندازہ ہونا چاہئے ،اندازہ ہی کیا یقین رہنا چاہئے ،کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ میں موت کے فرشتے کو اعلان کرکے بھیجوں گا، کہیں بھی نہیں پڑھا کہ موت کا فرشتہ انسان کی مرضی کے مطابق روح قبض کرے گا۔ وہ توفرشتہ ہے ،اس کی فطرت میں اطاعت اور تسلیم کامکمل مادہ رکھا گیا ہے وہ تو وہی کرے گاجس کااسے حکم ملاہے ۔
فرشتۂ کہ وکیل است برخزائن باد
چہ غم کندکہ بمیردچراغ پیر زنے
جس فرشتہ کو اللہ تعالیٰ نے ہواؤں پر مسلط فرمایا ہوا ہے اس فرشتہ کو کوئی پرواہ نہیں ہے کہ ہوا کے باعث کسی غریب بڑھیا کاچراغ بجھ جائے۔
اللہ تعالیٰ نے توجا بجاقرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ جب موت کاوقت آجائے گا تو اس میں نہ دیری ہوگی نہ جلدی۔ یعنی بالکل وقت پر راہ عدم کی طرف کوچ کرنا ہی ہوگا۔چاہے راضی خوشی جائے چاہئے بے دلی و ناخوشی سے جائے ۔
لائی حیات آئی قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
محترم شبیر شاد بہترین صحت رکھتے تھے ،اچھے جسم و جثہ کے مالک تھے ،ادھر کچھ سالوں سے وہ شوگر کے مریض تھے ، ایک دوبار اس سے پہلے ان کی طبیعت بگڑ بھی چکی تھی لیکن طبیعت کا بگڑنا اور سدھرنا تو اللہ کے نظام اور اس کی قدرت ورحمت کاحصہ ہے۔
ابھی دوپہر میں حاجی فضل الرحمن قریشی کا ایک میسیج گشت کرتا ہوا مجھ تک پہنچا کہ جناب حاجی شبیر شاد صاحب اچانک انتقال کرگئے۔یہ سنتے ہی دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں ،۶۵؍سال کی عمر تھی ، اردو کے اچھے ادیب اور صحافی تھے، صحافت ہی ان کا پیشہ اور پیسہ تھا، کسی زمانے میں کھردرے الفاظ کے نام سے ایک اخبار جاری کیا تھا لیکن اخبارات کی اشاعت ہاتھی پالنے کے مرادف ہے اس کاپیٹ اتنا بڑا اور اخراجات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ کسی چھوٹی موٹی کمپنی یاکسی امیر کے بس کا کام نہیں ہے ،بڑے ادارے اور بڑی کمپنیاں ہی اخبارات کوجھیل سکتی ہیں۔
محترم شبیر شاد ایک زمانے سے ہندوستان کے کثیرالاشاعت اخبار روزنامہ انقلاب کے سہارنپور میں نمائندے تھے ،ان کی نمائندگی، ان کی خبریں، ان کے مضامین، ان کے تجزئیے اور ان کے انٹرویوز بڑے عمدہ ہوتے تھے ۔
بڑے بڑوں سے تعلقات کے باوجود کبھی اپنے ذاتی کام کے لئے کسی افسر اور کسی دفتر کے سامنے کاسۂ گدائی اور اپنی خودی و خودداری کو بھینٹ نہیں چڑھایا ، بڑے اچھے انسان تھے ۔
سہارنپور میں دوران سفر ان کی شخصیت کو پہچاننے کا اچھا موقع ملا، وہ سفر میں بھی اچھے تھے گویا اچھے ہی تھے کیونکہ سفرمیں لوگوں کی اصلیت ظاہرہوجاتی ہے ، ہر انسان سفرمیں پہچاناجاتاہے ،بندہ کس قماش اورکس عادت کاہے سفراس کے لئے بہترین کسوٹی ہے۔
آپ کو مظاہرعلوم وقف سہارنپور سے خاصا تعلق تھا اسی تعلق کا نتیجہ تھا کہ آپ نے اپنی کوششوں سے روزنامہ انقلاب کا باقاعدہ خصوصی شمارہ شائع کرایا تھا یہ خصوصی شمارہ بہت عمدہ معیاری اورتاریخی مضامین اور موادپرمشتمل تھا،تمام مضامین بالکل نئے تھے ،اگرمدرسہ ان تمام مشمولات کوکتابی شکل میں شائع کردے توادارہ کے لئے خاصی چیزثابت ہوگی۔
ادارہ کی طرف سے جوبھی خبربھیجی جاتی آپ اس کو فوری طورپراخبارمیں شائع کرانے کی کوشش کرتے ، اگر خبرزیادہ طویل ہوتی توبڑے نرم لہجہ میں کہتے کہ ادارہ کے اصول کے مطابق اتنی تفصیلی خبریں مختصر کردی جاتی ہیں۔
آپ اردو کے بہترین شاعر بھی تھے ،دوران سفراپنا بعض کلام بھی ہلکے ترنم میں سنایااورمزا آیا ،لکھنؤکے ادب کلچراینڈویلفئیر سوسائٹی کے زیراہتمام ایک بارآپ کو’’شان صحافت‘‘ کے نام سے ایوارڈبھی دیاگیا، ملک زادہ جاویدنے اس پروگرام کی نظامت کی تھی۔
آپ کسی سے اختلاف مول لینے کے عادی نہیں تھے،یہی وجہ ہے کہ اتنے بڑے اور اتنے پڑھے لکھے شہر میں ان کا برا چاہنے والا چراغ لے کر بھی تلاش کیاجائے توان شاء اللہ نہیں ملے گا۔
کئی سال پہلے ایک دن فون آیا اوربتایا کہ میں مکہ مکرمہ میں ہوں ،حج کے لئے آیا تھا، میں نے کہا کہ حج توکبھی کا ہوچکا ہے اوراب آپ وہاں کیا کر رہے ہیں ؟خوشی سے چہکتے ہوئے بتایا کہ میرا داماد ڈاکٹر ہے ۔ یہاں ایک ہوسپٹل میں ماشاء اللہ ڈاکٹری کررہا ہے ، مکان وغیرہ ملا ہوا ہے ، میری بیٹی بھی یہیں ساتھ رہتی ہے ،اس لئے ان لوگوں نے روک لیاہے ۔
افسوس کہ ایک متحرک ، ذہین اور ادب نواز، دوست نواز، علماء نواز انسان بالکل اچانک ہارٹ اٹیک کے باعث ہم سے جداہو گیا۔ اللہ ان کے پسماندگان کو صبرجمیل دے، میں نے تواپنی درسگاہ میں بچوں سے قرآن پڑھوا کردعائے مغفرت بھی کرادی ہے اور آپ سبھی سے دعائے مغفرت کی خصوصی اپیل ہے۔