تحریر: مسعود جاوید
حالات کی سنگینی سے تقریباً ہر شہری واقف ہے۔ اخبارات اور سوشل میڈیا پر ان دنوں بحث کا موضوع یہی ہے۔ اور اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ انتخابات عامہ ٢٠٢٤ تک ایسے ہی موضوعات ان کی ترجیحات ہوں گے جو فرقے کی بنیاد پر پولرائز کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔
تاہم ہمارے بعض دانشور اور علماء کی ترجیحات کچھ اور ہی ہیں ؛ "مولویوں نے آزادی نسواں، تعلیم نسواں اور انگریزی تعلیم کی مخالفت کی جس کی وجہ سے مسلم قوم پیچھے رہ گئی” !
کب تک اس کا رونا روئیں گے ! مولوی تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جھوٹ مت بولو ، کسی کو دھوکہ نہ دو، ملاوٹ نہ کرو، ناپ تول میں کمی نہ کرو، عیب چھپا کر سامان مت بیچو، سود نہیں کھاؤ ، شراب مت پیو، منشیات حرام ہے اس سے خود بچو اور پڑوسیوں کو بچاؤ ، زنا مت کرو ، پڑوسیوں کو نہ ستاؤ اور ضرورت مندوں کی مدد کرو وغیرہ وغیرہ ………کتنے لوگ اس پر عمل کرتے ہیں ؟ اور جب ان باتوں پر عمل کے پابند نہیں ہیں تو تعلیم نسواں اور انگریزی تعلیم کی "حرمت” پر آپ نے کیوں عمل کیا! عمل کیا کریں گے وہ تو بس بحث برائے بحث کچھ لکھتے اور بولتے رہتے ہیں ۔ اگر وہ فکرمند ہوتے تو اپنے اپنے علاقوں میں معیاری اسکول قائم کرتے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ دیڑھ سو سال قبل جب دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا تھا اسی وقت اس کے بانی محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مدرسے کے لئے جو اصول ہشتگانہ مرتب کیا اس میں واضح طور پر لکھا کہ اس مدرسے میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد یہ لوگ سرکاری مدرسے یعنی اسکول و کالج میں داخلہ لے کر امتیاز حاصل کریں۔
یہ بھی پڑھیں:
سیاق و سباق سے کاٹ کر ” فتویٰ ” کا بار بار ذکر کر کے ایسے دانشور حضرات موجودہ حالات پر کچھ لکھنے فرار کا راستہ ڈھونڈتے ہیں ۔ لیکن ریت میں سر دبانے طوفان انہیں بخش دے گا یہ خام خیالی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انہیں حالات حاضرہ کی سنگینی کا احساس نہیں ہے۔ احساس ہے لیکن شاید حوصلہ کی کمی ہے؟
” جی بہت چاہتا ہے سچ بولیں
کیا کریں حوصلہ نہیں ہوتا ۔ ”
مسلمانوں کا ایک دوسرا طبقہ جن کی اکثریت ہے وہ ایسے حالات میں کافر اور مشرک کی بحث لے کر بیٹھا ہے ! امام حرم کے پیچھے بریلویوں کی نماز ہوئی یا نہیں ؟ کیا اس کا اعادہ لازم ہے؟ کیا حج کے دوران وہ اپنی نماز الگ نہیں ادا کر سکتے ! دیوبندیوں وہابیوں جو بقول ان کے کافر ہیں کیا ان سے مصافحہ کرنے والا اسلام سے خارج ہے ان کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافر ! وغیرہ وغیرہ۔
دیوبندیوں وہابیوں کا ایک طبقہ دوسروں کو کافر تو نہیں کہتا لیکن بدعتی کہتا ہے اور اس کا انجام جہنم ہے "كل بدعة ضلالة و كل ضلالة في النار”. یہ حدیث ان بریلویوں کی نظر میں بھی ہے آپ کو اللہ نے زمین پر داروغہ مقرر نہیں کیا ہے کہ ان کی لعنت ملامت کرتے رہیں ۔ مزارات پر جانے اور اولیاء اللہ سے مرادیں مانگنے سے متعلق ان کی اپنی تاویلات ہیں انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ جب مسئلہ انہیں معلوم ہے تو پھر متشدد انداز میں ان سے گفتگو قطعاً مناسب نہیں ہے۔ ہاں جنہیں معلوم نہیں ہے ناصحانہ انداز میں انہیں گوش گزار کیا جائے۔
مولانا توقیر رضا صاحب دیوبندیوں کے ساتھ ایک اسٹیج پر براجمان ہوں، سلام و مصافحہ کے ساتھ ایک دسترخوان پر کھائیں پئیں وہ اسلام سے خارج نہیں ہوتے تو عوام کو کیوں نفرت کا درس دیا جاتا ہے اور کون امت مسلمہ میں انتشار پیدا کرتا ہے ؟
حالات کی سنگینی اتحاد امت کی متقاضی ہیں ۔ اپنی ترجیحات پر غور کریں ۔ ظلم و زیادتی اگر مسلمانوں پر ہوتی ہے تو اسے فرقہ کی عینک سے نہ دیکھیں ” وہاں کے لوگ دیوبندی اور تبلیغی ہیں” ! ۔۔۔ فریق مخالف کی نظر میں مسلمان ہونے کے لئے ان کا اردو نام کافی ہوتا ہے۔
پرامن بقائے باہم کے لئے طریقے ڈھونڈیں۔ نہ صرف مسلمانوں کے مختلف مسالک اور فرقوں کے ساتھ بلکہ انصاف پسند سیکولر مزاج برادران وطن کے ساتھ ملک کے مفاد میں تعلقات استوار کریں۔ سوشلائزیشن سماجی تعلقات بنائیں الگ تھلگ رہنا دوریاں بڑھاتی ہیں ۔ اور ملکی مسائل ہر شہر میں سول سوسائٹی اور سیٹیزن فورم کی تشکیل بہت سی غلط فہمیاں دور کر سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فیک نیوز کے اثر سے کیسے بچا اور بچایا جائے؟
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے علماء اور دانشوروں نے برادران وطن کو اسلام کے سماجی پہلوؤں سے متعارف نہیں کرایا ۔ ہمارے یہاں ساری توانائیاں مسلک اور فرقہ کی حقانیت ثابت کرنے میں صرف کی گئی ہیں ۔ کاش نوجوان نسل مسلکی منافرت پھیلانے والے مولویوں کا بائیکاٹ کر کے اتحاد کی راہ ہموار کرنے میں معاون بنیں۔
موجودہ حالات کی ایک بڑی وجہ جہالت ہے۔ غیر سماجی عناصر کو مذہبی افیم کا عادی بنا دیا گیا ہے۔ اس نشہ کے زیر اثر اچھے برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ انہیں مہنگائی اور بے روزگاری سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ وہ روبوٹ کی طرح ہندو مسلم ایجنڈے پر کام کرتے رہتے ہیں۔
یونان و روم میں بعض بادشاہ عوام کی توجہ ملکی مسائل سے ہٹانے کے لئے کشتی کے مقابلے اور سرکس فری میں دیکھانے کا نظم کرتے تھے تو کمیونسٹ ریجیم میں سیکس اور شراب پر سے ہر قسم کی پابندی ہٹا کر۔ آج کے دور میں مذہب کی افیم سنگھا کر اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مذہبی ڈسکورس سے باہر ہم کب اور کیسے نکلیں گے ؟
‘عمل کا ردعمل’ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ عصری تعلیم کے میدان میں ہم ایسا انقلاب لائیں کہ ہماری تعلیمی اور معاشی پسماندگی دور ہو جائے۔