Site icon

محبت اور دوستی کا قرآنی تصور

محبت اور دوستی کا قرآنی تصور

از: محمد عمر فراہی

____________________

ہمارے معاشرے میں عام طور پر لوگوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ جن سے خون کی نسبت ہوتی ہے وہی رشتہ دار ہوتے ہیں وہی محبوب ہوتے ہیں یا انہیں سے محبت ہوتی ہے مگر جو کسی رابطے کی وجہ سے آشنا ہو جائیں وہ دوست کہلاتے ہیں اور دوستوں کو رستہ داروں پر ترجیح نہیں دی جاتی ۔یہاں پر میں سیرت کا ایک واقعہ بتاتا ہوں ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب سے اس طرح ملتے تھے کہ ہر صحابی کو یہ گمان تھا کہ آپ مجھے سب زیادہ محبت کرتے ہیں ۔اسی گمان پر ایک صحابی رسول نے کہا یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے ۔آپ نے کہا عائشہ ۔انہوں نے کہا میرا سوال آپ کے اصحاب کے تعلق سے ہے ۔آپ نے کہا ابوبکر ۔صحاپی نے کہا اس کے بعد ۔آپ نے کہا عمر ۔صحابی رسول نے اس کے بعد کوئی سوال اس لئے نہیں کیا کیوں کہ انہیں گمان تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ سب سے زیادہ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور اگر کہیں انہوں نے عمر کے بعد کسی اور کا نام لے لیا اور میرا نام بہت آخر میں آیا تو مجھے مایوسی نہ ہو ۔
کچھ بیس پچیس سال پہلے اخبارات میں باقاعدہ pen friend کے کالم سے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان خط و کتابت کے ذریعے رابطے کا سلسلہ شروع ہوا تھا ۔کچھ دنوں تک دوستی کے نام پر یہ بھی ایک جدید تفریح کا ذریعہ رہا ۔بعد میں ڈیجیٹل میڈیا کے بعد یہ سلسلہ Facebook friends request میں تبدیل ہو گیا۔ ممکن ہے مسلسل رابطوں کے ذریعے کچھ لوگوں کی یہ تفریحی دوستی حقیقی دوستی میں تبدیل ہو جاتی رہی ہو لیکن ایسے رابطے جہاں آپس میں بہت کچھ مخفی ہوں یہ دوستی بہت پراعتماد نہیں ہوتی ۔پین فرینڈ کے دور میں بھی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے بارے میں بہت کچھ چھپاتے تھے ۔فیس بک میڈیا کے دور میں تو بہت سی فیک آئی ڈی کے ذریعے پتہ ہی نہیں چلتا کہ ان دوستوں میں کون male ہے یا female ۔یا کون آپ کے ساتھ کھیل کھیل رہا ہے ۔

دراصل دوستی میں اعتماد اور یقین ہی اصل ہے ۔کسی بھی انسانی رشتے کے درمیان سے اعتماد اور بھروسہ اٹھ جاۓ تو وہ رشتہ چاہے خون کا ہو یا آشنائی کا ان سے آپ کسی قربانی کی امید نہیں کر سکتے ۔کسی بھی رشتے میں قربانی کا جذبۂ نہ ہو تو اسے آپ رسمی رشتے داری کا نام تو دے سکتے ہیں لیکن وہ آپ کا دوست نہیں ہو سکتا ۔دوستی ایک ایسا مقدس رشتہ ہے جو خونی رشتوں سے بھی بلند اور مقدس ہوتا ہے ۔
زندگی میں یہ ضروری نہیں کہ جو آپ کا خونی رشتہ ہو وہی دوست اور ہمدرد بھی ہو ۔کبھی کبھی بہت خاص رشتہ دار جیسے کہ چاچا اور سگے بھائیوں کے بیچ میں بھی ایسی دشمنی ہو جاتی ہے کہ وہ آپس میں خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھی جن سے کوئی نسبت نہیں ہوتی وہ دوستی کا ایسا مثالی کردار نبھا جاتے ہیں جو آپ کے بھائی بھتیجے بھی نہیں نبھا پاتے ۔دوستی اپنے آپ میں وفاداری انسانیت اور خیر کے جذبے سے لبریز ہوتی ہے اور دشمنی لالچ اور مفاد پرستی کے جذبات سے پروان چڑھتی ہے ۔لالچ اور مفاد حقیقی بھائیوں کے درمیان آ جاۓ تو بھائی بھی قابیل بن جاتا ہے ۔دوستی دراصل عاجزی اخلاص اور تقوے کے جذبات سے لبریز ہوتی ہے ۔کسی بھی انسانی رشتے میں خدا کا تصور اور خدا کا خوف نہ ہو تو وہاں خلوص کا فقدان ہوتا ہے یا ایسے رشتے خواہ وہ خون کے ہی کیوں نہ ہوں خالص مفاد پر قائم رہتے ہیں ۔ہم‌دیکھ بھی سکتے ہیں کہ ان معاشروں میں جہاں مادہ پرستی غالب آ چکی ہے کیسے بوڑھے ماں باپ کو بھی ضعیفوں کے آشرم میں لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے۔

قرآن کے الفاظ میں کہا جاۓ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہدایت ہے ان متقیوں کیلئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں ۔پھر ایمان لانے والوں کے بارے میں کہتا ہے کہ۔اللہ ولی الذین آمنوا یخرجہم من الظلمات الی النور۔۔۔۔اللہ ایمان والوں کا دوست ہے اور انہیں ظلمت سے روشنی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔

یہاں تقوی کا تعلق کسی حسب نسب اور نسبت سے نہیں ہے ۔جو حق اور ناحق کی تمیز رکھتا ہو اور غیب پر ایمان لاۓ اسی کو متقی کہتے ہیں اور وہی اللہ پر ایمان لا کر اللہ کے دوست بن جاتے ہیں۔

مطلب صاف ہے کہ دوست آشنا کو نہیں کہتے دوست محبوب کو کہتے ہیں یا جو فی سبیل اللہ ایک دوسرے کیلئے کسی بھی طرح کی قربانی پیش کرنے کیلئے تیار ہوں اور محبوب ہونے کے لئے آپس میں خون کا رشتہ ہونا شرط نہیں ہے ۔جیسے کہ اللہ نے حضرت ابراہیم کو اپنا محبوب کہا اور خلیل کے لقب سے پکارا تو کیوں ؟
مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اٹھارہ سے پیس سال کے اس نوجوان کو جب آگ میں ڈالا جاتا ہے تو اس وقت وہ بہت مطمئن ہو کر اپنے دشمنوں سے کہتا ہے کہ تم لوگ اپنے لئے آگ خرید رہے ہو ۔یہ وہی ابراہیم ہیں جو اپنی بیوی کو ہزاروں کلو میٹر دور ایک ایسے صحرا میں چھوڑ آتے ہیں جہاں نہ کسی رزق کا سامان ہوتا ہے اور نہ ہی دور دور تک کوئی بستی اور آدم اور آدم زاد کا وجود ہوتا ہے ۔بیوی جب پوچھتی ہے کہ تم مجھے اس ویران صحرا میں کیسے چھوڑ کر جا سکتے ہو ۔ابراہیم کہتے ہیں یہ اللہ کا حکم ہے ۔ہاجرہ کہتی ہیں کہ پھر ٹھیک ہے ۔اگر یہ خدا کا حکم ہے تو وہ مجھے یہاں تنہا نہیں چھوڑے گا ۔حضرت ہاجرہ نے حضرت ابراہیم کی صرف بیوی کا کردار ہی نہیں نبھایا بلکہ اپنی استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ دوستی کا حق بھی ادا کیا ۔اس کے برعکس حضرت ابراہیم کے بھتیجے حضرت لوط کی بیوی نے پرامن حالات میں بیوی اور رشتے دار ہونے کا تقاضہ تو پورا کیا مگر جب اللہ کے حکم پر ہجرت کے تکلیف دہ مراحل پر عمل کرنا ہوا تو وہ منکر ہو گئی ۔یعنی اسے حضرت لوط کے ذریعے عذاب کی خبر پر یقین نہیں تھا ۔

Exit mobile version