محمد علم اللہ، نئی دہلی
مہابھارت میں ایک کہانی آتی ہےـــراجاپریکشت کو تکشک ناگ نے کاٹ لیا اور راجا کا انتقال ہوگیا۔ پریکشت کا بیٹا راجا جنمے جے نے زمین سے ناگوں کو ختم کرنے کے لیےیگیہ کیا۔ ناگ یگیہ کی آہوتی میں زمین کے ہزاروں ناگ بھسم ہو گئے،جو اصلی مجرم ناگ تھا، وہ دیوراج اندرکے سنگھاسن کے نیچے چھپا ہوا تھااور زمین کے بے قصور ناگ جن میں کئی زہریلے بھی نہیں تھے، یگیہ میں بھسم ہو رہے تھے۔ اس کے بعد کئی داؤ پیچ کھیل کر ناگ یگیہ درمیان ہی میں روک دیا گیا۔ نتیجتاً تکشک ناگ کو بچا لیا گیا، اسی طرح ہمارے ملک میں بھی فسادات میں ڈسنے والے تکشک ناگ کو بچا لیا جاتاہے۔ زہر اور دانتوں سے عاری ناگ مارے جاتے ہیں۔
جب تک فرقہ پرستی کے تکشک کو تحفظ ملتا رہے گا تب تک ہندوستان سے فرقہ وارانہ فسادات، انتہا پسندی، دہشت گردی اور علیٰحدگی پسندی بھی ختم نہیں ہوگی۔ اس میں ہربار ہزاروں لاکھوں لوگ بھینٹ چڑھتے جائیں گے اور ملک کا یہ سنگین مسئلہ روز بہ روز بدتر ہوتا جائے گا۔
جے پور سے ممبئی جا رہی ٹرین میں ایک جنونی پولیس اہلکار کا تین نہتے اور معصوم مسلمانوں کو بلا اشتعال اور بلا جواز شہید کرنا، مقتول کی لاش پر کھڑے ہو کر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا ملک کی فرقہ وارانہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہی نہیں بلکہ عوام سے لے کر حکومتی اداروں، نیم فوجی اداروں یا خود فوج میں سرایت کرنے والے مسلم منافرت کے کینسر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ویڈیو میں تینتیس سالہ جنونی سی آر پی جوان چیتن سنگھ کو لاش پر کھڑے کہتے سنا اور دیکھا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں رہنا ہے تو مودی اور یوگی کو ووٹ دینا ہوگا۔
اس افسوس ناک خبر کے غم سے ملت ابھی نکل بھی نہ پائی تھی کہ میوات کے ضلع نوح سے فسادات کی خبریں آنی شروع ہوگئیں اور دیر گئے رات دہلی سے متصل ریاست ہریانہ کے گڑگاؤں میں گروگرام کی انجمن مسجد سیکٹر 57 کے امام، حافظ سعد کو ہندو انتہا پسندوں نے مسجد پر دھواوابول کر شہید کر دیا، اور عبادت خانے کو بھی آگ لگا دیا۔ جاں بحق ہونے والے نوجوان امام، حافظ سعید کا تعلق صوبہ بہار کے غریب گھرانے سے تھا اور وہ تین بہنوں سمیت گھر کا واحد سہارا تھے۔ ان کی ہمشیرہ کے بقول رات ساڑھے گیارہ بجے حافظ صاحب نے فون پر بتایا کہ لائٹ کاٹ دی گئی ہے اور مسجد کے باہر واچ مین سمیت پولیس کا دستہ پہرے پر تعینات ہے۔ لیکن رات بارہ بجے دو سو کے قریب حملہ آور مسجد میں داخل ہوئے اور حافظ سعد اور ان کے دو ساتھیوں پر ٹوٹ پڑے۔
ٹھیک اس سے چند دن قبل 25 جولائی کو، آسام کے موریگاؤں ضلع میں، صدام حسین اور پانچ مسلم دوستوں پر ایک ہندو ہجوم نے اس وقت حملہ کیا جب وہ کھیلوں کے ایک پروگرام سے واپس آرہے تھے اور بارش سے بچنے کے لیے ٹین کی کسی چھپر کے نیچے کھڑے بارش رکنے یا کم ہانے کا انتظار کررہے تھے۔ ہجوم نے ان پر گائے چوری کرنے کا الزام لگایا، لیکن متاثرین نے اس سے انکار کیا۔ صدام کو پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا گیا، اور دو دیگر زخمی ہوئے۔ پولیس پہنچی لیکن اگلی صبح تک انہیں بچانے میں ناکام رہی۔
