مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ

مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ

یادوں کا ایک چراغ جلا کر چلا گیا

از:- مولانا ضیاء الدین قاسمی ندوی

خیرا باد مئو

ترتیب و اضافہ/ محمد قمر الزماں ندوی

ــــــــــــــــــــــــــــــــــ

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

ہمارے ایک سنئیر ندوی نے حضرت مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی رح پر اپنے تعزیتی نوٹ میں بہت صحیح لکھا ہے کہ ،، خامشی کی چیخ سب سے زیادہ بلند ،سادگی کی ادا سب سے زیادہ حسین اور خود نمائی سے دوری سب سے بہترین آزمائش ہوتی ہے ،،۔
یقینا مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی رح کی ذات والا صفات اور ان کی عظیم شخصیت ان خوبیوں سے متصف اور ان زریں حقائق کی ہوبہو اور سچی تصویر تصویر تھی۔

آج مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی رح کے جنازہ اور تدفین میں شرکت کے بعد اندازہ ہوا کہ مولانا کو علماء اور اہل علم طبقہ میں کس قدر محبوبیت اور مقبولیت حاصل تھی ، اور لوگوں کو خصوصاً علماء اور اہل علم طبقہ کو ان سے کیسی شیفتگی اور انسیت تھی۔ یقینا مولانا نیک طبیعت ،سادگی پسند اور خاموش مزاج انسان تھے، شہرت اور اسٹیج کی زینت بننے میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی، وہ اس سلسلہ میں اپنے والد ماجد حضرت مولانا سید واضح رشید حسنی ندوی رح کے پرتو اور عکس جمیل تھے،انہیں کی طرح اپنی ذات کو مٹانے میں دلچسپی رکھتے تھے ۔ آج جنازہ میں ہر شخص کی زبان پر یہی تذکرہ تھا کہ
مولانا بے ضرر ،نیک صفت،شریف،ملنسار اور سادگی پسند انسان تھے ، ندوہ کے اتنے بڑے انتظامی عہدے پر رہتے ہوئے بھی ہٹو بچو ان کے یہاں نہیں تھا، ہر ایک ان سے بے تکلف اپنی بات کہہ لیتا اور اپنا مدعا بھی پیش کرلیتا ۔ بعض لوگ ان سے از راہ محبت اور از راہ اخلاص کہتے کہ مولانا !
اتنی زیادہ سادگی اور تواضع آپ کے اس عہدے کے ساتھ اب مناسب نہیں ،کچھ عہدے اور مناصب کے بھی تقاضے ہوتے ہیں اور اس کی بھی کچھ رعایت کرنی پڑتی ہے ، آپ کے اپنے کچھ تحفظات ضروری ہیں ، موٹر سائیکل پر اس عمر میں آپ کے لیے چلنا اور سفر کرنا اب بہتر اور مناسب نہیں ہے ، یہ سب ہمارے ندوی دوست و احباب کے آج کے تاثرات تھے ۔ ہزاروں کی زبان پر ان کی خوبیوں اور اچھائیوں کا ذکر جمیل اور ذکر خیر تھا ، یقینا مولانا انتہائی متواضع ،خلیق، شریف، متحمل مزاج، ظریف اور ملنسار انسان تھے ،اپنے دوستوں کی حق رفاقت خوب ادا کرتے تھے ۔
مولانا مرحوم ندوی فکر کے حامل اور پرتو تھے ، وسطیت و اعتدال کے صفات سے متصف تھے اور ندوہ ہے زبان ہوشمند کے صحیح مصداق تھے ، فکر ندوہ کے مبلغ و ترجمان تھے ، شبلی و سلیمان کی وراثت کو سنبھالنے والوں میں نمایاں مقام رکھتے تھے ، فکر علی کے پیامبر تھے، جدید صالح اور قدیم نافع کے علمبردار تھے ، ساتھ ہی حسنی خاندان کی روایات کے پاسدار اور امین و محافظ تھے۔

