Site icon

یونیفارم سوِل کوڈ پر لاء کمیشن کی پسپائی

Masoom Muradabadi

معصوم مرادآبادی

لاء کمیشن آف انڈیانے یونیفارم سول کوڈ پر رائے شماری کی مدت میں دوہفتہ کی توسیع کردی ہے۔ اس سے قبل اس نے14جون کو جاری نوٹیفیکیشن میں اس کام کے لیے ایک ماہ کی معیاد مقرر کی تھی مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لاء کمیشن کو اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔اسی لیے اب اس کی معیاد دوہفتہ بڑھاکر 28جولائی مقرر کی گئی ہے۔ یہ تاریخ بھی حتمی ہے یا نہیں ، کہنا مشکل ہے کیونکہ اس معاملے میں عوام کی سردمہری کچھ اور کہانی بیان کرتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ایک ماہ کی مدت میں اس پرمثبت یا منفی رائے دینے والوں کی تعداد پچاس لاکھ سے آگے نہیں بڑھ سکی۔140کروڑ باشندوں کے ملک میں پچاس لاکھ لوگوں کی جووقعت ہے اس کا آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔ مرکزی حکومت نے یہ تاثر قایم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی کہ یونیفارم سول کوڈ ہی اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اس کے نافذ ہوتے ہی ملک کو درپیش تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔یہاں تک کہ ملک میں یونیفارم سول کوڈ پر ماحول کو گرم رکھنے کے لیے گودی میڈیا کے ایک چینل نے یہ سفید جھوٹ بولا کہ ملک میں مسلم خواتین کی 67فیصد آبادی یوسی سی کی حمایت کررہی ہے۔جبکہ حقیقت یہ تھی کہ12ویں لاء کمیشن نے جب یونیفارم سول کوڈ کا معاملہ اٹھایا تھا تو اس وقت جن چار کروڑ 83 لاکھ مسلمانوں نے کمیشن کو میمورنڈم سونپ کر اس کی شدید مخالفت کی تھی، ان میں دوکروڑ 80 لاکھ مسلم خواتین شامل تھیں۔یہی وجہ ہے کہ2018 میں لاء کمیشن نے اس کام سے یہ کہتے ہوئے اپنے ہاتھ کھینچ لئے تھے کہ ”ملک کے موجودہ حالات میں یونیفارم سول کوڈ نہ تو ضروری ہے اور نہ لوگ اس کے خواہش مند ہیں۔“ لیکن حکومت نے اپنی سیاسی ضرورتوں کے تحت لاء کمیشن کو پھر اسی کام پر ڈال دیا جس سے وہ پہلے ہی تائب ہوچکا تھا۔


لاء کمیشن کے سروے کے دوران اپوزیشن کے جن قائدین نے یو سی سی کی شدید مخالفت کی ان میں تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن اور کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدا رمیا بھی شامل ہیں۔ انھوں نے لاء کمیشن کو خط لکھ کر کہا کہ یونیفارم سول کوڈ ملک کے متنوع سماجی ڈھانچے کے لیے سنگین خطرہ ہے۔اس سے نہ صرف شہریوں کے حقوق پر منفی اثرات مرتب ہوں گے بلکہ ملک کی سیکولر اقدار پر بھی اس کا تباہ کن اثر پڑے گا۔ اسی طرح کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدا رمیا نے کہا کہ وہ اپنی ریاست میں کسی بھی طور یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔انھوں نے دستور کی دفعہ 25کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ”ہر شہری کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کا حق ہے۔کسی بھی مذہب کی تعلیمات کو ان کی مرضی کے خلاف افراد پر مسلط نہیں کیا جاسکتا۔“ان بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ یوسی سی کے نفاذ پر ملک میں زبردست اختلاف رائے ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اس معاملے میں خود اپنے کاندھوں پر کوئی ذمہ ذمہ داری نہیں لی اور سب کچھ لاء کمیشن اور عام شہریوں کو سونپ دیا۔ اگر حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہوتی اور اس کے دماغ میں کچھ ہوتا تو وہ سب سے پہلے یو سی سی کا مسودہ عوام کے درمیان رکھتی اور لوگوں سے ان کی رائے طلب کی جاتی، مگر ایسا کرنے کی بجائے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی ذمہ داری خود ان لوگوں کے سپرد کردی گئی جو زبردست مہنگائی، بے روزگاری، سیلاب، بھوک اور لاچاری سے لڑرہے ہیں اور جن کے سامنے زندہ رہنے کے امکانات معدوم ہوتے چلے جارہے ہیں


آئین سازاسمبلی میں اس موضوع پر جب طویل بحث ومباحثہ ہوا تھا، اس وقت ملک کو نئی نئی آزادی ملی تھی اور تقسیم کی وجہ سے ملک بدترین فرقہ وارانہ تقسیم کا شکارتھا۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے آئین سازوں نے یہ کام کسی ایسے وقت کے لیے اٹھا رکھا تھا جب ملک میں حالات سازگارہوں اور لوگ فرقہ وارانہ عصبیتوں سے پاک ہوچکے ہوں، لیکن یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی حالیہ بحث اور تیاری ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے جب ملک میں تقسیم کے دنوں سے زیادہ مسموم ہوائیں چل رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یو سی سی پوری طرح فرقہ وارانہ موضوع بن گیا ہے۔ مسلمانوں کو محسوس ہورہاہے کہ یونیفارم سول کوڈکا نفاذ دراصل ان کی مذہبی شناخت مٹانے کی سازش ہے۔جن لوگوں نے آزادی کے وقت ملک کے اندر یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی خواہش ظاہر کی تھی، وہ اس کے خطرات سے بھی آگاہ تھے، اسی لیے انھوں نے اسے محض خواہش تک ہی محدود رکھا اور اس کے نفاذ کا جوکھم نہیں اٹھایا، لیکن موجودہ حکومت جس نے اپنے نوبرس کے اقتدار میں صرف اور صرف مسلمانوں کو ہی دیوار سے لگانے کا کام کیا ہے، جب بھی کسی بڑی مصیبت میں ہوتی ہے تو ان ہی کو نرم چارے کی طرح استعمال کرتی ہے،لہٰذا جب 2024کے عام انتخابات کی تیاریوں کے لیے اپوزیشن نے کمرکس لی ہے تو اسے اپنے پیروں تلے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہورہی ہے اور وہ اپنا اقتدار بچانے کے لیے آزمودہ فرقہ وارانہ ایجنڈے کی طرف واپس آگئی ہے۔


حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یو سی سی پر ریفرنڈم کرانے کے لیے لاء کمیشن نے جو طریقہ کار اختیارکیا ہے، وہ انتہائی ناقص اور غیر تکنیکی ہے۔ اس ملک میں اسمبلیکا ممبر منتخب کرنے کے لیے بہت پہلے سے ایک ووٹر لسٹ تیار ہوتی ہے جس کی تصدیق الیکشن کمیشن تمام احتیاطوں کے ساتھ کرتا ہے، لیکن کسی ووٹر لسٹ اور رائے دہندگان کی تصدیق کے بغیر یوسی سی پر رائے شماری کا عمل شروع کردیا گیا اور اسی پر یو سی سی کے نفاذیا عدم نفاذ کا فیصلہ بھی منحصر کردیا گیا۔
سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت پورے ملک میں یو سی سی نافذ کرنے کی کوششوں کی سب سے زیادہ مخالفت مسلم حلقوں کی طرف سے ہورہی ہے اور اس معاملے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے محاذ کھول رکھا ہے۔تاوقت تحریر پرسنل لاء بورڈ کے لنک پر 35 لاکھ سے زیادہ میل جاچکے ہیں جن میں یوسی سی کے نفاذ کی مخالفت کی گئی ہے۔ اس معاملے میں بورڈ کے ذمہ داران جہاں ایک طرف سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں تو وہیں یو سی سی کے مخالف دیگر طبقوں کی بھی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بورڈ نے دیگر مذاہب کے رہنماؤں کے علاوہ مختلف قبائل کی نمائندگی کرنے والوں اور سماجی تنظیموں کو بھی اپنا ہم نوا بنانے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ جس کے بہتر نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ تمل ناڈو اور کرناٹک کے وزرائے اعلیٰ کا موقف بھی اسی کا نتیجہ ہے۔


یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے معاملے میں حکومت کی نیت صاف نہیں ہے۔ وہ اسے نافذ کرنے کی آڑمیں مسلمانوں کے عائلی قوانین کو ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ مسلمان اپنی مذہبی شناخت سے محروم ہوجائیں۔ سچ پوچئے تو یہ مسلمانوں کو ہندتو میں ضم کرنے کی ایک سو چی سمجھی اسکیم ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ جو دیگر طبقے اس کی مخالفت کررہے ہیں، انھیں اس سے مستثنیٰ قرار دینے کی کوشش ہورہی ہے۔اطلاعات کے مطابق مرکزی حکومت عیسائیوں اور قبائل کو یو سی سی کے دائرے سے باہر رکھنے پر غور کررہی ہے۔واضح رہے کہ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگ میں بی جے پی لیڈر سوشیل مودی نے یو سی سی کے دائرے سے شمال مشرقی علاقہ اور قبائل کو باہر رکھنے کی زبردست وکالت کی تھی۔درحقیقت بی جے پی کو یونیفارم سول کوڈ پر شمال مشرق اور قبائل کی طرف سے زبردست ردعمل کا خوف ہے۔ اس سلسلہ میں ناگالینڈ کے وزیراعلیٰ نے وزیرداخلہ امت شاہ سے ملاقات کی ہے۔انھوں نے وزیراعلیٰ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ مجوزہ یونیفارم سول کوڈ کے دائرے سے عیسائیوں اور قبائلی علاقوں کو مستثنیٰ رکھنے پر غور کیا جارہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ حکومت کے لیے ٹیڑھی کھیر ہے۔یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے بعد اب آرایس ایس بھی قبائل کے ردعمل سے خوفزدہ ہے اور اس نے لاء کمیشن پر زور دیا ہے کہ وہ عجلت میں اپنی رپورٹ پیش نہ کرے۔

Exit mobile version