تحریر: سید محمد ازھر شاہ قیصر رحمۃ اللہ علیہ
سب کہاں کچھ لالۂ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
انگریزوں کا دورِ حکومت اس اعتبار سے تو ہمارے لئے بڑا تکلیف دہ تھا کہ ان کے دور حکومت کے سو سال میں ہم ان کی غلامی میں دبے رہے اور ہمارے ہاتھ پائوں کچھ اس طرح بندھے رہے کہ نہ ہم اپنے دماغ سے سوچ سکتے تھے اور نہ ہمارے ہاتھ پائوں آزاد تھے کہ کچھ کرسکتے، لیکن اس دور غلامی کے شر سے ایک خیر بھی پیدا ہوئی اور وہ یہ کہ انگریزوں کے جور و تشدد اور مکارانہ ڈپلومیسی نے ہندوستان میں مسلمان اور ہندوئوں میں بڑے بڑے شاعر، مقرر، خطیب، قومی رہنما، اونچے درجے کے علماء اور ایثار پیشہ کارکن غیر معمولی تعداد میں پیدا کیے۔
قاعدہ ہے کہ انتہائے ظلم سے بغاوت اور درد جب حد سے گذر جاتا ہے تو اس کی دوا پیدا ہوجاتی ہے، یہی کیفیت اس دور میں رہی کہ انگریزوں نے ہندوستانیوں کی ذہنی صلاحیتوں اور دماغی قابلیتوں کو جتنا دبانا چاہا تھا یہ صلاحیتیں اتنی ہی ابھریں، اتنی ہی بڑھیں اور پھیلیں اور ان سب نے متحدہ محاذ بنا کر انگریز پر پے درپے ایسے شدید حملے کئے کہ اس قوم کو جس کی حدود سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا، گمنامی و ناکامی کی گہرائیوں میں ڈوب جانا پڑا۔
اس دور کی ایک خاص شخصیت مرحوم مولانا حفظ الرحمن کی تھی جو رہنے والے سہوارہ ضلع بجنور کے تھے مگر ان کی زندگی کا بڑا حصہ دیوبند میں گذرا، وہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل، مشہور عالم و محدث حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کے شاگرد تھے، ان کی طالب علمی کا زمانہ بھی دیوبند میں گذرا، پھر دارالعلوم کے استاذ کی حیثیت سے بھی ان کا یہاں قیام رہا. اخیر میں کم و بیش بیس سال تک وہ دارالعلوم کی مجلس شوریٰ کے رکن اعلیٰ رہے اور ان رشتوں اور تعلقات میں ان کے بہت سے شب و روز دیوبند میں بسر ہوئے۔
مرحوم بلا کے ذہین، حاضر دماغ، حاضر جواب، مردم شناس، معاملہ فہم، بہترین مجوز و مقرر اور عمل و جدوجہد کے محاذ پر ایک کامیاب سپہ سالار تھے، مختلف نظریات و عقائد کے افراد کو ایک جگہ جمع کرنا اور سب کی خواہشات و افکار پر بڑے تدبر کے ساتھ کنٹرول کرکے انہیں اپنے ڈھب پر لے آنے اور اپنے کاموں پر لگا لینے کا انہیں سلیقہ تھا۔
اپنوں سے ان کے یہاں لڑائی کا کوئی میدان نہیں تھا اور ان کی شخصیت اتحاد باہمی کا ایک نشان تھی، ان کا کہنا تھا کہ: ’میں قینچی نہیں جو کاٹنا جانتی ہے بلکہ میں تو سوئی ہوں جسے کپڑے کے مختلف ٹکڑوں کو سی کر ایک دوسرے سے ملا دینے کا کام آتا ہے۔
ان کا یہ جملہ ان کی پوری زندگی کا صحیح تعارف تھا، واقعی وہ ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے اور منتشر افراد کو ایک جگہ جمع کردینے کے ماہر تھے، حاضر دماغ اس درجہ کے کہ ادھر آپ نے بات شروع کی، ادھر وہ سمجھے اور انہوں نے ترشا ترشایا جواب دیا، دھاں دھاں کرکے بولتے تھے اور اتنے تیز بولتے تھے کہ بعض وقت تیزی سے بولنے اور درمیان میں سانس نہ لینے کی وجہ سے ان کا چہرہ سرخ ہوجاتا اور گلے کی رگیں پھول جاتی تھیں مگر اتنا تیز بولنے کے باوجود یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ مولانا کی زبان سے کوئی غلط بات، کوئی غلط جملہ نکل جائے۔
ملک کے سچے خادم، پکے جاں نثار، ملکی مفاد کے بے لوث محافظ، ان کی جوانی کے خبر نہیں کتنے سال آزادیٔ وطن کی خاطر جیل میں گذرے. مظلوم مسلمانوں کے غم خوار، 47.ء کے فسادات میں نہ صرف دہلی بلکہ سارے ملک میں مسلمانوں کی حفاظت، اجڑے ہوئے مسلمانوں کی آبادکاری اور لٹے ہوئے قافلوں کے قدم جمانے کے لئے ان کی خدمات تاریخ کا ایک حصہ ہیں جنہیں کوئی بھی مؤرخ بھلا نہیں سکتا۔
بیسیوں قومی، دینی، تجارتی اور رفاہی اداروں کے رکن بلکہ سرپرست تھے، سب کے کاموں پر نظر رکھتے، عملی طور پر سب کو مدد پہنچاتے اور سب کے قیادت و رہنمائی کے حقوق ادا کرتے تھے۔
ذاتی طور پر بے حد ملنسار، نرم دل، خوش خلق، ہنس مکھ، یاروں کے یار اور دوستوں کے دوست تھے. انہیں غصہ بہت جلد آتا تھا مگر جتنی جلدی آتا اسی طرح آندھی بگولے کی طرح جلدی نکل جاتا تھا، خوراک بہت کم اور سادہ، لباس معمولی مگر صاف ستھرا، قد لمبا ہونے کے باوجود کچھ ایسا دل فریب کہ شاعر کے اس شعر کے مصداق نظر آتے تھے:
سو چمن ندرت کسی کے قد رعنا پر نثار
سرو گلشن اور ہے سر و خراماں اور ہے
داڑھی گھنی، ہاتھ پائوں طویل، تقریر شستہ و رفتہ، تحریر سادہ مگر دل کشا، گفتگو مؤثر، غصہ دل فریب، پیار و محبت کا انداز غیر مصنوعی۔
وہ اپنے بڑوں کی بارگاہ میں پوری طرح مؤدب، چھوٹوں پر شفیق، امیروں کی مشکلات میں ان کے شریک حال، غریبوں کے دکھ درد کے ساتھی، عمل اور کام کا جذبہ اتنا زیادہ تھا کہ اپنے رضاکاروں اور والنٹروں کے ساتھ معمولی کاموں میں حصہ لیتے تھے۔
سب ہی لوگوں کو وہ منظر اب تک یاد ہوگا کہ صدر جمہوریہ کی آمد پر دارالعلوم کے بڑے ہال میں عصرانہ تھا، سینکڑوں بڑی حیثیتوں کے لوگ یہاں موجود تھے مگر مولانا کھانے کی چیزوں کی طشتریوں اور چائے کے سیٹ لپک لپک کر مہمانوں کے سامنے پہنچا رہے تھے، ان میں بالکل اس کا احساس نہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے نمائندہ اور قومی جماعت کے سکریٹری، پارلیمنٹ کے ممبر اور ممتاز قومی رہنما ہیں۔
حضرت شاہ صاحب کی صاحبزادی کو اپنی موٹر میں اسٹیشن سے گھر پر اپنے ساتھ لائے، راستہ میں سڑک پر لکڑیوں کا بڑا سا ڈھیر تھا، اس ڈھیر کی وجہ سے گاڑی کا گذرنا مشکل تھا، مولانا فوراً گاڑی سے اترے، دس بیس تیز تیز ہاتھ چلا کر ساری لکڑیاں سڑک کے کنارے پر پھینک دیں اور گاڑی آگے لے آئے۔
دفتر جمعیۃ میں اپنے غسل کے لئے خود پانی گرم کرتے اور بالٹی میں ڈال کر غسل کر آتے تھے، نہ صرف اپنا کام خود کرتے بلکہ دوسروں کی بھی خدمت کرتے اور دوسروں کے بھی کام آتے تھے۔
سیاسی دائو پیچ کو خوب سمجھتے تھے، حریف سے آگے بڑھ کر مقابلہ کرتے، مقابلہ میں آخیر تک ڈٹے رہتے اور حریف جس رستہ پر جاتا اسے ادھر سے روکتے تھے، مگر ان کی ہر لڑائی اور ہر مقابلہ دنائت اور کمینہ پن سے خالی ہوتا تھا، اچانک یا پیچھے سے حملہ کرنے کے عادی نہیں تھے۔
علمی استعداد پختہ، علمی اور دینی مسائل سے لے کر عصر حاضر کی ضروریات تک پر ان کی گہری نظر تھی، بڑے بڑے قانون دانوں کی مجلس میں قانون اور فلسفہ پر گفتگو فرماتے اور سب سے اپنا لوہا منوا لیتے تھے، دلائل گھڑ لینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، کسی بھی مسئلہ پر دلیل کے بغیر بات نہیں کرتے اور اپنی ذہانت سے ہر مسئلہ پر مضبوط دلیلیں نکال لاتے تھے، مسئلہ کے ایک ایک گوشہ کو اس طرح کھولتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی۔
مولانا کو ہم سے جدا ہوئے کئی سال بیت چکے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ قومی اجتماعات، ملی ضرورتوں اور سیاسی محاذ پر اب تک مولانا کا خلا موجود ہے، دلوں میں ان کی یاد باقی ہے اور ان کی یادوں کا ایک ایسا سرمایہ ہے کہ خزانۂ دل اس کے بغیر خالی نظر آتا ہے۔
کچھ شک نہیں کہ بڑا جاں باز، سرفروش، بہادر، ایثار پسند، غریب مزاج اور پختہ کردار کا انسان تھا، جس نے اپنی زندگی میں خوب شہرت و مقبولیت پائی اور حقیقی مقبولیت و عزت تو اللہ کے یہاں کی ہے، جس سے یقین ہے کہ ہمارے مولانا نے خوب حصہ پایا ہوگا۔
آؤ! ہم عہد کریں کہ اس جاںباز، جری اور سراپا اخلاص بزرگ کی زندگی کو سامنے رکھ کر اپنی زندگی کو اسی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوششیں کریں گے،خدا ہمیں توفیق دے. آمین ثم آمین