مولانا کی اچانک اور ناگہانی موت سے ندوہ کے در و بام ہل گئے بلکہ دہل گئے ،فرزندان ندوہ کے دل و دماغ صرف متاثر ہی نہیں ہوئے، بلکہ اس ناگہانی نقصان پر کراہ اٹھے ، خاندان کا ایک ایک فرد حادثہ سے بے قرار اور بے چین ہو اٹھا ، لیکن قربان جائیے کہ اس کے باوجود خاندان کا ہر فرد صابر اور اللہ کے فیصلے پر ہر طرح سے راضی برضا نظر آیا ،کہیں ماتم نہیں اور کہیں چیخ و پکار نہیں ۔

راقم الحروف گزشتہ کل 15/ جنوری بروز بدھ مغرب کی نماز ادا کرکے کمرے آیا ، ٹھنڈ زوروں کی تھی، لحاف اوڑھ کر بیٹھ گیا، اور مطالعہ کے لیے کتاب ہاتھ میں لیا ، لیکن طبیعت بوجھل ، اور ذہن و دل کسی طرح مطالعہ کے لیے تیار نہیں ،سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ طبیعت میں اس قدر بے کیفی کیوں ہے ؟ نشاط اور پھرتی کا نام تک نہیں ہے، ذہن کسی طرح حاضر نہیں، پھر بھی کوشش کرکے ہاتھ کو کتاب کی طرف بڑھایا، کتاب مولانا محمد رضوان القاسمی رح کی مرتب کردہ تھی ، جس کا نام تھا ،، باتیں ان کی یاد رہیں گی ،، اتفاق دیکھئے کہ جس صفحہ کو کھولا تھا ،اس کا عنوان تھا ،،دفع غم کی حکیمانہ تعلیم ،، اور اس عنوان کے تحت کلمئہ استرجاع کی حقیقت و واقعیت پر بھرپور روشنی ڈالی تھی ۔ ہم یہاں کتاب کی وہ عبارت اور کلمئہ استرجاع پر حضرت دریا بادی کی وضاحت اور تفسیر بھی پیش کرتے ہیں ۔ تاکہ اس حادثہ سے متاثر دلوں کو صبر و استقامت اور حوصلہ ملے ۔
بس بھائیو ! اس طرح انا للّٰہ وانا الیہ راجعون کی تعلیم دی گئی ۔ ایک جملہ میں سبق سکھا دیا گیا کہ تم کو جو رنج ہوتا ہے تو اس لیے ہوتا ہے کہ تم لوگ خود ترم خاں بنے ہوئے ہو ،اپنے کو اللہ کی ملکیت اور اس کا غلام نہیں کہتے ،اس کا سبق بتایا گیا کہ تم خود رو پودوں کی طرح نہیں ہو ،تمہیں باقاعدہ اور بامقصد پیدا کیا گیا ہے ۔تم خود پیدا نہیں ہوگئے ہو، رحم مادر میں قدرت کام کرتی رہتی تھی، تم نے کچھ نہیں کیا، نہ کرسکتے ہو ، پھر یہ میں، اور ہمارا کیا مطلب ؟ سب تو اللہ ہی کا ہے ،اسی کا حکم ہر چیز پر جاری ہے ،اگر ہمارا کوئی عزیز چلا گیا تو ہمیں بھی وہیں جانا ہے ،ہمیں تو اس موقع پر انا للّٰہ و انا الیہ راجعون ہی کے ذریعہ صبر و سکوں حاصل کرنا ہے ۔کہ بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف واپس ہونے والے ہیں ،(خواہ آج خواہ چند روز بعد)
اور حاشیہ میں اس آیت کی کی تفسیر ،تفسیر ماجدی سے لی گئی تھی ، طوالت کی وجہ سے اسے چھوڑ رہے ہیں، اس آیت کی جامع تفسیر حاشیہ میں پڑھنے کے بعد، اچانک موبائل کی اسکرین کو دیکھا، تو ہر طرف سے اس ناگہانی موت سے متعلق پیغامات موصول ہورہے تھے ، خبر سن کر میری جو کیفیت تھی میں بتا نہیں سکتا ، گھر والے میری کیفیت دیکھ کر پوچھنے لگے کیا ہوا ، کیا حادثہ پیش اگیا،؟؟ میں نے کہا کہ بہت بڑا حادثہ ہوگیا ہے، حضرت مولانا سید جعفر مسعود صاحب ندوی انتقال کرگئے، خدا کرے یہ خبر غلط ہو اور کاش یہ خبر مل جائے کہ خبر غلط ہے ، یا یہ کہ مولانا خطرے سے باہر ہیں ، لیکن قدرت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے اور اللہ کے فیصلے میں کس کو تصرف کا حق ہے ؟ جو خبر گردش کر رہی تھی، اس کی فورا ہر طرف سے تصدیق ہوگئی ۔ اپنے تمام اہل تعلق کے لیے ایک مختصر تعزیتی نوٹ لکھ کر فیس بک اور واٹس ایپ پر ڈال دیا۔

کوشش کی کہ مولانا پر ایک تعزیتی مضمون لکھ دوں ، لیکن کسی طرح اس کا حوصلہ اور ہمت نہ جٹا سکا ، صبح دس بجے جنازہ میں شرکت کے لیے طلبہ و اساتذہ کے ساتھ تکیہ روانہ ہوگیا اور مغرب کے بعد واپسی ہوئی ۔ ارادہ کیا کہ مولانا پر ایک مضمون لکھوں اور ان کی خوبیوں اور اچھائیوں کا اس میں تذکرہ کروں ، مولانا مجھ کو بہت اچھی طرح جانتے تھے ، اس تعارف کا ایک ذریعہ ڈاکٹر سرفراز صاحب آلہ آباد اور مولانا ضیاء الدین قاسمی صاحب خیرا آباد بھی تھے۔
ابھی اکتوبر کے پہلے عشرہ میں جب راقم عمرہ کے سفر پر تھا ، مولانا بھی اپنے رفقاء کے ساتھ مکہ مکرمہ میں ان دنوں تھے ، مولانا مرحوم سے مکہ ٹاور میں ملاقات ہوئی ، بہت محبت سے ملے معانقہ اور مصافحہ کے بعد مجھ سے میری بیماری اور صحت سے متعلق پوچھتے رہے اور خوب دعائیں دی اور فرمایا،، کہ بہت کرم کیا اللہ تعالیٰ نے آپ پر ، آپ کے لیے بہت دعائیں ہوئی ہیں اور اللہ نے صرف شفا ہی نہیں دیا، بلکہ اپنے پاک حرم میں بھی بلایا ۔ جب تک یہاں ہیں، خوب زم زم پیجئے اور اپنے لیے اور سب کے لیے دعا کیجیے، میں بھی تمہارے لیے دعا کر تا ہوں اور مزید کروں گا ۔ یہ ملاقات تھوڑی دیر کے لیے ہوئی کیونکہ مولانا کو فورا مدینہ منورہ ٹرین کے ذریعے سے نکلنا تھا ،مولانا کے ساتھ مولانا صہیب ندوی صاحب مقیم دبئی اور مولانا محمد وثیق ندوی صاحب بھی تھے اور ہم کئی احباب ملنے گئے تھے، اس لیے ،ساتھ میں ایک گروپ فوٹو بھی لیا گیا ۔
مولانا مرحوم پر میں اپنے تاثرات مستقل ایک مضمون میں لکھوں گا ۔ آج چونکہ ہمارے مخلص اور کرم فرما جناب مولانا ضیاء الدین صاحب ندوی جو کے مولانا مرحوم کے درسی ساتھی ہیں اور مولانا سے ان کو بڑی انسیت تھی ،وہ اس حادثہ سے بہت متاثر ہیں اور جنازہ میں شریک نہ ہو پانے پر بہت افسردہ اور ملول ہیں، انہوں نے فون پر بات کی اور حکم دیا کہ میں نے جو کچھ اپنے رفیقِ درس کے بارے میں لکھا ہے اور جن تاثرات کا اظہار کیا ہے ،وہ آپ اپنے تمام متعلقین اور ندوی برداران تک پہنچا دیں ، انہی کے حکم کی تعمیل میں کچھ سیاق و سباق جوڑ کر ان کے اس تعزیتی مضمون کو آپ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ایک سچے اور مخلص دوست کی وفات پر ایک مخلص دوست کے سچے جذبات کو ملاحظہ کریں ۔ ان شاءاللہ میں مستقل مولانا مرحوم پر اپنے تاثرات لکھوں گا ۔م۔ ق۔ ن

