محمد علم اللہ ، نئی دہلی
ہندوستان کا موجودہ سیاسی منظر نامہ مکمل طور پرایک ہی رنگ میں رنگ چکا ہے۔کسی دوسرے رنگ کے لیے فی الحال یہاں کوئی گنجائش نکلتی نظر نہیں آرہی۔ خاص طور پر مسلمانوں کو تو تقریباًبے حیثیت بنا ہی دی گیا ہے۔انھیں موجودہ سیاسی منظرنامے سے باہر رکھنے کے لیے قابل ذکر مسلم آبادی والے علاقوں کو نشانہ بنائے جانے کا جو سلسلہ آزادی کے بعد شروع ہوا تھاس اس میں مزید تیزی متعارف کرادی گئی ہے۔
سیاسی گلیاروں میں بھی ایک مستقل شکایت طویل عرصے سے گونج رہی ہے، جس میں الزام عائدکیا جارہا ہے کہ مسلم اکثریت والے شہروں میں حدبندی کاعمل کرتے ہوئے مسلم طبقےکی آبادی کواس حکمت عملی کے ساتھ تقسیم کیا جاتا ہے کہ جس سے ان کی انتخابی طاقت کو کم کیا جاسکے۔اس عمل میں اکثر یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ مسلم اکثریتی آبادی والے حلقے دلت طبقےکے لیے مخصوص کردیے جاتے ہیں تاکہ مسلمانوں کی نمائندگی کو ختم کیا جا سکے۔ نتیجتاً ایسا حلقہ کسی مسلمان کو منتخب نہیں کر سکتا چاہے وہ اکثریت میں ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ہندوستان میں مسلمانوں میں دلت طبقہ شامل نہیں ہے۔واضح رہے کہ آزادی کے بعد سے یہ عمل تین بار انجام دیا جا چکاہے ۔ پہلے 1951 دوسرا 1967 اور تیسرا 2002 میں۔ اگلی بار 2026 میں ازسرنو یہ عمل انجام دیا جائے گا۔ اس غرض سے پارلیمنٹ ہر مرتبہ ایک قانون منظورکرتی ہے جس کے ذریعے ایک حدبندی کمیشن کاقیام عمل میں آتاہے۔
اس کمیشن کو یہ قانونی اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ تقریباً برابر ووٹوں کی بنیاد پر اسمبلی اورپارلیمانی حلقوں کی حدبندی کرے اور ایس سی ایس ٹی حلقوں کو بھی نامزد کرے عموماً ایک ریاست میں ان طبقات کی آبادی کے تناسب سے حلقے مخصوص کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح حلقہ بندیکے اصول و ضابطے بھی مقرر ہوتے ہیں ۔ اس کمیشن کا تعاون کرنے کے لئے مقامی ایم ایل اے ۔ ایم پی۔ سیاسی جماعتوں کے نمائندے اور سماجی تنظیموں کے نمائندگان سے بھی مشورہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ کمیشن ایک ڈرافٹ تیار کرکے عوامی رائے لیتا ہے، اُس پر ہر شخص کو رائے دینے اور اعتراض کرنے کا حق ہوتا ہے۔اس مرحلے پر عدالت سے رجوع کرنے کا بھی اختیار ہوتا ہے لیکن ایک بار جب یہ ڈرافٹ قبول ہو جاتاہے اور گزٹ کر دیا جاتا ہے اس کے بعد عدالت سے بھی رجوع نہیں کیا جاسکتا ۔
المیہیہ ہے کہ مقامی مسلم ایم ایل اے اور ایم پی اس عمل میں یا تو کوئی دلچسپی ہی نہیں لیتےیا پھر محض اپنی سیٹ بچانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ مسلم سیاسی سماجی اور دینی تنظیمیں تو اس بارے میں ذرا بھی فکر نہیں کرتیں بلکہ، اکژ تو اس بارے میں کچھ جانتی ہی نہیں۔یہی سبب ہے کہ مسلمانوں کی نمائندگی کا گراف ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں مسلسل نیچے کی طرف جارہا ہے۔ ملک میں ان کی آواز کمزور او ربے اثر ہوتی جارہی ہے۔ یہ ہندوستان میں جمہوریت کے نام پر مسلمانوں کے خلاف کھیلا جانے والا ایک شاطرانہ کھیل ہے۔ اس متنازعہ مسئلے کی بنیادپریہ الزام ہے کہ اس طرح کی حد بندی کی مشقیں پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں مسلمانوں کی مناسب نمائندگی کو روکتی ہیں۔
