از: ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں، نئی دہلی
حماس یا اس کے فوجی شعبہ القسام بریگیڈز کے اسرائیل پر حملے کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے 2007 سے اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے۔ لوگوں کا آنا جانا، دوا، پٹرول، سمنٹ ہر چیز کے آنے جانے پر پابندی ہے۔ لوگ وہاں سے علاج اور تعلیم کے لیے بھی نکل نہیں سکتے۔ تقریباً 70 فیصد غزہ کے لوگ بے روزگار ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل یہ سمجھ رہا تھا اور اپنے حامیوں کو سمجھا رہا تھا کہ غزہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دس بیس سال میں یہ سب ٹھیک ہو جائے گا اور لوگ ہماری شرطوں پر زندگی گزاریں گے۔
القسام بریگیڈز کے موجودہ حملے کی بنیادی وجہ اس سوچ کو ناکام بنانا ہے جس کی وجہ سے مغربی ممالک اسرائیل پر کوئی دباؤ نہیں ڈالتے۔ اب مغربی ممالک، خصوصاً امریکہ، اسرائیل کو مسئلۂ فلسطین کو کسی طرح حل کرنے کے لیے مجبور کریں گے یا کم از کم اوسلو معاہدے پر عمل کرنے کے لیے مجبور کریں گے۔
1992 کے اوسلو معاہدے کے مطابق پانچ سال میں آزاد فلسطینی حکومت قائم ہو جانی تھی، لیکن آج تیس سال بعد بھی ایسا کچھ نہیں ہو پایا ہے جبکہ اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینیوں کو اصل فلسطین کا صرف 22 فیصد مل رہا تھا یعنی فلسطین کے اصل رقبے کا 78 فیصد اسرائیل کو مل رہا تھا جبکہ اقوام متحدہ کے 1947 کےتقسیم کے پلان کے تحت یہودیوں کو فلسطین کا 56 فیصد ملا تھا۔
القسام بریگیڈز کے حملے کا دوسرا مقصد عرب ممالک اور خصوصاً سعودی عرب کو باور کرانا ہے کہ اسرائیل ان کی سیکیوریٹی کی گارنٹی نہیں دے سکتا، وہ تو خود ہی عاجز ہے۔ اب یقینی طور سے عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے اور ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ جیسی حماقت سے دور بھاگیں گے کیونکہ فلسطینیوں کی کمزوری کی بنیاد پر جو اقدامات کیے جا رہے تھے وہ اچانک ڈھے گئے ہیں اور اب فلسطینیوں کی مرضی کے بغیر اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکے گا۔
موجودہ جنگ مختصر ہو یا طویل، عرب ممالک کے سامنے اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ فلسطینی فریق اتنا کمزور نہیں ہے کہ اسے نظر انداز کیا جائے یا اس پر کوئی بھی حل زبردستی تھوپ دیا جائے۔ جن عرب ملکوں نے اسرائیل سے تعلقات قائم کر لیے ہیں وہ بھی اس پر نظرثانی کریں گے اور جو ایسا کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے وہ اب دسیوں بار اس پر غور کریں گے۔
یہ تعلقات، عرب ممالک اپنے مفاد اور مقصد کی وجہ سے نہیں کر رہے تھے بلکہ امریکہ کے شدید دباؤ میں کر رہے تھے۔ اب ان کے پاس کہنے کو یہ طاقتور دلیل ہے کہ فلسطینی فریق کو نظرانداز کر کے علاقے پر کوئی حل تھوپا نہیں جا سکتا ہے۔
اس حملے سے اسرائیل کی نفسیاتی بلکہ فوجی شکست ہو چکی ہے۔ حملہ شروع ہونے کے گھنٹوں بعد تک اسرائیل کی حکومت اور فوج کو معلوم ہی نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے کیونکہ فلسطینی ہیکرز نے ان کے خطوط مواصلات جام کر دیے تھے۔ یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے۔
اب اسرائیل دوسرے ملکوں، بالخصوص مغربی ملکوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ وہ اب تک مغربی ملکوں کو سبز باغ دکھاتا رہا کہ فلسطینی بہت کمزور ہیں اور ان کو کوئی کنسیشن دینے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ اب یہ منطق کام نہیں دے گی۔ اب اسرائیل کو مغربی ممالک کا دباؤ قبول کرنا ہو گا۔ مغربی ممالک کی مالی ، فوجی اور اخلاقی مدد کے بغیر اسرائیل باقی نہیں رہ سکتا۔
اس بات کا امکان کم ہے کہ اس حملے سے فلسطین کے مختلف گروپوں میں اتحاد ہو جائے گا۔ ان کے درمیان مفادات اور نظریات کے اختلافات ہیں۔ لیکن اس حملے سے یہ نتیجہ بہرحال نکلے گا کہ اب حماس ہی سب سے اہم فلسطینی تنظیم کے طور پر ابھرے گی۔ کسی کے لیے اس سے تغافل برتنا ممکن نہیں رہے گا۔ یہ بات فلسطینی تنظیموں، اسرائیل اور مغربی ممالک سب پر صادق آتی ہے۔