غور کر ائے انسان نعمتوں کے بدلے  مطالبہ کیا ہے!! اللہ کا شکر ادا کرنا ضروری ہے!

غور کر ائے انسان! نعمتوں کے بدلے مطالبہ کیا ہے؟

از: جاوید اختر بھارتی

(رکن مجلس شوریٰ جامعہ فیض العلوم)

محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا اور بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے آئیے سب سے پہلے غور کریں کہ اللہ رب العالمین نے ہمیں دو پاؤں عطا کیا ہے ،، دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پاس پاؤں نہیں ہے ، ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پاس پاؤں ہے مگر چلنے کی طاقت نہیں ہے کیونکہ وہ معذور ہیں ان کے پاؤں میں چوٹ آئی اور وہ چلنے پھرنے سے مجبور ہوگئے ، کچھ ایسے بھی ہیں جو پیدائشی مفلوج ہیں اب وہ کسی ایسے شخص کو دیکھتے ہوں گے کہ جن کے پاس پاؤں ہیں اور وہ خوب چل پھر رہے ہیں تو وہ کیسا محسوس کرتے ہوں گے لیکن اللہ نے ان کا مزاج ایسا بنادیا ہے کہ وہ شکوہ نہیں کرتے مگر یہاں اس کے لئے زیادہ سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کا مقام ہے جس کے پاس پاؤں بھی ہے اور طاقت بھی ہے وہ چلتا پھرتا بھی ہے تجارت کے لئے قدم بڑھاتا ہے ، اپنے دنیاوی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے قدم بڑھاتا ہے ، دنیاوی اغراض ومقاصد کے حصول کے لئے قدم بڑھاتا ہے مذکورہ زمرے میں قدم بڑھانا غلط نہیں ہے لیکن ہاں وہ راہ صداقت کے لئے قدم کبھی نہیں بڑھاتا ہے تو غلط ہے ، حق کی تلاش کے لئے قدم نہیں بڑھاتا ہے تو غلط ہے ، راہ خدا میں قدم نہیں بڑھاتا ہے تو غلط ہے اور اس بات پر اسے کبھی پچھتاوا نہیں ہوتا ہے تو مزید غلط ہے اور وہ اللہ کا ناشکرا ہے اسے یاد رکھنا چاہئے کہ جب سامنے ملک الموت حاضر ہوں گے تو روح پہلے پاؤں سے ہی نکالیں گے ،، انسان کے جسم کا درمیانی حصہ کمر کہلاتا ہے جو جسمانی عمارت کا بہت مضبوط ستون ہوتاہے کمر جب سیدھی رہتی ہے تو زندگی کے ہر ایام میں بڑی آسانی ہوتی ہے اور جب کمر جھک جاتی ہے تو ہاتھوں میں ڈنڈا لیکر چلنے میں بھی بیلنس برابر نہیں ہوتا اس وقت لکڑی اور چھڑی کو بھی یہ کہنے کا موقع مل جاتاہے کہ جب ہوئی عمر ساٹھ برس جھکی کمر تو ہاتھ میں ڈنڈا لکڑی کا ،، ارے کان سننے والے انساں دیکھ تماشہ لکڑی کا ،، کمر ٹوٹ گئی یا بگڑ گئی تو دنیاوی امور میں بھی مشکلات پیدا ہوتی ہے اور عبادت کرنے میں بھی دشواری کا سامنا ہوتاہے آج بہت سے لوگوں کو دیکھا جارہاہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں مگر رکوع نہیں کرسکتے ، سجدہ نہیں کرسکتے اور قعدہ و جلسہ نہیں کرسکتے کیونکہ کمر نے صحیح ڈھنگ سے کام کرنا بند کردیا ہے معلوم یہ ہوا کہ کمر بھی اللہ کی طرف سے بندے کے لئے بہت بڑی نعمت ہے ،، اس کے بعد پیٹ ہے اور پیٹ میں انسانی جنکشن ہے ،، گردہ ہے ، آنتیں ہیں اور انسان پیٹ بھرنے کے لئے محنت مزدوری بھی کرتاہے ، دھوکا دھڑی بھی کرتاہے ، رشوت خوری کا راستہ بھی اختیار کرتا ہے ، جھوٹ بول کر مال کی خریدوفروخت بھی کرتاہے ، شعبدہ بازی بھی کرتاہے ، خطرناک سے خطر ناک کام بھی کرتاہے ، کبھی کبھی زندگی داؤ پر بھی لگا دیتاہے اور گداگری بھی کر بیٹھتا ہے اور اب تو پیری مریدی کو بھی پیٹ بھرنے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے لیکن پھر بھی انسان کا پیٹ نہیں بھرتا ہے ،، ڈاکٹر و طبیب کہتے ہیں کہ پیٹ صحیح ہے تو انسان ہر بیماری سے محفوظ ہے ڈاکٹر کی بات انسان غور سے سنتا ہے اور کہتاہے کہ یہ بات درست ہے،، ائے حضرت انسان تجھے ڈاکٹر کی بات سمجھ میں آتی ہے تو رب کے قرآن اور نبی کے کا فرمان سمجھ میں کیوں نہیں آتا ہے کہ حلال کمایا کرو اور حلال کھایا کرو یاد رکھنا چاہئے کہ صرف شراب ہی پینا حرام نہیں ہے بلکہ حرام و ناجائز پیسے سے مینرل فلٹر پانی خرید کر پینا بھی حرام ہے ، ناجائز کمائی سے بکرے کا گوشت خریدنا اور کھانا بھی حرام ہے صاف لفظوں میں کہدیا گیا ہے کہ حرام کا ایک لقمہ بھی پیٹ میں ہوگا تو عبادت و دعا کرتے کرتے تیر کی طرح سیدھی تیری کمر کمان کی طرح ٹیڑھی بھی ہوجائے گی تو پھر بھی تیری دعا ایک بالشت سے اوپر نہیں جائے گی بلکہ تیرے منہ پر مار دی جائے گی ،، دانتوں میں پھنسا ہوا دانہ کچھ ہی دیرمیں خراب ہوکر پیٹ کو یہ نصیحت دیتاہے اور سوال کرتا ہے کہ میں تو اپنے اندر پھنسا ہوا دانہ برداشت ہی نہیں کرپاتا مجھے اتنی الجھن ہوتی ہے کہ اس پھنسے ہوئے دانے کی شکل تک بدل جاتی ہے آخر تو اپنے اندر کیسے ہضم کرلیتاہے ،، انسان کو چاہئے کہ جب بھی کھائے تو حلال لقمہ کھائے اور اپنے کنبے کو کھلائے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ جب بھی کمائے تو حلال روزی کمائے تاکہ حلال روٹی تیار ہوسکے ،، دونوں ہاتھ بھی اللہ کی نعمت ہیں کسی کمزور پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے ، رشوت لینے دینے کے لئے ہاتھ نہ بڑھایا جائے ، ناجائز قبضہ کی غرض سے زمین کے کسی کاغذ پر دستخط نہ کیا جائے ورنہ ہاتھوں کے غلط استعمال سے ضمیر مردہ ہوسکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ غریبوں مسکینوں اور یتیموں کے سروں پر دست شفقت پھیرا جائے یعنی راہ سخاوت میں ہاتھوں کو بلند کیا جائے اور دنیا وآخرت دونوں سنوارا جائے ،،
اب آئیے سینہ ہے تو پھیپھڑا ہے اسے بغض و عناد سے پاک رکھنا ضروری ہے اور دل کو حب نبی سے روشن رکھنا ضروری ہے غرضیکہ پورا سینہ دنیاوی خواہشات کا مرکز نہیں ہونا چاہئے بلکہ خدا کے خوف سے لرزنا چاہئے اور جس کے سینے میں خوف خدا سما گیا اس کی زندگی سنور گئی اور وہ کامیاب ہوگیا ،، اللہ نے انسان کے جسم کو مکمل بنایا ہے اور ایسا سسٹم بنایا ہے کہ ضرورت کے اعتبار سے جسم کے تمام اعضا تک پانی و خون کا دورہ ہوتاہے یہ اللہ کی ایسی نعت ہے کہ موجودہ وقت کی جدید سائنس ٹیکنالوجی اور ماہرین اطباء اس کا