حرمت رسول ﷺ کا تحفظ: ہمارا فرض، ہماری ذمہ داری
حرمت رسول ﷺ کا تحفظ: ہمارا فرض، ہماری ذمہ داری

حرمت رسول ﷺ کا تحفظ: ہمارا فرض، ہماری ذمہ داری ازقلم: مولانا محمد اطہر ندوی استاذ جامعہ ابوالحسن علی ندوی مالیگاؤں ________________ آج کے دور میں جہاں سوشل میڈیا ایک طاقتور ذریعہ بن چکا ہے، اس کا مثبت اور منفی دونوں پہلو ہمارے سامنے ہیں۔ ایک طرف یہ علم اور شعور پھیلانے کا مؤثر ذریعہ […]

برقی مواصلاتی آلات اور دنیا کا مستقبل
برقی مواصلاتی آلات اور دنیا کا مستقبل

برقی مواصلاتی آلات اور دنیا کا مستقبل ✍ سلمان فاروق حسینی ____________________ لبنان اور شام میں لگ بھگ 5/ہزار پیجرز حملوں کے بعد الیکٹرانک مواصلاتی آلات جیسے وائرلیس لیپ ٹاپ ریڈیو کمپیوٹر اور جی پی آر ایس کے ذریعہ سائبر اٹیک کرکے ہزاروں دھماکے کئے گئے جس میں دو بچوں سمیت 40 کے قریب لوگ […]

بریکس گروپ (BRICS Group) اور اس کے مقاصد
بریکس گروپ (BRICS Group) اور اس کے مقاصد

بریکس گروپ (BRICS Group) اور اس کے مقاصد ✍️محمد شہباز عالم مصباحی سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی کوچ بہار، مغربی بنگال _________________ دنیا کی سیاسی اور اقتصادی ساخت میں مسلسل تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، اور اسی تبدیلی کی ایک مثال بریکس گروپ (BRICS Group) ہے، جو کہ پانچ بڑی ابھرتی ہوئی معیشتوں—برازیل، روس، بھارت، چین، […]

تيرے سينے ميں اگر ہے تو مسيحائی کر
تيرے سينے ميں اگر ہے تو مسيحائی کر

تيرے سينے ميں اگر ہے تو مسيحائی کر ✍️ محمد ہاشم خان __________________ پیش نظر کالم میں اصل مخاطب ضلع سدھارتھ نگر کے کوثر و تسنیم سے دھلے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن اہل حدیث افراد ہیں لیکن اگر دیگر مسالک و عقائد کے متبعین مثلاً دیوبندی، تبلیغی اور بریلوی حضرات اسے خود پر منطبق […]

جی-20 کانفرنس کے اصل ہیرو

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

ہندوستان نے اصولی طور پر جی-20 کانفرنس کا کامیاب انعقاد کیا، دعوتیں ہوئیں، بیانات آئے، تقریریں کی گئیں، کروڑوں روپے ملک کے اس کانفرنس پر خرچ ہوئے، افریقن یونین کواس گروپ میں مستقل رکن کی حیثیت سے شامل کرنے پر کامیابی ملی، اس طرح اب جی20، جی 21 ہو گیا ہے، اس کانفرنس کی سب سے اہم بات یہ رہی کہ مشترکہ اعلانیہ کو پہلے دن اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا، اس سے ہندوستان کی تصویر ممبر ممالک کے درمیان اچھی رہی، اس کانفرنس کے انعقاد کے لیے پرگتی میدان نئی دہلی میں بھارت منڈپم کے نام سے دیدہ زیب اور خوبصورت جلسہ گاہ بنایا گیا تھا، ہندوستان جی – 20 کا صدر تھا، یہ صدارت ہر سال بدلتی رہتی ہے، ہندوستان کی صدارت کا سال نومبر میں مکمل ہوجائے گا، اس لیے وزیر اعظم نریندر مودی نے اگلے سال کی صدارت برازیل کے سپرد کر دی اور اس طرح یہ کانفرنس پورے تزک واحتشام کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، روس اور چین کے صدور کی کمی کھٹکی ضرور، لیکن اعلامیہ سب کی پسند قرار پایا، اس میں ماحولیات، انسان، خوش حالی اور امن پر زور دیا گیا ہے، اس کو چست درست انداز میں زمین پر اتارنے کے لیے وزیر اعظم نے جی-20 کے سربراہوں کو سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا پریاس اور سب کا وشواش حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دیا، انہوں نے کہا کہ اس وقت کا سب سے بڑا بحران اعتماد کی کمی ہے، جسے جنگ نے پریشان کن بنا دیا ہے، ہمیں باہمی اعتماد کی کمی کے اس بحران کو بہر حال ختم کرنا ہوگا، وزیر اعظم نے ایک زمین، ایک خاندان اور ایک مستقبل کو سامنے رکھ کر کام کرنے کی ضرورت بھی بتائی۔

کانفرنس کے ظاہری چکا چوند پر سب کی نظر رہی، لیکن اعلانیہ پر اتفاق رائے بنانے میں شیرپا امیتابھ کانت نے اہم کردار ادا کیا، پردے کے پیچھے چل رہے ملکوں کے نمائندوں کے ساتھ انہوں نے لگاتار دو سو گھنٹے تبادلہ خیال جاری رکھا، تین سو بیٹھکیں، دو دو ملکوں کےساتھ الگ الگ کی گئیں، اعلانیہ کا پندرہ مسودہ تیار کیا گیا، سب سے زیادہ دشوار مرحلہ روس یوکرین جنگ سے متعلق تھا، جس میں مغربی ممالک کا رویہ روس کے خلاف تھا، بات کسی نتیجے تک نہیں پہونچ پا رہی تھی، ایسے میں ڈوبھال اس گفتگو میں شامل ہوئے اور مسودہ پر اتفاق رائے بن سکا، اعلانیہ میں روس کا ذکر کیے بغیر یوکرین میں جنگ کا تذکرہ کیا گیا، اور صرف یہ کہہ کر بات ختم کر دی گئی کہ اختلافات اور جنگ سے دنیا پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، سینتیس(37) صفحات پر مشتمل دہلی اعلانیہ میں 4 بار یوکرین جنگ کا ذکر آیا ہے۔ اس طرح پچاسی(85) پیراگراف پر مشتمل اس مسودہ کو آخری شکل دی جا سکی۔

یہ ناممکن کو ممکن بنانے کا عمل جی -20 شیرپا امیتابھ کانت، جوائنٹ سکریٹری گمبھیر اور کے ناگ راج نائیڈو کی مشترکہ جد وجہد کے سر جاتا ہے، این ایس اے اجیت ڈوبھال کی محنت بھی رنگ لائی، اس لیے جی -20 کے اصل ہیرو یہی ہیں، جنہوں نے ہندوستان کو دنیا کے سامنے سرخ رو کیا ہے، ان کے تذکرے کہیں گم ہو گیے، اخبارات اور ٹی وی چینلوں نے بھی ان پر توجہ نہیں دی، سچ ہے مینار کی اونچائی سب کو نظر آتی ہے، لیکن مینار جن بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے وہ کسی کو نظر نہیں آتی۔مینار کو بلند کرنے کے لیے کچھ اینٹوں کو زمین میں دفن ہونا پڑتا ہے، جی -20میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: