شاہدعادل قاسمی/پرنسپل مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ ارریہ
23اگست شام سات بجے دیوار پر ٹنگے اسکرین پر ایک چھ پہیا والی گاڑی کی تصویر بڑی خوب صورت اور من موہنے والی تھی،زمین کے بہ جاۓ چاند پرلینڈ کرنےوالی اس گاڑی سے "مون مشن” کی کام یابی پر ایک سو چالیس کروڑ کے سینہ ہی نہیں سر بھی کافی بلند ہوۓ،ملک عزیز میں "چاند مشن تھری” کی اس نمایاں کام یابی پر جشن اور مبارک بادی کا سلسلہ بھی ساتوں آسمان پر ہے،مسلسل چاند” مشن ون” اور "مشن ٹو” کی ناکامی کے بعد تیسری کوشش نہایت ہی تاریخی اور تعمیری رہی،اکتوبر 2008میں” مون مشن” کا پہلا تجربہ اس دیش کا تھا جو سفل نہیں ہوسکا۔
دوسری کوشش جولائ 2019 میں ہوئ جسے بھی نظر بدلگ گئی،خوش قسمتی اور”اسرو ٹیم”کی عزم آہنی کی منہ بولتی تصویر ہے کہ اتنی بڑی کام یابی مادروطن کو مل سکی ہے،14/جولائی 2023ءکو بھارت کے جنوبی اسٹیٹ” آندھراپردیش” سے اس” چندریان تھری مشن”کا آغاز ہوتا ہے، 40دن کی لمبی مسافت اور تگ و دو کے بعد دیش کو یہ عظیم تحفہ نصیب ہوتا ہے،چاند کے قطب جنوب پر اترنے سے قبل اس خلائ جہاز نے چاند کے مدار میں داخل ہونے سے پہلے دس دن تک زمین کے اردگرد چکر لگایا ہے، تب کہیں ملک کے باشندہ کو بزم مسرت سجانے کاآج موقع میسر ہوا ہے، 17اگست 2023کو اس مشن کا آخری مرحلہ شروع ہواتھا،جو چاند کے قریب لے گیا،آج ملک ہندوستان چاند کے اس حصے پر خلائ جہاز اتارنے والا پہلا اور امریکہ،سابق سوویت یونین اور چین کے بعد لیڈنگ کرنے والا چوتھا ملک بن چکا ہے،جس کی دریافت پر آج انڈیا واشی پھولے نہیں سمارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
انڈیا خلائ ایجنسی کی یہ بارآور کوشش تاریخ کے سنہرے پنوں میں درج ہوچکی ہے،ایجنسی نے اپنے ہیڈ کوارٹر کے آپریشن سینٹر کی تصویر وائرل کرکے اپنی جہد مسلسل اور سعئ پیہم کا پرچم نصب کیا ہے،”اسرو”کے سائنس داں،ٹیکنالوجز اور پوری ٹیم نے اس کام یاب لینڈگ پر خوشی کا اظہار بھی کیا ہے،چاند کے جنوبی قطب پرمزید دریافت کے سلسلے میں سائنس داں آج بھی بونا نظر آتے ہیں،بہت حد تک اس کو غیر دریافت شدہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے،چاند کے اس حصہ کو اندھیرا والا حصہ بھی کہا جاتا ہے،”چندریان تھری” کی دریافت پر دیش کو فخر ہی نہیں بل کہ دیش "چین” کے مد مقابل شمار کیا جانے لگا ہے،اس کام یابی سے مربوط ملکوں سے مشترکہ سائنسی مقاصد کی حصول یابی بہتر ہوسکتی ہے،بین الاقوامی تعاون میں مزید بہتری آسکتی ہے،انسانوں کی معیار زندگی میں ترقی ہوسکتی ہے،موسم ایجنسیوں،سمندری وسائل کی تشخیص اور جنگلات کے احاطے کا تخمینہ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے،دفاع کے لیے خلائ ٹیکنالوجز مفید ہوسکتے ہیں۔
"چندریان مشن تھری ” کی کام یابی پر ملک کے فردِ آخر سے فردِ اول تک نے بے شمار فوائد گناۓ ہیں ؟ لاتعدُوولاتُحصی نیک خواہشات پیش کئے گئے ہیں،ان گنت مبارک بادیوں کا گل دستہ پیش کیا جا رہاہے،باشندگان ہند کے نام وزیر اعظم کا خطاب بھی ہوا،ہم بھی” اسرو ٹیم”کی کامیابی پر دل سے جشن منانے کے ساتھ ساتھ اپنے ایمان کے مطابق: ’’سخّر لکُم الشمس والقمر دائبین وسخّر لکُم اللیل والنّھار ‘‘ والی آیت کی تفسیر وتفہیم پر بھی ایمان مکمل جماۓ رکھے،انشقاق قمر(صلواعلیہ وآلہ)پر اعتماد ر اور انگشت مبارک(صلی اللہ علیہ وسلم)کے اشارے سے ٹکڑے والے معجزے پر بھی سر دُھنتے رہے،چاند پر اپنا بھی گھر بسے اس تھیوری اور مقصد پر ملے جلے جذبات سے ہم خود بہ خود اپنے آپ سے ٹوہ لیتے رہے، اپنی کم علمی کے اعتراف کے باوجود قرآنی آواز پر بھی ہمیں ایمان کامل ہے :الّذِی جعلکُم الارض فِراشا والسّمآء بِناء‘‘ سے ہمیں خالقِ دنیا کے حکم اور اعلان پر بھی یقین محکم ہے، آسمان سےاترنے والی وہ برف جو پانی سے بنتی ہے اس کی بھی جستجو اور دریافت کی للک لئےہم ٹہلتے رہے،گرچہ ’’وانزل مِن الّسماءِمآء فاخرج بہ مِن الثّمراتِ رِزقالکم؞بھی صد فی صد ہماری نگاہ میں برحق ہے، اسی طرح اپنابھی ایک چھوٹا سا آشیانہ چاند پر بن جاۓ مگر خدائ آواز :الّذِی جعل لکُم الارض مِھادا‘‘ کی تصدیق بھی ہمیں خود رب کائنات کی منہ زبانی یاد ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خود اعتمادی، قیادت اور ایٹی ٹیوڈ
خیر میرا یہ ایک نامعقول انسانی خواب اب بھی خواب ہی ہے،اسے شرمندۂ تعبیر ہونے میں کتنا سمے لگتا ہے یہ تو مالک کائنات ہی جانے،چاند پر دوگانہ ادائیگی اور آذان بلال کی آواز کانوں سے کب ٹکراے گی یہ تو خالق شمس وقمر ہی جانے،چاند پر ہنومان چالیسہ اور کیرتن کب ہوگا؟ وہ تو ارض وسماء کا رچنا کار ہی جانے، چاند پر واہے گرو اور عیسی مسیح کی آواز کب گونجے وہ تو خالقِ گرو اور مالک دوجہاں ہی جانے ،زمین کی طرح چاند پر بھی کب قتل وقتال اور جنگ وجدال ہو وہ تو رحمان ورحیم ہی جانے،فی الحال ہم تو چندریان کی اس تیسری کام یاب کوشش پر گد گد ہیں اور ملک کی اس بڑی اُپلبدھی پر” اسرو ٹیم "کا شکرگزار ہیں،ویسے چاند سے بھی ہماری محبت فطری ہے،چاند کے حسن پر ہماری قوم پہلے سے زیادہ فدا ہے،چاند کی دید ہماری خوشی اور ضرورت کی تکمیل بھی ہے، اس لیے چاند پر کمند ڈالنے والوں سے یہ بھی کہنا بجاہوگاکہ انسان چاند سے بھی زیادہ حسین ہے،آپ اپنے اعمال میں حسن ہی حسن کے نمونے ثبت کریں تاکہ آگے ترقیاتی زینہ مزید اوپرچڑھ سکےاور ہم’’ لقد خلقنا الانسان فی احسنِ تقویم ‘‘ کی بہتر تفسیر بن سکیں۔