حقیقی رومانس اور سکون سے محروم ترقی یافتہ انسانی معاشرہ​

حقیقی رومانس اور سکون سے محروم ترقی یافتہ انسانی معاشرہ

محمد عمر فراہی

بات چل رہی تھی کہ اب چیزوں میں لذت نہیں رہی تو کسی نے کہا کہ نہیں چیزیں ویسی ہی ہیں لوگ بدل گئے ہیں ۔یہ بات درست نہیں ہے ۔لوگوں کے ساتھ نہ صرف چیزیں بدلی ہیں ثقافتیں اور روایتیں بھی بدل گئیں ہیں اور جب لوگ بدلتے ہیں تو لوگوں کے رہن سہن بات چیت اور تعلقات کی لذت رومانس اور ذائقے میں بھی تبدیلی کا فرق ہونا ہی ہے جو واضح طور پر محسوس بھی کیا جاسکتا ہے ۔ویسے انسانی سائنس کا بنیادی اصول بھی ہے کہ جو چیز جس چیز سے تخلیق میں آتی ہے اگر اس کے کل پرزے اور خوراک میں نقص ہے تو اس چیز اور سامان میں بھی نقص ہونا لازمی ہے ۔اب دیکھئے نا پہلے کے انسان کتنے مضبوط توانا اور صحت مند ہوا کرتے تھے ۔کیا آج کی  نسل بھی اتنی ہی مضبوط اور صحت مند ہے ۔پہلے ایک عورت بارہ بچے خود سے گھر میں پیدا کر لیتی تھی ۔اب کی عورتوں کے دو بچے بھی ڈاکٹر اور اسپتال کی مدد اور آپریشن سے ہو رہے ہیں تو کیوں ؟

پہلے زمینیں مضبوط تھیں تو ان سے پیدا ہونے والی فصلیں اور پھل فروٹ میں بھی لذت اور طاقت تھی ۔زمینوں کے اپنے مضبوط ہونے کی وجہ بھی یہ تھی کہ زمین بھی اچھی خوراک لیتی تھی ۔اچھی خوراک سے ہماری مراد یہ ہے کہ پہلے زمین کیڑے مکوڑے کیچوۓ اور خالص جانوروں کے فضلے کھاتی تھی اس لئے فصلوں میں اور پھلوں میں لذت تھی مگر اب زمین کو جب سے طرح طرح کا کیمیکل کھلایا جارہا ہے اس کیمیکل سے یہ کیڑے مکوڑے اور کیچوئے مر گئے ہیں ۔پیداوار میں اضافہ ضرور ہوا لیکن کیا پھلوں اور  اناجوں میں وہ پہلے جیسی لذت ہے ؟

اب سوچئے کہ جب آدمی ان کیمیکل سے اگاۓ گئے پھلوں اور سبزیوں کو کھاۓ گا تو کیا وہ صحت مند رہ سکے گا ۔اسی طرح پہلے مریض جڑی بوٹیوں سے ٹھیک ہو جایا کرتا تھا اب کیمیکل سے تیار کی گئی ادویات اور ایلوپیتھی کی ٹکنک سے مریض کو فوری راحت تو مل جاتی ہی لیکن یہ دوائیں جسم کے دوسرے orgon کو خراب کیے بنا نہیں رہتیں ۔بات صرف غذاؤں اور خوراک کی نہیں کہ جن کے بدلنے کی وجہ سے آدمی کے جسمانی خدوخال میں تبدیلی واقع ہو چکی ہے اور وہ مختلف بیماریوں کی زد میں ہے ،بات حرام طریقے سے حاصل کئے گئے رزق کا بھی ہے ۔حرام طریقے سے حاصل کی گئی رزق اور خوراک نے بھی انسانوں کو روحانی اور ذہنی مریض بنا دیا ہے ۔اس طرح اس کی سوچ میں بھی تبدیلی آئی ہے اور یہ سوچ کی تبدیلی اس کی جسمانی تبدیلی سے کہیں زیادہ تباہ کن ہے ۔محسوس کیجئے کہ جو مثبت اور مقدس سوچ اور ذہنیت ہمارے بزرگوں کی تھی کیا نئی نسل بھی اسی سوچ کی حامل ہے ۔اس حقیقت کا اعتراف کر لیجئے کہ پہلے انسان نے چیزوں کو کیمیکل دواؤں اور جدید ٹکنالوجی کے ذریعے بدلہ جسے hybrid کہا جاتا ہے ۔اور اب جب چیزیں بدلیں اور اس کے حصول کے طریقے بدلے تو ان چیزوں نے انسانوں کو تیزی کے ساتھ بدلنا شروع کر دیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے اور جو اشارات مل رہے ہیں آنے والی نسلوں میں  اتنی تبدیلی آجاۓ گی کہ اسے دوبارہ اپنی اصلیت پر لانا محال ہوگا یا اسے اس کی اصلیت پر لانے والے لوگ بھی یا تو بہت قلیل رہ جائیں گے یا اپنی اصل کھو دیں گے ۔

جیسا کہ مورخین نے لکھا ہے ماضی قدیم کے انبیاء کرام کی امتوں کے ساتھ بھی  یہ hybrid technology کا حادثہ پیش آ چکا ہے ۔۔ابلیس نے نبوی تحریک کے مقابلے میں جنوں اور انسانوں کی نسل کو اسی hybrid technology  کے ذریعے ایسی انسانی نسل کی افزائش کی  جن کی جسامت کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔عاد ، ثمود اور یاجوج ماجوج جیسی قوموں کا تذکرہ قرآن میں جس طرح آتا ہے دنیا میں انسانوں کا کوئی گروہ ان سے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتا تھا اور پھر خدا ہی کو انہیں تباہ کرنے کیلئے آسمانی عذاب کے ذریعے مداخلت کرنا پڑا ۔وہ جہاں بہت زیادہ طاقتور اور جابر تھے انہوں نے پہاڑوں میں پتھروں کو کاٹ کر جس طرح مضبوط مکانات بنالئے تھے خود کو ناقابل تسخیر تصور کرنا شروع کر دیا تھا ۔چونکہ وہ دور جسمانی طاقت کا تھا ۔جنگیں لاٹھیوں اور پتھروں سے ہوتی تھیں اس لئے ابلیسی طاقتوں نے حرام طریقے سے انسانی نسل میں بگاڑ پیدا کیا اب جنگیں دماغ اور دور بیٹھ کر میڈیا اور میزائل سے بھی لڑی جارہی ہیں اس لئے آج ابلیس نے آتشیں ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ مختلف ذرائع ابلاغ اور مختلف خوراک اور ادویات کے ذریعے لوگوں کی سوچ پر بھی حملہ شروع کر دیاہے بلکہ یہ کہا جاۓ تو مبالغہ نہ ہوگا کہ طاغوتی  طاقتیں اکثریت کو ورغلانے میں کامیاب ہیں ۔چیزوں نے نہ صرف لوگوں کے جسمانی خدوخال پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں اکثر ہمارے مفتی مولوی اور مسلم دانشور حضرات بھی جب یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مغرب نے اسکول کالج کھول کر ہمارے اوپر احسان کیا ہے تو یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ وقت کی طاغوتی طاقتیں کس طرح اہل ایمان کی سوچ کو بھی بدلنے میں کامیاب ہیں ۔انہیں کہنا چاہئے کہ مکتب تو ہم نے کھولا تھا ۔علم تو ہم نے بانٹا ہے ۔تہذیب و ادب کے ادارے ہم نے قائم کئے ہیں ۔صنعتیں ہم نے قائم کی ہیں ۔انسانوں سے انسانوں کی آزادی کی سوچ ہماری تھی ۔ہم نے غلاموں کی خریدو فروخت پر پابندی لگائی جبکہ مغرب نے تعلیم اور آزادی کے نام پر ہر شئے کو حلال سے حرام میں بدل کر دنیا اور انسانیت کا رخ بدل  دیا اور ہم حلال وحرام کی تمیز کئے بغیر مغرب کے سیاسی معاشی معاشرتی اور تعلیمی نظام کو  نہ صرف قبول کر چکے ہیں زندگی کے اصل رومانس اور سکون سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں جس کا احساس بھی اب چند لوگوں کو ہی ہے یا یوں کہیں اب انسانوں کو یہ احساس دلانے کیلئے شاید قدرت کو ایک بار پھر مداخلت کرنا پڑے ۔قدرت انسانوں کو اس مصنوعی زندگی سے باہر نکالنے کیلئے کیسے مداخلت کرے گی یہ ہم تو نہیں بتا سکتے لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ آنے والی دہائیوں میں عنقریب دنیا زبردست اتھل پتھل سے گزرنے جارہی ہے ۔

Exit mobile version