بدل پیش کرنے سے قاصر ہیں ،، اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہونٹ ، ناک، کان اور دو آنکھوں سے سجا ہوا چہرہ عطا کیا پوری دنیا میں انسان ہیں تھوڑا بہت بھلے ہی شکل ملتی ہو مگر پھر بھی سب کے چہرے الگ الگ ہیں یہ اللہ رب العالمین کا ڈنکے کی چوٹ پر اعلان بھی ہے اور چیلنج بھی ہے کہ میرے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے اور اللہ کے اس چیلنج میں اتنی سچائی ہے کہ قدرت کے خزانے میں کمی ہوتی تو قدرت کا کارخانہ متأثر ہوجاتا یعنی رحم مادر میں بچہ کیسے زندہ رہ پاتا ؟ اس لئے اسے تسلیم کرنا ہوگا کہ رحم مادر میں بچے کا زندہ رہنا اور دنیا بھر میں سارے انسانوں کے چہروں کا الگ ہونا قدرت کے خزانے میں کمی نہ ہونے کا اعلان بھی ہے ، چیلنج بھی ہے اور ظاری طور پر ایک نمونہ ، مثال اور جھلک بھی ہے ،، اللہ نے چہرے کے ہی ایک حصے میں ہونٹوں اور دانتوں کی نگرانی میں زبان عطا کررکھی ہے اس زبان میں ہڈی نہیں ہے لیکن اس کا اثر یہ ہوتاہے کہ اس کے انداز و طریقے سے انسان خوش بھی ہوجاتاہے اور غمگین بھی ہوجاتاہے ، موم کی طرح پگھل بھی جاتاہے اور سنگ دل بھی بن جاتاہے ، رشتہ بن بھی جاتاہے اور بگڑ بھی جاتاہے ، انسان دوست بھی بن جاتاہے اور دشمن بھی بن جاتاہے کبھی کبھی زبان بگڑتی ہے تو وہ خود محفوظ رہتی ہے لیکن اس کا انجام پورے جسم کو بھگتنا پڑتا ہے دونوں ہونٹ آپس میں مل گئے منہ بند ہو گیا، نیچے اوپر کے دانت بھی آپس میں مل گئے اب زبان اس کے اندر ہے مطلب صاف ہے کہ زبان کا صحیح صحیح استعمال کرنا ضروری ہے، غیبت چغلی سے پرہیز کرنا ضروری ہے تاکہ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے،، اللہ تبارک وتعالیٰ نے سب کچھ بنانے کے بعد پیشانی سب سے اوپر بنایا اور کہدیا کہ تیری پیشانی سب سے اوپر بنانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر کس و ناکس کے آگے نہ جھکے یعنی پیشانی جب بھی جھکائی جائے تو اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں جھکائی جائے جنازے کی نماز میں اسی لئے سجدہ تو دور کی بات ہے رکوع تک نہیں رکھا گیا ہے کیونکہ مردہ امام کے آگے رکھا جاتاہے تو رکوع نہ رکھ کر کسی غیر اللہ کے آگے پیشانی جھکنے جھکانے کا تصور و گنجائش تک کو ختم کردیا گیا ہے ،، حقیقت میں دیکھا جائے تو انسان کا وجود ہی سراپا نعمت ہے زندگی خود ایک نعمت ہے اور زندگی کی ایک ایک سانس نعمت ہے اس کے بعد زمین و آسمان سے بندے کے فیضیابی کے لئے تمام طرح کی نعمت ہی نعمت ہے انگنت و بے شمار نعمتوں سے نوازنے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ کا صرف ایک مطالبہ ہے کہ ائے میرے بندے تو اپنی پیشانی میری بارگاہ میں جھکا دے یعنی عملی طور پر سجدہ شکر ادا کر پھر تو تجھے مزید سرخروئی حاصل ہوگی اور مزید کامیابی حاصل ہوگی-

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: