۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

SAILE RAWAN

سلیقہ نہایت ضروری ہے

مولانا ناصرالدین مظاہری، استاذ مظاہر علوم وقف سہارنپور

شہر تہذیب لکھنؤکے چارباغ ریلوے اسٹیشن کے بالکل سامنے ایک چوراہا ہے ،اس چوراہے سے امین آباد والی سڑک پرمیں خراماں خراماں چلاجا رہا تھا،میرے آگے آگے ایک نوجوان اسٹیشن کی طرف بڑھ رہاتھا، اس کے ہاتھ میں ایک شاپر تھاجس میں کیلے تھے، نوجوان کیلے نکال نکال کرکھاتا اورچھلکوں کو راستے پر ہی پھنکتاجارہا تھا، میں اس کے پیچھے پیچھے ان چھلکوں کو اٹھاتا جارہا تھا، لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے میں اس لڑکے کے پاس پہنچا وہیں چوراہے پر ایک ٹریفک  پولیس والا میرے اس عمل کومسلسل دیکھ رہا تھا،پولیس والے نے اس لڑکے کوروک لیا اورمجھ کومخاطب کرکے غصہ میں بولا کہ مولاناجی! اس کے کان کے نیچے زورسے دو لگاؤ! میں کہنے لگا کہ اس نسل کوسمجھانا ہی بے کار ہے ،یہ لڑکا کالج کا پڑھاہوا ہے،جہاں سلیقہ و تہذیب نہیں سکھائی جاتی ، جہاں بچوں کوزندگی گزرانے کاطریقہ نہیں بتایا جاتا، وہاں تو صرف دولت کمانے، فلمیں بنانے و دیکھنے اوربے راہ روی کی تعلیم دی جاتی ہے، تہذیب اور سلیقہ کی چیزیں تو گھر کے پرانے لوگوں کے پاس بیٹھنے سے، والدین کی مجلس میں رہنے سے حاصل ہوتی ہیں ، اب تو سرکاریں بھی بڑے بوڑھوں کے لئے ان ہی کے گھروں کے دروازے بندکرنے کے جتن کررہی ہیں،یعنی جب ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا وقت شروع ہوتاہے ان کے لئے ’’اولڈ ایج ہوم کھول‘‘ دئے گئے ہیں،ان کورٹائرڈ قرار دے دیا گیا ہے ، انھیں نکما اور کھوسٹ کہا جانے لگاہے ،ان کی باتوں کوناقابل قابل اعتناسمجھاگیا،یہ جیتے جی اپنے ہی گھرمیں’’ انگریزی تعلیم ‘‘ کی بدولت اجنبی ہوگئے، کاش انھیں مذہبی تعلیم دی جاتی توسمجھ پاتے کہ معاشرہ بھی کوئی چیزہے لیکن ان کی تعلیم تو کتے اوربلی سے ہی شروع ہورہی ہے توشرافت اورمروت کہاں سے آئے گی؟۔

پولیس افسرمیری گفتگومحویت سے سنتا رہا،اپناسرکھجاتارہااوربولا!آپ نے ایک ایک لفظ صحیح کہا،میں خوداپنے گھرمیں اجنبی بن گیا ہوں، بچے کہتے ہیں کہ تمہارا دماغ خراب ہوگیاہے، بہویں بات نہیں سنتی ہیں، میری بیوی اورمیں اپنے ہی گھرمیں ایک دوسرے کی سنتے اورسناتے بس زندگی کاٹ رہے ہیں۔

اچھے کام کے لئے ضروری نہیں ہے کہ جب دولت ہوتب ہی وہ کام کیاجائے ،یہ تواللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے ،ہمیں ہرحال میں اس کی تقسیم پرراضی رہنا چاہئے ،اسی میں ہمارے لئے بھلائیاں مقدر ہیں اور اگرہم اللہ تعالیٰ کی تقسیم پرراضی نہیں ہیں تویقین جانیں پریشانیاں مقدر ہیں۔ہم نے ماناکہ آپ صاحب نصاب نہیں ہیں اس لئے زکوۃ نہیں دے سکتے تو کیایہ نہیں ہوسکتا کہ آپ خالی ہاتھ ہی کسی بھی اسپتال پہنچ جائیں وہاں مریضوں سے ملیں،ان کا درد سنیں،ان کوہمت اورحوصلہ دلائیں، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ بس اڈوں،ریلوے اسٹیشنوں پرکسی مجبور مسافر کاسامان اٹھاکراسٹیشن کے باہرتک پہنچادیں،کیایہ ہوسکتا ہے کہ آپ گزرگاہوں پرپڑے ہوئے پتھر، مانجھا،رسیاں اورتکلیف دینے والی اشیاء اٹھاکر کنارے کردیں۔

