۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

چاند پر بھارت، پانی میں سیمانچل :آخر کب بدلے گی سیمانچل کی تصویر ؟

مفتی محمد اطہر القاسمی/نائب صدرجمعیۃعلما بہار

الحمد للّٰہ عالمی نقشے پر ہمارا ملک تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہے، حتی کہ ہم نے چاند پر بھی اپنی کمندیں ڈال دی ہیں، اس لئے ہمارے عظیم ملک کی ترقیوں کا ڈنکا پورے عالم میں بج رہا ہے۔ خدا کرے کہ سونے کی چڑیا ہمارا یہ خوبصورت ملک یوں ہی آباد و شاد باد رہے اور اسے کبھی کسی کی نظر بد نہ لگے۔لیکن اس ملک کی بدنصیبی یہ ہے کہ یہاں جو شخص، جماعت یا خطہ امیر ہے وہ مزید امیر بنتا جارہاہے اور جو غریب ہے اس کی غربت میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے۔

آج کی اس تحریر میں میرا موضوع سخن غربت کا شکار میرا سیمانچل ہے۔

بہار کی راجدھانی پٹنہ سے تقریباً ساڑھے تین سو کلو میٹر کی دوری پر بہار کے شمال مشرقی حصے پر سیمانچل کا علاقہ آباد ہے۔2011 کی مردم شماری کے مطابق گیارہ ہزار کیلومیٹر کے علاقے پر مشتمل اس کی مجموعی آبادی تقریباً 10.8 ملین (1,20,35,319 کروڑ) ہے۔

 2011 کی مردم شُماری کے مطابق ضلع ارریہ کی مجموعی آبادی 28 لاکھ،11 ہزار،569 ہے،جس میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی 42.95 فیصد ہے،یعنی یہاں مسلمانوں کی مجموعی آبادی 12 لاکھ 7 ہزار،442 ہے۔2011 کے مطابق ضلع پورنیہ کی مجموعی آبادی 32 لاکھ،64 ہزار،619 ہے،جس میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی 38.46 فیصد ہے،یعنی یہاں مسلمانوں کی مجموعی آبادی 12 لاکھ،55 ہزار،641 ہے۔2011 کے مطابق ضلع کٹیہار کی مجموعی آبادی 42 لاکھ،68 ہزار،731 ہے،جس میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی 44.47 فیصد ہے،یعنی یہاں مسلمانوں کی مجموعی آبادی 13 لاکھ،65 ہزار،645 ہے جبکہ 2011 کی مردم شُماری کے مطابق ضلع کشن گنج کی مجموعی آبادی 16 لاکھ،90 ہزار،400 ہے،جس میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی 67.98 فیصد ہے،یعنی یہاں مسلمانوں کی مجموعی آبادی 11 لاکھ،49 ہزا،95 ہے۔

2011 کے ان سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گویا سیمانچل کے ان چاروں اضلاع میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی 49 لاکھ،77 ہزار،823 ہے۔یہی وجہ ہے کہ الیکشن انتخابات میں مسلمانوں کی ووٹنگ یہاں کے امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کرتی ہے۔صوبہ کی تمام سیاسی پارٹیوں کی نظریں اس علاقہ کے 24 اسمبلی اور 4 پارلیمانی حلقوں پر مرکوز رہتی ہے۔یہی سبب ہے کہ سیاسی پارٹیاں سیمانچل کے مقدر کو سنوارنے کا ہمیشہ دعویٰ کرتی آ ئی ہیں، لیکن زمینی سچائی یہ ہے کہ سیمانچل کی عام آبادی کو آج بھی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔

سیمانچل کے مسلمان بڑے محنتی،قناعت پسند اور جفاکش واقع ہوئے ہیں،اسی لئے پورا ملک بطور خاص دہلی،ممبئی،کولکاتہ،چنئی،حیدرآباد،بنگلور،گجرات اور ہریانہ و پنجاب جیسے بڑے شہروں میں یہاں کے لوگ ہزاروں کی تعداد مل جاتے ہیں،ملنے کے معنیٰ ہرگز یہ نہیں کہ وہ وہاں بڑے بڑے عہدوں پر فائر ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ اہل سیمانچل اپنے عزیز وطن کو چھوڑ کر مذکورہ بالا شہروں میں مسافرت کی زندگی بسر کرتے ہوئے چھوٹے موٹے کام کاج مثلأ  کاج بٹن،سلائی کڑھائی،رنگ رنگائی،گھروں کی چُنائی،دیواروں کی پُتائی،کھیت روپائی،دھان و گیہوں کَٹائی حتیٰ کہ سروں پر سیمنٹ اور سبزی ڈھلائی جیسا کام کرکے اپنے والدین اور بال بچوں کی روزی روٹی کے انتظام کے ساتھ ان کی پرورش و پرداخت اور تعلیم وتربیت کے انتظامات کرتے ہیں۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سیمانچل کے ان علاقوں سے محکمۂ ریلوے کو جو انکم آتا ہے شاید ملک کے کسی بھی محض چار اضلاع کے مسافروں سے اسے نہیں آتا ہوگا اور سیمانچل ایکسپریس کے نام سے یومیہ جوگبنی ارریہ، پورنیہ اور کٹیہار ہوتے ہوئے ملک کی راجدھانی دہلی کو جانے والی مشہورِ زمانہ ریل گاڑی پر تو یہاں کے مزدور پیشہ لوگ اس طرح بَھر بَھر کر بلکہ لَد لَد کر بال بچوں کی روزی روٹی کمانے کے لئے سفر کرتے ہیں کہ الامان و الحفیظ ۔۔۔گرچہ بعضے ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنی لیاقت و قابلیت کی بناء پر ان جگہوں پر اپنے لوہے بھی منوارہے ہیں،لیکن ایسے خوش نصیبوں کی تعداد انگلی پر نہیں بلکہ پوروں پر گنی جا سکتی ہے؛یہ غریب اور مزدور پیشہ طبقہ جن کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے،کام بھی زیادہ کرتا ہے اور دام بھی اوروں سے کم لیتا ہے۔بھارت کے مذکورہ بالا ان معاشی مرکزی شہروں کی بے شمار فیکٹریاں،کمپنیاں،ایجنسیاں اور دوکانیں ان ہی کے دم پر آباد و شاد کام ہیں۔چنانچہ اگر یہ طبقہ یکمشت ان شہروں کو خیر باد کہہ کر اپنے وطن مالوف لوٹ آئے تو وہاں کی بےشمار پھولتی پھلتی معیشتوں کے دیوالئے ہوجائیں گے۔لیکن شاید ایسا کبھی نہیں ہوگا اور اس لئے نہیں ہوگا کہ خطۂ سیمانچل کی قسمت میں سالانہ سیلاب ہے،پانی ہے،طوفان ہے،آندھی ہے،بارش ہے،خشک سالی ہے،تباہی ہے،بربادی اور ستم ظریفی ہے۔یہاں نہ کَل کارخانے ہیں،نہ فیکٹریاں نہ مشنریاں ہیں،نہ ہی بڑی بڑی ایجنسیاں ہیں؛ یہاں تو ندیاں ہیں،نالے ہیں اور ان کی کوکھ سے نکلتی ہوئی تباہیوں کی سالانہ داستانیں ہیں۔یہ کسانوں کا خطہ ہے،یہاں کی بیشتر آبادی دیہاتوں میں بستی ہے،یہاں ہر سال لوگ ایک دوبار نہیں بلکہ بار بار چلچلاتی دھوپوں اور بارش کی بوندوں میں اپنی کھیتیاں لگاتے ہیں اور سالانہ سیلاب کے حوالے کر دیتے ہیں اور اگر کبھی کبھار قسمت نے ساتھ دے دیا تو پھر 9 پیسے کا اناج مارکیٹ میں 3 پیسے میں بیچ کر یہ دھنّا سیٹھوں کے شکرانے ادا کرتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایسی خشک سالی آتی ہے کہ کھیتوں میں لہلہاتی فصلیں جل بُھن کر برباد ہوجاتی ہیں۔اس باڑھ اور سکھاڑ کے موقعے سے سرکار کسانوں کو سبسیڈی بھی دیتی ہے لیکن وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہوتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ یہ اتنی بڑی آبادی بغیر چرواہے والے ریوڑ کی طرح ہے کہ ان کے مسائل کو سننے والا کوئی نیتا اور حل کرنے والا کوئی لیڈر اور مسیحا نہیں ہے؛نہیں بالکل نہیں بلکہ ایسے ایسے  لیڈران ہیں جو مَجھے مجھائے،تپے تپائے،پکے پکائے،بنے بنائے اور اپنے پَیرُوؤں کے تربیت یافتہ بھی ہیں، البتہ مسئلہ یہ ہے کہ ان مسیحاؤں کی خصوصی زیارت صرف پنچ سالہ الیکشن کے مواقع پر ہی ممکن ہوتی ہے اور تب وہ اس کشادہ قلبی،وسعت ظرفی،فراخ دلی،فیاضی بلکہ دریا دلی کے ساتھ چار سال کے طویل عرصے کے بعد الیکشن کے سال میں رونما ہوا کرتے ہیں اور اس رحم دلی اور ہمدردی کے ساتھ کہ سالے کَلوا کی کالی بٹیا کا جنازہ بھی ہو تو پھر نظارہ قابل دید ہوا کرتاہے۔بقیہ چار سال یہ سیمانچل والے سالانہ سیلاب میں ڈوب جائیں،ان کی کھیتاں برباد ہو جائیں،تنکے تنکے سے تعمیر کئے گئے ان کے آشیانے پانی کی تیز دھاروں میں بہہ جائیں اور ہفتوں ان کے چولہے نہ جلیں اور ایک عدد لکڑی کا ناؤ تک نہ ملے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ ہم تو راجا جی ہیں نا،ہمارے راج میں بسنے والی یہ رعایا جائے گی تو کدھر جائے گی؟ یعنی بندھوا مزدوروں کی طرح اپنے باپ داداؤں کے نقش قدم پر چلنے والی یہ قوم محنت،مزدوری،جفاکشی اور خون و پیسنے کی چکی میں پِس کر اپنے بال بچے اور گھر آشیانے کو بنانے اور بچائے رکھنے والے یہ اہل سیمانچل کولہو کے بیل کی طرح گھومتے رہتے ہیں، یقینا شام ہوگی تو سفر کی تکمیل تو ہوہی جائے گی خواہ راہوں میں گلاب کے پھول ملیں یا ببول اور نکپھینی کے کانٹے ۔