ان سب واقعات کی ویڈیو کلپیں دیکھ کر یا ان کی تفصیلات پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں قانون نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی۔ منی پور سے لکرک ہریانہ تک ہر جگہ دہشت گردوں کا راج ہے اور وہ جیسا چاہ رہے ہیں، کر رہے ہیں۔ کوئی انھیں روکنے ٹوکنے یا پوچھنے والا نہیں ہے۔ شاید ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ سماج کی توجہ اصل مسئلوں سے ہٹانے کا یہ سب سے آسان ذریعہ ہے۔ ایسا کرنے سے عوام الگ الگ خیموں میں بٹ جاتے ہیں اور ان کی پوری توجہ اپنے فرقے کے مفاد کی جانب مبذول ہوجاتی ہے۔ مذہب کے نام پر سڑکوں پر تانڈو ڈانس کرتے ہندوتوا کی افیم کے نشے میں ان نوجوانوں کے پاس روز گار یا تعلیم کے مواقع اور مستقبل کے ارمان ہوتے تو بی جے جیسی فسطائی جماعت صوبائی اور مرکزی حکومتوں پر قابض نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ بھی کیسا بے رحم مذاق ہے کہ اس حوالے سے بی جے پی دعویٰ کرتی ہے کہ اس کے اقتدار میں آنے کے بعد فرقہ وارانہ فسادات میں کمی آئی ہے، میڈیا کے ذریعہ وقتا فوقتا اس کا پروپیگنڈابھی کیا جاتا ہے لیکن مستقل اس قسم کے واقعات اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ حکومت اپنی بات میں کتنی سچی ہے۔
مسلمان ان نفرت انگیز حملوں کا اصل ہدف بنے ہوئے ہیں لیکن کچھ حد تک عیسائی بھی اس نفرت کا نشانہ بنتے ہیں۔ سکھوں، دلتوں اور آدیواسیوں کو بھی مختلف وجوہ کی بنا پر تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ انتہائی کم تعداد میں ہونے کے باوجود،باہم متحد ہونے نیز اپنی جرات مندی کے سبب جہاں سکھوں کو اس طرح کے واقعات کا کم سامنا کرنا پڑتاہے یا یہ کہا جائے کہ سکھوں پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے شرپسندوں کو سکھوں کے جذبہ مدافعت اور مزاہمت سمیت بہت سے پہلوؤں کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے، وہیں سب سے بڑی اقلیت ہونے کے باوجود مسلمان اپنے داخلی انتشاراور فرقہ بندی کے سبب ان کے لیے لقمہ تر ثابت ہوتے ہیں۔ یہ واقعات یا تو متاثرین کے لیے باعث تشویش ہوتے ہیں یا پھر چند حساس اورانصاف پسند شہریوں کوتشویش میں مبتلا کرتے ہیں۔ ہندوستان کی عام اکثریت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک تحقیق کے مطابق نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو آف انڈیا کے بموجب، سال 2014 اور 2019 کے درمیان، ہندوستان نے ہر سال اوسطاً 82,406 فسادات دیکھے۔ اس عرصے میں فسادات کی کل تعداد 494,438 تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کی بدامنی کو روکنے اور ان کو کم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کو مؤثر طریقے سے نافذ نہیں کیاگیا۔ فسادات کے واقعات پر قابو پانے میں حکومت کی یہ ناکامیاں اور غیر مستحکم حالات ملک کے بارے میں تشویش پیدا کرتے ہیں۔
ملک کی سبھی سیاسی پارٹیاں ذاتی فرقہ واریت کی آگ کو مزید بھڑکانے میں گھی کا کام کررہی ہیں۔ اس لیے سماج ترقی کے راستے پر گامزن نہیں ہوپارہا ہے۔ چالاک ومکارسیاستداں عوام کی ذہنی حالت کو پرسکون کرنے کی غرض سے ہمیشہ کمیٹی بٹھاتے ہیں،کمیشن کی تشکیل کرتے ہیں۔ ان کمیشنوں اور کمیٹیوں کی تشکیل مجرمین کو سزا دینے کے مقصد سے نہیں، بلکہ عوامی غم وغصے یا تھوڑی بہت بین الاقوامی سطح پر ظاہر کی گئی وقتی تشویش کو فوراً ٹھنڈا کرکے حقیر سیاسی مفادات کی غرض کوپورا کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ اس لیے ہمارے ملک میں اب تک ایسی کوئی مثال نہیں ہے، جس سے کسی بھی سنگین جرم کے لیے تشکیل کردہ کمیٹی یا کمیشن کی سفارش پر مجرمین کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی ہو۔ اس سے کمیٹیوں اور کمیشنوں پر قومی سرمایہ بھی خرچ ہوتا ہے اور کوئی خاطر خواہ فائدہ بھی نہیں ہوتا ۔ اس کے پس پشت ایک اہم اور بنیادی سبب یہ ہے کہ کوئی سنگین جرم،خواہ وہ سیاسی، سماجی،فرقہ وارانہ،اخلاقی رذائل یا بدعنوانی سے متعلق ہو،اسے سیاسی پشت پناہی ضرور حاصل ہوتی ہے۔ اوپر سے مضبوط ہاتھ ہونے کے سبب عوام کی زبردست آواز بھی دب جاتی ہے۔ اس کو دبانے میں کمیشن اور کمیٹیاں معاون کردار اداکرتی ہیں۔ نتیجتاً مجرمین شہ پاکر آزاد گھومتے ہیں اور اگلی کارروائیکا پختہ منصوبہ بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے سرپرست متاثرین کے آنسو پونچھتے ہوئے اپنے گھڑیالی آنسو بہاتے ہیں۔ یعنی سرپرستی پانے والے لوگ آنسو نکلواتے ہیں اور سرپرستی کرنے والے آنسو پونچھتے ہیں۔ دونوں کی سرگرمیاں آنسووؤں پر مرکوز ہوتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ فسادات وجرائم کا لامتناہی سلسلہ کسی چکی کی طرح مستقل چلتا رہتا ہے۔ ان کییہ تیز وتند روانی کب رکے گی؟یہ سوال ہنوز برقرار ہے۔ کیوں کہ جب محافظ ہی حملہ آور بن جاتاہے تب محافظ اور حملہ آور کی صحیح پہچان نہیں ہوپاتی۔ ان ہی عوامل کے سبب مجرمانہ فطرت والے سزاپانے سے محفوظ رہتے ہیں۔ عدلیہ متاثر ہو جاتی ہے، عاملہ بدعنوان اور مقننہ خودغرض وموقع پرست ہوجاتی ہے۔ ملک وسماج بے سمتی کا شکارہوجاتاہے۔ نتیجتاً جرائم میں اضافہ ہونے لگتا ہے، فسادات برپا ہونے لگتے ہیں اور بدعنوانی پنپنے لگتی ہے۔ ہر طرف افرا تفری اور بدحواسیپھیل جاتی ہے، فی الحال ہمارا ملک ان ہی واقعات سے گزررہا ہے۔ اس صورت میں فسادکااختتام ہوتا کہیں بھی نظر نہیں آتا اور ملک مستقبل گہری تاریکی میں ڈوبا ہواہے۔
آج ترقی کا دور ہے۔ آستھا کی بنیاد پر کسی عبادت گاہ کا وجود ثابت کرنا اس سائنٹفک دور میں کوئی معنی نہیں رکھتا،لیکن ہمارے سیاسی لیڈرعوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے ان ہی بے معنی موضوعات کو ہوا دے رہے ہیں۔ جب کہ ترقییافتہ سماج کے لوگ نئی سوچ کے ساتھ خودکو آگے کی جانب بڑھا رہے ہیں۔ یہ ہمارے لیے شرم کی بات ہے کہ ہم ترقی کا راستہ چھوڑکر آج بھی تباہی کا راستہ اختیار کررہے ہیں۔ آج پوجااستھلوں کے لیے مرمٹنے کا زمانہ نہیں ہے۔ آج ملک کو اور خود کو ترقی کے راستے پر آگے بڑھانے کا وقت ہے۔ لیکن افسوس ہم مستقل دیکھ رہے ہیں کہ حصول آزادی کے بعد بھی مختلف قسم کی فرقہ پرستیوں کا بخار پھیلتا ہی جا رہا ہے۔
عجیب بدقسمتی ہے کہ ترقیاتی کاموں کے بجائے حکومتی بجٹ کا ایک حصہ بظاہرفرقہ وارانہ فسادات کی آگ کوٹھنڈا کرانے میں خرچ ہوتا ہے۔
برطانوی حکومت کے دور میں اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کی غرض سے انگریزوں نے ہندوستانی معاشرے میں پھوٹ ڈالنے کی غرض سے فرقہ پرستی کی تخم ریزی کی۔ آزاد ہندوستان نے ہر شعبے میں انگریزوں کی بنائی ہوئی پالیسیوں کی ہی پیروی کی، انگریزوں نے ‘پھوٹ ڈالو، راج کرو’ کی پالیسی اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے اختیار کی تھی۔ آزاد ہندوستان کی حکومتوں نے اسی پالیسی کو ووٹ کے ذریعے اقتدار ہتھیانے کے لیے نافذکیا ہے۔
افسوس اس ضمن میں مسلم قائدین کا رول -خواہ وہ مذہبی قائدین ہوں یا سیاسی قائدین—بہت مایوس کن رہا ہے۔ سیاسی قائدین تو اپنی پارٹی لائن سے ہٹ کر زبان کھولنے یا کچھ کرنے کی ہمت ہی نہیں رکھتے، رہے مذہبی قائدین تو وہ صرف ’تشویش‘ظاہرکرنے اور مذمتی بیان جاری کرنے سے زیادہ کچھ کرتے نظر نہیں آتے۔ دوسری طرف داخلی انتشاراور ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ بازی نے ملت کو توڑ کررکھ دیا ہے،جس کا احساس شرپسند عناصر کو بھی ہے۔ بین المذہبی فرقہ پرستی کے ساتھ اس داخلی فرقہ پرستی کو ختم کرنااور باہم متحد ہونا بھی بہت ضروری ہے، ورنہ صرف چیخنے چلانے اور ’تشویش‘ ظاہر کرنےسے مسئلہ توحل نہیں ہوگا، صورت حال مزید بگڑتی جائے گی بلکہ مسلسل تیزی کے ساتھ بگڑ رہی ہے۔