دوسرے کے دل میں جھانکنا بہت بڑا گناہ ہے
تحریر: ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
ایک جنگ کے موقع پر جب زور کا معرکہ گرم تھا ، ایک کافر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی تلوار کی زد میں آگیا – فوراً اس نے زور سے کلمہ پڑھ لیا : لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ – لیکن حضرت اسامہ نے اپنا ہاتھ نہیں روکا اور اس کا کام تمام کردیا – جنگ سے واپسی پر وہ اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس واقعہ کا بھی تذکرہ کیا – یہ سننا تھا کہ اللہ کے رسول ﷺ کے چہرۂ مبارک کا رنگ بدل گیا – آپ نے خفگی سے سوال کیا : ” اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا ، پھر بھی تم نے اسے قتل کردیا ؟ “حضرت اسامہ نے عرض کیا : ” اے اللہ کے رسول ! اس نے دل سے تھوڑے ہی کلمہ پڑھا تھا – وہ تو محض اپنی جان بچانا چاہتا تھا – “
آپ نے فرمایا :
أفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ ، حَتّى تَعْلَمَ أقَالَهَا أمْ لَا ؟”
(کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا ، کہ اس نے اخلاص سے کلمہ نہیں پڑھا ہے – )
یہ جملہ آپ بار بار دہراتے رہے ، یہاں تک کہ (حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ) میری خواہش ہونے لگی کہ کاش میں نے آج ہی اسلام قبول کیا ہوتا ، تاکہ میرے سابقہ سارے گناہ معاف ہوجاتے – “ (بخاری : 4269 ، 6872 ، مسلم : 96)
اس حدیث سے دین کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے – وہ یہ کہ کسی مسلمان کو دوسرے کے دل میں جھانک کر اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں ہے – اس نے کوئی غلط بات کہی ہے تو اسے غلط کہا جائے ، کوئی غلط کام کیا ہے تو اس کی تردید کی جائے اور صحیح نقطۂ نظر دلائل کے ساتھ واضح کیا جائے ، لیکن اس کی نیت پر حملے نہ کیے جائیں اور اس کی غلط بات اور غلط عمل کو مذموم اغراض و مقاصد سے نہ جوڑا جائے ۔
آج کل عموماً اس دینی اصول کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا – کسی سے کچھ اختلاف ہوگیا ، بس فوراً اس کی نیت پر حملے شروع کر دیے جاتے ہیں – اس معاملے میں دین دار لوگ بھی پیچھے نہیں ہیں – عموماً اس طرح کے جملے فوراً ان کی زبان یا قلم کی نوک پر آجاتے ہیں :
- وہ منافق ہے ۔
- بڑا متکبّر ہے ۔
- خود غرض ہے ۔
- دوسروں کے مفادات کے لیے کام کررہا ہے ۔
- اونچا عہدہ چاہتا ہے ۔
- ذمے داروں سے قربت کا آرزو مند ہے ۔
- اپنا جثّہ بڑا کرنا چاہتا ہے ۔
- اپنی نوکری پکّی کرنا چاہتا ہے ۔
- اپنے دل میں دشمنی رکھتا ہے ۔
بہت سے لوگ جن سے اختلاف کرتے ہیں ان کے بارے میں بے تکلّف ایسی باتیں کہنے لگتے ہیں – انہیں توجہ دلائی جائے کہ یہ سب کہنا درست نہیں ہیں تو بھی نہیں مانتے – ان لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ کسی کے دل میں جھانکنے کا حق اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو نہیں دیا ہے – کسی کی نیت پر حملے کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور اللہ اور اس کے رسول کے غضب کو دعوت دیتا ہے ، اس لیے ہر حال میں اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