۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

سیل رواں

آزادی کی تاریخ سے ہر ایک کو واقف ہونا چاہیے

  محمد  قمرالزماں ندوی، استاد / مدرسہ نور الاسلام کنڈہ 

ہم خون کی قسطیں تو کئی دے چکے لیکن
اے خاک وطن، قرض ادا کیوں نہیں ہوتا

مٹی کی محبت میں۔ ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

سر کٹا دیا مگر ایسا نہیں کیا
ہم نے ضمیر و ظرف کا سودا نہیں کیا

   ہندوستان (کی تاریخ) میں دو دن کو قومی دن، اور قومی جشن کا درجہ حاصل ہے،ایک  پندرہ اگست جو آزادی کا دن ہے، اور دوسرا ۲۶ /جنوری ،جو یوم جمہوریہ کہلاتا ہے، جس دن ہندوستان کا آئین اور قانون نافذ ہوا تھا ۔ ان دونوں دنوں میں بلا فرق مذھب و ملت، قوم و ذات و برادری اور بلا امتیاز مسلک و مشرب ، ہندوستان کے سارے باشندے جشن اور خوشیاں مناتے ہیں اور مختلف انداز میں اپنی خوشیوں کا اظہار کرتے ہیں ۔ سرکاری ادارے ، نیم سرکاری ادارے،دانش گاہیں ،کالج و یونیورسٹی اور تمام  پرائویٹ ادارے اور انجمنیں، جمعیتیں اس دن ترنگا جھنڈا لہراتے (پہراتے) ہیں ۔ مدرسوں اور اسکولوں اور کالجیجز اور یونیورسٹیوں میں طلبہ قسم قسم کے اور رنگا رنگ ثقافتی پروگرام پیش کرتے ہیں اور اسلاف کی بے مثال اور انمٹ قربانیوں اور جانفشانیوں کو یاد کرتے ہیں ۔  

      ایسا نہیں ہوا تھا کہ آزادی کا یہ انعام بغیر کسی جد و جہد، قربانی اور جفاکشی کے ہمیں آزادی کا تحفہ اور انعام مل گیا ہو،پندرہ اگست کی رات کو عین بارہ بجے جب کے شمسی تاریخ بدلتی ہے، اگلا دن شروع ہوتا ہے آسمان سے کوئی فرشتہ تشت میں یہ تحفہ لے کر آیا ہو اور ہندوستان کے باشندہ کو دے دیا ہو ۔ ایسا ہرگز نہیں، یہ ملک طویل جدوجہد، قربانی و جفاکشی اور لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد آزاد ہوا ۔ ہندوستان کے ذرے ذرے چپے چپے اور بوٹے بوٹے پر ان شہیدان باوفا کے نقوش جاوداں ثبت ہیں ۔ 

ہمیں اس کا بھی اعتراف ہے اور اعتراف کرنا چاہیے کہ غدر کے بعد یعنی 1857ء کے بعد آزادی کی لڑائی میں برادران وطن ہمارے ساتھ شانہ بشانہ رہے ،وہ لڑائی میں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوئے ، لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ اس سے قبل آزادی کے لئے جو بھی کوششیں ہوئیں، ان میں ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کا کردار ،ان کی قربانیاں،انکا رول اور ان کے کارنامے کہیں زیادہ ہیں ۔ غدر کے بعد یعنی ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد مسلمان خاص طور سے انگریزوں کے ظلم و ستم کے نشانہ بنے اور انہیں چن چن کر قتل کیا گیا ۔ 

      اس کی صداقت کے لئے انگریز مورخ مسٹر ایڈورڈ ٹامسن کی یہ شہادت کافی ہے ۔ وہ اپنی یادداشت میں لکھتا ہے کہ ،،۱۸۶۴ء سے لے کر  ۱۸۶۷ء تک انگریز نے علماء کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ تین سال ہندوستان کی تاریخ کے بڑے المناک سال ہیں ،ان تین سالوں میں انگریزوں نے چودہ ہزار علماء کو تختئہ دار پر لٹکایا اور آگے لکھتا ہے کہ ۰۰ دلی کی چاندنی چوک سے لے کر خیبر تک کوئی ایسا درخت نہ تھا ،جس پر علماء کی گردنیں نہ لٹکی ہوں  ۔ 

تاریخ دہرانے سے زیادہ کچھ حاصل نہیں، اس موضوع پر مسلمانوں کے کردار پر بار بار گفتگو کرنا تحصیل حاصل ہوگا ۔

 لیکن آزادی کے بعد جس طرح یہاں کی تاریخ کو بدلنے اور مسلمانوں کی قربانیوں کو فراموش کرنے کی کوشش کی گئی اور تاریخ میں الٹ پھیر اور رد و بدل کرنے کی ناپاک کوشیش ہوئیں اور کی گئیں وہ ایک تلخ حقیقت ہے اور مسلمانوں کے لئے کڑوا گھونٹ ہے ۔

لیکن تاریخ عالم یہ شہادت دینے کے لئے کافی ہے کہ آزادی ہند قوم مسلم کی رہین منت ہے ۔ تاریخ مسخ کرنے کی ناپاک کوششوں کے بعد بھی یہ بات اس قدر روشن ہے، جیسے موسم گرما کا سورج ۔ اگر ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں نے قائدانہ کردار ادا نہ کیا ہوتا تو آزادی ایسا خواب ہوتی، جس کی کوئی تعبیر نہیں ۔ ایک بار پھر ہم اس حقیقت کو دھرائیں کے کہ اسلام نے ہمیں عدل و انصاف کا سبق سکھایا ہے، اس لئے ہم کبھی اس کے منکر نہیں کہ برادران وطن نے بھی تحریک آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، بلکہ 1857ء کے بعد وہ مسلمانوں کے شانہ بشانہ قدم ملا کر لڑے ہیں ۔ لیکن ہم کبھی اس پر راضی نہیں ہو سکتے کہ مسلمانوں کا حصہ جنگ آزادی میں کسی سے کم رہا ہے یا وہ کسی کے رہین منت رہے ہیں ۔ 

       لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے 77/ سال پورے ہورہے ہیں۔ اتنے عرصے بعد بھی ان ہندستانی مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے، جنہوں نے اس ملک کی مٹی کی محبت میں متبادل رہتے ہوئے بھی اپنی خوشی سے اپنا وطن مانا اور یہاں رہنا پسند کیا تھا۔ ملک کے لئے ان کی ہی وفاداری پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں، وہ بھی کس کے ذریعہ ،جن کا ملک کی آزادی میں سوسال تک پہلے جدو جہد میں کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ آج جو برسر اقتدار ہیں ان کے بزرگوں اور ان کے خیالات کے ماننے والوں میں شاید ایک یا دو نام بمشکل دکھائی دیتے ہیں، پوری تنطیم اور اس ذہنیت کے لوگ زیادہ تر انگریزوں کے لئے مخبری کیا کرتے تھے۔ اس دیش بھکت تنطیم نے آزادی کی لڑائی میں حصہ نہیں لیا اس پر سبھی تاریخ داں ایک ہیں اور اس بات پرمتفق ہیں۔

   غرض موجودہ دور میں ہندوستان کی تخت پر جو براجمان ہیں، ان کی اس ملک کی آزادی کے لئے چلی سیکڑوں سال کی جنگ میں کوئی حصہ داری نہیں ہے۔ اسکے علاوہ کانگریس، جو پچپن ساٹھ سال تک آزادی کے بعد یہاں حکومت کرتی رہی ، اس کی حصہ داری و قربانی تو بہت ہے، لیکن یہ کہنا قطعا صحیح اور درست  نہیں ہے کہ پوری جنگ آزادی اس کی رہین منت ہے، یعنی اسی پارٹی کی دین ہے۔ اس کی حصہ داری ۱۸۸۵ء کے بعد شروع ہوتی ہے، جو ۱۹۴۵ء تک آتے آتے اکثریت کی طاقت پر آندولن کو زبردستی ہائی جیک کرلیتے ہے۔ اور ملک آزاد ہونے کے بعد تاریخ کی کتابوں میں قصیدہ خوانی لکھوائی جاتی ہے۔ 