اس تشویش کا اظہارجسٹس راجندر سچر کمیٹی کے نتائج اور اس کے بعد رنگناتھن مشرا کمیشن کی رپورٹ میں بھی کیا گیاہے، جس میں قانون ساز اداروں میں مسلمانوں کی موجودگی کو بڑھانے کے لیے انتخابی نشستوں کو محفوظ کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ ان سفارشات کے باوجود زمینی صورتحال بدستور برقرار ہے۔ جس سے ملک کے جمہوری عمل میں ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔
پندرہویں مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق گوپال گنج (بہار) میں مسلمانوں کی آبادی 17 فیصد سے زیادہ ہے جب کہ دلت صرف 12 فیصد کے قریب ہیں لیکن یہ نشست دلتوں کے لیے مختص کی گئی ہے۔ایسا ہی معاملہ کریم نگر (تلنگانہ) کا ہے جہاں مسلمان 56 فیصد اور دلت 12 فیصد ہیں،یہ سیٹ دلت طبقےکے لیے مخصوص ہے۔بجنور (یو پی) کی نگینہ سیٹ پر 43.04 فی صد مسلمان ہیں، جب کہ دلتوں کی تعداد صرف 21 فی صد ہے، یہ سیٹ دلتوں کے لیے مخصوص ہے۔بلند شہر (یوپی) میں مسلمانوں کی آبادی دلتوں سے دو فیصد زیادہ ہے، لیکنیہ دلت مخصوص نشست ہے۔
تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ دیوبند اور کیرانہ تقسیم کے وقت سے لے کر ساٹھ کی دہائی تک ایک پارلیمانی حلقے کے طور پر متحد رہے۔ اس دوران کانگریس امیدوار نے اس انتخابی ضلع میں مسلسل کامیابی حاصل کی۔ تاہم، 1964 میں ایک اہم موڑ آیا جب غیور علی خان اس حلقے سے رام منوہر لوہیا کی سوشلسٹ پارٹی— جس کا انتخابی نشان برگد کا درخت تھا— کے ٹکٹ پر جیت گئے۔ اس غیر متوقع فتح نے اندرا گاندھی کو حیران کر دیا اور انہوں نے دیوبند کو ہریدوار کے ساتھ ضم کر دیا، بعد ازاں اسے شیڈولڈ ٹرائب کے لیے ایک مخصوص نشست کے طور پر مختص کر دیا گیا۔ اسی طرح سے مظفر نگر سیٹ کا بھی یہی حال ہوا جس میں مسلم اکثریتی علاقے کو کاٹ کرکے ان کے ووٹ کو بے بے وزن بنانے کی دانستہ کوشش کی گئی۔
دلت زمرےمیں مسلم اکثریتی نشستوں کو محفوظ رکھنے کی پالیسی مسلمانوں کی نمائندگی سے محروم کرنے کی نہایت عیارانہ چال ہے۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پارلیمنٹ یا ریاستی مقننہ تک نہیں پہنچ پاتی۔ اس کے برعکس جن حلقوں میں دلتوں کی آبادی زیادہ ہے، انھیں غیر محفوظ زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ یہ حلقے بہار کے اورنگ آباد اور یوپی میں رائے بریلی ہیں۔ اورنگ آباد میں دلتوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے لیکن یہ سیٹ غیر محفوظ ہے۔ اسی طرح رائے بریلی میں 30 فیصد دلت آبادی ہے لیکن یہ ایک غیر محفوظ نشست ہے۔ اتفاق سے یہ سیٹ گاندھی خاندان کا پاکٹ بورو ہے اور اس وقت سونیا گاندھی اس سیٹ سے لوک سبھا کی رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئی ہیں۔
2005 میں مرکزی حکومت کی طرف سے تشکیل دی گئی جسٹس راجندر سچر کمیٹی اور بعد میں رنگناتھ مشرا کمیٹی کی رپورٹ میں مسلمانوں کے لیے انتخابی نشستوں کو محفوظ رکھنے کی سفارش کی گئی ہے تاکہ ریاستوں اور مرکزی مقننہ میں ان کی موجودگی میں اضافہ ہو سکے۔ یہ بھی سفارش کی گئی کہ جن سیٹوں پر دلت قبائل اور مسلمان اکثریت میں ہیں، ایسی سیٹیں ان کے لیے مخصوص کی جائیں۔ سچر کمیٹی نے حد بندی انتخابی مشق کے ذریعے ایس سی زمرہ میں مسلم اکثریتی نشستیں ریزرو کرنے کی بھی ہدایت دی تھی۔ تاہم، سچر کمیٹی کی رپورٹ کی سفارشات کے کئی سال گزر جانے کے بعد بھی، زمینی صورت حال جوں کی توں ہے۔