کہتے ہیں کہ خود کردہ را علاجے نیست یعنی جیسی کرنی ویسی بھرنی۔

یہ بھی پڑھیں:  چاند کا سفر

سال کے بارہ مہینے اپنی محنت مزدوری کی کمائی سے روکھی سوکھی روٹی کھا کھا کر روزانہ چائے کی دکان پر دوسروں کو برا بھلا کہنے والے، دوسروں کی ترقی دیکھ کر حسد کی آگ میں جلنے والے، مولویوں ملاؤں مدرسوں مسجد کے اماموں اور مذہبی رہنماؤں کو کیلو کیلو بھر گالیاں دینے والے، شادیوں کے نام پر لڑکیوں کے غریب والدین سے بھیک منگواکر موٹی موٹی رقمیں اینٹھنے والے، بھوج اور بارات کے نام پر لڑکی والوں کے دروازے پر شیخیاں بگھار کر بکرے کے گوشت کی بوٹیاں اڑانے والے، اپنی ناکیں اونچی رکھنے یا کرنے کے لئے مشقت بھری کمائی کو شادیوں کی فضول خرچیوں میں بے دریغ اڑادینے والے، قابل رحم مخلوق بیٹیوں کی جائیدادوں پر ناگ بن کر تن تنہا قبضہ جما لینے والے، پدرم سلطان بود کا نعرہ لگاکر مست و مگن رہنے والے، چائے کی دکان پر مینڈکوں کی طرح اپنی گالیں پٔھلا پٔھلا کر ڈینگیں مارنے والے، بات بات پر گھر آنگن اور سماج و معاشرے کے مسائل کو کورٹ اور کچہریوں تک لے جانے والے، مزدوریاں کرکرکے وکیلوں کی فیس ادا کرنے والے اور تیری بکری نے میری گھاس کیوں کھائی پر میدان کارزار گرم کردینے والے یہ درد کے مارے آنکھیں بند کرکے دھرم مذہب ذات فرقہ اور برادری کے نام پر ٹوکریاں بھر بھر ووٹ تو ڈالیں گے لیکن کیا مجال کہ وہ اپنے ان سیاسی آقاؤں سے ان کی چار سالہ کارگذاری کی روداد مانگ لیں؟ اُن کے حلقے میں اِن نیتاؤں نے کیا کیا تعمیراتی کام انجام دئیے،ان سے اس کی فہرست طلب کرلیں؟ سرکار کی طرف سے چلائی جانے والی متعدد یوجناؤں اور اسکیموں کا ان کے حلقے میں کتنا فیصد عملی نفاذ ہوا اس پر وہ سوال اٹھا سکیں؟ سیلاب میں کمر کمر اور گردن گردن بھر پانی میں تیر کر یا پھر کیلے کے ناؤ اور چچری کے پل پر بوڑھے ماں باپ اور روتے بلکتے معصوم بچوں کی جان بچائی لیکن مصیبت کے ان کالے ایام میں کوئی نیتا انہیں ترچھی نگاہوں سے بھی جھانکنے نہیں آیا؟ مجال ہے کہ وہ ان سورماؤں سے یہ سوالات کرڈالیں!نہیں یہ ممکن نہیں۔بلکہ ان کی سادگی کا عالم تو یہ ہے کہ ان کے علاقے سے ان کے یہ نیتا جی اپنی لگژری گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ گذر جائیں گے تو یہ دیر تک سڑکوں کو تکتے رہ جائیں گے اور دل ہی دل میں گنگنائیں گے –

بہارو پھول برساؤ مرا محبوب آیا ہے۔

ان کی سادہ لوحی دیکھئے کہ یہ  چار سال کے بعد کی دیدار پر بھی اپنے لیڈروں کی میٹھی میٹھی بولیوں،خوبصورت و رنگین خوابوں اور حسین و دلکش نعروں کی بھول بھلیوں میں وہ گم ہوجائیں گے اور اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ کے مطابق جُھنڈ کے جُھنڈ ان کے آگے ان کے جھنڈے لےکر گھومیں گے اور پانچ آدمی زور زور سے آواز لگائیں گے کہ میرا نیتا کیسا ہو؟ ادھر پچاس آدمی سانس پھلا پھلا کر نعرہ لگائیں گے کہ میرا نیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے جیسا ہو۔بھلا آپ ہی بتائیے کہ ایسی صورت حال میں سیمانچل کیسے ترقی کرے گا اور ملک اور دنیا میں اس کی بدحالی کی تصویر کیسے بدلے گی؟خیر بات دوسری طرف چلی گئی۔عرض یہ کرنا تھا کہ 

صاحبو!

کیا سیمانچل والوں کی قسمت میں ایک عدد بڑا باندھ یا ڈیم بھی نہیں ہے؟

جس سے نیپال کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سیلاب کے پانی کو سیدھے سمندر میں گرا دیا جاتا۔ہر سال کروڑوں و اربوں روپے کی مالیت کا نقصان ہونے سے ہمیشہ کے لئے بچ جاتا،ہر سال سینکڑوں قمیتی انسانی جانیں بچ جاتیں،ہزاروں جانداروں کی کی ہلاکتیں نہ ہوتیں،تنکے تنکے سے تعمیر کئے گئے آشیانے پانیوں کی تہوں میں گم نہیں ہوتے،لاکھوں لوگ بیماریوں سے محفوظ رہ جاتے اور یوں سیمانچل سے غربت کا خاتمہ ہوتا یا کم از کم غریبی و بدحالی تو کم ہوتی یا کوئی ایسا منصوبہ اور پلان سیٹ کیا جاتا اور یہ راج نیتا اپنی اپنی پارٹیوں کے وفادار بن کر ہی سہی سیمانچل کی کامن و مشترکہ ترقی کے اس جامع و مشترک ایشو پر اپنی مخلصانہ کوششیں صرف کرتے۔

شاید سیمانچل میں ایسا کچھ نہیں ہونے والا ہے۔اسی لئے ہمیشہ کی طرح اس سال بھی سیمانچل بطورِ خاص کشن گنج و ارریہ والوں نے گھر میں لکڑیوں کی بنی چوکیوں کے اوپر چوکیاں رکھ کر بچوں کو اس پر سلادیا،جانوروں کو خود اپنی حفاظت آپ کے لئے کھلا چھوڑ دیا،برسوں کے بعد تو لائٹ آئی اور وہ بھی کبھی آتی کبھی نہیں آتی، اس لئے کہ وہ تو نئی نویلی دلہن ہے شاید پاؤں کے پازیب میں کیچڑ نہ لگ جائے،اس لئے وہ پہلے گھونگھٹ اٹھاکر دیکھتی ہے پھر اپنا درشن کراتی ہے،لہذا لوگوں نے بیٹری والے ٹارچ کا ہی انتظام کرلیا،لائیو نیوز تو اب موبائل پر ہی آتا رہتاہے لیکن یہاں تو سیمپل موبائل کے چارچ کی سَمسیا ہی کیا کم ہے،کم از کم یہی ہزریا موبائل بھی چارج ہوجائے تو کیا کم ہے کہ کم از کم یہ خبر تو ملتی ہی رہے گی کہ کس کا کون رشتے دار کب کہاں اور کس طرح پانی میں ڈوب کر مرگیا اور اس کے جنازہ کا وقت کیا ہے؟؟؟-

واضح رہے کہ تعلیمی میدان میں سیمانچل کے بچوں نے ملک میں جو کچھ نمایاں مقام حاصل کیا ہے یا کررہےہیں یہ ان کی اور ان کے باغیرت والدین کی ذاتی کوششوں اور رب العالمین کے فضل وکرم کا نتیجہ ہے اس میں شاید کسی سیاسی لیڈر کا کوئی رول نہیں ہے الا ماشاء اللہ۔

واہ ر ے سیمانچل واہ۔۔۔۔جی چاہتاہے کہ میں بھی ایک بار اپنے اس خوبصورت سیمانچل کے لئے الیکشن سے پہلے ہی نعرہ لگادوں۔

سیمانچل زندہ باد، سیمانچل کے ہردالعزیز نیتا زندہ باد اور سیمانچل کی ترقی زندہ باد۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: