محمد عمر فراہی
کچھ بیس پچیس سال پہلے تک سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کی موت پر افسوس تو ہوتا تھا لیکن ایک اطمینان تھا کہ ابھی ان شخصیات کا متبادل طبقہ موجود ہے اور امید تھی کہ ایسی شخصیات پیدا ہوتی رہیں گی لیکن اب کچھ شخصیات کی اموات پر افسوس ہی نہیں صدمہ بھی ہوتا ہے کیوں کہ اب ان کا کوئی نعم البدل نظر نہیں آتا ۔لوگوں پر مادیت اتنا غالب آ جاۓ گی اس کا احساس بھی ہمیں اب ہو رہا ہے اور یہ مادہ پرستانہ سوچ ہی ہے جس نے اقوام عالم کی تاریخ میں قوموں کو انسان سے حیوان بنا دیا ۔قران میں سبت کا جو واقعہ آتا ہے وہ شاید ہمارے لیے عبرت کا مقام ہے کہ کیسے قومیں جب مادہ پرست ہو جاتی ہیں تو اپنے حرام رزق کے حصول کیلئے حیلے اور بہانے تلاش کر شریعت کا بھی مزاق بنانا شروع کر دیتی ہیں اور پھر قدرت نے ان پر اپنا عذاب نازل کرتے ہوۓ سور اور بندر بنا دیا ۔اب یہ عذاب تو نازل نہیں ہو رہے ہیں لیکن دیکھا جارہا ہے کہ انسانوں میں انسانی شکل میں ہی بندروں کی خصلت پیدہ ہوتے جارہی ہے بلکہ سرعام عورتوں کے ننگا گھماۓ جانے اور ان کی عزت و آبرو کے واقعات اتنے تشویشناک ہیں کہ ایسی قوموں پر آگ اور پتھر کی بارش ہو جانا چاہئے ۔
یہ تمہیدی جملے مرحوم گلزار اعظمی صاحب کی افسوسناک موت کے بعد پتہ نہیں کیسے یوں ہی ذہن میں آ گئے ۔
نوے کی دہائی تک میرا کچھ وقت بھنڈی بازار بی آئی ٹی چال میں گزرا ۔وہیں قریب میں پٹھان واری کی ایک چال میں مرحوم گلزار اعظمی صاحب کی بھی رہائش تھی ۔چونکہ مجھے اخبارات پڑھنے کا شوق تھا اور گلزار اعظمی صاحب جو کہ اس وقت اردو ٹائمز کے مستقل کالم نگار تھے اس لئے ان سے واقفیت ہونا بھی لازمی تھا ۔پھر معلوم ہوا کہ گلزار صاحب تو اپنے پڑوس میں ہی رہتے ہیں ۔میں اکثر دیکھتا تھا کہ نہ صرف فسادات کے وقت انہوں نے ریلیف کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا عام حالات میں محلے اور گلی میں لوگوں کے درمیان تنازعات کے معاملے جب پولیس اسٹیشنوں تک پہنچ جاتے تو گلزار صاحب اس وقت بھی پولیس افسران سے مل کر لوگوں کے معاملے حل کروانے کی کوشش کرتے تھے ۔ پولیس افسران سے مسلسل رابطے اور ان سے کیسے لے دے کر معاملات حل کئے جاتے ہیں شاید انہیں تجربات کی بنیاد پر انہیں جمیعت علماء مہاراشٹر کی قانونی امداد کمیٹی کا سکریٹری کا عہدہ سونپا گیا ہو ۔اور جس طرح انہوں نے آخری وقت تک بم بلاسٹ کے بے قصور مسلم نوجوانوں کی قانونی پیروی کی یہ ثابت کر دیا کہ وہ اس کے اہل تھے ۔خاص طور سے 2005 اور 2006 میں ممبئی بم بلاسٹ کے وقت میں جو خوف کا ماحول تھا ایسے میں انہوں نے مسلم نوجوانوں کی رہائی کیلئے جس جرات کا مظاہرہ کیا دہشت کے اس ماحول میں جو کام ناممکن تھا اسے ممکن کر کے دکھایا ۔صرف اتنا ہی نہیں ہمیں اس کا بھی اعتراف کرنا ہوگا کہ انہوں نے اور ان کی جماعت کے اکابرین نے بہت ہی بردباری اور بڑے دل کا مظاہرہ کیا کہ جن نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تھا وہ ایک خاص فکر سے تعلق رکھتے تھے اور جمیعت کی فکر سے بھی انھیں سخت فکری اور نظریاتی اختلاف تھا ۔اس کے باوجود جمیعت اور گلزار اعظمی صاحب نے نہ صرف ان کے مقدمات پر کروڑوں روپئے خرچ کئے ملت کی دیگر ملی اور فلاحی تنظیموں کیلئے سبق چھوڑا ہے کہ کیسے ہم فکری اور نظریاتی اختلاف کے باوجود رسول قوم ہاشمی کے اصل نمائندے ہیں ۔
اللہ ان کی ان خدمات کو قبول فرمائے ۔بہرحال موت کا مزہ تو ہر نفس کو چکھنا ہے ۔مرحوم کو بھی اس دنیا سے رخصت ہونا ہی تھا لیکن ہم گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے ملت کیلئے بغیر کسی مسلکی اختلاف کے خلوص کے ساتھ اپنا حق ادا کیا ۔اللہ ملت اسلامیہ ہند کو ان کا نعم البدل عطا کرے آمین ۔