مدارس اسلامیہ سے طلبہ کی بے رغبتی …..؟
از قلم:محمد قمرالزماں ندوی
مادیت اور دنیا پرستی کے اس دور میں جہاں ہر شخص دنیا کی ہوڑ اور دوڑ میں ایک دوسرے سے مقابلے میں ہے اور منافست کا جذبہ تیز سے تیزتر ہے ، مدارسِ اسلامیہ کے طلبہ بھی حالات سے متاثر ہوئے ہیں،’’الشیطن یعدکم الفقر‘‘ کا شیطانی حربہ اور وسوسہ بھی اس کے سامنے ہے ،جس سے ان کا سامنا ہے۔
انہیں مدارسِ اسلامیہ میں رہ کر اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا ہے، اس لیے باتوفیق اور دینی مزاج رکھنے والے طلبہ کے علاوہ اکثر طلبہ کالج اور یونیورسٹی کی طرف رخ کررہے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہاں کی ڈگریوں اور اسناد سے ہمیں سرکاری ملازمت نہیں مل سکتی۔
ہمارے لیے صرف مکتب اور مدرسہ میں تدریس ہی آخری راہ ہے اور وہ مدارس کے اساتذہ کو مدارس کی زندگی سے غیر مطمئن پاتے ہیں اور اساتذہ سے اپنی بے سروسامانی اور پریشانی کا تذکرہ کرتے سنتے ہیں ،تو وہ اس راہ کی طرف آنے کو تیار نہیں ہوتے ،یاد رہے کہ پہلے کے حالات اور آج کے حالات میں بہت فرق ہے ایک زمانے میں درس نظامی ایک کامیاب نظام تعلیم تھا،شاہان مغل کے دربار میں معقولات و منقولات کے علماء اپنے علوم کی بنا پر نوازے جاتے تھے ،اسی نصاب تعلیم کے فارغین مملکت کا حصہ بن جاتے تھے ،یعنی اس نظام و نصاب کے فارغین اپنی دینی و دنیاوی امور کی قیادت کررہے تھے ،لیکن حالات کا رخ بدلا، زمانے نے کروٹ لی اور دین و دنیا کی تفریق قائم ہوگئی ،ایک طرف لارڈ میکالے کا نظام تعلیم اپنا سکہ جمانے میں کامیاب رہا ، جس کے نتیجہ میں ’’و اذا رآوا تجارۃ او لھوا انفضوا الیھا وترکوک قائما‘‘ کا منظر اہل دل کے لیے پریشان کن ہوگیا ،تو دوسری طرف مدارس کا وہ نظام قائم ہوگیا ،جس کی محدود افادیت و نافعیت سے کسی کو انکار نہیں ،لیکن امت کی مجموعی ضرورت ان سے پوری نہیں ہوتی ،بلکہ نظام تعلیم کی اس تفریق سے امت کا سرمایہ جس طرح استعمال ہونا چاہیئے اور اس کے نتیجہ میں قوم کا مستقبل جس طرح روشن ہونا چاہیے نہیں ہوپارہا ہے۔اس کا اعتراف ہم سبھی کو ہے۔اس لیے ضرورت ہے کہ مدارس اسلامیہ میں ماضی کی طرح وحدانی نظام تعلیم کو پھر سے نافذ کیا جائے اس کےبغیر صورتحال پر قابو پانا ناممکن ہے ۔۔جہاں تعلیم کا نظام ایسا مرتب کیا جائے کہ ثانویہ کی تکمیل کیساتھ ہائی اسکول بھی بچہ کرلے کہ اگر وہ تعلیم ترک بھی کردے اور کسی آفس یا کمپنی میں کام کرنے لگے تو وہ آفس کے میدان کا بھی اچھا جانکار ہو اور وقت پر وہ امامت اور خطابت کے فرائض بھی انجام دے لے ۔ (مستفاد تعلیم و تربیت ،ص،29)
مدارس اسلامیہ کے دفتری نظام میں بھی کمی اور نقص کی وجہ سے طلبہ کا رجحان مدارس سے کم ہوا ہے ،یہاں کے دفتری نظام میں یا تو اس قدر لچک اور بے اصولی ہے کہ کوئی ریکارڈ اور نظام ہی نہیں ہے، وقت پر اگر آپ کو ٹیسی یا دیگر کاغذات کی ضرورت پڑجائے تو ان کے پاس کوئی ریکارڈ ہی نہیں ،جدید آلات اور کمپیوٹر نظام سے آفس و دفتر کو منظم کیا ہی نہیں جو وقت کی ضرورت ہے،اس کا نہ ہونا ایک بہت بڑی کمی اور نقص ہے، تو دوسری طرف بہت سے بڑے مدارس میں دفتری نظام کو اتنا سخت کردیا گیا ہے اور وہاں کے عملہ کا سلوک اور برتاؤ طلبہ کیساتھ اس قدر سخت اور منفی ہے کہ وہ یہاں کے نظام سے بدظن ہوجاتے ہیں اور پھر اپنی اولاد کو مدارس کی چہار دیواری سے قریب نہیں ہونے دیتے ۔جبکہ سرکاری اسکولوں میں دفتری نظام میں بہت حد تک سہولت اور رعایت رہتی ہے ۔
مثلا سرکاری محکموں اور شعبوں میں ایسا نظام ہوتا ہے کہ اگر نام اور تاریخ پیدائش کے اندراج میں کوئی بھول چوک ہوجائے اور اس کے پاس کوئی ریکارڈ سرکاری اور دفتری موجود ہے تو اس میں تبدیلی ہوجاتی ہے لیکن مدارس دینیہ میں اس سلسلے میں کوئی رعایت نہیں برتی جاتی اور جو درج ہوگیا اس میں تبدیلی کی کوئی معقول اور شرعی وجہ کے بعد بھی گنجائش نہیں ہوتی، گویا قلم اٹھا لیا گیا اور روشنائی خشک ہوگئی ،اس سلسلے میں مدارسِ عربیہ کے منتظمین کو غور کرنا چاہیے اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق اگر کچھ تبدیلی طالب علم کرائے تو اس کی صورت ہونی چاہیے ۔ الحمد للہ بہت سے مدارسِ دینیہ نے اس بارے میں حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے رویے کو بدلا ہے اور نظام میں تبدیلی کی ہے ۔(جاری)
متعلقہ مضامین: