آہ! مفتی اشفاق عالم قاسمی،ایک سنجیدہ اور بافیض عالم دین
آہ! مفتی اشفاق عالم قاسمی، ایک سنجیدہ اور بافیض عالم دین
از:- سرفراز احمد قاسمی حیدرآباد
______________________
گذشتہ 6 دسمبر 2024 بروز جمعہ صبح سویرے موبائیل کے اسکرین پر یہ خبر گشت کرنی لگی کہ حضرت مولانا اشفاق صاحب کا ابھی کچھ دیر قبل انتقال ہوگیا،یہ خبر جیسے ہی ہماری نگاہوں سے گذری زبان سے بے ساختہ انا للہ وانا الیہ راجعون جاری ہوگیا،خبر عام ہوتے ہی موبائیل کی گھنٹیاں بھی بجنے لگی اورکئی لوگوں کے فون آنا بھی شروع ہوگئے کہ یہ خبر سچی ہے یا جھوٹی؟ ہم نے تصدیق کردی کہ خبر مصدقہ ہے کیونکہ ایک دن قبل ہم نے ہی سوشل میڈیا پر رات تقریبا ایک بجے یہ خبر لکھی تھی کہ
” مفتی اشفاق صاحب کو آپریشن کےلئے کلکتہ لے جایا گیا تھا،لیکن وہاں انکا آپریشن نہیں ہوسکا اور ڈاکٹر نے جواب دے دیا ہے،اب انھیں ایمبولینس کے ذریعے انکے گھر بھاگلپور لایا جارہاہے،حالت بہت سیریس ہے،احباب انکی صحت یابی کےلئے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں، رب کریم خیروعافیت کا معاملہ فرمائے اور انھیں صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ عطا فرمائے” مفتی صاحب کی حالت پہلے سے ہی تشویشناک بنی ہوئی تھی اسلئے انتقال کی خبر سنکر کوئی حیرت نہیں ہوئی، افسوس ضرور ہواکہ ایک سنجیدہ اور باصلاحیت عالم ہمارے درمیان سے بہت جلدی رخصت ہوگیا،قدرت کا فیصلہ اٹل ہے،دنیا میں آنے والا ہر انسان جب پیدا ہوتاہے تو وہ اس دار فانی میں کتنے دن قیام کرے گا،انکی عمر کیا ہوگی؟اور کب وفات ہوگی یہ ساری تفصیلات وہ اپنے ساتھ لیکر آتاہے،مفتی اشفاق صاحب اپنی مدت گذار کر راہی عدم ہوگئے اورمسافروں کے اس قافلے میں شریک ہوگئے جہاں جانے والا کوئی بھی شخص اس دنیا میں لوٹ کر کبھی واپس نہیں آتا،رب انکی مغفرت فرمائے اور درجات کوبلند فرمائے،مفتی صاحب تو چلے گئے لیکن وہ اپنی بے شمار یادیں اپنے پیچھے چھوڑگئے،مفتی صاحب سے میری آخری ملاقات 18 اکٹوبر 2024 کو گاؤں ہی میں ہوئی تھی،وہ ششماہی کی چھٹی میں دیوبند سے گھر آئے ہوئے تھے اور میں حیدرآباد سے گاؤں گیا ہوا تھا،مغرب کی نماز پڑھکر ہم لوگ مسجد سے باہر نکلے تو مفتی صاحب نے مجھ سے کہا کہ حضرت مولانا مطیع الرحمن قاسمی صاحب کی طبیعت ناساز ہے چلئے انکی عیادت کرلیتے ہیں،چنانچہ مفتی فصیح الرحمن قاسمی صاحب،مفتی اشفاق صاحب اور ناچیز حضرت کی عیادت کےلئے انکے گھر چل پڑے،مفتی فصیح صاحب نے راستے میں بتایاکہ آج ابا کا پروگرام خلیفہ باغ، بھاگلپور میں تھا،وہیں انکو جمعہ سے قبل خطاب کرنا تھا،جمعہ کے بعدبھاگلپور میں ہی طبیعت ناساز ہوگئ ابھی کچھ دیر پہلے گھر تشریف لائے ہیں،راستے ہی میں مشورہ ہواکہ حضرت کے گھر پر جانے سے پہلے ایک فون کرلیا جائے،چنانچہ میں نے فون لگایا علیک سلیک کے بعد ہم نے کہا کہ حضرت! سناہے آپ کی طبیعت ناساز ہے،اگر اجازت ہوتو ہم لوگ عیادت کےلئے حاضر ہوجائیں،فرمایا :آپ اکیلے ہیں یا اورکوئی ہیں؟ہم نے کہا کہ ساتھ میں مفتی اشفاق صاحب بھی ہیں،فرمایا آجائیے مختصر ملاقات ہوجائے گی،طبیعت میں نشاط نہیں ہے اسلئے میں زیادہ وقت نہیں دے سکوں گا،مفتی فصیح صاحب پہلے ہی گھر پہونچ چکے تھے،میں اور مفتی اشفاق صاحب حضرت کے گھرپہونچے، دروازے پر دستک دی تو مفتی فصیح صاحب ہی نمودار ہوئے، اندر آنے اور حضرت کے سامنے کرسی پر بیٹھنے کی اجازت دی،علیک سلیک کے بعد ہم لوگوں نے حضرت کی مزاج پرسی کی،ہماری گفتگو جاری تھی کہ حضرت نے مفتی فصیح صاحب کو آواز دیا اور چائے وغیرہ لانے کےلئے کہا اور یہ بھی فرمایا کہ ڈاکٹر کو فون کردو ڈاکٹر صاحب یہاں گھرپر آجائیں گے،مفتی فصیح صاحب نے ڈاکٹر کو فون کردیا،ہم لوگ محو گفتگو تھے کہ اسی درمیان ڈاکٹر صاحب حاضر ہوگئے اور ہمارے برابر میں کرسی پر بیٹھ گئے پھر اپنے آلات وغیرہ سے چیک اپ کیا اور کہاکہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، کسی بچے کو کلینک پر بھیج دیں،دوا دے دوں گا،چائے وغیرہ پی کر ڈاکٹر صاحب تو چلے گئے لیکن ہماری گفتگو جاری رہی،مفتی اشفاق صاحب نے حضرت کو بتایا کہ کل صبح دیوبند کےلئے ہماری روانگی ہے،ہم سے حضرت مخاطب ہوئے کہ”آپ تو ابھی رہیں گے نا؟میں نے جواب دیا کہ اور دوچار دن رہوں گا ان شاء اللہ،مختلف موضوعات پر ہماری گفت و شنید ہوئی،عشاء کی اذان ہوچکی تھی،اسلئے اجازت لیکر وہاں سے رخصت ہوگئے،باہرنکلے تو سلام مصافحہ کے بعدمفتی اشفاق صاحب جواکھر کےلئے روانہ ہوگئے اور میں عشاء کی نماز کےلئے مسجد چلاگیا،یہی ان سے میری آخری ملاقات تھی،اس سے ایک دو دن قبل بھی کئی گھنٹے کی ایک تفصیلی ملاقات انکے گھر جواکھر میں ہوئی تھی وہ اسطرح کہ 14 اکٹوبر کو میں بذریعہ ٹرین حیدرآباد سے بھا گلپور کےلئے روانہ ہوا،16 اکٹوبر کو حضرت ماسٹر عباس صاحب دامت برکاتہم سے ملاقات کےلئے وقت لے لیا تھا،پروگرام کے مطابق 17 اکٹوبر جمعرات کی صبح حضرت ماسٹر عباس صاحب سے ملاقات کےلئے جواکھر انکے گھر پر حاضر ہوا تو حضرت نے طبیعت کی ناسازی کے باوجود ایک ڈیڑھ گھنٹے کا وقت عنایت فرمایا، فجزاہم اللہ خیرا الجزاء
وہاں سے فارغ ہوا تو حضرت مفتی اشفاق صاحب کو فون کیا کہ مفتی صاحب میں تو آپ کے جواکھر آیا ہوا ہوں،آپ کہاں ہیں؟ فرمایا میں تو گھر پر ہی ہوں آپ کا انتظار کررہا ہوں،پھر انھوں نے اپنے گھر کا راستہ بتایا،میں لوگوں سے پوچھتا ہوا انکے گھر پہونچ گیا،دراصل رات میں ہی میں نے مفتی اشفاق صاحب کو بتادیا تھا کہ صبح میری حاضری جواکھر ہوگی،مفتی صاحب خوش ہوگئے کہنے لگے اچھا ماشاء اللہ آئیے پھر تو ملاقات ہوگی،گھر سے کچھ پہلے گلی کی روڈ پر وہ میرا انتظار کررہے تھے،مجھے دیکھتے ہی ہاتھ سے اشارہ فرمایا اور کہاکہ آپ اپنی گاڑی مسجد کے سامنے پارک کیجئے،یہ مسجد پورب محلے کی نئی آبادی میں مفتی صاحب کے گھرسے چند قدم کے فاصلے پر واقع ہے،ابھی حال ہی میں یعنی آٹھ دس سال قبل تعمیر ہوئی ہے،گاڑی پارک کرنے کے بعد ایک بڑے آنگن والے دروازے میں مفتی صاحب کے ساتھ داخل ہوا،مفتی صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے یہی میرا گھر ہے،تین چار کمروں پر مشتمل ایک بڑا برآمدہ، کشادہ صحن ایک کنارے میں باورچی خانہ اور باتھ روم وغیرہ موجود ہے،برآمدے میں ایک چوکی(بیڈ) پر تکیہ اور اس پر کچھ کتابیں،بغل میں اسی دن کا اخبار انقلاب رکھاہوا تھا،میرے سوال کرنے پر انھوں نے بتایا کہ یہ اخبار روزانہ یہاں گھر پر آتاہے،اور کتابوں کے بارے میں بتایاکہ شرح وقایہ کی دوسری جلد پر کام چل رہاہے اسی میں مصروف تھا کہ آپ کا فون آگیا،پھرجلدی جلدی فریج کھول کر ٹھنڈا پانی لےآئے،پانی پینے کے بعد میں نے استفسارکیا مفتی صاحب آپ کے بچے وغیرہ کہاں ہیں؟یہاں تو کوئی نہیں ہے فرمایا تھوڑی دور کے فاصلے پر میری سسرال ہے بچے وہیں رہتے ہیں،یہاں کوئی نہیں رہتا،میں جب چھٹیوں میں آتاہوں،یہیں لکھتا پڑھتاہوں پرسکون ماحول رہتاہے،لکھنے پڑھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی،میں نے اخبار ہاتھ میں لیا اور الٹ پلٹ کرنے لگا تومیرے ہاتھ میں اخبار دیکھکر کہنے لگے بہت دنوں سے انقلاب میں آپ کی تحریر نہیں آرہی ہے،اسکے بعد کہنے لگے یہاں توکوئی نہیں ہے میں تنہا ہوں،اسلئے چائے وغیرہ پینے کےلئے سسرال جانا ہوگا جہاں بچے رہتے ہیں،میں نے کہا کہ ابھی چائے ناشتہ کرکے حضرت ماسٹر عباس صاحب کے پاس سے آیا ہوں،زحمت کی ضرورت نہیں ہے لیکن وہ مصر رہے کہ ایسا نہیں ہوگا اور پھر میرے سامنے ہی بچوں کو فون کیا کہ ایک مہمان آئے ہوئے ہیں چائے بناکر ریڈی رکھو،ابھی ہم لوگ آرہے ہیں،اسکے بعد کہنے لگے چلئے چائے وغیرہ پی کر آئیں گے تب بقیہ گفتگو ہوگی،چنانچہ چائے وائے کےلئے مفتی صاحب مجھے لیکر گھرسے نکل پڑے، کچھ قدم چلنے کے بعد ایک گھر میں داخل ہوئے اندرآواز دی،مفتی صاحب اندر گئے اور پھر مجھے آواز دی، آئیے مولانا،میں انکی آواز سنکر اندر داخل ہوا،مفتی صاحب نے بتایا کہ یہی میری سسرال ہے اور بچے یہیں رہتے ہیں،تھوڑی دیرمیں چائے وغیرہ آگئی،اس سے فراغت کے بعد مفتی صاحب نے کہا کہ چلئے اب اطمینان سے وہیں گفتگو کریں گے،ہم واپس اسی گھر میں آگئے،مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی اور ظہر کی اذان ہوگئی،مفتی صاحب کہنے لگے کہ آپ کو دوپہر کا کھانا بھی میرے ساتھ ہی کھاناہے،میں بڑا پریشان کہ میں تو کھانے پینے سے دور بھاگتاہوں اور یہاں تو ناشتہ اور کھانا میرا ساتھ چھوڑنے تیار نہیں،صبح ناشتہ کرکے گھر سے نکلا،انکار کے باوجود حضرت ماسٹر عباس صاحب نے چائے کے بہانے ایک اور ناشتے سے ضیافت کردی،یہاں سے فارغ ہوا تو مفتی صاحب نے چائے کے بہانے ایک اور ناشتہ کرادیا،اب کھانے کےلئے بھی اصرار ہورہاہے،مجھے کچھ پریشان دیکھکر مفتی صاحب کہنے لگے مولانا یہ سب موقع کبھی کبھار ہاتھ آتاہے،چلئے نماز کا وقت ہورہاہے،مسجد چلتے ہیں،وضوکرنا ہوتو یہیں کرلیجئے! وضو اور دیگرضروریات سے فارغ ہوکر ہم مسجد پہونچے،سنت اداکی گئی،جماعت کا وقت ہوگیا، تکبیر شروع ہوئی،مفتی صاحب نے مجھے اشارہ کیا کہ چلئے نماز پڑھائیے،میں نے کہا آپ ہی پڑھائیے، لیکن ایک نہیں سنی گئی اور مجھے ہی امامت کےلئے آگے بڑھنا پڑا،نماز سے فراغت کے بعد لوگ تفشیش کرنے لگے کہ کہ مولانا کون ہیں ؟کہاں سے آئے ہیں؟ تو مفتی صاحب خود ہی میرا تعارف کرانے لگے،لوگ خوش ہوئے اسکے بعد میں نے کہا مفتی صاحب اجازت دیجئے میں چلتاہوں،کہنے لگے ابھی کیسے جائیں گے ابھی تو پہلے کھانا تناول کرناہے اسکے بعد سوچا جائے گا کہ کیا کرناہے؟مفتی صاحب کے اصرار پر انکے ساتھ ظہرانہ بھی تناول کیاگیا اور پھر اجازت لیکر تقریبا عصر کے وقت میں وہاں سے ہرنتھ واپس ہوا۔
19 اکٹوبر ہفتے کے دن صبح مفتی اشفاق صاحب بھاگلپور سے دیوبند کےلئے وکرم شیلہ اکسپریس سے روانہ ہوئے،راستے میں ٹرین میں ہی انکی طبیعت بگڑی اور کیا کچھ ہوا انھیں کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں جوانھوں نے اپنے بارے میں سوشل میڈیا پر لکھا کہ۔۔۔
"کل میں بھاگلپور سے دیوبند کے لیے روانہ ہوا راستے میں اچانک میرے سینے میں کافی درد ہوا اور بالکل بے چینی کی کیفیت ہو گئی کسی طرح میں مظفر نگر پہنچا اور وہیں اتر گیا،وہاں اپنے ایک دوست قاری غیور صاحب کے ساتھ ڈاکٹر جنید صاحب کے یہاں گیا،انھوں نے چیک اپ کرکے بتایا کہ ہارڈ کا مین نس 25 فیصد بند ہو گیا ہے اور اس کے بغل والا نس مکمل بند ہو گیا ہے، پھر میں علاج کے لیے ہاسپٹل میں وہیں ایڈمٹ ہوگیا،یہ ہاسپٹل مظفر نگر تاؤلی کے اندر ہے، الحمدللہ ڈاکٹر نے بڑی مہربانی اور بڑی دلچسپی کے ساتھ سینے کے اندر چلا (انجوکرافی)لگایا اور نس کا راستہ جاری کردیا، جس سے الحمدللہ خون جاری ہو گیا ہے، اس وقت ہاسپٹل ہی میں ایڈمٹ ہوں، شاید دو تین دن اور رہنا پڑے،آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ اپنی اپنی جگہ رہتے ہوئے خصوصی صحت یابی کے لیے دعا فرمائیں،اللہ تعالی آپ کی دعا کو قبول فرمائے آمین بحرمت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
اشفاق عالم قاسمی جامعہ الشیخ دیوبند”
اسکے بعدکئی دن ہاسپٹل میں رہے اور پھر وہاں سے ڈسچارج ہوکر دیوبند چلے گئے اور تقریبا ایک ماہ مدرسے میں رہے اور مدرسے میں بہت حد تک انکی مصروفیات بھی جاری رہیں،کمزوری زیادہ تھی اسلئے ڈاکٹر نے آرام کرنے کا مشورہ دیا تھا،لہذا رخصت لیکر وہ گھر بھاگلپور چلےگئے، وہاں دوا علاج جاری تھا کہ ایک دن طبیعت بگڑگئی،جسکی وجہ سے انھیں بھاگلپور کے ایک ہاسپٹل میں ICU وارڈ میں ایڈمٹ کردیاگیا،لیکن انکی طبیعت سنبھلنے کے بجائے مزید بگڑتی چلی گئی اور ڈاکٹر نے آپریشن کےلئے کلکتہ ریفر کردیا،کسی طرح بذریعہ ٹرین کلکتہ لے جایا گیا،وہاں ڈاکٹر نے انھیں دیکھنے اور معائینہ کرنے کے بعد انکا آپریشن کرنے سے انکار کردیا، اور کہاکہ ایسی حالت میں آپریشن کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہم کوئی رسک لے سکتے ہیں،آپ انھیں گھرلے کرچلے جائیں یہی بہتر ہے،ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق انھیں ایمبولینس کے ذریعے گھر لایا گیا،اس درمیان انکے لئے دعاؤں کی اپیل بھی سوشل میڈیا پر کی جاتی رہیں لیکن جب وقت موعود آجاتا ہے تو کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی،گھر پر کچھ گھنٹے گذارنے کے بعد وہ مسافران آخرت میں شامل ہوگئے۔
پیدائش اور تعلیم وتعلم
بھاگلپور شہر سے 20 کیلو میٹر دور "ہرنتھ” نامی ایک قدیم گا ؤں واقع ہے،یہ گاؤں جہاں مسلمانوں کی اکثریت اور بڑی آبادی ہے اور یہاں مسلمانوں کے تین چارسو گھر ہونگے،کئی گاؤں آپس میں ملے ہوئے ہیں،ہرنتھ،عمادپور اور سمستی پور یہ تینوں بستیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں،تینوں گاؤں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے تینوں بستیوں کی آبادی سات آٹھ سو گھر سے اوپر ہوگی،یہ علاقہ شاہ کنڈ بلاک کے تحت آتاہے، اسی گاؤں میں 1971/72 میں مفتی اشفاق صاحب کی پیدائش ہوئی،انکے والد کا نام محمد اسرائیل صاحب مرحوم اور دادا کا نام نجابت علی مرحوم ہے،نجابت صاحب کے چار لڑکے اسرائیل،کوثر،ابراہیم اورشکیل ہے، اسرائیل صاحب ایک کسان آدمی تھے اور کھیتی باڑی کرتے تھے،گاؤں کا ایک بڑا خاندان ہے،اس خاندان کے پہلے عالم میرے بڑے خالو مولانا فیروز عالم قاسمی (1946تا 2023)صاحب ہیں،اسرائیل صاحب مرحوم نماز،روزے کے پابند اور دیندار آدمی تھے انھوں نے اپنے تیسرے اور چھوٹے فرزند مفتی اشفاق صاحب کو بڑی محنت سے پڑھایا، لکھایا، معیاری اور اچھی تربیت سے آراستہ کیا، اور ایک باصلاحیت عالم بنایا،اسرائیل صاحب کو پانچ اولاد ہوئیں جس میں تین لڑکے الیاس،اقبال اور مفتی اشفاق کے علاوہ دولڑکیاں ہیں،مفتی صاحب بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھے،انھوں نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے ہی مکتب میں مولوی مشرف صاحب مرحوم اور مولانا عبدالطیف قاسمی صاحب مرحوم سے حاصل کی،اسکے بعد انھیں گاؤں کے ہی مدرسے،مدرسہ حسینیہ ہرنتھ میں داخل کرا دیاگیا،جہاں انھوں نے حضرت مولانا عبدالرحمن قاسمی صاحب مرحوم (1918 تا 1995)حافظ شہاب الدین صاحب مرحوم،مولانا رئیس عالم قاسمی،مولانا اختر حسین قاسمی،حافظ محسن صاحب مرحوم، ماسٹرخلیل مرحوم وغیرہ سے استفادہ کیا،1984/85 میں مدرسہ حسینیہ ہی میں حافظ محسن صاحب کے پاس حفظ کی تکمیل کی،فارسی وعربی کی تعلیم کےلئے مدرسہ مدنیہ چلمل باراہاٹ بانکا چلے گئے،وہاں انھوں نے عربی وفارسی کی ابتدائی کتابوں کے ساتھ کافیہ تک تعلیم حاصل کی،اسکے بعد اعلی تعلیم کےلئے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند چلے گئے،دارالعلوم دیوبند میں پانچ سال رہ کر تعلیم مکمل کی اور 1995 میں دورہ حدیث سے فارغ ہوئے،اگلے سال یعنی 1996ء میں افتاء کی تعلیم کےلئے مدرسہ شاہی مرادآباد میں داخلہ لیا،اور وہاں حضرت مفتی شبیراحمدقاسمی صاحب اور حضرت مفتی سلمان منصورپوری صاحب سے مشق و تمرین اور فتاوی نویسی میں مہارت حاصل کی۔
درس وتدریس کا آغاز
مدرسہ شاہی میں ایک سال افتاء کی تکمیل کرکے شعبان میں جب گھر لوٹے تو شوال میں علاقے کے ایک ادارہ،مدرسہ فرقانیہ سبیل السلام کرنپور،بھاگلپور میں بحیثیت استاذ اورمفتی آپ کی تقرری ہوگئی،اور یہیں سےانھوں نے اپنے تدریسی سفرکا آغازکیا،یہاں دس سال خدمت کی اور فتاوی نویسی کے علاوہ پنجم تک کی مختلف کتابیں پڑھائیں،کچھ وجوہات کی بناء پر 2006ء میں یہاں سے استعفی دے دیا،اگلے سال مظفرنگر یوپی تشریف لے گئے وہاں آٹھ نو سال جامعہ فلاح دارین بلاسپور مظفرنگر میں استاذ کی جگہ مل گئی،یہاں حدیث و فقہ کی مختلف کتابوں کا درس دیا،2015 سے دیوبند کے ایک معروف ادارہ جامعہ الشیخ حسین احمد مدنی میں ایک معروف و مقبول استاذ کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے تھے،یہاں ابتداء سے دورہ حدیث اور شعبہ افتاء و تفسیر کی مختلف کتابیں آپ کے زیر درس رہیں،دورہ حدیث میں مؤطا امام محمد،ہفتم میں مشکوہ شریف اور ششم میں جلالین شریف جیسی اہم کتابیں آپ پڑھارہے تھے۔
مفتی صاحب اپنی تصنیفات کے آئینے میں:
درس وتدریس اور وعظ وخطابت کے علاوہ انھوں نے کتابیں بھی تصنیف کیں،گوکہ انکی اکثر تصانیف عربی اور درسی کتابوں کی شروحات پر مشتمل ہے،تقریبا ایک درجن کتابیں انھوں نے لکھیں، تصنیف وتالیف کا سلسلہ مدرسہ فرقانیہ سبیل السلام کرنپور میں ہی شروع کردیا تھا "فضائل محرم اور بدعات مروجہ” نامی اپنی معروف کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ "احقر نے قرآن وحدیث اور فقہ و فتاوی کی روشنی میں ایک رسالہ "فضائل محرم اور بدعات مروجہ” مرتب کیاہے،اس رسالے کا مسودہ تقریبا تین سال قبل تیار ہوچکا تھا مگر اپنی کم علمی اور بے وضاعتی کی بنا پر اسے چھپانے کی جرأت نہیں ہوسکی، لیکن جب چند احباب کا اصرار ہوا تو کچھ ہمت ہوئی اور پھر خدائے لاشریک لہ کی مدد شامل حال ہوئی، جسکے نتیجے میں یہ رسالہ آپ کے مبارک ہاتھوں میں ہے” 2007 میں غالبا اس کتاب کا پہلا ایڈیشن شائع ہواہے، کتاب کے اختتام پر اشفاق عالم قاسمی،خادم التدریس جامعہ فرقانیہ سبیل السلام کرنپور 27 فروری 2005ء کی تاریخ درج ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ کرنپور میں قیام کے دوران ہی یہ کتاب لکھی گئی ہے،شائع بعد میں ہوئی ہے۔
-
1 فضائل محرم اور بدعات مروجہ
یہ کتاب جیسا کہ اپنے نام سے ظاہر ہے،اس کے اب تک متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں،پہلا ایڈشن 120 صفحات پر مشتمل ہے،بعدکے ایڈیشنوں میں کچھ صفحات کا اضافہ کیاگیاہے جو اب تقریبا 130 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے،ٹائٹل پر جدید اضافہ شدہ ایڈشن لکھا ہواہے،گذشتہ سال ذی الحجہ میں جب اس کتاب کا نیا اور تازہ ایڈیشن شائع ہوا تو انھوں نے اسکی کاپی مجھے بھیجی اور فون کرکے اس پر تبصرہ لکھنے کا حکم دیا،میں نے ان شاء اللہ کہہ کر ٹال دیا،محرم کا مہینہ شروع ہونے سے دوتین دن پہلے انھوں نے مجھے فون کیا اور کہاکہ”آپ سب کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہیں میری کتاب پر آپ کو تبصرہ لکھنا ہے،اس دن کافی دیر تک فون پر مجھ سے بات بھی کی اور تبصرہ لکھنے کےلئے برابر اصرار کرتے رہے یہ بھی کہا کہ محرم شروع ہونے میں صرف دو دن باقی ہیں آپ کو تبصرہ ہر حال میں لکھنا ہے،چنانچہ میں نے دوسرے دن تبصرہ لکھ کر اخبارات کو بھیج دیا،جب وہ تبصرہ شائع ہوا تو مجھے فون کیا کہ ماشاء اللہ آپ نے میری کتاب پر شاندار تبصرہ لکھا ہے،خوشی کا اظہار کیا اور کہاکہ آپ کے تبصرہ لکھنے سے میری دوسو کتاب بک ہوگئی ہے،اسکے بعد مجھ سے انھوں نے پوچھا کہ آپ کے پاس میری کون کونسی کتاب ہے میں نے کہاکہ دو تین ہوگی کہنے لگے آپ دیکھ کر مجھے بتائیے جو نہیں ہوگی وہ بذریعہ ڈاک بھیج دوں گا،پھر ہفتہ دس دن کے بعد ان کی بقیہ کتابیں موصول ہوگئیں،میں نے اسکی اطلاع کےلئے انکو فون کیا تو فرمانے لگے کہ آپ کو میری دیگر کتابوں پر ایسے ہی تبصرہ لکھنا ہے میں نے حامی تو بھرلی لیکن نہیں لکھ سکا،
-
2 رہنمائے نظامت
80 صفحات پر مشتمل انکا یہ دوسرا رسالہ ہے،2008ء میں اس کتاب کی اشاعت ہوئی ہے،پروگرام کی نظامت اور اناؤنسری سے متعلق ایک مفید کتاب ہے،حضرت مولانا عبدالخالق سنبھلی صاحب سابق استاذ دارالعلوم دیوبند،حضرت مولانا نسیم صاحب بارہ بنکی سابق استاذ دارالعلوم دیوبند،حضرت مولانا اسماعیل صادق صاحب مہتمم جامعہ فلاح دارین بلاسپور مظفرنگر اورمولانا میر زاہد صاحب مکھیالوی ناظم تعلیمات فلاح دارین بلاسپور کی تصدیقات اور دعائیہ کلمات اس کتاب میں موجود ہیں،الکلمتہ الاولی کے عنوان سے مفتی صاحب اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
” 1989 کی بات ہے کہ احقر مدرسہ مدنیہ چلمل بانکا میں عربی سوم کا ایک ادنی سا طالب علم میں تھا وہاں اصلاح اللسان کے نام سے طلبہ کی ایک انجمن ہوتی تھی، اس سال اناؤنسری کی ذمہ داری احقر کو سونپی گئی،احقر اس فن سے بالکل نابلد تھا لیکن ذمہ داری کے احساس نے کچھ مطالعے کا شعور پیدا کیا اور پھر اپنے مشفق اساتذہ کی شفقت و عنایت اور مدد سے ہر ہفتہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ذمہ داری کو کسی نہ کسی طرح نبھاتا رہا، جس کے نتیجے میں کچھ مواد جمع ہو گیا ،اس ادارے میں تعلیمی اعتبار سے یہ میرا آخری سال تھا دوسرے سال خدا کے فضل سے مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں داخلے کی سعادت نصیب ہوئی یہاں طلبہ بھاگلپور کی انجمن” بزم سہول” سے دیگر طلباء کی طرح احقر بھی منسلک ہو گیا، دارالعلوم کی پانچ سالہ طالب علمانہ زندگی میں کئی بار نظامت کی ذمہ داری احقر کے حصے میں آئی،احقر ازہر الہند دارالعلوم دیوبند کے میکدے سے اپنے ظرف کے مطابق لطف اندوز ہوتا رہا ،گویا مادر علمی کے فیضان عشق نے آداب جنون سکھا کر آشنائے لذت شعور و اگہی بنا دیا اور اس طرح اناؤنسری کے حوالے سے کافی مواد یکجا ہو گیا۔
فراغت کے بعد جب جامعہ فرقانیہ سبیل السلام کرنپور میں دینی خدمات کی توفیق ملی تو وہاں کے ذمہ داروں نے شفقت و عنایت فرما کر طلبہ کی انجمن” اصلاح البیان”( جو اب ‘بزم کامل’ کے نام سے موسوم ہے) کی ذمہ داری احقر کے سپرد کی، پھر چند سالوں کے بعد حضرت رئیس الجامعہ جناب قاری احمد اللہ صاحب رئیس القراء جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل، گجرات، نے اساتذہ کے لیے ایک انجمن ‘بزم کامل’ کے نام سے قائم کی جو ہر ہفتہ چہار شنبے کے دن بعد نماز مغرب ہوتی تھی، جس میں جمیع اساتذہ شریک ہوتے اور طے شدہ پروگرام کے مطابق تقریر کرتے تھے، اس پروگرام کو چلانے کی مکمل ذمہ داری احقر کے سپرد تھی چونکہ یہ عوامی سطح سے ہٹ کر خالص اہل علم کی مجلس ہوتی تھی اس لیے نظامت کے لیے احقر کو بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا پڑتا تھا اور تیاری بھی اسی انداز سے کرنی پڑتی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند ہی ماہ میں کافی سلیقہ پیدا ہو گیا پھر شوق بڑھا تو حضرت رئیس الجامعہ کے مشورے سے جمع شدہ مواد کو کتاب کی شکل میں لانے کی تیاری شروع کر دی، خدا کے فضل سے مسودہ تیار ہو گیا لیکن درمیان میں "فضائل محرم اور بدعات مروجہ” کا کام ناگزیر ہو گیا، جو الحمدللہ چھپ کر عوام کے ہاتھوں میں جا چکی ہے اس وجہ سے اس کتاب کی طباعت میں کافی تاخیر ہو گئی”(صفحہ 15)اسکا ایک ہی ایڈیشن اب تک شائع ہواہے۔
-
3 اہل ایمان کے حقوق
یہ انکی تیسری کتاب ہے،جس میں حقوق العباد سے متعلق چالیس احادیث، ترجمہ اور مختصر تشریح کے ساتھ مختلف کتابوں سے درج کی گئی ہے،حضرت مولانا میر زاہد مکھیالوی صاحب اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں کہ
"یہ خوش اتفاقی بھی ہے اور مولانا موصوف کا خلوص نیت بھی مسودہ ابھی کتابت کے مرحلے ہی میں تھا کہ اس سے استفادہ کا سلسلہ الحمدللہ شروع ہوگیا،جامعہ فلاح دارین کے عربی طلباء نظام کے موافق ایک حدیث حفظ کرکے روزانہ مسجد جامعہ میں مصلیان اور اساتذہ کے درمیان سناتے ہیں،باری تعالی ہم سبکو اخلاص کامل نصیب فرمائیں اور تاحیات اپنے دین کی خدمت،حفاظت اور اشاعت کےلئے ہم سبکو قبول فرمائیں” مفتی صاحب اسی کتاب میں لکھتے ہیں کہ "امسال حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم کی خواہش ہوئی کہ اس سلسلے کا ایک دوسرا رسالہ حقوق العباد بالخصوص معاملات سے متعلق تیار ہوجائے چنانچہ حضرت والا نے احقر کو مامور کیا کہ رسالہ مرتب کردوں،اسی حکم کی تعمیل میں احقر نے صحاح ستہ وغیرہ کو سامنے رکھ کر بفضل الہی یہ رسالہ مرتب کیا جو معاملات سے متعلق چالیس احادیث پر مشتمل ہے،ترتیب دیتے وقت طلباء کی نفسیات کا خاص لحاظ رکھاگیا ہے اور ترجمہ کے ساتھ ساتھ مختصر تشریح کی گئی ہے جسے طلباء بآسانی یاد کرکے سناسکیں الحمدللہ سنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے”اسکا ایڈیشن 2009ء میں شائع ہواہے۔
-
4 مسلمانوں کے چھ حقوق
یہ کتاب 224 پر مشتمل ہے، حدیث کے مطابق ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کم ازکم 6 حقوق ہیں،سلام کرنا،دعوت قبول کرنا،نصیحت وخیرخواہی کا معاملہ کرنا، چھینک کا جواب دینا،بیمار کی عیادت کرنا اور جنازے میں شرکت کرنا انہی چھ چیزوں کو شرح وبسط اور مستند حوالوں کے ساتھ اس کتاب میں بیان کیاگیاہے،حضرت مولانا عبدالخالق سنبھلی صاحب، حضرت مفتی سلمان منصورپوری صاحب،حضرت مولانا نسیم صاحب اساتذہ دارالعلوم دیوبند وحضرت مولانا مفتی محمد امجد علی صاحب استاذ دارالعلوم النصرہ دیوبند وغیرہ کی تقاریظ اور تائید اس کو حاصل ہے،سماجی ومعاشرتی حقوق کی عدم ادئیگی اور پامالی کو روکنے کےلئے یہ ایک اچھی کتاب ہے،آج جبکہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے انسانیت دور ہورہی ہے ایسے میں اس کتاب کا مطالعہ ایمان کو تازگی اور روح کو بالیدگی عطا کرے گا اور بہت مفید ثابت ہوگا،نیز سنت وشریعت کے مطابق زندگی گذارنے میں بھرپور معاون ثابت ہوگی،علماء و عوام کےلیے یکساں مفید ہے۔
-
5 انوار الطحاوی شرح اردو طحاوی شریف
یہ ضخیم کتاب 510 صفحات پر مشتمل ہے اور حدیث کی معروف کتاب طحاوی شریف کی اردو شرح ہے، طحاوی شریف مسلک احناف سے متعلق مدلل جوابات کےلئے شہرت رکھتی ہے،اکثر ایسی حدیثیں اس میں جمع کی گئی ہیں جس سے علمائے احناف استدلال کرتے ہیں، تمام دینی مدارس میں آخری سال میں پڑھائی جاتی ہے،یہ پہلی جلد ہے،جس میں کتاب الصلوہ باب الاذان تا باب السلام تک کی تشریح وتوضیح کی گئی ہے،بڑی محنت سے یہ شرح تیار کی گئی ہے مدارس کے اساتذہ اور طلباء کےلئے یہ کتاب مفید ہے۔حضرت مفتی عبداللہ معروفی صاحب کی تائید سے یہ کتاب مزین ہے۔
-
6 الکلام المسند شرح اردو مؤطأ امام محمد
یہ مؤطا امام محمدکی اردو شرح ہے اور پہلی جلد ہے اس میں کتاب النکاح ،کتاب الطلاق اور کتاب الضحایا کی شرح ہے،حضرت مولانا مفتی عبداللہ معروفی صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند اور حضرت مفتی مزمل علی صاحب آسامی مہتمم وشیخ الحدیث جامعہ الشیخ حسین احمد مدنی نے پسندفرمایاہے،یہ شرح بھی اساتذہ وطلباء کےلئے مفید ہے،288 صفحات پر مشتمل ہے۔
-
7 تنویر الوقایہ شرح اردو شرح وقایہ
یہ کتاب 660 صفحات پر مشتمل ہے اور شرح وقایہ کی جامع اردو شرح ہے اور پہلی جلد ہے،شرح وقایہ فقہ کی بہت مشہور کتاب ہے جس میں طویل فقہی بحث ،ائمہ کے اختلافات اور پھر سب کے الگ الگ دلائل اورانکے جوابات پر مبنی ہے جو مدارس کے نصاب میں داخل ہے،اساتذہ اور طلبہ کےلیے یہ کتاب معاون ومفید ہے،یہ کتاب بھی کافی مقبول ہوئی کاش دوسری جلد بھی منظر عام پر آجاتی،حضرت مولانا عبدالخالق سنبھلی صاحب،حضرت مولانا نسیم احمد صاحب بارہ بنکی،مفتی اسجد علی صاحب قاسمی وغیرہ کی تائید و احساسات کتاب کا حصہ ہے۔
-
8 تنویر القدوری شرح اردو مختصرالقدوری جلد اول
قدوری فقہ کی معروف کتاب ہے اور مدارس میں شامل نصاب ہے،اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ مختصر عبارت میں جزئیات کو دلکش پیرائے میں بیان کیاگیا ہے،یہ شرح کتاب الطھارہ سے کتاب الحج پر مبنی ہے،336 صفحات ہیں،اساتذہ و طلبہ کےلئے بہت مفید ہے۔
*9 تسہیل الادب شرح اردو نفحتہ العرب*
یہ کتاب 420 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے،نفحتہ العرب ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزازعلی صاحب کی مرتب کردہ ہے، دارالعلوم دیوبند سے منسلک اداروں میں پڑھائی جاتی ہے،عربی ادب کی ایک اہم کتاب ہے،جس میں واقعات،حکایات،لطائف،دلچسپ اشعاراور سبق آموز انداز میں بیان کیاگیاہے، ترجمہ،تشریح اور حل لغات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے،جس سے اس کتاب کی انفرادیت اور بڑھ جاتی ہے،دینی مدارس کے طلبہ و اساتذہ کےلئے معاون ومددگارہے۔
-
10 تنویر الوقایہ شرح اردو شرح وقایہ دوسری جلد
یہ کتاب زیر تصنیف تھی مفتی صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ اگلے سال شوال میں یہ کتاب منظر عام پر آجائے گی،لیکن اس سے قبل صاحب کتاب ہی ہماری نظروں سے روپوش ہوگئے۔
اسکے علاوہ بھی کچھ اور کتابو ں پر وہ کام کرکرہے تھے جسکا سلسلہ بیک وقت تھم گیا۔
اپنی کتابوں کی اشاعت کے علاوہ مفتی اشفاق صاحب دیگر علماء کی کتابیں شائع کرانے کا اہتمام کرتے حضرت مولانا مطیع الرحمن صاحب دو کتاب ایک رہنمائے راہ طریقت جو تقریبا 400 صفحات سے زائد پر مشتمل ہے اور دوسری التسہیل الغریب جو دوسو احادیث پر مشتمل ہے دونوں کتابوں کو اپنی نگرانی میں کمپوز کرایا پھر اس کی نظر ثانی اور تصحیح و تعلیق کے بعد دیوبند سے شائع کرانے کا اہتمام فرمایا،اسکے علاوہ حضرت کے اور کئی رسائل کو انھوں نے اپنی نگرانی میں شائع کرایا۔
تذکرہ علمائے بھاگلپور کی کمپوزنگ
میری اس کتاب کے بارے میں جب انھیں علم ہوا کہ میں اس موضوع پر کام کررہا ہوں تو برابر اس کتاب کے بارے میں مجھ سے پوچھتے کہ آپ کا کام کہاں تک پہونچا؟کام جاری رکھئے اور جلد سے جلد تکمیل کیجئے ادھر کچھ سالوں سے جب کبھی ملاقات یا بات ہوتی تو اسکا ذکر ضرور کرتے،کچھ ماہ قبل انھوں نے مجھ سے کہا کہ آپ جیسے جیسے لکھتے جائیں مجھے بھیج دیں اور میں دیوبند میں اسے کمپوز کرادوں گا،ایسے میں کتاب کا کام تیزی سے ہوگا اور آپ کو فکر بھی رہے گی تو بہت جلد یہ کتاب شائع ہوجائے گی،میں نے حامی بھرلی اور کچھ صفحات انھیں بھیج دئیے اور اسے انھوں نے ششماہی کی چھٹی میں گھر جانے سے قبل پچاس ساٹھ صفحات کمپوز کرابھی دئے اور اسکی اطلاع بھی مجھے دیدی،حالانکہ یہ کتاب ابھی ادھوری ہے مواد کی عدم دستیابی کی وجہ سے ابھی کافی کام باقی ہے،لیکن انکی دلچسپی ایسی تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ جلد سے جلد ہماری زندگی میں ہی شائع ہوجائے ورنہ معلوم نہیں کب شائع ہوگی،لیکن کتاب کی اشاعت سے پہلے ہی وہ چل بسے۔
علاقے کے لوگوں کا انکی طرف رجوع
ادھر کچھ عرصے سے میں نے محسوس کیا کہ لوگوں کا رجوع انکی طرف بڑھ رہاہے،مسئلے مسائل کے حل اور دینی و شرعی رہنمائی کےلئے بڑی تعداد میں لوگ ان سے رجوع ہوتے تھے اور لوگوں کو انکے علم پر اعتماد تھا،ہرنتھ کے جن دو چار عالم پر گاؤں کے لوگ اعتماد کرتے ہیں،اور انکا احترام کرتے ہیں ان میں ایک وہ بھی تھے۔جب کبھی چھٹیوں میں گھر آتے تو جمعہ میں وعظ وخطابت اور امام صاحب کی غیر موجودگی میں گاؤں کی جامع مسجد میں امامت کا شرف اکثر انھیں ہی حاصل ہوتا،علاقے کے بڑے علماء بھی ان پر اعتماد کرتے اور ہم جیسے طالب علم بھی انکی تعظیم کرتے تھے۔
جواکھر کی مسجد میں امامت وخطابت کی ذمہ داری
مفتی صاحب دیوبند میں رہتے تھے لیکن دوتین چار مہینے میں بھاگلپور کا ایک چکر ضرور لگا لیتے تھے،جواکھر میں انکے گھر کے پاس جو مسجد ہے،ہم نے اسکی تفصیل اوپر لکھی ہے،اس مسجد کے قیام کے بعد جب بھی گھر آتے تو جمعہ کے علاوہ پنج وقتہ نمازوں کی امامت انھیں کے ذمہ تھی،ادھر کچھ سالوں سے وہ جواکھر ہی میں مقیم ہوگئے تھے،گوکہ ہرنتھ بھی آنا جانا ہوتا،لیکن زیادہ وقت وہ جواکھر ہی میں گذارتے تھے،دن میں ہرنتھ جاتے اور شام میں جواکھر لوٹ جاتے۔ہرنتھ سے جواکھر کا فاصلہ ایک آدھ کیلو میٹر ہے۔
*مدرسہ حسینیہ ہرنتھ کے تعلق سے فکرمندی*
گاؤں کا وہ مدرسہ جہاں انھوں نے حفظ کی تکمیل کی اور اپنا بچپن گذارا،اس مدرسے کے تعلق سے بھی ہمیشہ فکر مند رہتے،لاک ڈاون میں جب مفتی ہلال صاحب کا انتقال ہوگیا تو میں نے ان سے رابطہ کیا کہ مفتی صاحب مدرسے کو بچایا جائے،گاؤں کا اور علاقے کا ایک قدیم ادارہ ہے،اور ہم لوگوں کی مادر علمی بھی اس لئے اسکے تحفظ اور بقاء کےلئے جدوجہد کی جائے،مدرسے میں ایک نظام قائم ہو اور یہ ادارہ ادارہ ہی رہے تو انھوں نے مجھ سے کہاکہ اسکےلئے علاقے میں تحریک چلانی پڑے گی،لوگوں کو بیدار کرنا پڑے گا، چنانچہ دوتین سال قبل 2022ء میں جب ہم لوگ متحرک ہوئے اور علاقے کے علماء ودیگر لوگوں سے ملاقات اور انکی ذہن سازی کی تو علاقوں میں بیداری پیدا ہوگئ،جسکے نتیجے میں ایک کمیٹی اور شوری بن گئی،حالانکہ اس معیار کی کمیٹی نہیں بنی تھی جس میں کچھ کام کرنے والے افراد ہوں،لیکن گذشتہ جون میں کچھ لوگوں نے اس کمیٹی کو نظرانداز کرکے ایک عوامی میٹنگ بلائی اور کچھ علماء کو بھی مدعوکیا اور پھر مہتمم اور نائب مہتمم کا انتخاب کرلیاگیا،جس سے وہ دکھی تھے اور ناگواری کا اظہار کرتے تھے،گاؤں کے کچھ لوگوں نے ان سے رجوع کیا اور مشورہ مانگا کہ ہم لوگ مدرسے کے موجودہ اسٹاف کے خلاف قانونی کا روائی کرناچاہتے ہیں آپ کی کیا رائےہے؟مفتی صاحب نے کہا کہ ابھی قانونی کاروائی کرنا مناسب نہیں کیونکہ جن علماء کو مدعوکیا گیا تھا وہ بھی زد میں آئیں گے اور یہ فی الحال بہتر نہیں ہے،کچھ دن اور انتظار کرلیاجائے اگر مدرسے کا نظام درست نہیں ہوتاہے تو پھر سوچا جائے گا،میری بھی رائے یہی تھی چنانچہ قانونی کاروائی رکوادی گئی،لیکن آگے کاروائی نہیں ہوگی اسکی گارنٹی بھی نہیں لی جاسکتی،معلوم ہوا ہے کہ مدرسے میں مہتمم اور نائب مہتمم کے انتخاب کے کئی ماہ اب تک کچھ نہیں بدلا،جیسا پہلے تھا اس سے بھی بدتر ہوگیا،نہ مدرسے میں بچوں کی قابل لحاظ تعداد ہے نہ تعلیم ہے اور نہ یہ معلوم کہ اسٹاف کو تنخواہ کون دے رہا ہے،مدرسے میں پڑھائی کیا ہورہی ہے؟ کیا آرہا ہے اور کیا خرچ ہورہا ہے یہ کسی کو نہیں معلوم، لوگو ں کا کہنا ہے کہ مدرسے کا اسٹاف مدرسے میں کھارہا ہے اور سورہا ہے کوئی کچھ کہنے والا نہیں ہے،پھر مہتمم اورنائب مہتمم بنانے کا فائدہ کیاہوا؟
مفتی صاحب سے میرے تعلقات
ان سے باضابطہ میرے تعلقات کب ہوئے یہ تو یاد نہیں لیکن یاد پڑتاہے کہ میری طالب علمی کا زمانہ تھا ظہر کی نماز کےلئے مسجد میں سب لوگ جمع تھے،نماز سے فراغت کے بعد معین مرڑ مرحوم نے ایک مسئلہ چھیڑ دیاکہ تراویح پڑھانے کا ہدیہ لینا کیسا ہے اور رمضان میں ختم قرآن کے موقع پر شیرنی اور جلیبی تقسیم کرنا کیسا ہے؟ایک فریق کہتا کہ کوئی حرج نہیں ہدیہ لیاجاسکتا ہے اور ختم قرآن کے موقع پر شیرنی تقسیم کی جاسکتی ہے،دوسرے فریق کی رائے اس کے برعکس تھی لیکن دونوں گروپ میں غیر عالم لوگ تھے اور اکثر ہرنتھ کے بوڑھے پرانے لوگ تھے،مفتی اشفاق صاحب ابھی نئے نئے فارغ ہوکر آئے تھے،میرے نانا مرحوم نے مفتی صاحب کو آواز دی ارے مفتی صاحب ادھر آئیے مفتی صاحب مسجد ہی کے ایک کونے میں مینار کے حصے میں نماز پڑھ رہے تھے،اسوقت ساجد مرڑ مرحوم بھی موجود تھے وہ میرے نانا پر گرم ہوگئے کہ’ مفتی کو ارے سے بلاتا ہے جاہل کہیں کا’اسی پر ماحول گرم ہوگیا اور چینخ وپکار کے بعد سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے،اسطرح میں مفتی صاحب سے متعارف ہوا،چونکہ میرا بھی گاؤں وہی ہے جو مفتی صاحب کا ہے راہ چلتے ملاقات اور علیک سلیک ہوجاتی،رفتہ رفتہ وقت گذرتا رہا اور تعلقات پروان چڑھتے رہے ،ان سے میرے تعلقات کی ایک دوسری وجہ بھی ہے وہ یہ کہ انکی ایک بہن میری والدہ کے چچا زاد بھائی کے نکاح میں ہے،اسلئے بھی ان سے قربت ہوتی گئی اب تو کئی نئے رشتے بھی قائم ہوگئےطالب علمی جب کبھی میں چھٹیوں میں گھر آتا اور ان سے ملاقات ہوجاتی تو وہ حال احوال اور خیر خیریت ضرور لے لیتے،لا ک ڈاؤن سے پہلے تک وہ سال میں ایک بار حیدرآباد ضرور آتے اور جب بھی آتے مجھے فون ضرور کرتے اسکے بعد ملاقات لمبی لمبی ملاقات ہوتی،اب تو ادھر کئی سال سے حیدرآباد آنا انکا کم ہوگیاتھا،کئی سال قبل ایک صاحب جو بچیوں کا ایک ادارہ چلاتے ہیں انکو دیوبند سے مدعو کیا وہ پروگرام میں شرکت کےلئے حیدرآباد آئے اور مجھے فون کیا کہ میں حیدرآباد آیا ہوا ہوں، کل واپس ہوجاؤں گا،انھوں نے کہا کہ آئیے آپ سے ملاقات بھی ہوجائے گی اور پروگرام میں شرکت بھی،میں نے کہا کہ پروگرام میں تو شریک نہیں ہوسکوں گا کیونکہ میرا پروگرام آج ہی طے ہے اور مجھے وہاں شرکت کرنا ضروری ہے،کہنے لگے ٹھیک ہے کوئی بات نہیں پروگرام کے بعد آئیے شام میں،میں شام میں فارغ ہوکر ان سے ملاقات کےلئے پہونچا،چائے وائے پی گئی اسکے بعد میں نے کہا کہ آج کھانا میرے ساتھ ہی کھالیجئے کہنے لگے کھالیتا لیکن دوسرے مہمان جو میرے ساتھ دیوبند سے آئے ہوئے ہیں اور جہاں ہم لوگوں کا قیام ہے کھانا ہم لوگوں کو وہیں کھاناہے،انکے ہاتھ میں ایک کتاب کے دو تین نسخے تھے جسکا نام تھا”ضیائے دارارقم”میری جانب کتاب کا ایک نسخہ بڑھاتے ہوئے فرمایا آج ہی اس کتاب کا رسم اجراء انجام پایاہے آپ بھی مطالعہ کیجئے،کتاب میں نے لے لی اور علیک سلیک کے بعد وہ اپنی قیام پر چلے گئے اور میں اپنی جگہ آگیا،حیدرآباد میں ان سے یہی آخری ملاقات تھی،اسکے بعد پھر کبھی ملاقات نہیں ہوئی،حیدرآباد سے جب وہ دیوبند چلے گئے تو کچھ دنوں کے بعد انکا فون آیا علیک سلیک اور خیر خیریت کے بعد فرمانے لگے کہ اس کتاب کا مطالعہ آپ نے کیا میں نے کہا ہاں کتاب میں تو کئی غلطیاں ہیں دراصل یہ کتاب بچیوں سے مختلف عنوان پر مضامین لکھواکر کتاب میں جمع کردیاگیاہے،میں نے صفحہ نمبر کی نشاندہی کے ساتھ کئی غلطیوں کی وضاحت کی تو کہنے لگے کہ میری تو نظر ہی نہیں گئی اس پر،ایک جگہ اس کتاب میں لکھاہے کہ جسطر ح نکاح کرنے کےلئے دوگواہ لازم ہیں ٹھیک اسی طرح طلاق دینے کےلئے بھی دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔خداجانے یہ مسئلہ اس کتاب میں کہاں سے نقل کیا گیا ہے اوراسکی کیا حقیقت ہے مفتی صاحب نے ہی بتایا کہ اس کتاب پر نظرثانی دومفتی صاحبان نے کی ہے اور وہ دونوں حیدرآباد کے بڑے بڑے ادارے میں استاذ حدیث ہیں۔ کافی دنوں تک مفتی صاحب نے اس واقعہ کو یاد رکھا کبھی ملاقات ہوتی تو مجھے چھیڑ دیتے یافون پر چھیڑ دیتے اورکچھ دیرکےلئے محفل گل گلزار ہوجاتی۔
ان سے وابستہ یادوں کا ایک طویل سلسہ ہے جو اور قلم رک نہیں رہاہے،اب یہیں اس مضمون کو ختم کرتاہوں، 6 دسمبر جب جب آئے گا دو دو زخم ہرا ہوجائے گا،ایک تو بابری مسجد کی شہادت کا زخم اور دوسرا ایک علمی رفیق ،معاون اور ایک سرپرست کو کھونے کا زخم جنھیں دیکھ کر طبیعت کھل اٹھتی تھی،چہرے پر خوشی کے آثار نظرآتے تھے،ان سے مل کر اور ملاقات کرکے دلوں کو ایک گونہ سکون ملتاتھا،رب انکے درجات کو بلند کرے اور سیئات کو درگذر فرمائے۔
جواکھر کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ
6 دسمبر 2024ء کی صبح فجر کے بعد اس پچاس سالہ شخص جنکے چہرے پر گھنی اور لال داڑھی،بھرا بھرا جسم،سر پر چھوٹے چھوٹے بال اور پانچ پلی صوفیوں والی ٹوپی ،بدن پر قدرے لانبا سفیدکرتا،خوبصورت چہرہ ٹخنوں سے کافی اوپر لنگی یا پائجامہ،پستہ قد سبک روئی کے ساتھ پورے وقار کے ساتھ تیز رفتاری کے ساتھ قدم بڑھاتا،سامنے سے گذرنے والا یہ محسوس کرتا کہ کوئی بارعب اور باوقار عالم ہے،دل میں کسی طرح کی کوئی کدروت نہیں،ذہن کا بالکل صاف،اپنے اصول پر سختی سے عمل پیرا،اس منافق دنیا کو خیرآباد کہہ گیا اور ایک دنیا ویران کرگیا،روح قبض ہونے سے چند منٹ پہلے تک عیادت کےلیے آنے والے اور پاس کے تمام لوگوں کوبات کرکے کچھ حدتک مطمئن کردیا کہ میری طبیعت پہترہے اور پھر چندمنٹ کے اندر چپکے سے یہ کہتاہوا چل بسا کہ
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا
مفتی صاحب اپنے پیچھے بیوہ کے علاوہ چار بچیوں اور اپنے سینکڑوں شاگردوں کو یتیم کرگئے،اللہ تعالی ان چاروں بچیوں کے مستقبل کو تابناک بنائے اور غیب سے انکی ضروریات کی تکمیل فرمائے،اسی دن بعد نماز عصر حضرت مولانا مطیع الرحمن صاحب نے جنازے کی نماز پڑھائی اور جواکھر کے قبرستان میں انکی تدفین کردی گئی،لوگ بتاتے ہیں کہ یہ جواکھر کے قبرستان میں پہلے عالم ہیں جنھیں یہاں سپردخاک کیا گیا، ایک اندازے کے مطابق قرب و جوار کے پندرہ سولہ سو لوگوں نے جنازے میں شرکت کی ،اتنی بڑی تعداد اس گاؤں کے کسی جنازے میں نہیں دیکھی گئی،جواکھر کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا جنازہ تھا۔