Site icon

اقبال کا شاہین اور ملت کی قیادت​

اقبال کا شاہین اور ملت کی قیادت

محمد عمر فراہی

اقبال نے اگر شاہین کی بات کی تو کرگسوں کے ساتھ پروش پانے والے ہم شکست خوردہ شاہینوں نے اسے صرف جہاد اور قتال ہی سمجھ لیا ۔کوئی تصور مدینہ کی بات کرے تو ہم اسے ہجرت ہی سمجھ لیتے ہیں ۔یہ سوچ غلط ہے ۔اقبال کا شاہین ایک خوددار، غیرت مند اور بیدار مغز پرندہ ہے ۔جیسا کہ وہ کہتے ہیں :

پرواز ہے دونوں کی مگر ایک فضا میں 

کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور 

 تصور مدینہ سے مراد ایک فلاحی ریاست ہے ۔انسانوں کی فلاح لوگوں کے درمیان عدل وانصاف اور امن کی فضا قائم کئے بغیر ممکن نہیں اور عدل ایک طاقتور صالح جماعت اور ریاست کے بغیر محض شیخ چلی کے خواب جیسا ہے کیوں کہ اللہ نے ابلیس کے نام سے شر کو آدم کی تخلیق سے پہلے ہی پیدا کر دیا تھا اور وہ کبھی نہیں چاہتا کہ زمین پر امن قائم ہو ۔ شاہین کا تذکرہ آیا تو یہاں میں اپنے ساتھ گزرے ہوۓ دو واقعات کا ذکر کردوں کہ ایک بار میں اپنی بچی کو اسکول چھوڑکر واپس اسکول گیٹ کی طرف لوٹ رہا تھا تو اچانک اسکول کمپاؤنڈ میں اوپر سے ایک چیل نے مجھ پر حملہ کر دیا ۔میں نے تو کسی طرح اپنا دفاع کر لیا لیکن میں غور کرنے لگا کہ اس چیل نے حملہ کیوں کیا۔ابھی میں وجہ تلاش ہی کر رہا تھا کہ گیٹ پر موجود چوکیدار نے کہا کہ بابو جی چیل نے ناریل کے درخت پر بچہ دیا ہے ۔وہ ہر نئے آنے والے شخص پر جو اس درخت کے نیچے سے گزرتا ہے حملہ کرتی ہے ۔میں نے کہا لیکن درخت تو تقریباً ساٹھ ستر فٹ اونچا ہے کوئی آدمی اس بلندی پر جاکر اس کے بچے کو نقصان کیسے پہنچا سکتا ہے ۔میں نے کہا کیا یہ چیل درخت پر ہی تھا اس نے کہا نہیں وہ سامنے کی عمارت  پر بیٹھ کر نگرانی کرتا ہے اور اس نے ابھی  وہیں سے آکر آپ پر حملہ کیا ہے ۔

چیل کے اس حملے سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ وہ اپنے بچوں کے تحفظ کیلئے کتنا سنجیدہ اور دوراندیش ہے ۔اس نے دشمن کے دروازے تک پہنچے  سے پہلے ہی اپنے تحفظ کا بندوبست کر رکھا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ دشمن اس کی سرحد کے قریب سے بھی گزرے ۔شاید اسی لئے وہ چھوٹے چھوٹے حملوں سے اپنے دشمن کو خوفزدہ بھی کرتا رہتا ہے ۔ایک دوسرا واقعہ جو کچھ سات  سال پہلے میرے ساتھ  گجرات میں ایک  شادی سے لوٹتے ہوۓ پیش آیا وہ یہ کہ میں جس آٹو رکشہ سے آرہا تھا وہ راستے میں ہی حادثے کا شکار ہو گیا ۔ساتھ  میں اہلیہ بھی تھیں وہ دیگر مسافروں کے بیچ میں ہونےکی وجہ سے صاف بچ گئیں میں  کنارے پر ہونےکی وجہ سے زمین پر کسی پتھر سے ٹکرا گیا اور سر میں چوٹ آئی ۔وہیں بے ہوش ہو گیا ۔راہگیروں نے سب کو باہر  نکالا اور  ایمبولینس بلائی ۔ایمبولینس بمشکل دس منٹ میں حادثے کی جگہ پر پہنچ گئی ۔جس اسپتال میں پہنچا انہوں نے فوراً سٹی اسکین کیلئے مجھے مشین میں ڈال دیا اور انھیں فوری طور پر مجھے جو دوا وغیرہ دینا تھا وہ دینا شروع کردیا ۔کوئی چار پانچ گھنٹے کے بعد میں ہوش میں تو آگیا لیکن سر کو تھوڑا بھی جنبش دیتا تو چکر کھا کر گرجاتا۔ڈاکٹر  نے کہا آپکو تقریباً تین  مہینے تک ایسا ہوتا رہے گا ۔میں نے کہا کیا میں گھر جاسکتا ہوں ۔ڈاکٹر نے کہا اگر ہمت کرسکتے ہیں تو ہم کچھ دوائیاں لکھ دیتے ہیں آپ گھر پر ہی جاکر آرام کریں ۔ہاسپٹل سے نکلنے سے پہلے ہاسپٹل کا پیسہ ادا کرنے کیلئے اخراجات کی بل مانگی گئی تو بل دیکھ کر حیرت ہوئی ۔حادثے کے مقام سے ایمبولینس کے ذریعے ہاسپٹل لانے اور سٹی اسکین کے علاوہ دواؤں اور بیڈ کا جو خرچ پیش کیا گیا وہ صرف تین ہزار روپئے تھا ۔اگر یہی حادثہ ممبئی یا مہاراشٹر کے قریب ہوا ہوتا تو پرائیویٹ اسپتال پچاسوں ہزار کی بل بنا دیتے لیکن گجرات میں آج بھی ایسے اسپتال ہیں جہاں بائی پاس سرجری جس کا خرچ ممبئی میں چار سے پانچ لاکھ آتا ہے وہاں ایک لاکھ روپئے میں ہو جاتا ہے ۔خود ممبئی میں بھی جو ٹرسٹ کے اسپتال ہیں وہاں آج بھی پرائیویٹ اسپتال کی بنسبت آدھے پیسے میں علاج ہو جاتا ہے ۔جوگیشوری ممبئی میں ملت اسپتال کسی حد تک غریب مریضوں کو راحت پہچا رہا ہے ۔

گجرات کے اس حادثے اور رضاکارانہ بنیاد پر قائم کئے گئے اس  ہاسپٹل کے بعد مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ یہ کام تو شاہینوں کا تھا ۔یہ کام تو ان لوگوں کا ہے جو لوگوں میں اسلام کی دعوت پیش کر رہے ہیں ۔اسلام کی دعوت کا اصل نصب العین تو کرہ ارض کو فساد سے پاک کر کے لوگوں کو امن چین اور راحت کا ماحول پیدا کرنا ہے ۔یہ کام بغیر کسی فلاحی ریاست کے ممکن بھی نہیں ۔ مگر یہ بھی ہے کہ جب مسلمانوں کے علماء آسانی کے ساتھ بغیر سیاسی طاقت ,ریاست اور طاقتور فوج کے مسجدوں اور مدرسوں کے متولی بن کر صرف تحریر و تقریر ، بیانات اور خطبات سے امیرالھند ، امام الہند ، شیخ الہند اور فضیلتہ الشیخ کا لقب حاصل کر سکتے ہیں تو پھر اتنا جوکھم پالنے کی بھی کیا ضرورت ہے !!

Exit mobile version