مولانا ضیاء الدین ندوی صاحب کی وفیاتی تحریر آب سب ملاحظہ کریں۔
15/ جنوری 2025 چہار شنبہ سوا آٹھ بجے قطر سے فون کر کے ذریعہ جناب عمران فراہی ندوی ازھری صاحب نے یہ دردناک، ہوش ربا،اور سکتہ طاری کردینے والی خبر سنائی کہ مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی صاحب ناظر عام ندوۃ العلماء لکھنؤ اب ہمارے درمیان نہیں رہے ،وہ رائے بریلی سے آتے ہوئے ایک ایکسیڈنٹ میں شدید چوٹ لگنے کے باعث موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے ہیں۔
اطلاع کے مطابق مولانا جعفرمسعود حسنی ندوی کو ایک فوروھیلر نے اس وقت بے قابو ہوکر ٹکر ماری ،جب سڑک کے کنارے موٹر سائیکل کھڑی کرکے کسی سے بات کررہے تھے،موٹر سائیکل چلانے والے عبدالقادر کو بھی شدید چوٹ آئی ہے، لیکن وہ خطرہ سے باہر ہیں ۔
جعفر بھائی کی تاریخ پیدائش 1960ء ہے ابتدائی تعلیم تکیہ ہی میں ہوئی اور اعلیٰ تعلیم ندوہ سے ، حافظ قرآن بھی تھے اور تلاوت کا خوب معمول تھا ، تکیہ کلاں میں ایک مدت تک تراویح کی نماز پڑھائی ، حضرت مولانا علی میاں ندوی رح اور تمام موجود معتکفین ان کی اقتداء میں نماز عشاء اور تراویح پڑھا کرتے تھے۔ آج 15/ جنوری 2025ء وہ ہم سب کو تنہا اور روتا بلکتا چھوڑ کر اپنے رب حقیقی سے جاملے ۔
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزئہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
مولانا سید جعفر مسعود حسنی ،ہمارے لئے جعفر بھائی تھے ندوہ میں طالب علمی کے دور سے ان سے جان پہچان ہوئی، پھر ہم مزاجی اور فکر ونظر کی یکسانیت نے ہمارے تعلّقات کو وسعت بخشی، جو گہری دوستی اور بے تکلفی میں بدل گئی ،جعفر بھائی میرے درسی ساتھی بھی تھے ، دوستی نبھانے اور دوستوں کو سمجھنے اور برتنے کا ہنر ان کو خوب آتا تھا ، وہ میرے استاد زادے اور مربی ومحسن بین الاقوامی شہرت یافتہ عربی زبان وادب کے ادیب و صحافی اور مصنف ومفکر مردم گرو رجال ساز مولانا سید محمد واضح رشید ندوی ( وفات 2019ء) معتمد مجلس تعلیمی ندوۃ العلماء کے اکلوتے فرزند تھے ،اللہ نے جعفر بھائی کو مجموعئہ کمالات کا حامل بنایا تھا، اردو و عربی زبان وادب کا گہرا مطالعہ، اور اردو عربی میں لکھنے کی فطری خاندانی روایتی استعداد ولیاقت تھی ، دونوں زبانوں کے رموز واصول اور قواعد پر دسترس تھی، جب انہوں نے قاری مشتاق احمد صاحب کے ادارہ جامعہ عرفانیہ میں پڑھانا شروع کیا تو تدریس وتعلیم میں بھی یکتا ثابت ہوئے، انداز تدریس سنجیدہ اور قابل فہم، جو طلبہ کو پورے طور اپنی طرف متوجہ کرکے اور ان کے دل کے نہاں خانوں تک اتر جائے ،،ہر فن جیسے حدیث وتفسیر اور فقہ و اصول و بلاغت کی کتابیں زیر تدریس تھیں، عربی ادب پر عبور تو پہلے ہی سے تھا جب لکھتے تو کمال کا لکھتے، نئی نئی رائج تعبیر کا استعمال اور سلاست ولطافت اور زبان کی فصاحت کے ساتھ موضوع کا حق ادا کرنے کی قدرت تھی ۔
الرائد کے چیف ایڈیٹر تھے ان کے اداریئے فکر انگیز اور بصیرت افروز ہوتے تھے، دعوتی واصلاحی اور تربیتی رنگ غالب ہوتا تھا،
اردو میں ان کا اسلوب انتہائی شگفتہ وشستہ اور دلکش وجاذب ہوتا، اور مولانا عبد الماجد دریابادی رحمۃاللہ علیہ کے رنگ میں بےتکلفی سے لکھتے جاتے اور دلوں میں اترتے جاتے، ہر مضمون جو انہوں نے لکھا تکلفات سے مبرا اور بامقصد لکھا۔
جعفر بھائی ندوی فکر کے ترجمان ہی نہیں بلکہ پاسبان تھے ۔
راہ اعتدال ،مسلکی تنازعات سے اجتناب ، اور *إلی الاسلام من جدید* کے علمبردار ، *خذ ماصفا ودع ماکدر* کے داعی ، *الجدید النافع والقدیم الصالح* کو معیار بناکر جدید و قدیم سے جڑے رہنا ، اپنے اسلاف اھل سنت والجماعت کےمسلک حق پر جمے رہنا اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی محبت وعقیدت کو گلے کا ہار بنانا ان کا شعار تھا ۔
جعفر بھائی سادگی کے پیکر جمیل تھے، بلند منصب پر فائز ہونے کے باوجود ہٹو بچو کے جھمیلوں سے دور بے تکلف اور خود اعتمادی سے بھرپور لب ولہجہ میں دل موہ لینے والی حلاوت ، مسکراکر ملنا اور خوش دلی سے بات کرنا ،کسی کی غیبت اور شکایت سے کوسوں دور ،حسن معاشرت ،حسن سلوک،حسن گفتار،اعلی کردار،اور صاف دل تھے ۔
کسی کی دل آزاری گوارہ نہیں تھی ،عمر جیسے جیسے بڑھتی جارہی تھی ان کی وضع قطع میں والد ماجد مولانا واضح رشید ندوی کی جھلک نمایاں ہوتی جارہی تھی، جعفر بھائی حسنی خاندان کی تمدنی و تہذیبی روایات کے امین وپاسبان ،بڑوں کا ادب واحترام کرنے والے ،چھوٹوں کو اپنا بنا کر رہنے والے، کبھی کسی ذاتی بات پر غصہ کرتے نہیں دیکھا ،ملازمین سے بھی محبت سے پیش آتے، ادھر جب سے ناظر عام بنائے گئے تھے، ان کی انتظامی صلاحیت کا مشاہدہ بھی خوب ہونے لگا تھا ۔
مجھ سے بہت بے تکلفی تھی، ندوہ جانے میں زیادہ وقفہ ہوجاتا تو کہتے ،،ضیاء الدین بھائی کافی دن ہوگئے تشریف نہیں لائے کب آرہے ہیں ؟
جب بھی جانا ہوتا پہلے ان کو فون کردیتا تھا کہ رہیں گے تو آؤں گا ورنہ عدم موجودگی میں ندوہ جاکر کیا فائدہ؟ آپ ہی مرجع وماوی ہیں۔ ندوہ میں حضرت مولانا محمد رابع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بعد تو فرماتے میں سنیچر سے دوشنبہ تک رہوں گا آپ تشریف لائیں تو خوشی ہوگی ،آپ سے مل کر پرانا دور طالب علمی تازہ ہوجاتا ہے ، جیسے ندوہ میں جعفر بھائی ملتے مسکراتے ہوئے بلند آواز سے ضیاء الدین بھائی کہتے لپکتے اور معانقہ ومصافحہ کرتے پھر چائے بسکٹ کے ساتھ ساتھ گفتگو ہوتی رہتی ،کبھی رات کے کھانے پر تو عصر بعد کبھی کہیں دعوت کردیتے کسی مشہور ہوٹل میں پایہ نہاری اور کلچے ،اگر وزیر اعظمی ندوی شارجہ،اور عبد الحئ ندوی صاحب قطر جیسے ہم دوست ساتھ جمع ہوجاتے، تو محفل یاراں جم جاتی کبھی گرمی میں ندوہ کے ہرے بھرے خوشنما پارک میں یا مہمان خانہ میں۔
میرے قیام پر مولانا محمد وثیق ندوی مدیر التحریر جریدہ الرائد بھی ضرور شریک محفل ہوتے جب فرصت ہوتی ۔

جعفر بھائی کا سانحہ ارتحال ندوی برادری اور ندوہ کا عظیم خسارہ ہے ہی لیکن ہمارا ذاتی نقصان وخسارہ بھی ہے۔
کہ میر محفل ہی نہ رہا،جس کے لئے ندوہ میں بار بار جانے کی خواھش ہوتی تھی جو یاروں کا یار، سب کا غمگسار اور متواضع ملنسار، دوست تھا ،وہی نہ رہا اچانک اس وقت ساتھ چھوڑ دیا ،جب ندوہ میں اس کی سخت ضرورت تھی ،وہ مولانا بلال حسنی ندوی صاحب ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے مشیر اور معاون کار تھے، بڑے بھائی تھے قدم قدم پر سہارا بنے رہتے تھے، عمر وتجربہ میں زیادہ ہوتے ہوۓ بھی مولانا سید بلال حسنی صاحب کا حددرجہ احترام کرتے تھے ،اس لئے کہ وہ ناظم ندوہ ہیں ۔
اللہ تعالیٰ جعفر بھائی کی بال بال مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے ان کی دینی ودعوتی اور تدریسی وتصنیفی خدمات کو قبول فرمائے ندوۃ العلماء کو ان کابدل عطاکرے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب رفقا واحباب کو اور ان کے صاحبزادگان مولوی خلیل حسنی ،مولوی امین حسنی،مولوی عبدالحئ حسنی اور دیگر پسماندگان واقارب کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
مولانا کے بھائی ،صاحبزادوں اور اہل ندوہ سے تعزیت تو کرنا ہی ہے ، دراصل ان کی تعزیت ملت اسلامیہ سے ہے ،ان اداروں سے ہے ،جس کے وہ رکن رکین تھے، ان اداروں سے ہے جہاں کے وہ ناظم اور سرپرست تھے، ان علمی خدمات سے ہے جس کی وہ سرپرستی کر رہے تھے ۔دعائیں ہیں ان کے خاندان کے تمام افراد کے لیے ،اللہ ان کے زخمی دلوں پر اپنی رحمت کا ٹھنڈا مرہم رکھے ۔
ہم گواہی دیتے ہیں کہ بار الہا ! وہ تیرے نیک اور صالح بندہ تھے ،ان سے لوگوں کو خیر پہنچا ،کسی کو ضرر نہیں پہنچا اے اللہ تو ان کی روح کو شادماں کردے اور ان کے ذریعے سے جو کام ہورہے تھے ،ان کاموں کو جاری ساری رکھ اور ان کے بعد والے کو زیادہ سے زیادہ موقع عنایت فرما کہ وہ ان کے کاموں کو آگے بڑھائیں اور ان کے علمی منصوبوں کی تکمیل کریں ۔میں جعفر بھائی مرحوم سے یہی عرض کر سکتا ہوں کہ

عدم کو جانے والو! آنے والے ہیں وہیں ہم بھی
ہماری راہ بھی منزل بہ منزل دیکھتے جانا

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: