Site icon

تسخير قمر کے اثرات مذہبى دنيا پر اختلاف آراء کا ايک جائزہ

از:   علامہ محمد شهاب الدين ندوىؒ

مدينہ يونيورسٹى کے نائب صدر کا بيان:

 تسخير قمر کے اثرات کا ذکر کرتے کرتے ميں بھى کہاں سے کہاں پہونچ گيا! ہاں تو علماء حجاز ان تمام صراحتوں سے صرفِ نظر کرکے محض لفظى بحثوں کے چکر ميں پڑگئے۔ مجھے سب سے زيادہ تعجب مدينہ يونيورسٹى کے نائب صدر شيخ عبد العزيز بن باز پر ہوا جن کا ايک مضمون ’’الوصول الى الکواکب‘‘ (ستاروں اور سياروں تک رسائى) کے عنوان سے نومبر ١٩٦٩ء کے مجلہ الحج ميں شائع ہوا ہے۔ جس ميں موصوف نے اس حقيقت کو تسليم کرلينے کے باوجود کہ:

 ’’دلائل نقليہ (قرآن اور حديث) ميں ايسى کوئى چيز موجود نہيں ہے جو چاند ستاروں تک رسائى کو ممنوع قرار ديتى ہو‘‘۔ 

مضمون کى ابتداء ہى ميں چند ايسى آيات نقل کردى ہيں جن سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس مضمون کے لکھنے کا مقصد چاند ستاروں تک انسان کے پہونچنے کى تغليظ کرنا ہے۔ مثلا حسب ذيل آيت کو نقل کرکے:

 (يَآ اَيُّهَا الَّذِيْنَ امَنُوْآ اِنْ جَآءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْآ اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلى مَافَعَلْتُمْ ندِمِيْنَ۔) (حجرات: ٦)

 ترجمہ:   اے ايمان والو اگر تمہارے پاس کوئى فاسق کسى خبر کو لائے تو (پہلے) تحقيق کرلو کہ کہيں ايسا نہ ہو کہ تم نادانى ميں کسى قوم کو مصيبت ميں مبتلا کردو۔ پھر تم کو اپنے فعل پر شرمندگى اٹھانى پڑے۔

 اس کى تشريح ميں فرماتے ہيں کہ (اس تصريح کى رو سے تسخير قمر کے بارے ميں) سکوت کرنا ہى بہتر ہے۔ کيونکہ اہل اسلام پر واجب ہے کہ وہ بغير علم کے کوئى بات اپنے منہ سے نہ نکاليں۔ اس سلسلے ميں ملائکہ کا يہ قول سب سے زيادہ بہتر اور مناسب ہے:

 (سُبْحَانَكَ لاَعِلْمَ لَنَآ اِلاَّمَاعَلَّمْتَنَآ اِنَّكَ اَنْتَ الَعَلِيْمُ الْحَکِيْمُ۔) (بقرہ: ٣٢)

 ترجمہ:  تو پاک ہے۔ ہم کو صرف اتنا ہى علم ہے جتنا تو نے ہميں سکھايا ہے۔ يقينا تو ہى تمام باتوں کا جاننے والا اور دانشمند ہے۔

 اسى طرح صحابہء کرام کى بھى عادت تھى کہ جب کبھى ان سے کوئى سوال کيا جاتا تھا تو بلاتکلف صاف کہہ ديا کرتے تھے ’’اَللّہُ وَرَسُوْلُه اَعْلَمْ‘‘ (اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہيں۔)

 نيز کہا گيا ہے:

 (وَلاَ تَقْفُ مَالَيْسَ لَكَ بِه عِلْمٌ) (بنى اسرائيل: ٣٦)

 ترجمہ:  اور تو اس چيز کے پيچھے مت پڑ جس کا تجھ کو علم نہيں ہے۔

 اس کے بعد آپ نے اجرام سماوى اور ان کے نظام کے بارے ميں متعدد قرآنى آيات نقل کرکے ان پر تفصيلى بحث کى ہے اور مفسرين کى تشريحات کى روشنى ميں بتايا ہے کہ علمائے حجاز کے اس گروہ کا نظريہ صحيح نہيں ہے جو چاند ستاروں کو آسمان ميں جڑا ہوا سمجھتے ہيں۔ بلکہ يہ تمام اجرام آسمان اور زمين کے درميان معلق ہيں اور اپنے اپنے مدار ميں تير رہے ہيں۔

 آخر ميں شيخ فرماتے ہيں کہ چاند ستاروں تک انسان کى رسائى اگرچہ ناممکن نہيں ہے، کيونکہ خود قرآنى نظريہ کے مطابق جنات آسمان تک پہونچتے رہتے ہيں١ٍ، مگر اس کے باوجود بغير کسى دليلِ شرعى کے اس بارے ميں تصديق يا تکذيب صحيح نہيں ہے۔ 

 شيخ محترم کے مضمون کا حاصل تذبذب اور لاادريت ہے۔ بلکہ اس سلسلے ميں آپ نے ايسے واضح نصوص تک کا انکار کرديا ہے، جو صاف صاف خلائى پروازوں پر دلالت کررہے ہيں۔ چنانچہ سورئہ رحمن کى اس معرکہء آراء آيت:

 (يَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّموتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا لَاتَنْفُذُوْنَ اِلاَّ بِسُلْطَانٍ۔) (رحمن: ٣٣)

 ترجمہ:   اے گروہ جن و انس! اگر تم کو آسمانوں اور زمين کے حدود سے نکل جانے کى استطاعت ہو تو نکل جائو۔ تم زور و قوت کے بغير نکل نہيں سکتے۔

کے بارے ميں فرماتے ہيں کہ اس آيت کے الفاظ اور اس کے سياق و سباق سے يہ بالکل ظاہر نہيں ہوتا کہ انسان ديگر اجرام تک پہونچ سکتا ہے۔ بلکہ يہ اور اس کے آگے پيچھے کى تمام آيتوں کو اللہ نے جنوں اور انسانوں کے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے بيان کيا ہے۔ اس کے بعد تحرير فرماتے ہيں کہ ابن جرير (رح) اور ديگر مفسرين نے اس آيت کى تفسير ميں جو کچھ بيان کيا ہے اس ميں دو اقوال سب سے زيادہ پسنديدہ ہيں:

  •  اس سے مراد قيامت کا دن ہے۔ يعنى اللہ تعالى قيامت کے دن جنوں اور انسانوں کا عجز ظاہر کرنے کے لئے اس طرح خطاب فرمائے گا۔
  •  اس سے يہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ تم اپنى موت سے بچ نہ سکو گے۔

 اب ميں شيخِ محترم کى خدمت ميں مؤدبانہ طورپر چند باتيں عرض کروں گا:

  •  ١- اس موقع پر سورئہ حجرات کى جو آيت پيش کى گئى ہے وہ شرعى امور سے متعلق ہے نہ کہ تکوينى (نيچرل) امور اور کائنات کے حقائق سے متعلق۔ اگر بالفرض اس کے دائرہ کو اور بھى زيادہ وسعت ديکر اس کا اطلاق تکوينى امور پر بھى کرديا جائے تو -جيساکہ پچھلے مباحث سے واضح ہوچکا- ’’تسخير قمر‘‘ کا واقعہ ’’تبيّن‘‘ (فَتَبَيَّنُوْا کے مطابق) کى حد تک يقينى قرار پاچکا ہے جس سے انکار کى وجہ سمجھ ميں نہيں آتى١ٍ۔ پھر ايسى صورت ميں جب کہ اس سے -زيربحث آيت کريمہ کے مطابق- کوئى نقصان بھى نہ ہو اور کسى قوم کو مبتلائے مصيبت کرنا بھى مقصود نہ ہو۔ اس واقعہ کو تسليم کرلينے سے آخر کونسى مصيبت آجائے گى٢ٍ۔ حالانکہ سائنس اس سے قبل بے شمار ايجادات و اکتشافات کرچکى ہے اور آئے دن اچھنبے اور حيرت انگيز کمالات کا اظہار کرتى چلى جارہى ہے۔ مگر کبھى موصوف محترم کو ان سے انکار کى ضرورت محسوس نہ ہوئى تو پھر تسخير قمر ہى سے انکار يا تذبذب کيوں؟ کيا اس سے کوئى مذہبى عقيدہ متاثر ہوجاتا ہے؟ اگر ايسى کوئى بات تھى تو اس کى وضاحت ضرورى تھى۔
  •  ٢- صحابہ کرام کا ہر معاملہ ميں ’’اَللّہُ وَرَسُوْلُه اَعْلَمْ‘‘ کہنا رسول اللہ صلعم کى حيات مبارکہ ميں اور آپ کے ادب و تعظيم کے طورپر تھا نہ کہ آپ کے دور کے بعد بلکہ صحابہ کرام بعدِ رسول تمام پيش آمدہ معاملات ميں اجتہاد کرکے مسائل کا حل نکالا کرتے تھے۔ ورنہ اگر ہر معاملہ ميں سکوت کرليا جائے تو پھر دنيا کى رہنمائى کس طرح ہوگى؟
  •  ٣- فرشتوں کا قول اس بارے ميں حجت نہيں ہوسکتا کيونکہ ان کو وہ علم ہى نہيں ديا گيا تھا جو انسان کو ديا گيا ہے۔
  •  ٤- سورہ رحمان کى آيت کے بارے ميں عرض ہے کہ يہ آيت -جيساکہ آٹھويں باب سے ظاہر ہوگا- خلائى پروازوں کے بارے ميں ايک واضح نص ہے جو ايک حيرت انگيز ربانى پيشين گوئى کے طورپر قرآن کے ابدى صفحات ميں موجود تھى جس کى صداقت پر موجودہ خلائى پروازوں نے مہر تصديق ثبت کردى ہے۔ واضح رہے کہ اس آيت کريمہ ميں ايسا کوئى لفظ موجود نہيں ہے جس سے يہ سمجھا جاسکے کہ يہ بات قيامت کے دن سے يا موت سے متعلق ہے۔ بلکہ اس کا ايک ايک لفظ صراحتاً موجودہ خلائى پروازوں کى تائيد کررہا ہے۔ يہ الفاظ بڑے ہى جچے تلے اور بڑے معنى آفريں ہيں۔ اس آيت کى تائيد ميں ديگر نصوص بھى موجود ہيں اور اس کا سياق و سباق بھى بڑا حکيمانہ اور معرکہء آراء١ٍ ہے۔

 آئمہ تفسير نے اس بارے ميں جو کچھ بھى بيان کيا ہے وہ اپنے دور کے تصورات کى پيش نظر رکھ کر بيان کيا ہے۔ انہوں نے اپنے دور ميں اس کا جو مطلب ليا، اس کے علاوہ وہ کسى دوسرے مفہوم کو لے ہى نہيں سکتے تھے۔ جيساکہ بيان کيا جاچکا ہے، اس قسم کى آيات ميں آئمہ تفسير سے اختلاف کى کافى حد تک گنجائش نکل سکتى ہے۔

 يہاں پر آگے پيچھے کى آيات ميں اس بات کا کوئى ہلکا سا اشارہ بھى نہيں ہے کہ اس ميں جنوں اور انسانوں کا عجز بيان کيا جانا مقصود ہے۔ صرف اتنا ہے کہ ’’تم بغير زور اور قوت کے زمين اور آسمانوں کے حدود سے نکل نہيں سکتے‘‘۔ اس کا صاف مطلب يہ ہوا کہ اگر تم کو زور اور قوت حاصل ہوجائے تو تم نکل سکتے ہو ورنہ نہيں، اس بيان سے يہ مطلب کسى قاعدہ اور کس منطق کى رو سے لازم آئے گا کہ تم ميں نکلنے کى قوت و استطاعت ہى نہيں ہے؟ بلکہ تم بالکل عاجز و بے بس ہو؟ حقيقت يہ ہے کہ عجز و بے بسى والا يہ مفہوم قرآن کا بيان کردہ نہيں بلکہ اس پر چسپاں کيا ہوا ہے۔ مزيد طرفہ تماشہ يہ کہ شيخ موصوف کو اس پر اصرار بھى ہے کہ اس کے علاوہ کوئى دوسرا مفہوم صحيح نہيں ہوسکتا اور اس سے خلائى پروازوں پر استدلال کرنے کى کوئى دليل و بنياد ہى موجود نہيں ہے۔ يہ بڑى عجيب قرآن دانى١ٍ ہے۔ حالانکہ اس سے خلائى پروازوں پر استدلال کرنے پر معرکہء آراء دلائل موجود ہيں۔

 ايک حديث شريف ميں ہے:

 فيہ ماکان قبلکم وخبر مابعدکم وحکم مابينکم ہواالفصل ليس بالھزل: (قرآن) ميں تمہارے دور سے پہلے کے تمام واقعات بھى ہيں اور تمہارے بعد والوں کى خبريں بھى۔ وہ تمہارے (تمام) معاملات ميں حاکم (جج اور منصف) ہے۔ وہ فيصلہ کن کلام ہے کوئى ہنسى مذاق نہيں۔  (ترمذى، ابواب ثواب القرآن)

 اس حديث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ميں ہر دور والوں کا تذکرہ موجود ہے اور يہ کہ قرآن ہر دور والوں کے حالات کے مطابق ان کا ٹھيک ٹھيک فيصلہ کرتا رہے گا۔ اب ميں شيخ محترم سے مؤدبانہ طورپر دريافت کروں گا کہ قرآن ميں ہمارے دور (خلائى عہد) کا تذکرہ کہاں ہے اور وہ ہمارے درميان کس لحاظ سے فيصلہ کرتا ہے؟

 ہوسکتا ہے کہ اس موقع پر سہل انکارى کے طورپر يہ کہہ ديا جائے کہ يہ کوئى صحيح حديث نہيں ہے بلکہ امام ترمذى  (رح) کے قول کے مطابق ايک مجہول حديث ہے تو اگلے صفحات سے ظاہر ہوگا کہ اس مجہول حديث کے مندرجات کى صحت پر خود قرآن اپنے لازوال نصوص کے ذريعہ مہر تصديق ثبت کرتا ہے۔ جس سے ظاہر ہوگا کہ ايک مجہول حديث کى صحت و صداقت کا کيا پايہ ہے! جس سے منکرينِ حديث کى بھى ترديد ہوجائے گى جو کہتے ہيں کہ حديث عجمى سازش کا نتيجہ ہے۔

ہميں پتوار اپنے ہاتھوں ميں لينے پڑيں شايد

يہ کيسے ناخدا ہيں جو بھنور تک جانہيں سکتے

کليسا اور اسلام:

 اسلام دنيا کا آخرى آسمانى مذہب ہے۔ اگر وہ بھى ان امور کى گرہ کشائى سے عاجز ہوجائے تو پھر نوع انسانى کى رہنمائى دوسرا کون سا مذہب کرے گا؟ اور عالم انسانيت کس کى راہ ديکھے گا؟ حق و باطل ميں فرق و امتياز کيوں کر ہوسکے گا؟ تذبذب و ارتياب سے تو ملحد و بے دينوں کى اس خام خيالى کو مزيد غذا ملے گى کہ اسلام موجودہ دور ميں کوئى رہنمائى نہيں کرسکتا بلکہ مذہب ايک داستان پارينہ اور ياوہ گوئى ہے۔ جس کے پھندے ميں کم عقل اور نادان لوگ مبتلا ہوگئے ہيں اور وہ افيون کى ايک گولى ہے جس کو بطور نشہ استعمال کرايا جاتا ہے وغيرہ۔

 ظاہر ہے کہ اسلام کليسا (چرچ) کى قسم کا کوئى مذہب نہيں ہے جس نے دينى و دنيوى معاملات ميں فرق نہ کرکے صديوں پہلے اپنى زبردست حماقت کا ثبوت دے چکا ہے۔ اور ہر نئى تحقيق کو خلاف مذہب قرار دے کر فتنوں کے دروازے کھول چکا ہے۔ جس کے باعث بڑے تلخ نتائج اور خونين ہنگامے برپا ہوئے۔ کليسا کى اس مجرمانہ ناعاقبت انديشى ہى کى بناء پر ماديت و دہريت (ميٹيريل ازم) نے جنم ليا۔ جس کے عواقب اور نتائج سے آج پورا عالمِ انسانى دو چار ہے۔ خدا بيزارى، آخرت فراموشى، اخلاقى اقدار کى پامالى، خود غرضى، حيوانيت اور عرياں تہذيب کا عروج وغيرہ اسى ماديت و دہريت کے کرشمے اور ثمرات ہيں -مگر اب اس قسم کے فتنوں کا دروازہ دوبارہ نہيں کھلنا چاہئے- ورنہ مذہب کى رہى سہى وقعت بھى خاک ميں مل جائے گى۔

 اور دوسرى حيثيت سے يہ بھى ايک ناقابل فراموش حقيقت ہے کہ آج اسلام عيسائيت اور کليسا کے پھيلائے ہوئے مذکورہ بالا زہر کا توڑ کررہا ہے۔ کيونکہ آج عيسائيت پورى طرح ’’مفلس و قلاش‘‘ ہوچکى ہے۔ جس کے پاس سوائے ’’ايک اور تين‘‘ کے کچھ بھى باقى نہيں رہا۔ اس کے برعکس صرف اسلام ہى ايک ايسا عالمگير اور ’’مالدار‘‘ مذہب ہے جس کے ’’خزانہء عامرہ‘‘ ميں ہر چيز کى بہتات اور ہر قسم کے اسلحہ کى فراوانى ہے۔ جن کے ذريعہ خداپرستى کے بڑے انوکھے اور نرالے اسباق پڑھا سکتا ہے۔ بقول اقبال

نشہ پلاکے گرانا تو سب کو آتا ہے

مزہ تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقى

 (اَتيٓ اَمْرُ اللّہِ فَلاَ تَسْتَعْجِلُوْہُ سُبْحنَہ وَتَعَالى عَمَّا يُشْرِکُوْنَ۔ يُنَزِّلُ الْمَلَآئِکَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہ عَلى مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٓ اَنْ اَنْذِرُوْآ اَنَّه لَآاِلهَ اِلاَّ ٓاَنَا فَاتَّقُوْنَ۔ خَلَقَ السَّموتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقَّ تَعَالى عَمَّا يُشْرِکُوْنَ۔) (نحل: ١-٣)

 ترجمہ: اللہ کا حکم آپہونچا لہذا تم جلدى مت کرو۔ وہ ان تمام (خرافات) سے پاک اور برتر ہے جن کو يہ لوگ مشرکانہ طورپر اس کى طرف منسوب کرتے ہيں۔ فرشتے اس کے حکم کى وحى کے ساتھ جس پر وہ چاہتا ہے اترتے ہيں١ٍ کہ تم (اہل دنيا کو) متنبہ کردو کہ ميرے سوا کوئى دوسرا الہ (معبود و برحق) موجود نہيں ہے۔ لہذا تم ميرى ہى وفادارى کرو۔ اللہ نے زمين اور آسمانوں کو حقانيت کے ساتھ (منصوبہ اور حکمت کے ساتھ) پيدا کيا ہے۔ (لہذا) وہ (ہر قسم کے) مشرکانہ توہمات سے برتر ہے۔

اسلام کى ہدايت و رہنمائى:

 غرض اس وقت دنيا ميں سوائے اسلام کے ايسا کوئى مذہب موجود نہيں ہے جو ہر معاملہ ميں نوع انسانى کى رہنمائى کرسکے۔ اس لحاظ سے اسلام نے صدہا سال قبل اپنے جامع و مکمل اور ابدى مذہب ہونے کا جو دعوي کيا تھا:

 (اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ)

 ترجمہ: آج ميں نے تمہارے لئے تمہارے دين کو مکمل کرديا ہے۔

 (اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّہِ الْاِسْلَامَ): اللہ کے نزديک پسنديدہ دين صرف اسلام ہے۔

آج اس کى صداقت کو ظاہر کرنے کا بھى ايک عمدہ اور بہترين موقع ہاتھ آگيا ہے۔ نيز يہ بات بھى ملحوظ رہنى چاہئے کہ اسلام يہ جو کہتا ہے کہ اس کا سرکارى صحيفہ (قرآن) نوع انسانى کے لئے ہدايت و رہنمائى کا پيغام لے کر آيا ہے۔ اور اس ميں حق و باطل کے درميان فرق و امتياز کے واضح دلائل موجود ہيں:

 

 (هدًى لْلِنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدى وَالْفُرْقَانَ) (بقرہ: ١٨٥)

 ترجمہ: يہ نوع انسانى کے لئے ہدايت ہے اور (اس ميں) ہدايت اور (حق و باطل ميں) فرق و امتياز کے دلائل موجود ہيں۔

 وہ کس حيثيت سے ہے؟ اس کى ہدايت و رہنمائى کيا ہے؟ وہ موجودہ اقوام عالم کى کس حد تک پيشوائى کرسکتا ہے؟ حق و باطل ميں فرق و امتياز کے دلائل کيا ہيں؟ وغيرہ۔

علمائے اسلام کا فريضہ:

 اب سوال يہ ہے کہ اسلام کى يہ ہدايت و رہنمائى کيسے اور کس طرح ظاہر ہوگى؟ اس کے دلائل و براہين کيوں کر منظر عام پر آئيں گے؟ تو ظاہر ہے کہ اس کى ذمہ دارى علمائے اسلام ہى پر عائد ہوتى ہے، وہى اس کے بيانات اجاگر کرنے کے ذمہ دار ہيں۔ ارشاد بارى ہے کہ نزول کتاب کى ايک بڑى غرض و غايت نوع انسانى کے اختلافات کو دور کرکے ان کے درميان ٹھيک ٹھيک فيصلہ کرنا ہے۔

 (وَاَنزَلَ مَعَهُمُ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْکُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ) (بقرہ: ٢١٣)

 ترجمہ: اور اس نے انبياء کے ساتھ کتاب حقانيت کے ساتھ اتارى تاکہ وہ لوگوں کے باہمى اختلافات کا فيصلہ١ٍ کرسکے۔ 

 اسى بناء پر ديگر مواقع پر کہا گيا ہے کہ تم آپس کے اختلافات کو رفع کرنے کے لئے کتاب اللہ کى طرف رجوع کرو:

 (وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْهِ مِنْ شَيْءٍ فَحُکْمُه ٓاِلَى اللّہِ) (شوري: ١٠)

ترجمہ:  اور تم جس چيز ميں بھى اختلاف کرو اس کا فيصلہ اللہ کے ذمہ ہے۔

 (فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللّہِ وَاِلَى الرَّسُوْلِ) (نساء: ٥٩)

ترجمہ:  اگر تم کسى معاملہ ميں اختلاف کربيٹھو تو تو اس کو اللہ اور رسول (قرآن اور حديث) کى طرف بڑھاؤ۔

 اس کا صاف مطلب يہ ہوا کہ نوع انسانى کے درميان قيامت تک پيش آنے والے نزاعات و مناقشات اور تکوينى و تشريعى ہر قسم کے پيچيدہ اور لاينحل مسائل کا حل کتاب و سنت ميں موجود ہے۔ اسى بناء پر ان مسائل کى تخريج اور فصلِ قضايا کى ذمہ دارى وحى الہى کے اولين امين و رازدان کے سپرد کى گئى تھى:

 (وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّکْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَکَّرُوْنَ۔)  (نحل: ٤٤)

ترجمہ:  (اے محمد) ہم نے تمہارے پاس اس تذکرہ (قرآن) کو اس لئے اتارا ہے کہ تم اس کے مضامين لوگوں پر واضح کردو تاکہ وہ (ان مضامين ميں يا اپنے معاملات ميں) غور و فکر کرسکيں۔

 اس نص قرآنى کے مطابق رسول اکرم صلعم کے فرائض ميں يہ بات داخل تھى کہ وہ لوگوں کے لئے قرآنى مضامين کى ’’تَبْيِيْنْ‘‘ (وضاحت) کرتے رہيں١ٍ۔ چونکہ علمائے اسلام رسول کے نائب اور جانشين ہيں اس لئے رسول کے واسطہ سے ان پر يہ فريضہ قيامت تک عائد رہتا ہے کہ وہ (لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ اِلَيْهِمْ) کے مطابق نوع انسانى کے احوال و کوائف اور ان کے مناقضات و مناقشات کے فيصلے کتاب و سنت کى روشنى ميں کريں اور ان کے اختلافات کے درميان ايک قاضى اور جج کى طرح محاکمہ کرتے رہيں خواہ يہ خصومات عقائد و نظريات سے متعلق ہوں يا عبادات و معاملات اور تزکيہء نفس سے۔ کيونکہ کتاب اللہ کو تکوين و تشريع اور فلسفہ تاريخ ہر ايک کے رازوں کا امين بنايا گيا ہے تاکہ وہ ہر دور کے تقاضے کے مطابق نوع انسانى پر ہدايت و ضلالت کى راہيں واضح کرسکے اور حق و باطل کے درميان فرق و امتياز کرکے عالم انسانى پر حجت پورى کرسکے۔ يہى وجہ ہے کہ ديگر مواقع پر ارشاد ہے:

 (اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ اَركَ اللّہُ وَلَاتَکُنْ لِّلْخَآئِنِيْنَ خَصِيْمًا۔) (نساء: ١٠٥)

ترجمہ:  (اے محمد) ہم نے يہ کتاب تمہارے پاس حقانيت کے ساتھ بھيجى ہے تاکہ تم اللہ کى فہمائش کے مطابق لوگوں کے درميان فيصلہ کرتے رہو١ٍ (مگر) تم بدعہدوں کے طرف دار نہ بنو۔

 (لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتَابَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ) (حديد: ٢٥)

ترجمہ:  ہم نے اپنے رسولوں کو يقينا کھلے کھلے دلائل کے ساتھ بھيجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور ميزان٢ٍ اتار دى ہے تاکہ لوگ (کتاب و ميزان کے مطابق کارزار حيات ميں) عدل و انصاف کے ساتھ قائم ہوجائيں۔

 (هذَا کِتَابُنَا يَنْطِقُ عَلَيْکُمْ بِالْحَقِّ) (جاثيہ: ٢٩)

ترجمہ:   يہ ہمارى کتاب ہے جو تم پر ٹھيک ٹھيک بول رہى ہے (يعنى ہر دور والوں کو ان کے احوال و کوائف حقانيت کے ساتھ سنارہى ہے۔

 (هُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلى عَبْدِہٓ آياتٍ بِيِّنتٍ لِّيُخْرِجَکُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ وَاِنَّ اللّہَ لَرَؤُفٌ رَّحِيْمٌ۔) (حديد: ٩)

ترجمہ:   وہى ہے جو اپنے بندے پر نہايت روشن دلائل اتارتا ہے۔ تاکہ وہ تم کو تاريکيوں سے نکال کر روشنى ميں لائے۔ اور اللہ يقينا بڑا ہى شفيق اور رحمدل ہے۔

 (تَبَارَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلى عَبْدِہ لِيَکُوْنَ لِلْعلَمِيْنَ نَذِيْرًا۔) (فرقان: ١)

ترجمہ:   بڑا ہے بابرکت ہے وہ جس نے اپنے بندے پر فرقان (حق و باطل ميں تميز کرنے والى کتاب) اتارى تاکہ وہ سارے جہاں کو متنبہ کرسکے۔

 ان آيات کے مطابق آئيے اب اسلام کى آخرى عدالت يا سپريم کورٹ (کتاب اللہ) کى طرف رجوع کرکے تسخير قمر کے سلسلے ميں جو غلط فہمياں بنى نوعِ انسان کے مختلف فرقوں، قوموں، اور گروہوں کے درميان پائى جارہى ہيں ان کا فيصلہ کريں اور اپنے باہمى نزاعات و اختلافات کو بھى رفع کرليں۔

 (اَفَغَيْرَ اللّہِ اَبْتَغِيْ حَکَمًا وَّهُوَ الَّذِيْ ٓاَنْزَلَ اِلَيْکُمُ الِکِتَابَ مُفَصَّلًا)  (انعام: ١١٤)

ترجمہ:  تو کيا ميں اللہ کے سوا کسى اور کو حکم مان لوں حالانکہ اس نے تمہارے پاس کتاب تفصيل کے ساتھ اتاردى ہے؟

تو ہى ناداں چند کليوں پر قناعت کرگيا

ورنہ گلشن ميں علاج تنگئى داماں بھى ہے

حواشى:

  • ١- اپالو ١١ کے خلاباز اور چاند کے اولين فاتحين۔
  • ٢- اس زبردست شور و گرج سے سيکڑوں ميل کا علاقہ لرزگيا تھا۔
  • ٣- چوتھے باب ’’قرآن اور فلکيات‘‘ کے مطالعہ سے پتہ چلے گا کہ ہمارى پورى کائنات -جو اربوں کہکشاؤں اور اَن گنت و لاتعداد ستاروں اور سياروں پر مشتمل ہے، عالم ناسوت کہلاتى ہے اور عالم لاہوت کى سرحد وہاں سے شروع ہوتى ہے جو ’’سقفِ محفوظ‘‘ يا آسمانِ اول سے پرے واقع ہے۔
  • ٤- ايک حرف جر (PREPOSITION) ’’ميں‘‘ (IN) کے معنى ميں۔
  • ٥- حرفِ جر ’’پر‘‘ (ON) کے معنى ميں۔
  • ٦- مطلب يہ کہ ہمارے کرہ ارض کے لئے ايک سورج اور ايک چاند بنايا گيا ہے اور بات يہاں پر عام مشاہدہ کے اعتبار سے کہى گئى ہے۔ يہ مطلب نہيں کہ ان تمام کہکشاؤں ميں صرف ايک ہى آفتاب اور ايک ہى ماہتاب ہے۔
  • ٧- اس کا ايک دوسرا مطلب يہ بھى ہوسکتا ہے: ’’بغير ايسے ستونوں کے جن کو تم ديکھ سکو‘‘۔
  • ٨- عام مفسرين نے اس آيت کريمہ کو قيامت سے متعلق مانا ہے۔ لہذا ان کے نزديک پہاڑوں کا چلنا قيامت کے دن ہوگا اور يہ مفہوم اس لئے ليا گيا ہے کہ يہ آيت تذکرئہ قيامت کے سياق ميں وارد ہوئى ہے مگر (صُنْعَ اللّہِ الَّذِيْ ٓ اَتْقَنَ کُلَّ شَيْءٍ) (يہ اللہ کى صنعت ہے جس نے ہر چيز کو استحکام بخشا ہے) کے الفاظ صاف دلالت کررہے ہيں کہ ان سے دراصل نظامِ فطرت کے اتقان و استحکام کى طرف توجہ دلانى مقصود ہے۔ ورنہ جس وقت پہاڑ پراگندہ ہوکر روئى کے گالوں کى طرح اُڑتے پھريں گے تو اس وقت ظاہر ہے کہ استحکام کا کوئى مفہوم ہى نہ رہے گا۔ حقيقت يہ ہے کہ زمين اپنے محور (AXIS) پر فى گھنٹہ ايک ہزار ميل اور اپنے مدار (ORBIT) ميں فى گھنٹہ ٦٠٠،٦٦ميل کى رفتار سے گردش کررہى ہے۔ مگر کمال يہ ہے کہ باوجود اس تيز رفتارى کے ہميں کسى قسم کا دھکا تک نہيں لگتا اور قطعاً محسوس نہيں ہوتا کہ ہم بھى بھاگے چلے جارہے ہيں۔ کيا يہ (صُنْعَ اللّہِ الَّذِيْ ٓ اَتْقَنَ کُلَّ شَيْءٍ) کا حيرت انگيز نظارہ نہيں ہے؟
  • ٩- قانونِ کشش کى تفصيلات کے لئے پانچواں اور ساتواں باب ملاحظہ ہو۔
  • ١٠- UNIVERSAL LAW OF GRAVITATION 
  • ١١- واضح رہے کہ اس موقع پر ’’اَجَلٍ مُّسَمّى‘‘ کے الفاظ لائے گئے ہيں۔ ’’اجل‘‘ کے معنى خود ہى وقتِ معين اور مدت مقررہ کے ہيں۔ اور لفظ ’’مسمى‘‘ مزيد تاکيد کے طورپر لايا گيا ہے۔ يعنى بالکل مقررہ مدت جس ميں کبھى کمى بيشى نہ ہوئى ہو۔
  • ١٢- تفصيلات اور خود سائنس کى شہادت کے لئے ملاحظہ ہو پانچواں اور ساتواں باب۔
  • ١٣- يعنى لاز آف نيچر (LAWS OF NATURE) جو اس عالمِ رنگ و بو ميں انسان کے چاروں طرف بکھرے ہوئے ہيں، جن کو سائنس دريافت کرتى ہے۔
  • ١٤- (وَاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآءَ فَوَجَدْنَاہَا مُلِءَتْ حَرَسًا شَدِيْدًا وَّشُہُبًا۔): اور ہم نے آسمانوں کو چھو کر ديکھا تو اس کو سخت نگہبانوں اور انگاروں سے بھرا ہوا پايا۔ (جن: ٨)
  •  يہ اور اس کے بعد کى آيت کو نقل کرکے شيخ فرماتے ہيں کہ جب جنات آسمانى دنيا ميں بھاگ دوڑ کرسکتے ہيں تو پھر يہ بات انسان کے لئے ناممکن کيوں کر ہوسکتى ہے۔ جس نے ايجادات و اختراعات ميں بے انتہاء ترقى کرلى ہے۔
  • ١٥- جن کو سائنسى اصول و نظريات خصوصاً رياضى، توانائى (ENERGY) اور قانونِ کشش (GRAVITY) کے ضوابط سے واقفيت ہو وہ اس کا انکار نہيں کرسکتا۔ انہى ضوابط کى بنياد پر آج ہزاروں مصنوعى ستارے کرئہ ارض کے چاروں طرف گھوم رہے ہيں۔
  • ١٦- اس کے برعکس جيساکہ اس کتاب کے اگلے ابواب سے ظاہر ہوگا اس واقعہ سے اسلام کى صداقت اور برترى بھى ثابت ہوتى ہے اور ديگر قوموں پر اتمامِ حجت بھى۔
  • ١٧- اس آيت کى تفسير اور اس کے معانى و مطلب پر تفصيلى بحث آٹھويں باب ميںکى گئى ہے اور اس کے سياق و سباق پر بحث ’’راکٹوں کى کہانى قرآن کى زبانى‘‘ حصہ اول ميں کى گئى ہے۔
  • ١٨- قرآن خود کو ايک حکيمانہ، واضح اور غير پيچيدہ کلام قرار ديتا ہے:
  •  (يسٓ وَالْقُرْانِ الْحَکِيْمِ۔) يا، سين۔ يہ حکمت والا قرآن شاہد ہے۔ (يس) (بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ۔): جو واضح اور غير پيچيدہ زبان ميں ہے۔ (شعراء) (وَلَمْ يَجْعَلْ لَه عِوَجًا۔): اور اس ميں کوئى بھى (معنوى خرابى) نہيں رکھى۔ (کہف(
  •  قرآن مجيد ايک ايسا حکيمانہ اور حيرت انگيز کلام ہے جس ميں کوئى بات حتى کہ کوئى لفظ تک بلاوجہ اور بلامقصد نہيں بيان کيا گيا۔
  •  اس لحاظ سے سورئہ رحمن کى زير بحث آيت سے ہمارے لئے رموز و معارف کا ايک دريا موجود ہے۔ جس کى تفصيل ميں ايک ضخيم کتاب لکھى جاسکتى ہے۔اگر بنيادى طورپر صرف اسى ايک باب ميں غور کرليا جائے تو يہاں پر انسانوں کے ساتھ ساتھ جنات کو کيوں مخاطب کيا گيا ہے؟ جنات کون ہيں اور کہاں رہتے ہيں؟ اور موجودہ راکٹ سازى سے ان کا کيا تعلق ہے؟ تو ہمارے لئے حکمت و معرفت کے دروازے کھل جاتے ہيں۔ تفصيل کے لئے ملاحظہ ہو ’’راکٹوں کى کہانى قرآن کى زبانى‘‘ حصہ سوم۔
  • ١٩- يعنى وہ جس کو چاہتا ہے منصبِ رسالت سے سرفراز کرتا ہے۔
  • ٢٠- يعنى جملہ عقائد و معاملاتِ زندگى ميں۔
  • ٢١- يہاں ’’تبيين‘‘ آج ہمارے سامنے حديث يا سنتِ رسول کى شکل ميں موجود ہے۔ جو ہمارے لئے نہ صرف حجت ہے بلکہ کتاب اللہ ميں غور و فکر کرنے اور اس کے منشا و مقصد کو سمجھنے کے لئے ايک نظير اور رہنما کا کام ديتى ہے۔ اس سے منکرين حديث کا يہ دعوي باطل ہوجاتا ہے کہ حديث کى کوئى آئينى حيثيت نہيں ہے يا وہ کوئى دليل شرعى نہيں ہے۔
  • ٢٢- يہ دليل ہے اس بات کى کہ رسول اللہ صلعم کے تمام فيصلے ’’اراء تِ الہى‘‘ (اللہ کى فہمائش) کے مطابق ہوا کرتے تھے۔ نہ کہ خواہشات نفسانى کے تحت۔
  • ٢٣- اس موقع پر ميزان سے مراد سنت انبياء ہے جو لوگوں کے لئے نہ صرف دليل شرعى اور حجت ہوتى ہے بلکہ وہ لوگوں کا جادئہ حق پر برقرار رکھنے کے لئے ايک الہى ضابطہ اور ايک آئيڈيل کى حيثيت رکھتى ہے۔
Exit mobile version