کسی بھی تفریحی اورسیاحتی مقام پر چلے جائیں آپ دیکھیں گے لوگوں کے ہاتھوں میں کھانے پینے کی اشیاء ہیں لیکن کسی کے پاس ایک بھی تھیلی خالی نہیں ملے گی جس میں مستعمل چیزیں رکھ سکیں اورمناسب جگہ اسے ڈال سکیں،کتنے ہی لوگ ہیں جوکارکے شیشے اتاکرپانی کی خالی بوتل پھینک دیتے ہیں ان کا بالکل ہی دھیان نہیں جاتا کہ اس بوتل سےکسی موٹرسائیکل والے کوحادثہ پیش آسکتاہے،کیلے کے چھلکے، پلاسٹک کی تھیلیاں، پان ،گٹکھے اور پڑیا وغیرہ کی پچکاریاں کار سے باہر پھینک دیناعام بات ہے،یہ کم عقلی ہے ،غیرتربیت یافتہ ہونے کی دلیل ہے ،تہذیب اورسلیقہ صرف تعلیم سے نہیں آتابلکہ بڑوں کی صحبت میں بیٹھ کرحاصل ہوتاہے ۔عموماً دیکھا گیاہے کہ اللہ تعالیٰ’’ دولت مندوں‘‘ کو’’عقل مندوں‘‘ سے دور رکھتا ہے۔

کل صبح میں نے ایک ملازم سے پانی طلب کیا،وہ پانی اورجگ لے کرحاضر ہوگیا،مجھے خالی گلاس تھمادیا اور خود گلاس میں پانی انڈیلنے لگا ،حالانکہ یہ صاحب بلامبالغہ تیس سال  سے زائد عرصہ سے ملازم ہیں اورہمیشہ یہی کام کرتے رہے ہیں۔یہ سب غیر تربیت یافتہ ہونے کی باتیں ہیں ، پانی دینے والے کوچاہئے کہ پہلے پانی کا گلاس بھرے، پھرگلاس کواس اندازمیں پکڑے کہ اس کے قطرات نہ ٹپکیں، پانی کاگلاس اس کی مقررہ جگہ پررکھے،اگرگلاس رکھنے کے لئے کوئی ٹرے وغیرہ ہوتواور بہتر ہے، گلاس اگر ہاتھ میں دینا ہو تو خیال رکھناچاہئے کہ میز پر رکھے کاغذ،فائل یا کتاب اور کمپیوٹر کے کی بورڈ وغیرہ سے دور رہے تاکہ کسی بھی غلطی کی صورت میں یہ چیزیں محفوظ رہیں۔اگرپانی کاگلاس بھرکر میز پر رکھنے کا امرہوتو گلاس کو ڈھک کر رکھیں تاکہ مکھیوں غیرہ سے محفوظ رہے۔گلاس پیش کرتے وقت بھی گلاس اس اندازمیں پکڑے کہ سامنے والے کے لئے گلاس پکڑنے کی مناسب جگہ موجودرہے۔خیال رکھے کہ انگلیاں گلاس کے اس حصہ تک نہ جائیں جہاں ہونٹ لگنے ہیں کہ یہ بھی نفاست پسند طبیعتوں کے تکدر کا باعث ہے۔

حضرت مولانامحمدعبداللہ طارق دہلوی خود اپنا ایک واقعہ لکھتے ہیں :

 

حضرت مولانا محمد اسعد اللہ صاحب ناظم مظاہرعلوم  اپنے طلبہ کو سلیقہ وتہذیب وشائستگی بھی سکھاتے تھے ایک روز میں ان کے کمرے میں گیا دوپہرکا وقت گرمی کا موسم، حضرت نے فرمایا:’’ بیٹا پانی پلاؤ ‘‘ کمرے میں صراحی رکھی رہتی تھی اس کی لمبی گردن پرگلاس الٹارکھا رہتاتھا،میں نے گلاس میں پانی لیا اور جوچلاہوا معروف طریقہ ہے میں نے دونوں ہاتھوں سے گلاس پکڑکرپیش کیا،گلاس زیادہ لمبانہ تھا جب اوپرتلے دونوں ہاتھوں سے پکڑا توپوراہی گِھرگیا حضرت نے میری طرف غورسے دیکھااور فرمایا:’’بیٹا میں کہاں سے پکڑوں؟‘‘ سوال درست تھا!مگر میں بھی اس طرح نہ پکڑوں توکیا کروں؟ اس لئے کہ ادب یہی ہے کہ بزرگوں کوکوئی چیز دی جائے تودونوں ہاتھوں سے دی جائے،میں حضرت کے سوال پرخاموش رہاتوحضرت نے بتایاکہ اس طرح پکڑوحضرت نے گلاس رکھا اور چاروں انگلیوں اورانگوٹھے سے اسے پکڑا ،پھر دوسرا ہاتھ اس ہاتھ کے نیچے لگایا اورنیچے والے ہاتھ سے اوپروالاہاتھ پکڑا اور فرمایا ’’اس طرح پکڑکرپیش کرنا چاہئے‘‘ اب گلاس میں اوپر کافی جگہ پکڑنے کوباقی تھی۔

 تعلیم سے فراغت کے کئی سال بعد ایک بار میں نیاز حاصل کرنے حاضرہوا، تقریباً وہی گرمی کا موسم تھا میرے ساتھ شاید ایک دوآدمی اور بھی تھے،ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت گویاہوئے:

’’اگرحضرت مولانا صاحب کی شانِ اقدس میں بے ادبی نہ ہو تو کیا میں ایک گلاس پانی طلب کرسکتاہوں؟‘‘ 

میں اُٹھا اورصراحی سے پانی لیا ،گلاس وہی چھوٹے قدکاتھا میں نے اسی طرح ایک ہاتھ سے اسکاتلا پکڑا دوسرا ہاتھ اس ہاتھ کے نیچے لگایا اورپیش کیا اب پھرحضرت نے ذرا توقف کرکے میری طرف غورسے دیکھا میں سوچنے لگا کہ اب کی بارپتہ نہیں کیا غلطی ہورہی ہے، مگرغلطی نہ تھی بلکہ ان کے ذہن میں ایک سوال تھا:

حضرت نے پوچھا :بیٹا گلاس پکڑنے کا یہ طریقہ کہاں سے سیکھا؟

میں نے عرض کیا کہ حضرت میں جس زمانے میں یہاں پڑھتا تھا اورایک دن آپ کی خدمت میں حاضرتھا تومیں نے دونوں ہاتھوں سے گلاس پکڑکر پیش کیاتھا تو آپ نے فرمایاتھا کہ بیٹا میں کہاں سے پکڑوں پھرآپ ہی نے یہ طریقہ سکھایا تھا۔

حضرت نے فرمایا: آپ نے اس بات کو یاد رکھا؟ میں نے عرض کیا: حضرت بزرگوں کی خدمت میں سیکھنے کیلئے توآنا ہوتاہے ‘‘۔

 (مظاہرعلوم میں دورطالب علمی کی یادیں)

پانی پلانا بھی ضیافت اضیاف کا حصہ ہے،بہت سے لوگ پانی پلا کر بھی دل جیت لیتے ہیں مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے استاذ حضرت مولانا کفیل احمد زیدپوری تشریف لائے،میں نے مدرسہ مظاہرعلوم دکھایا،بزرگوں سے ملاقات کرائی،مہمان خانے میں قیام تھا،مولانا محمد یعقوب بلندشہری اچانک مہمان خانہ پہنچ گیے میں نے ملاقات اور تعارف کرایا،مولانا نے برجستہ فرمایا کہ مولانا جب تک یہاں رکیں ان  کے کھانے کا نظام میرے یہاں رہے گا چنانچہ پرتکلف ناشتہ و ظہرانہ ان ہی کے دولت کدے پر رہا،میں حضرت مولانا کفیل احمد کو دارجدید بھی لے گیا،حضرت مولانا سید محمد سلمان صاحب سے بھی ملاقات کرائی،مولانا سلمان صاحب تو اخلاق کا مجسمہ تھے اپنے ماتحت خادم سے فرمایا:

دیکھو!مولانا بڑی دور سے تشریف لائے ہیں ،بڑے مدرسہ کے مہتمم ہیں مولانا کے لیے شیشے کے صاف شفاف گلاس میں ٹھنڈا پانی لے آؤ!

حضرت مولانا کفیل احمد پر مولانا کے ان خوبصورت الفاظ کا اتنا اثر ہوا کہ زندگی بھر مولانا کے حسن اخلاق کو یاد کرتے تھے، جب بھی ملاقات ہوئی تو مولانا محمد یعقوب بلندشہری اور مولانا سید محمد سلمان صاحبان  کی خیریت و عافیت ضرور معلوم کرتے اورغائبانہ دعاؤں سے نوازتے تھے اور کئی بار فرمایا کہ کسی بڑے پروگرام میں مولانا محمد یعقوب کو مدعو کروں گا۔

قمرؔ افشاں چنی ہے رخ پہ اس نے اس سلیقہ سے

ستارے آسماں سے دیکھنے کو آئے جاتے ہیں

کلیم عاجز نے کتنا خوبصورت شعر کہاہے:

بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیمؔ

بات کہنے کا سلیقہ چاہئے

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: