محمد قمر الزماں ندوی ،مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپگڑھ
حیات محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت رسول کے ساتھ اسوئہ حسنہ کا شاعری میں ذکر در حقیقت نعت گوئی کا فن کہلاتا ہے، مدح رسول ﷺ کے باب میں حضور ﷺ کی زندگی کے تمام گوشوں کا بیان نعت گوئی میں کیا گیا اور اس فن کے ذریعے حب رسول ﷺ کے علاوہ عقیدت کے بیش بہا پھول لٹائے گئے۔ اگر چہ نعت کے ذریعہ مدحیہ شاعری کی بنیاد پڑی ، لیکن اس صنف شریف کے ذریعے غلو اور مبالغے کے دریا بھی بہائے گئے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سب سے مشکل صنف شاعری نعت گوئی ہے، یہ میدان بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے، نعتیہ شاعری میں اعتدال پسندی اور حقیقت نگاری ایک مشکل امر ہے، سب سے بلند شاعر وہ ہے, جو نعتیہ کلام میں خالق کائنات اور مخلوق اعلیٰ کے درمیان فرق کرے، توحید و رسالت کے فرق و امتیاز کو ملحوظ رکھے اور شریعت کے حدود سے تجاوز نہ کرکے ورنہ نعت کے بجائے وہ گمراہی کا سبب بن جاتا ہے۔
نعت گوئی کی تاریخ بہت قدیم ہے، سب سے پہلے حضور ﷺ کے چچا ابو طالب نے اس فن کو ایجاد کیا ، اس کے بعد صحابہ کرام نے اس صنف کو ترقی دی، پھر یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ نعت گوئی کا فن ایشائی زبانوں میں بڑے ہی آب و تاب کے ساتھ ترقی کرتا رہا اور دور رسالت مآب سے آج تک ان چودہ سو سالوں سے زیادہ میں نعت کی صنف میں شعرائے کرام نے ایسے جوہر دکھائے کہ اس قسم کی ندرتوں کی مثال کسی اور صنف شاعری میں دستیاب ہونی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
دنیا کے تمام ملکوں کے شعراء اور ادباء نے اس ذات قدسی صفات کی مدح و توصیف اور نعت و تعریف میں جسے خود قرآن مجید میں بھی و رفعنا لک ذکرک اور اسی قسم کے دوسرے الفاظ سے یاد کیا گیا ہے، مشغول رہے ہیں۔ اسلامی ادب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے عربی و فارسی شاعری کے بعد اردو ادب کو اس وادی بطحا کی رہ نوردی میں بڑا مقام اور رتبہ حاصل ہے۔ حضور ﷺ کی نعت و تعریف اور مدح و ثنا میں اس ادب نے ہمیشہ قابل قدر شعراء پیدا کئے جو اپنے گراں بہار اور بیش بہا نعتیہ اشعار کی بنا پر دیگر زبانوں کے شعراء پر سبقت لے گئے۔
اردو کے بہت سے شعراء ایسے بھی گزرے ہیں، جن کی نعتیہ شاعری بطور خاص انسان کو مقصد حیات سے قریب کرتی ہے اور عظمت محمدی کے نقوش کو دلوں میں بٹھاتی ہے۔ ان کی نعت گوئی لفظی نعت گوئی نہیں ہے، بلکہ اس ہٹ کر اور بلند ہوکر وہ مقصد حیات انسان کو خود شناسی پر محمول کراتے ہیں۔
آئیے ایسے ہی چند شعراء کی نعتیں آپ قارئین باتمکین کی نذر کرتے ہیں:
- شاعر مشرق علامہ اقبال مرحوم
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ جو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یسیں وہی طہ
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ جو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یسیں وہی طہ
- مولانا ظفر علی خاں مرحوم
وہ شمع اجالا جس کیا چالیس برس تک غاروں میں
ایک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
رحمت کی گھٹائیں پھیل گئی افلاک کے گنبد گنبد پر
وحدت کی تجلی کوند گئی آفاق کے سینہ داروں میں
ہم حق کے علمبرداروں کا ہے اب بھی نرلا ٹاٹھ وہی
بادل کی گرج تکبیروں میں بجلی کی تڑپ تلواروں میں
- مولانا الطاف حسین حالی مرحوم
اے خاصئہ خاصان رسول وقت دعا ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
جودین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے
جس دین کے مدعو تھے کبھی قیصر و کسریٰ
خود آج وہ مہمان سرائے فقراء ہے
وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں
اب اس کی مجالس میں نہ بتی ہے نہ دیا ہے
جس دین نے غیروں کے تھے دل آکے ملائے
اس دین میں خود بھائی سے اب بھائی جدا ہے
- مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی
پھر پیش نظر گنبد خضرا ہے حرم ہے
پھر نام خدا روضئہ جنت میں قدم ہے
پھر شکر خدا سامنے محراب نبی ہے
پھر سر ہے مرا اور ترا نقش قدم ہے
یہ ذرئہ ناچیز ہے خورشید بداماں
دیکھ ان کے غلاموں کا بھی کیا جاہ و حشم ہے
ہر موئے بدن بھی جو زباں بن کے کرے شکر
کم ہے بخدا ان کی عنایات سے کم ہے
رگ رگ میں محبت ہو رسول عربی کی
جنت کے خزائن کی یہی بیع سلم ہے
وہ عالم توحید کا مظہر ہے کہ جس میں
مشرق ہے نہ مغرب ہے عرب ہے نہ عجم ہے
- علامہ سید سلیمان ندوی
عشق نبوی درد معاصی کی دوا ہے
ظلمت کدئہ دہر میں وہ شمع ہدیٰ ہے
پڑھتا ہے درود آپ ہی تجھ پر ترا خالق
تصویر پہ خود اپنی مصور بھی فدا ہے
احمد سے پتہ ذات احد کا جو ملا ہے
مصنوع سے صانع کا پتہ سب کو چلا ہے
آمد تری اے ابر کرم رونق عالم
تیرے ہی لئے گلشن ہستی یہ بنا ہے
- مولانا اسعد اللہ مظاہری
مجھے کیا علم کیا تم ہو خدا جانے کیا تم ہو
بس اتنا جانتا ہوں محترم بعد از خدا تم ہو
کسی کی آرزو کچھ ہو کسی کا مدعا کچھ ہو
ہماری آرزو تم ہو ہمارا مدعا تم ہو
نہ یہ قدرت زباں میں ہے نہ یہ طاقت بیاں میں ہے
خدا جانے تو جانے کوئی کیا جانے کہ کیا تم ہو
زمانہ جانتا ہے صاحب لولا لما تم ہو
جہاں کی ابتداء تم ہو، جہاں کی انتہا تم ہو
تمہارے واسطے اسعد کہیں بہتر ہے شاہی سے
کہ اک ادنیٰ غلام بار گاہ مصطفیٰ تم ہو
- حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب
پلا دے ایک ساغر ساقئی رنگیں بیاں مجھ کو
تری آنکھوں کے صدقے دے شراب ارغواں مجھ کو
بنادے عالم اسرار کے راز نہاں مجھ کو
پلا دے وہ مئے عرفاں کہ کردے بے نشاں مجھ کو
وہ کملی اوڑھنے والا فقیری پہ جو نازاں تھا
گدا تھے جس کے کوچہ کے سکندر قیصر و کسریٰ
گدائی جس کے گھر کی بادشاہی سے بھی بہتر تھی
زمیں جس شاہ کے کوچہ کی رشک قصر قیصر تھی
قدم بوسی کی جس کی آسماں نے آرزو کی ہو
بلا کر عرش پر جس سے خدا نے گفتگو کی ہو
- حفیظ میرٹھی مرحوم
شاہوں کے بھی سرتاج غلامان محمد
یاران محمد تو ہیں، یاران محمد ص
تابندہ عقیدہ دیا، تہذیب عطا کی
تاریخ نہ بھولے گی یہ احسان محمد
محدود نہیں یہ مہ و سال و صدی میں
ہر درد کی آواز ہے اعلان محمد ﷺ
بے مثل صحیفے کی طرح سینئہ اطہر
جزدان کی مانند گریبان محمد ﷺ
گھبرا کے مسلمان یہ کیا ڈھونڈ رہا ہے
کیا چھوٹ گیا ہاتھ سے دامان محمد ﷺ