Site icon

جواب دہی

مولانا ناصرالدین مظاہری، استاذ مظاہرعلوم وقف سہارنپور

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:  ’’تم میں سے ہر شخص  ذمہ دار ہے اور ہر شخص اپنی رعیت کے بارے میں جواب دِہ ہے، چنانچہ امیر ذمہ دار ہے، مرد اپنے گھر والوں پر ذمہ دار ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر ذمہ دار ہے۔ اس طرح تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا‘‘۔

 اور ایک روایت میں ہے کہ:

 ’’تم میں سے ہر آدمی نگہبان ہے اور ہر کوئی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دِہ ہے۔ چنانچہ لوگوں کا امیر اُن کا نگہبان ہے اور وہ اپنی رعایا کے بارے میں جواب دِہ ہے، مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور ان کے بارے میں جواب دِہ ہے، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دِہ ہے اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے۔ اس طرح تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا‘‘۔  

گویا ہم میں سے کوئی بھی مسئولیت سے بچ نہیں سکے گا،نہ آقااپنی ناکردنی کواپنے نوکرسے منسوب کرسکے گا،نہ نوکراپنی ناہلی کواپنے آقاکے سرتھوپ سکے گا،نہ شوہراپنی بیوی کوقصوروار گردان سکے گا،نہ بیوی اپنے شوہرکوجرم کے کٹہرے میں کھڑاکرکے خود کوبری الذمہ قراردے سکے گی۔نہ امام اپنا دامن بچاسکے گا،نہ خادم کنارہ کشی اختیارکرسکے گا۔سب سے سوال ہوگا اورسبھی کوجواب دیناہو گا۔لگے ہاتھوں پوری حدیث شریف بھی پڑھتے چلیں کہ اردوالفاظ میں وہ لذت اورچاشنی کہاں جواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات بابرکات میں ہے:

کلکم راع وکلکم مسئوول عن رعیتہ،والامیر راع والرجل راع علی اہل بیتہ والمرأۃ راعیۃ علی زوجہا وولدہ ،فکلکم راع وکلکم مسئوول عن رعیتہ۔ولامام راع مسئوول عن رعیتہ والرجل راع فی اہلہ ومسئوول عن رعیتہ والمرأۃ راعیۃ فی بیت زوجہاومسئوولۃ عن رعیتہا،والخادم راع فی مال سیدہ ومسئوول عن رعیتہ فکلکم راع ومسئوول عن رعیتہ۔(متفق علیہ) 

 ’’نزلہ برعضوضعیف‘‘کانظارہ ہم روز ہی دیکھتے ہیں،اپنے کودودھ کی طرح اُجلااوردوسروں کو شک بھری نظروں سے دیکھنے کی ہماری مجرمانہ عادت نے ہمیں ہی لوگوں کی نظروں میں مشکوک اور مخدوش بناکررکھ دیاہے…نہ ہم کسی پراعتبار کرتے ہیں …نہ ہمارے اندرکوئی ایسی چپ اورمیموری کارڈفٹ ہے کہ ہم خودکو دودھ کادھلاثابت کرسکیں ہاں البتہ اگرہمارے پاس اقتدارہے ،اختیارہے ، ہمارے تحت کچھ فرد یاافرادکام کرتے ہیں توہم اُن سب کی گوشمالی کواپنی ذمہ داری تصورکرتے ہیں حالانکہ نوکرسے زیادہ آقاکوپاپڑبیلنے پڑتے ہیں،بیوی گھرکے اندر کی جواب دِہ ہے توشوہرگھرسے باہرتک ہرجگہ کاذمہ دارہے ،اساتذہ اپنے طلبہ کے اور نوکر چاکراپنی مفوضہ ذمہ داریوں کے جواب دہ ہیں، نہ امام بچے گا،نہ مقتدی بچیں گے،نہ وزیراعظم بچے گانہ امیرالمؤمنین بچے گا،نالی کی صفائی کرنے والے کرم چاری سے محل کے اندر رہنے والے برہمچاری تک کون ہے جوخداکے سامنے حاضرنہیں ہوگا،کس میں اتنادم ہے کہ رب ذوالجلال کے سوالوں کاجواب دے سکے گا،ہے کوئی ایسانیکوکاربندہ جواپنے بارے میں دعویٰ کرسکے کہ اس کاتن ، اس کامن،اس کاکردار،اس کی گفتار،اس کی پوری زندگی شیشہ وسجنجل کی طرح صاف وشفاف ہے؟واللہ!کوئی نہیں ہے ۔سبھی انسان ہیں اورخطاؤں کاصدور انسانوں سے عین ممکن ہے۔

اسی لئے ہمیں تعمیر ذات پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے ،جب تک ہم اپنے آپ کو صاف وشفاف نہیں کرسکیں گے اس وقت تک ہماری کوئی بات اپنے ماتحتوں پراثرانداز نہیں ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں:

ہمیں دعوت سے پہلے خودسدھرناضروری ہے، ہمیں مصلح بننے سے پہلے اپنی اصلاح پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔دوسروں کادامن پکڑیں یاگریبان پہلے اپنے بارے میں ضرورسوچ لیں کہ کہیں کوئی ایسابندہ ،ایسامظلوم اورایسا معصوم تونہیں ہے جس کوہماری ذات سے ٹیس اور ٹھیس پہنچی ہو؟کل قیامت کے دن جب حساب وکتاب کا ترازو ہوگا،حضرت آدم صفی اللہ سے سے حضرت محمدرسول اللہ تک سب کی امتیں ایک آسمان کے نیچے حیران وسرگرداں ہوں گی اس وقت ہم سے کن چیزوں کاسوال ہوگا، کیاان کے جوابات کے لئے ہم نے کچھ بھی تیاری کی ہے؟۔

امتحان ہمارامقدرہے ،خوش بخت ہیں وہ لوگ جنھوں نے وقت سے پہلے اپنے پرچے حل کرلئے ،سعادت مندہیں وہ لوگ جنھوں نے امتحان سے پہلے امتحان کی تیاری کرلی۔

اٹھئے اورخودکوتیارکیجئے،سوالات بڑے کٹھن ہیں لیکن جوابات بڑے آسان ہیں ،شرط یہ ہے کہ اپنے رب کے نازل فرمودہ کلام بلاغت نظام اوراپنے پیغمبرکے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق تعمیرذات پرتوجہ مرکوزکی ہو۔ أَلَیْسَ مِنکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ۔

Exit mobile version