رویوں کا فرق

رویوں کا فرق

محمد عمر فراہی

قلمکار جب قلم اٹھاتا ہے تو اس کے ذہن میں بہت ساری باتیں ہوتی ہیں لیکن کسی وجہ سے وہ نام بنام کسی واقعے کا تذکرہ کرنا مناسب نہیں سمجھتا ۔کسی کے رویے کے خلاف اسی انداز میں شدید رویے اور ردعمل کا اظہار نہ کرنے پر لکھے گئے ہمارے مضمون پر ہمارے ایک عزیز دوست نے تبصرہ کیا ہے کہ
"فکری گفتگو اچھی ہے ۔لیکن اب وہ زمانہ نہیں جب شرارت کا جواب شرافت سے دیا جاتا تھا ۔اب تو اگر آپ نے اسی انداز میں جواب نا دیا تو کب معاملہ الٹ جائے کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔
ابھی کل ہی کی بات ہے جس نے شرافت میں سمجھانا چاہا اسی کے خلاف معاملہ بھی درج ہوا اور تماشائی تماشائی رہے "
کچھ حالات میں یہ بات درست بھی ہے لیکن عمومی طور پر ایک مہذب سماج میں ایسا ناممکن یا مناسب نہیں معلوم ہوتا اور آپ کو صبر کرنا ہی پڑتا ہے ۔مثال کے طور پر کبھی کبھی ہمیں کسی خاص موقع پر اپنے دوست اور رشتہ داروں کے تلخ اور بے تکے رویے سے تکلیف ہوتی ہے لیکن تعلقات کو بحال رکھنے کیلئے خاموشی اختیار کرنی پڑتی ہے اور یہ میرے ساتھ ہوتا رہا ہے اور میں اس صبر و ضبط کے دور سے گزر بھی رہا ہوں یہ کہانی پھر کبھی ۔رویے کے عنوان پر ایک واقعے سے اپنی بات ختم کرتا ہوں ۔
فیس بک پر ندوہ کے ایک طالب علم نے پاکستان کے ایک مشہور و معروف مولوی اور قلم کار جو کہ مشہور مذہبی خاندان سے تعلق بھی رکھتے ہیں پاکستان کے حالات پر کچھ تبصرہ کردیا ۔موصوف کو اپنی علمی صلاحیت اور خاندانی رتبے کا لحاظ رکھتے ہوۓ معتدل رویہ اختیار کرتے ہوۓ جواب دینا چاہئے تھا یا پھر خاموش رہ جاتے تو بھی بہتر تھا مگر انہوں نے یہ کہتے ہوۓ کہ آپ کے بھارت میں کیا ہو رہا ہے یہاں بیٹھ کر میں اس کا صحیح سے اندازہ نہیں لگا سکتا ہوں اور نہ مجھے اس میں کوئی دلچسپی ہے تو پھر آپ کو کیسے پتہ کہ ہمارے یہاں کے یہ حالات ہیں ۔ہاں میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ
"بھارت میں ندوی بہت کمینے ہوتے ہیں "

یہ بات غالباً انہوں نے مولانا سلمان ندوی صاحب کے کچھ خطبات کے تناظر میں کہا ہو گا ۔خیر یہ جو بعد والا تلخ جملہ ہے اس ایک جملے میں انہوں نے اپنے اس لہجے سے جس رویے کا مظاہرہ کیا ہے پہلی بات تو یہ لہجہ اور رویہ ان کی شخصیت کے شایان شان نہیں تھا ۔دوسری بات یہی رویہ شخصیتوں کے اپنے کردار اور قد کو گھٹا دیتا ہے ۔ بہرحال وہ طالب علم خاموش رہ گیا ورنہ ان کے دوسرے رویے کا اظہار بلاک پر ختم ہوتا ۔

Exit mobile version