      آج ہم اور ملک کے سارے باشندے ستترواں جشن  (یوم آزادی) بڑے جوش و خروش سے منا رہے ہیں،اور مختلف انداز میں خوشیاں منا رہے ہیں ترنگا جھنڈا لہرا رہے ہیں ۔ اسلاف کی قربانیوں کا اعتراف اور اس کا تذکرہ کر رہے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ ہمارے نوجوانوں کو اور نئ نسلوں کو آزادی کی تاریخ بالکل یاد نہیں ہے اور اگر وہ اس بارے میں جانتے بھی ہیں تو ان کے پاس جو مواد ہے وہ محرف ناقص اور ادھورا ہے ۔  نئ نسلوں کی اس عدم واقفیت کہ ذمہ دار ہم بھی ہیں کہ ہم ان کو صحیح مواد فراہم نہیں کرتے ۔ مدرسوں میں آزادی ہند کی تاریخ نہیں پڑھاتے ، اس کو ہم نے نصاب میں شامل نہیں کیا ۔ تو بھلا بتائیے کہ انہیں کیسے معلوم ہوگا کہ سید احمد شہید ۔ مولانا اسماعیل شہید ۔ سراج الدولہ، مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، مولانا عبد العزیز ۔ مولانا عبد الرحیم ۔ ٹیپو سلطان شہید ۔ مولانا محمودحسن دیوبندی ۔مفتی صدر الدین آزردہ، بسمل عظیم آبادی، مولانا سید کفایت اللہ کافی مرادآبادی، مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی، سید شاہ وجیہ الدین منہاجی، شاہ بدر الدین قادری پھلواری، عبد القیوم انصاری، مولوی احمد اللہ، شیخ بھکاری، مولانا منظور احسن اعجازی، مولوی لیاقت علی، سرحدی گاندھی، علامہ کیفی چریا کوٹی،      مولانا سیوہاروی ۔ مولانا آزاد ۔ مولانا مدنی۔ مولانا  محمد علی جوہر   شوکت علی۔ حسرت موہانی ۔ فضل حق خیر آبادی ۔ سید سلیمان ندوی۔ ظفر علی خاں ۔ برکت اللہ خاں ۔ مولانا مظہر الحق ۔ مولانا عبد الباری فرنگی محلی۔ مولانا عبید اللہ سندھی۔ مولانا عطاء عطاء اللہ شاہ بخاری ۔ مولانا مغفوری۔ حکیم اجمل خاں۔  اور مولانا مختار انصاری، عنایت اللہ مشرقی،وغیرہ کون تھے اور ان کا آزادی کی لڑائی مین کتنا رول اور کردار رہا ہے؟؟۔ 

ضرورت ہے کہ ہم اپنے اسلاف کی قربانیوں سے خود واقف ہوں اور نئ نسل اور بردارن وطن کو بھی واقف کرائیں اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو کل ہندوستان کا نقشہ کیا ہوگا؟………………..  اس کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ 

     آج ضرورت ہے کہ ملک کی آزادی کے اتہاس اور تاریخ کو ہر زبان میں چھپوا کر نوجوان نسل اور آنے والی نسل کو آگاہ اور خبر دار کیا جائے اور بتایا جائے کہ یہ ملک سب کا ہے، کسی ایک مذہب، ذات، پارٹی کا نہیں ہے، نئی نسل کو معلوم ہونا چاہیے کہ مادر وطن کے لئے لاکھوں مسلمان مجاہدین نے کس طرح اپنی جان کی بازی لگائی اور آج کا ہندوستان انہیں سرفروش مجاہدین اور شہیدوں کی بے مثال قربانیوں کا پھل اور ثمرہ ہے۔ 

  جنگ آزادی کے مسلم مجاہدین پر مسلم مصنفوں نے کم لکھا ہے، غیروں نے تاریخ آزادی کو زیادہ مرتب کیا ہے۔ اور آج تو مسلم نوجوانوں کا حال یہ ہے کہ اپنی قوم کے شہیدوں کے نام تک نہیں جانتا ، یہ فلمی ستاروں اور کرکٹ کے کھلاڑیوں کے بارے میں تفصیل سے بتا سکتے ہیں، لیکن آزادی کی راہ میں قربان ہونے والے مسلمان شہیدوں کے بارے میں انہیں ذرا بھی علم نہیں۔ ۔ 

    ہمارا احساس ہے کہ جس قوم کی ماضی کی تاریخ اس کے سامنے نہ ہو ، اس قوم کا حال میں جینا بہت دشوار اور مشکل ہوجاتا ہے اور مستقبل کی تعمیر و ترقی کے لیے کوئی راستہ طے کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ اس لئے ہر قوم اپنے ماضی کی تاریخ ، اور ماضی کے سنہرے نقوش کی حفاظت کرتی ہے۔ لیکن افسوس کہ ہندوستانی مسلمانوں اور خاص کر مسلم دانشوروں نے اس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ نتیجے میں اپنا سب کچھ برباد کردینے کے بعد بھی مسلمانوں کی تاریخی حقیقت کو تاریخ کی کتابوں میں جو جگہ ملنی چاہیے تھی وہ نہیں ملی۔ 

        لیکن…………….سچائی چھپ نہیں سکتی، حقیقت کو بالکل دبایا نہیں جاسکتا، ان تمام سازشوں کے باوجود آج کچھ دیوانے ہیں جو حقائق کو سامنے لا رہے ہیں، تاریخ کو پھر کھنگال رہے ہیں، سچائیاں کھوج کھوج کر نکال رہے ہیں، امت کے یہ جیالے ہر طرح سے مبارک باد کے مستحق اور حق دار ہیں۔ ان نوجوانوں اور جیالوں کو یہ یقین ہے کہ 

قاتل نے  احتیاط سے  پوچھے تھے اپنے ہاتھ 

اس کو  خبر نہ تھی کہ،، لہو بولتا بھی ہے

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: