Site icon

……. سیاسی لحاظ تو ضروری ہے !!

……. سیاسی لحاظ تو ضروری ہے !!

از:- غلام مصطفےٰ نعیمی

روشن مستقبل دہلی

ان دنوں بھارت کے دل دلی پر اسمبلی انتخاب کا خمار چڑھا ہوا ہے۔ایک سے بڑھ کر ایک ڈرامے اور نوٹنکیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ان نوٹنکیوں کے ساتھ ساتھ نیتاؤں کی بد زبانی بھی اخلاق و تہذیب کے سارے بند توڑنے پر آمادہ ہے۔بدتمیزی کی شروعات بھاجپا نیتا رمیش بدھوڑی نے کی اور الیکشن ختم ہوتے ہوتے عام آدمی پارٹی کے ممبر اسمبلی امانت اللہ خان کی تُو تڑاک کے چرچے چاروں طرف ہو رہے ہیں۔

میاں کچھ تو لحاظ رکھیے

رمیش بدھوڑی پرانا بدتمیز ہے۔چند مہینوں پہلے پارلیمنٹ ہاؤس میں اس کی بدتمیزی کو دنیا نے ٹی وی پر دیکھا، مگر بھاجپا میں بدتمیزی کرنا ترقی کی سیڑھی مانا جاتا ہے اس لیے بھاجپا نے اس بدزبان لیڈر کو دلی کی وزیر اعلی آتشی سنگھ کی ہائی پروفائل سیٹ سے امیدوار بنا کر عوام کو سیدھا میسج دیا ہے کہ ہمارے یہاں بدتمیزی سزا نہیں انعام کا سبب ہے۔اس لیے بھاجپا سے شکوہ کیا کرنا؟ افسوس اس بات کا ہے کہ اوکھلا سے عام آدمی پارٹی کے ممبر اسمبلی امانت اللہ خان مسلسل ملک کے معروف سیاست دان اسد الدین اویسی کو تُو تڑاک، سے خطاب کر رہے ہیں۔امانت صاحب کو اس بات پر غصہ ہے کہ اویسی صاحب نے ان کی سیٹ پر اپنا امیدوار کیوں اتارا ہے۔ان کے بقول ایم آئی ایم امیدوار کے لڑنے کی وجہ سے بی جے پی جیت جائے گی !!

اگر امانت صاحب کی بات درست مان لی جائے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر ان کی پارٹی ہریانہ کا الیکشن لڑنے کے لیے کیوں گئی؟ جس کی وجہ سے کانگریس جیتا ہوا الیکشن ہار گئی۔
سماج وادی پارٹی نے مہاراشٹر میں امتیاز جلیل کے مقابلے الیکشن کیوں لڑا؟ جس کی وجہ سے امتیاز جلیل محض ہزار ووٹوں سے ہار گیے۔
اگر وہاں الیکشن لڑنا عام آدمی پارٹی اور سماج وادی پارٹی کا جمہوری حق تھا تو اسی طرح دلی میں الیکشن لڑنا اویسی صاحب کا جمہوری حق ہے، اُس وقت امانت میاں خاموش رہے تو اب تُو تڑاک کیوں کر رہے ہیں؟

ایک طرف امانت اللہ خان کہتے ہیں کہ اوکھلا میں بھارت کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ لوگ رہتے ہیں لیکن اویسی صاحب جیسے معزز لیڈر کے متعلق ان کی بد زبانی ان کے ہی دعوے پر سوالیہ نشان لگاتی ہے؟

سیاست کے بھی آداب ہوتے ہیں !!

سیاست کے بھی اپنے کچھ آداب ہوتے ہیں۔نظریاتی مخالفت کے باوجود راہل گاندھی اور وزیر اعظم مودی ایک دوسرے کا لحاظ کرتے نظر آتے ہیں۔سخت سیاسی مخالفت کے باوجود یوگی آدتیہ ناتھ ملائم سنگھ کی خیر خیریت کے لیے ان کے گھر جاتے ہیں۔

سیاسی حریف ہونے کے باوجود ملائم سنگھ اپنے پوتے کی شادی میں نریندر مودی کو بلاتے ہیں۔

لیڈران سیاسی الزامات لگاتے ہوئے بھی آپ، شریمان، صاحب جیسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں لیکن امانت اللہ صاحب نے دلی کی ساری تہذیب اور زبان دانی کو بٹلہ ہاؤس کے کوڑے دان میں پھینک دیا ہے۔
جو سیاسی احترام اغیار ایک دوسرے کے لیے دکھاتے ہیں۔یا خود ہمارے لیڈران دوسروں کے لیے دکھاتے ہیں، کیا ہمارے لیڈران ایک دوسرے کے لیے اتنا احترام بھی نہیں دکھا سکتے؟

اویسی صاحب کوئی گلی محلے کے نیتا نہیں ملک کے معروف اور قد آور لیڈر ہیں۔مسلسل پانچ بار سے پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔بہترین رکن پارلیمان کا اوارڈ جیت چکے ہیں۔ان کی قانون دانی اور سیاسی حاضر جوابی کے اپنے بیگانے سبھی قائل ہیں۔ایسے محترم لیڈر کے متعلق ایسا گیا گزرا لہجہ کہیں نہ کہیں امانت اللہ صاحب پر ہی سوالیہ نشان لگاتا ہے۔
اویسی صاحب نے خود پر سیاسی تنقید کے باوجود اس وقت اعظم خان کے لیے آواز اٹھائی تھی جب خود ان کی پارٹی خاموش تھی۔لیڈر چاہے عتیق احمد، مختار انصاری، ڈاکٹر شفیق الرحمان برق، یا ڈاکٹر شہاب الدین جیسے سینئر ہوں یا ضیاء الرحمن برق جیسے نوجوان، اویسی صاحب نے آج تک کسی مسلم لیڈر کے خلاف نازیبا تبصرہ نہیں کیا، ہمیشہ انہیں احترام و لحاظ سے یاد کیا، ان کے لیے آواز بلند کی، ایسے مہذب اور سنجیدہ لیڈر پر تنقید بھی کی جائے تو کم از کم سیاسی لحاظ تو برقرار رہنا ہی چاہئیے۔

دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں

Exit mobile version