Slide
Slide
Slide

جلسوں کا موسم بہار

تحریر: ابو فوزان تنویرذکی مدنی

             جلسوں کے موسم بہار کی آمد ہوچکی ہے ،اکتوبر سے  مارچ اپریل تک یہ سیزن مکمل شباب پر رہے گا، چمنستانِ وعظ کے بیلا، چمیلی، گلاب، گیندا وکنول اور لالہ زار خطابت کے  یاسمین، جوہی  و رات رانی اور  نرگس و نسترن سبھی اسی پرکیف  موسم  میں کھلتے ہیں۔

    اس موسم سدا بہار کی خوبی یہ ہے کہ دسمبر و جنوری کی برفیلی راتوں میں بھی اس کے پھول کھملاتے نہیں ہیں۔بلکہ جو رات جس قدر خنک اور سرد ہوتی ہے اس  رات کا جلسہ اسی قدر گرم اور کامیاب ہوتا ہے۔زمستانی ہوا کی  شدت کی وجہ  سو میٹر کی دوری پر واقع مسجد پہنچنے میں جن نوجوانوں کے پیر کانپنے لگتے ہیں جلسوں کی لذت اسی زمستانی ہوا کی تیزی میں بھی اسی نوجوان کو بیس کلومیٹر دور جلسہ گاہ تک بہ آسانی بہا لے جاتی ہے۔اسے کہتے ہیں جلسوں کا موسم بہار اور اس کی طاقت ۔ 

   یہ کہانی ایک سال کی نہیں ہے  بلکہ ہرسال کہ یہی کہانی ہے،جلسہ کی منتظمہ کمیٹی ،پیشہ ور مقررین،اور پریس والے، تینوں اس موسم بہار کے لائف ٹائم ممبر اور مالی ہیں ۔ان بزرگوں کی دعا اور اخلاص کا نتیجہ ہے کہ یہ  موسم کبھی خزاں رسیدہ نہیں ہوتا ہے۔ ہمیشہ حسین،خوشگوار ،پرکیف ،رنگارنگ اور جواں رہتا ہے ۔

          شیخ الاسلام ،محدث زمانہ۔امام التفسیر ،فقیہہ دوراں،رئیس المناظرین،سلطان المقررین، فصیح اللسان ،بلیغ البیان،ترجمان اہل سنت ،قاطع شرک وبدعت ،نقیب ملت، خطیب بے بدل ،بلبل ہندوستان جیسے ماہرین کی رہائی لگتا ہے ہر سال صرف اسی موسم بہار میں ہوتی ہے ،فیس بک ،واٹس ایپ،انسٹاگرام سے لے کر شہر کے در و دیوار اور گاؤں کے گلی کوچے تک ان قیمتی ہستیوں کے اشتہارات پر نظر پڑنے سے چاروں طرف گویا اسلامستان نظر آتا ہے۔پوری پوری رات جلسوں کے برقی قمقموں سے اس قدر جگمگاتی ہے کہ شب دیجور پر فتح پانے گمان پیدا ہونے لگتا ہے۔

       بر صغیر میں برسوں سے یہ سلسلہ  چلا آ رہا ہے اور مستقبل قریب تک اس میں اصلاحات کی بہت زیادہ امید نہیں کی جاسکتی ہے ,حالانکہ بعض علاقوں میں اب دس بجے رات کے بعد جلسوں کو معیوب سمجھا جانے لگا ہے اور  کہیں کہیں اب دن میں بھی  جلسے منعقد ہونے لگے ہیں۔ویسے مغربی ہندوستان میں دیر رات جلسہ کرنے کا رواج شروع ہی سے  کم رہا ہے۔ جبکہ مشرقی ہندوستان میں جب تک رات بھر جلسہ نہ جگمگائے تب تک نہ دل کو قرار آتا ہے، نہ روح کو تسکین ملتی ہے۔صبح کی کرنیں جب تک جلسہ کو آغوش میں نہ لے لے تب تک جنریٹر کی بجلی کا راج بدستور قائم رہتا ہے۔ ان جلسوں میں "ایک کی خرید پر ایک فری ” والا فارمولہ خوب فٹ آتا ہے ،کہ کسی اور مقصد کے پیش نظر جلسوں میں آؤ اور تقریر فری میں سن کر جاؤ۔ 

ماضی میں ان  جلسوں کے انعقاد کا مقصد فروغ دین تھا اس لئے بہر صورت مستند علماء کرام اور کامیاب دعاۃ ہی بلائے جاتے تھے ،اب جلسوں  کے مختلف مقاصد ہوتے ہیں ، مثلا جلسہ برائے اصلاح معاشرہ ،جلسہ برائے تعمیر جامع مسجد ،جلسہ برائے تعمیر مدرسہ،جلسہ برائے تعمیر قبرستان، جلسہ برائے عرس ،جلسہ برائے تحفظ شریعت ،اور جلسہ برائے تعمیر سیاست ،وغیرہ وغیرہ، اور اب جلسے کم کانفرنسیں زیادہ ہورہی ہیں۔لہذا جس طرح جلسوں کے مقصد سے اخلاص جاتا رہا بعینہ جلسوں سے دین کی روح بھی نکلتی چلی گئی ۔اور جب روح ہی نکل گئی تو جلسے بھی بے اثر ہوتے چلے گئے ۔اور پھر رفتہ رفتہ  جلسوں کے اشتہارات سے اہل علم و فضل بھی عنقا ہوتے چلے گئے ۔

      اس سلسلہ میں میرا عام مشاہدہ یہ ہے کہ اب بلا تفریق مسلک ومذہب ہر مکتب فکر کے جلسوں میں اساطین علم وفن کے بجائے پیشہ ور مقررین اور پیشہ ور نعت خواں و گویے ہی مدعو کئے جاتے ہیں، نوجوان کو انٹرٹین کرنے والی تقریریں ہی  ہوتی ہیں۔ سپر ہٹ گانے کے طرز پر نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم گائی جاتی ہے۔ 

ان جلسوں میں میں نے متعدد بار دیکھا کہ مقرر صاحب کو زیادہ سے زیادہ بیس منٹ اور گویا صاحب کو کم سے کم ایک گھنٹہ ضرور دیا جاتا ہے۔چونکہ یہ جلسے اشاعت دین کے لئے نہیں بلکہ حصول زر یا تفنن طبع کے لئے ہی منعقد کئے جاتے ہیں۔ان جلسوں کی راتیں حسین اور عمریں طویل ہوتی ہیں۔یقینا ہر جلسہ ایسا نہیں ہوتا ہے کچھ مفید اور اچھے جلسے بھی ہوتے ہیں مگر ان اچھے جلسوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔

      خلاصہ یہ ہے کہ جلسوں کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہوتے ہیں ،اس کا انحصار جلسہ کمیٹی کی نیت پر ہوتا ہے۔ چونکہ بعض جلسوں کا انعقاد قوم کی اصلاح کے لئے ہی ہوتا ہے ،ان جلسوں میں اہل علم مدعو کئے جاتے ہیں سامعین بھی اسی ذوق کے تشریف لاتے ہیں ،علمااور سامعین دونوں کے وقت اور احترام کا پورا پورا خیال رکھا جاتا ہے ۔ جبکہ بعض جلسوں کا انعقاد ہی صرف چندہ اکھٹا کرنے کے لیے ہوتا ہے ،لہذا ان جلسوں میں چندہ دینے والوں کے ذوقِ سماعت اور چاہت کا پورا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔

   جلسوں میں اچھے علما کی کمی کا ایک سبب جلسہ کی منتظمہ کمیٹی کا افراط و تفریط بھی ہے۔یہ چالاک لوگ اہل علم  کو معقول نذرانہ تو دور کی بات صحیح سے کرایہ بھی نہیں دیتے ہیں جبکہ یہی کمیٹی والے اسی جلسہ میں  گویا نعت خوان اور پیشہ ور مقرر کو مقررہ فیس بھی دیتے ہیں ،اور خوب آؤ بھگت بھی کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ علم کی ناقدری نااہل کا غلام بنادیتی ہے۔

       میں ذاتی طور پر جلسوں کا مخالف قطعا نہیں ہوں ،مگر ان جلسوں میں اصلاح کی مکمل وکالت کرتا ہوں ۔چونکہ بہت سے دینی ادارے ، مدرسے اور حفظ خانے آج بھی صرف سال میں ایک جلسہ کے بدولت کے زندہ ہیں۔ میں اچھی جانتا ہوں کہ بعض اداروں نے ہمت کرکے کسی سال جلسہ نہیں کیا تو اس سال مطبخ چلانا مشکل ہوگیا،اساتذہ کی تنخواہیں پوری نہیں ہوسکیں، یہ نازک صورتحال در حقیقت کسی تاریک مستقبل اور ناگہانی ملی آفت کی علامت ہے،یہ ایک مہلک مرض ہے جس میں ہماری قوم مبتلا ہوچکی یے۔ 

       اس صورتحال کا محرک اور مجرم کون ہے اس پر بحث کرنے کے بجائے ابھی اس ناگفتہ بہ حالت سے نبردآزما ہونے پر غور کرنا زیادہ ضروری ہے ،قوم کے ایک ایک فرد کی یہ ایک  اہم ذمہ داری ہے کہ جلسہ کے بغیر بھی دینی اداروں کو استحکام بخشنے کی پوری کوشش کرے ۔

        یاد رہے کہ بعض مدرسوں کا انحصار صرف جلسوں پر کیوں ہے اس مسئلہ کا حل جلسہ کرکے نہیں بلکہ ملت کے قائدین اور سماج کے غیور دانشوران کو سرجوڑکر آپس میں بیٹھنے اور فیصلہ کن عملی قدم اٹھانے سے ہوگا ۔

        ظاہر ہے کہ صرف جلسوں  کے سہارے چلنے والے مدرسے بھی کسی صورت میں بھی بند نہیں کئے جاسکتے ہیں، چونکہ آج بھی بعض علاقوں میں انہی مدرسوں کی وجہ سے بہت سے  غریب اور نادار بچوں میں تعلیم کی رمق باقی ہے ورنہ روئے زمین پر آج کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔

          مذکورہ مجبوری کے پیش نظر اس سلسلہ میں  کم از کم اتنا تو ہو ہی سکتا ہے کہ ان اداروں کے جلسوں کو  صالح قدیم اور نافع جدید کا سنگم بنانے  کی رفتہ رفتہ کوشش کی جائے ۔

      یکلخت تبدیلی سے کہ لوگ متنفر ہوکر دور بھاگ سکتے ہیں ، لہذا تبدیلی لانے کے لئے مستحکم منصوبہ کی سخت ضرورت ہے  جو متعین وقت اور جہد مسلسل  کا پابند ہو  ۔اس حکمت علمی سے پوری تبدلی لائی جاسکتی ہے ۔اس کا حسن آغاز بایں طور ہوسکتا ہے کہ پہلے سال کے جلسہ میں عوام کی چاہت کے مطابق تیار شدہ مقررین کی لسٹ میں لازمی طور پر کسی بڑی علمی شخصیت کو شامل کیا جائے اور مناسب وقت اور  مناسب ماحول میں ان کو جلسہ میں پیش کیا جائے نیز جلسہ کے سابقہ نظام الاوقات میں ممکنہ حد تک ترمیم کی جائے ۔بالخصوص فجر تک چلنے والے جلسوں کو بارہ بجے تک بند کردیا جائے۔ پھر آئندہ سال مقررین کی لسٹ  میں دو علمی شخصیتوں کا اضافہ کیا جائے اور عوام کی من چاہی لسٹ میں سے  ایک دو نام حذف کئے جائیں  اور اس مرتبہ جلسہ بارہ بجے رات سے پہلے ختم کیا جائے ۔ یہ تبدیلی معیاد تک بدستور ہوتی رہے یہاں تک کہ عوام اہل علم سے مانوس ہو جائیں۔ ان سے استفادہ کا مزاج بن جائے ۔

         یقین جانئے جس دن سے اہل علم سے استفادہ کا مزاج بننا شروع ہوجائے گا اسی دن سے جلسہ میں ٹائم پاس کرنے سے لوگوں کو نفرت شروع ہوجائے گئ۔

﴿ ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾  [ سورة النحل: 125]

اس آیت کریمہ کو جلسہ میں جس قدر سنانے کی ضرورت ہے اس زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پر اہل جلسہ بھی عمل پیرا ہونے کی پوری کوشش کریں ۔اور یہ کوشش کسی  گھاٹے کا سودا ہرگز نہیں ہے ۔

ویسے میں نے سنا ہے اور لگتا ہے کہ بات میں دم بھی ہے کہ زندہ قومیں جلسے جلوس کم کام زیادہ کرتی ہیں اور جاں بہ لب قومیں کام کم جلسے جلوس زیادہ کرتی ہیں ،بالفاظ دیگر زندہ قوم ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ریگستان سے  بھی پانی نکال کا فن جانتی ہے  اور مردہ قوم  جلسے جلوس کی  شبنم چاٹ کر ہی زندہ رہنے میں اپنی  عافیت سمجھتی ہیں ۔

 ایک اندازہ کے مطابق قوم کی ایک خطیر رقم اس مبارک کام یعنی جلسوں کے انعقاد پر صرف ہوتی ہے جس سے ہر سال کئی میڈیکل کالج قائم کئے جاسکتے ہیں  یا متعدد کل کارخانے کھول کر  قوم کے بےروزگار جوانوں کو روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے۔درحقیقت جلسہ کے رسیا لوگوں کی جیب سے پیسہ بھی جلسہ کی جگمگاہٹ ہی میں نکلتا ہے ۔ورنہ جلسہ کرنے والے مدرسے کے سامنے سے  ان سیم و زر والوں کا  روز گزر ہوتا ہے اور نادار بچے بھی نظر آتے ہیں مگر یہ حضرات کبھی جھانک کر بھی نہیں دیکھتے ہیں کہ حال کیسا ہے۔ سامنے کی خستہ حال مسجد اس کی غیرت ایمانی کو نہیں جگا پاتی ہے ۔ سماج میں دم توڑتی انسانیت اس کے ضمیر کو جھنجھوڑنے سے قاصر رہتی ہے۔ہر جمعہ کو بہترین تقریر اور خطبہ سنانے والے اور اسی مسجد میں بچوں کو تعلیم دینے والے  معمولی تنخواہ کے مالک کی حالت زار سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ۔ ان ضروری مقامات پر بھی ان کی جیب سے دس روپئے یا بہت ہوگیا تو کبھی کبھار پچاس یا سو روپئے سے زیادہ نہیں نکلتے ہیں مگر جب جلسہ میں اپنے مطلب کا واعظ مل جائے اور مائک پر نام کے ساتھ چندہ کی رقم کا اعلان ہونے لگے تو پھر رگ حمیت پھڑک اٹھتی ہے اور اس وقت ان کو چندہ دینے میں  ہزار بھی کم لگنے لگتا ہے۔ اور دینے کے لئے لائن میں بھی لگنا پڑتا ہے۔

       جس قوم کا یہ ذوق یہ مزاج اور یہ حال ہو اس قوم کو آپ کس حد تک زندہ کہہ سکتے ہیں اور کس حد اس سے خیر کی امید رکھ سکتے ہیں۔

         یہ باتیں تلخ ضرور ہیں مگر سچ ہیں۔

      یہ تحریر قطعا  کسی بھی فرد خاص پر نقد نہیں ہے بلکہ عصر حاضر کے عام  جلسے جلوس کی صورتحال پر ایک کھلا تبصرہ ہے۔ اس لئے کسی کی دل آزاری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ ہاں ان جلسوں میں اصلاح کے لئے اس میں جو پیغام ہے وہ سب کے لئے ہے ،شاید کسی کے دل کو چھو جائے ،کوئی تیار ہوجائے۔ 

انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: