سیرت نبوی میں صبر کا پہلو
از قلم : محمد زید اعظمی سیدپوری متعلم مدرسہ بدر الاسلام بیگوسرائے
انسان طبعی طور پر مختلف متضاد صفات کا حامل ہوتا ہے ۔ کچھ صفات مثبت ہیں اور کچھ منفی ۔ انسان کی مثبت صفات میں صبر کی بڑی اہمیت ہے ۔ ہر مشکل حالات میں صبر انسان کا سب سے مضبوط ہتھیار ہوتا ہے ۔ صبر ایسی کنجی ہے جس سے ہر قسم کا قفل بلا مشقت باسانی کھل جاتا ہے ۔ صبر آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی ایک ایسا موثر اوزار ہے جس سے لاکھوں دل باسانی فتح ہو جاتے ہیں اور پتھر دل انسان بھی موم بن جاتا ہے ۔ قران و حدیث میں بھی صبر کی بارہا تلقین کی گئی ہے ۔ اللہ رب العزت نے ٧٠ سے زائد مرتبہ صبر کا ذکر فرمایا ہے ۔ ذکر پر ہی انحصار نہیں کیا بلکہ اپنے رسول کے ذریعہ اس پہلو پر عمل کروا کے امت کی رہنمائی فرمائی ۔ عمل بھی ایسا کہ پوری انسانیت اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتی۔
دنیا میں سب سے زیادہ صابر و شاکر ، حلیم و بردبار اگر کوئی ذات ہے تو وہ نبی رحمت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے ۔ آپ کے جیسا صابر و شاکر دنیا نے نہ کبھی دیکھی اور نہ دیکھ سکے گی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے محبوبیت کا مقام عطا فرمایا تھا لوگ آپ کو صادق اور امین کہتے تھے لیکن جب رب دو جہاں نے آپ کو نبوت عطا کی اور آپ نے نبوت کا اعلان کیا تو مکہ کا پورا ماحول ہی تبدیل ہو گیا ۔ آپ سے محبت کرنے والے نفرت کرنے لگے ۔ آپ کو طرح طرح کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان حالات سے نمٹنے کے لیے اور ان کا سامنا کرنے کے لیے اللہ رب العزت نے آپ کو صبر کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا ۔ آپ کے صبر و تحمل کے نتیجے میں ہی ناموافق ہوائیں موافق ہو گئیں ۔ نفرت کرنے والے محبت کرنے لگے ۔ مختصر یہ کہ حالات کا رخ اس طرح تبدیل ہوا کہ آپ کے جانی دشمن بھی آپ پر جان نچھاور کرنے لگے کہ جس کی تاریخ انسانیت میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔
یہ صبر کا ہی نتیجہ تھا کہ عرب کے اجڈ اور گنوار قوموں کے دل و دماغ میں اسلام ، پیغمبر اسلام اور اہل اسلام کی بے انتہا محبت اتنی جلدی پیوست ہو گئی کہ بڑے سے بڑے مخالفوں نے بھی دل و جان سے آپ کی امارت و اطاعت کو قبول کر لیا ۔
جب ہم سیرت کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سینکڑوں المناک ، دردناک ، کربناک اور روح کو تڑپا دینے والے واقعات ملتے ہیں جو ناقابل فراموش ہیں جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی ہدایت کے واسطے بڑے ہی صبر و استقلال کے ساتھ برداشت کیا ۔
طائف کا واقعہ کسے یاد نہیں ہوگا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی تکالیف دی گئیں کہ جو ناقابل بیان ہے ۔ رب ذوالجلال کو اتنا جلال آیا کہ آپ کی خدمت میں عذاب کے فرشتے بھیج دیا ، وہ اہل طائف کو تہ و بالا کرنے کے لیے آپ کے ایک حکم کے منتظر تھے ؛ لیکن رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہی جواب دیا کہ اگر ان لوگوں نے ایمان قبول نہیں کیا تو مجھے امید ہے کہ ان کی نسلیں ضرور مشرف باسلام ہوں گی ۔ کیا اس صبر و استقلال کی مثال کوئی پیش کر سکتا ہے ۔
دشمنوں سے انتقام لینے کا سب سے بڑا موقع فتح مکہ کا تھا ، اس دن دشمن مکمل آپ کے قابو میں تھے کہ اگر آپ چاہتے تو ایک ایک اذیت کا بدلہ لے سکتے تھے ؛ مگر آپ نے یہ کہتے ہوئے سب کو معاف فرما دیا : لا تثریب علیکم الیوم اذھبوا وانتم الطلقاء ” آج تم پر کوئی ملامت نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو“ ۔