بنگال، آسام اور بہار میں لوک سبھا کی 9 سیٹیں ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 50 فیصد سے زیادہ ہے لیکنیہ سیٹیں مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں ہیں۔آسام میں جاری کردہ حد بندی کے مسودے میں حد بندی کمیشن پر مسلم اکثریتی نشستوں کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اگر ڈی لیمیٹیشن کو نافذ کیا گیا تو ریاست میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی میں نمایاں کمی آئے گی۔
یہ بھی پڑھیں:
آسام میں مسلمانوں کی آبادی 33 فی صد سے زائد ہے لیکن مقننہ میں مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم ہے۔جموں و کشمیر میں، حال ہی میں حد بندی کمیشن نے کشمیری پنڈتوں کے لیے دو نشستیں محفوظ کرنے کی سفارش کی ہے۔ حالانکہ مذہبی بنیادوں پر حلقوں کو مخصوص کرنا ایک غیر قانونی عمل ہے اسی بنیاد پرمسلمانوں کے لیے کوئی ریزرویشن نہیں ہے۔ جموں و کشمیر میں کی جانے والی حد بندی کی مشق جموں کے ہندو اکثریتی علاقے کو کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے پر بالادستی دلانے کے لیے کی جاتی ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں میں سیاسی بے وزنی کی وجہ صرف سیاسی شعور کی کمی نہیں ہے بلکہ کچھ اور بھی ہے۔ آزادی کے بعد سے، مسلم رہنما جو مسلم کمیونٹی کی امنگوں کو آواز دے سکتے ہیں، انھیں ہندوستان میں بڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان سے سیاسی جماعتوں کے لیے مسلم ووٹ حاصل کرنے جیسی انتظامی سرگرمیاں انجام دینے کے لیے کہا گیا ہے۔المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی برادری کی جانب سے بات نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ مسلمانوں کی طرف سے بات کرنا ہندو قیادت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
چنانچہ یوپی میں ملائم سنگھ یادو اور بہار میں لالو پرساد یادو سیاست مرکز میں آئے تو انھوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف سے بات کی۔اس طرح ملک کے سیکولر اشرافیہ میں مسلم سیاسی اذہان کو نظر انداز کیا جاتا رہا اور غیر سیاسی ،نو دولتئے اور مجرمانہ ریکارڈرکھنے والے مسلمانوںکو اکثر سیکولر سیاسی جماعتوں نے اپنا مسلم چہرہ بنا کر پیش کیا جن کو درحقیقت مسلم مسائل اور امت کے معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ ان کا کام مسلمانوں کی ووٹ فارمنگ کرنا ہے اور اس کے بدلے میں حکمران جماعت سے تحفظ حاصل کرنا ۔ اس سے ایک طرف تو مسلمان لائق اور مخلص قیادت سے محروم ہوجاتے ہیں دوسری جانب مسلمانوں کی جو تصویر سامنے آتی ہے، وہ ایک جرائم پیشہ برادری کی ہوتی ہے۔
یہ بیانیہ بی جے پی نے بدل دیا، چنانچہ اس نے 80 بمقابلہ 20 کا فارمولہ ایجاد کیا، جہاں ہندستان کی انتخابی سیاست میں مسلم ووٹوں کی اہمیت باقی نہیں رہی۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ ملک میں80 فیصد آبادی کی نمائندگی کا دعویٰ کوئی بھی سیاسی جماعت نہیں کرسکتی۔ خود بی جے پی کو ابھی تک 38 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے لیکن اس مفروضے کے ذریعےیہ باور کرانا مقصود ہوتا ہے کہ مسلمانوں یاانکی قیادت کے لیے ملک میں کوئی سیاسی جگہ نہیں ہے۔ کیوں کہ بی جے پی مسلمانوں کے بغیر 80 بمقابلہ 20 فارمولے کی بنیاد پر ریاستوں اور ملک کو چلا سکتی ہے۔ بی جے پی صرف مسلمانوں کو ثالث کے طور پر برداشت کر سکتی ہے جو مقامی سطح پر بغیر کسی فائدے کے صرف ووٹ دے سکتے ہیں۔بی جے پیپرانے مسلم اشرافیہ کو پسماندہ کرنے میں کامیاب رہی ہے، جسے کانگریس نے آزادی کے بعد سے پالا تھا۔ مسلم اشرافیہ کو پس پشت ڈال کر، بی جے پی نے یہ دیکھا کہ مسلمانوں میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ملت کی طرف سے ان کے ساتھ بات چیت کرسکے یا ان کے ساتھ مشغول ہو۔
کئی جگہوں پر زعفرانی پارٹی ان کی پسماندگی پر مگرمچھ کے آنسو بہا رہی ہے اور مسلمانوں کو ریاست کی طرف سے دیے گئے تمام فوائد کو جیب میں ڈالنے کا الزام مسلم اعلیٰ ذات پر لگا رہی ہے۔جبکہ خودمسلمانوں کے ساتھ ووٹ کا یہ کھیل کھیل رہی ہے۔ بی جے پی نے ہندوؤں کے ساتھ ایسا نہیں کیا۔ اس نے ہندوؤں کی نچلی ذاتوں کی ترقی کی خاطر ہندو اونچی ذات کے اشرافیہ کے ساتھ کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔ یہ ہندوستان میں کھیلا جانے والا ایک منافقانہ کھیل ہے اور طاقت کی سیاست اور اس طرح کے عیارانہ ہتھکنڈے کی کہیں کوئی مخالفت بھی سامنے نہیں آتی۔ اب بھی اگر مسلم قیادت نے حکمت اور دانشمندی کا ثبوت نہ دیا تو وہ وقت دور نہیں کہ ہندوستان میں جمہوریت صرف اکثریتی طبقے کے لیے ہوگی جہاں مسلمانوں کو برابر کا شہری نہیں سمجھا جائے گا۔
ایسے میں ہندوستان میں مسلمانوں کے مستقبل کی کیا حیثیت ہوگی؟ ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انھیں اپنے ہی ملک میں کس قدر اجنبی بنانے کا کام کیا جا رہا ہے۔ ملک کی تمام علاقائی ،نسل وادی و خاندانی سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے ووٹ ہی نہیں ان کی دولت کی بدولت ہی زندہ ہیں۔ جبکہ قومی پارٹیوں کے لئے ہم یا تو ووٹ بینک ہیں یا دشمن ہیں اس طرح سیاست کے ظل سبحانی آج بھی مسلمان ہی ہیں پھر بھی اقتدار سے کوسوں دور ہیں جبکہ ملک کے کل ووٹ کا 20 فیصد متحدہ اور سب سے بڑا سیکولر ووٹ ہم ہی ہیں یہ غلطی سیاسی جماعتوں کی ہے یا ہماری، یہ سوچنے والی بات ہے مگرایسا معلوم ہوتا ہے ملت گہری نیند میں ہے اپنے شاندار ماضی کے خواب دیکھ رہی ہے۔
اس قوم کے خواب غفلت کی اس سے زیادہ شرمناک مثال اور کیا ہوگی کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہمارے نمائندوں کو پتہ ہی نہیں چل پایا کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کورٹ کے لئے ارکان پارلیمنٹ کے نام تجویز کئے جانے ہیں ۔ ’قائد ملت‘ حضرت بیرسٹر اسد الدین صاحب سمیت ملت کے درد میں مستقل گھلے جارہے یہ تمام نمائندگان یا تو بے خبر رہے یا انہوں نے اس ملی سرمائے کو اپنی توجہ کے لائق نہیں سمجھا اوران کی لاپرواہی کی وجہ سے اب بی جے پی کے ارکان بلامقابلہ یونیورسٹی کورٹ میں نامزد ہوجائیں گے۔
ہندوستان میں پسماندہ مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے جسٹس راجندر سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیٹی کی سفارشات کو نافذ کروانا بہت ضروری ہے۔ رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ میں ایک بات اور بہت وضاحت کے ساتھ کہی گئی ہے کہ دستور کی دفع 341 شق2 کے تحت ریزرویشن پر ہندو سکھ اور بودھ مذہب کی قید غیر قانونی ہے اور اسے حذف کر کے مسلم پسماندہ طبقات کو بھی اس ریزرویشن کے زمرے میں لایا جائے ۔ان رپورٹوں میں مسلمانوں کے لیے ان حلقوں میں انتخابی نشستیں محفوظ کرنے پر زور دیا گیا ہے جہاں وہ کافی اکثریت رکھتے ہیں۔
مزید برآں، حد بندی کمیشن کو انتخابی حدود کی ازسر نو تشکیل کرتے وقت آبادی کی حقیقتوں اور اقلیتی برادریوں کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مساوی نمائندگی کو یقینی بنانا چاہیے۔ تعلیمی اور قائدانہ ترقی کے پروگراموں کے ذریعے مسلم سیاسی قیادت کو بااختیار بنانا کمیونٹی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان خلیج کو ختم کر سکتا ہے۔
سول سوسائٹی کی تنظیموں، میڈیا اور تعلیمی اداروں کے درمیان تعاون کے ذریعے متنوع اور جامع سیاسی نمائندگی کی اہمیت کے بارے میں سماجی بیداری کو بڑھانا ضروری ہے۔ حد بندی کمیشن کے فیصلوں کا جائزہ لینے کا طریقہ کار، جس میں مختلف برادریوں کے مفاد وابستگان شامل ہیں، شفافیت اور جوابدہی کو فروغ دے گا۔
ان رسمی حلوں کو اپنا کر، ہندوستان میں ایک زیادہ جامع اور نمائندہ جمہوری نظام تشکیل دیا جاسکتا ہے، جو مذہبی پس منظر سے قطع نظر تمام شہریوں کے لیے مساوی سیاسی شرکت اور مواقع کو یقینی بنا سکتا ہے۔خود مسلمانوں کو بھی اس کے لیے تیاری کرنی ہوگی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔روتے رہنے اور ہر وقت بین کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ قوم میں سیاسی شعور پیدا کرنا بھی ایک اہم کام ہے۔ ہمارے دینی طبقہ کو بھی اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان حالات کا جائزہ لیں اور اپنے مستقبل کو سنبھالنے کی تیاری کریں۔ اور اگر ہمارے لئے مذکورہ حل ممکن نہیں رہے، کیونکہ حد بندی کرنے والوں میں ہماری کوئی نمائندگی نہیں ہے تو ہمیں گزشتہ انتخابات سے پہلے دی گئی سابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب صاحب کی انتخابی سیاست کا بائیکاٹ کرنےکی تجویز پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے اور عمل کرنے کی سخت ضرورت ہے ،کیونکہ ایسا کر کے ہم ہندوؤں کے اس خیالی دشمن کو راستے سے ہٹادیں گے جس کو ہوا ہندوتوا ایجنٹوں نے کھڑیا کیا ہوا ہے ۔ ہمارے راستے سے ہٹنے سے نام نہاد اعلیٰ اور نچلی ذاتیں آمنے سامنے آجائیں گی۔
موجودہ حالات میں سیاسی جماعت قائم کرنے کی بات بھی حماقت ہوگی۔ اس کے لئے اسد الدین اویسی صاحب سے بھی درخواست کرنی پڑے گی کہ خدارا فی الحال تلنگانہ سے باہر ہاتھ پاؤں نہ ماریں۔ مسلمانوں کے ووٹوں کے دوسرے ٹھیکے داروں کی خوشامد بھی کرنی پڑے گی کہ خاموش بیٹھیں اور حالات کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کو خاموشی کے ساتھ ووٹ ڈالنے دیں۔ خود اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہ کریں۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ یہ خود میں ایک ایسی تجویز ہے جس کے لئے بڑے ایثار، ضبط اور تنظیم سازی کی سخت ضرورت ہو گی جس کے لئے ابھی سے تمام مسلم تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر خاموشی کے ساتھ غورو فکر کرنے اور ذاتی انا اور مفادات کی قربانی دے کر لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہوگی جس کا اس ملت میں سخت فقدان ہے۔