ازقلم: محمد عمر فراہی
کچھ لوگ اتنے بدقسمت ہوتے ہیں کہ انہیں خوش ہونے کیلئے سب کچھ میسر ہوتا ہے مگر وہ پھر بھی اللہ کی اس نعمت سے اس لئے محروم ہوجاتے ہیں کہ وہ اپنے گھر خاندان اور بچوں کے علاوہ دوسروں کو خوش دیکھنا پسند نہیں کرتے یا انہیں پریشانی میں مبتلا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔اسلامی زبان میں اسے حسد کرتے ہیں ۔دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ دکھ سکھ یا خوشی کا اصل تعلق انسان کے تن سے نہیں من سے یعنی اس کی اپنی سوچ سے ہوتا ہے ۔کبھی کبھی محلوں اور کوٹھیوں میں رہنے والے اتنے مسائل میں الجھے ہوتے ہیں کہ انہیں سب کچھ تو میسر ہوتا ہے مگر وہ بھی خوش ہونے کے مواقع تلاش کرتے ہیں اور اکثر ذہنی سکون حاصل کرنے کیلئے شہروں سے گاؤوں اور پہاڑی علاقوں کی سیرو تفریح کیلئے نکلتے ہیں ۔ جبکہ گاؤں اور کٹیوں میں رہنے والے جنھیں ہم سمجھتے ہیں کہ بہت بے فکری کی زندگی گزارتے ہیں اور خوشحال ہیں وہ بھی کہیں نہ کہیں گاؤوں سے شہروں کی طرف منتقل ہونے اور پکی عمارتوں میں رہنے کا خواب دیکھتے ہیں ۔ اس کا مطلب انسان کی خوشی کا راز جسمانی طور پر حاصل اور لاحاصل وسائل سے زیادہ اس کی سوچ پر منحصر ہوتا ہے اور انسان اصل میں ذہنی اور روحانی سکون کا متلاشی ہوتا ہے !
مطلب صاف ہے کہ انسان کی اصل خوشی اور غم کا تعلق اس کے ذہن اور روح سے ہوتا ہے جسے وہ صرف محسوس کر سکتا ہے دیکھ۔ نہیں سکتا مگر یہ بھی دنیا کی بڑی سچائی ہے کہ وہ اپنے وقت اور جدوجہد کا جو بڑا حصہ مادی وسائل اور ترقی پر صرف کرکے پوری زندگی برباد کر دیتا ہے اس جدوجہد سے وہ حقیقی سکون کبھی نہیں حاصل کر پاتا !