وہ لوگ جو خون کے پیاسے تھے اور جن کے دست ستم سے آپ نے طرح طرح کی اذیتیں اٹھائی تھی ۔ ’وحشی‘ جو آپ کے عزیز ترین چچا حضرت ’حمزہ‘ کا قاتل تھا ۔ ’ہند‘ (ابو سفیان کی بیوی) جس نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا سینہ مبارک چاک کیا اور دل و جگر کے ٹکڑے کیے ، ان سے آپ نے کوئی باز پرس نہیں کی اور نہ ہی ان سے کوئی انتقام لیا ۔ ہند اس کرشمہ اعجاز سے متاثر ہو کر بے اختیار بول اٹھی : یا رسول اللہ ! آپ کے خیمہ سے مبغوض تر خیمہ میری نگاہ میں کوئی نہ تھا ؛ لیکن آج آپ کے خیمہ سے زیادہ محبوب کوئی خیمہ میری نگاہ میں نہیں (صحیح بخاری) ۔
آپ کی سیرت کا صبر و تحمل پر مشتمل واقعہ آپ کے قرض دہندہ زید بن سعنہ کا ہے۔
زید بن سعنہ جس زمانہ میں یہودی تھے ۔ لین دین کا کاروبار کرتے تھے ۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کچھ قرض لیا ۔ میعاد ادا میں ابھی کچھ دن باقی تھے۔ تقاضا کو آئے ۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر پکڑ کر کھینچی اور سخت سست ہو کر کہا : ”عبدالمطلب کے خاندان والو! تم ہمیشہ یوں ہی حیلے حوالے کیا کرتے ہو“ ۔ حضرت ’عمر‘ وہیں تھے ۔ یہ گستاخانہ جملہ سن کر وہ غصہ سے بے تاب ہو گئے ، اس کی طرف مخاطب ہو کر کہا : او دشمن خدا ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر فرمایا : عمر ! تم سے کچھ اور امید تھی ۔ اس کو سمجھانا چاہیے تھا کہ نرمی سے تقاضا کرے اور مجھ سے یہ کہنا چاہیے تھا کہ میں اس کا قرض ادا کر دوں ۔ یہ فرما کر حضرت عمر سے ارشاد فرمایا کہ قرض ادا کر کے بیس صاع کھجور کی مقدار زیادہ دے دو (بیہقی و ابن حبان) ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ کی عادت تھی کہ ہم لوگوں کے ساتھ مسجد میں بیٹھ جاتے اور باتیں کرتے جب اٹھ کر گھر جاتے تو ہم بھی چلے جاتے ۔ ایک دن حسب معمول مسجد سے نکلے ۔ ایک بدو آیا اور اس نے آپ کی چادر اس زور سے پکڑ کر کھینچی کہ آپ کی گردن مبارک سرخ ہو گئی۔ آپ نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا تو اس نے کہا: کہ میرے اونٹوں کو غلہ سے لاد دے تیرے پاس جو مال ہے وہ نہ تیرا ہے اور نہ تیرے باپ کا ۔ آپ نے فرمایا: پہلے میری گردن کا بدلہ دو تب غلہ دیا جائے گا ۔ وہ بار بار کہتا تھا کہ خدا کی قسم میں ہرگز بدلہ نہیں دوں گا ۔ آپ نے اس کے اونٹوں پر جو اور کھجوریں لادوا دیں اور کچھ تعرض نہ فرمایا ( ابو داؤد کتاب الادب) ۔
سب سے بڑھ کر طیش اور غضب کا واقعہ ’افق‘ کا واقعہ تھا ، جبکہ منافقین نے حضرت ’عائشہ صدیقہ‘ رضی اللہ عنہا پر نعوذ باللہ تہمت لگائی تھی۔ حضرت عائشہ آپ کی محبوب ترین ازواج اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے یار غار ، جلیل القدر اور افضل الصحابہ کی صاحبزادی تھیں ۔ شہر منافقوں سے بھرا پڑا تھا ، جنہوں نے دم بھر میں اس خبر کو اس طرح پھیلا دیا کہ سارا مدینہ گونج اٹھا ۔ دشمنوں کی شماتت ، ناموس کی بدنامی ، محبوب کی تفضیح ، یہ باتیں انسانی صبر و تحمل کے پیمانہ میں نہیں سما سکتیں تاہم رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب باتوں کے ساتھ کیا کیا ؟ ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی صبر و تحمل سے لبریز تھی ۔ آپ کی زندگی کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جہاں ثابت قدمی کی مثال موجود نہ ہو ۔ کیا تمام شعبہ حیات میں صبر و تحمل کا ایسا حیرت انگیز مظاہرہ پورے کرہ ارض میں بنی نوع انسان میں سے کوئی پیش کر سکتا ہے؟ ۔