از: قاضی محمد حسن ندوی
افسوس ہے کہ آج کل لوگوں نے تمام تعلقات اور رشتوں کو سال کے ایک دن کے ساتھ محصور کردیا ہے، کسی دن کو فادر ڈے ،کسی دن کو مادر ڈے، کسی دن کو ٹیچر ڈے، اور کسی دن کوسسٹڑ ڈے قرار دیا ہے، اس سے ہم نے یہ سمجھا ہے کہ اگر ہم ایک دن صرف سال میں ان لوگوں کی خدمت کر لی تو پورے سال کی زمہ داری اور ان کے حقوق کو ادا کردیا ، دوسرے دن اگران کی خبر وخیریت بھی نہیں لی تو کوئی فرق پڑنے والا نہیں ،اور عنداللہ بھی کوئی باز پرس نہیں ، یاد رکھیں یہ صرف مغربی اور مغرب سے متاثر لوگوں کی سوچ اور فکر ہے جو نہ صرف شرعاً غلط ہے بلکہ عقلاً بھی غلط اور بے بنیاد ہے۔
خرد کا نام جنوں رکھ دیا اور جنوں کا نام خرد
حقیقت یہی ہے کہ والدین کے احسانات اولاد پر، استاذ کے احسانات شاگردوں پر اور رشتہ داروں کے احسانات دوسرے رشتے دار پر اتنے ہیں کہ ایک دن ادا کرنے ایک دن گفٹ دینے، ایک دن ملاقات کرنے سے ہر گز ادا نہیں ہوں گے ، بلکہ پوری زندگی اپنی خوش دلی رضاء الٰہی کی خاطر خدمت کریں، اور کسی حکم پر آف بھی نہ کہیں تب بھی ان کے احسانات کا صلہ چکا نہیں سکتے ۔
ابو داءود شریف میں ایک حدیث ہے کہ جس کا مفہوم ہے یہ ہے کہ حضرت عمر نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کو حکم دیا کہ اپنی بیوی کو طلاق دےدو ، حضرت عبداللہ کو تردد ہوا، دربار عالی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر استفسار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا جی ہاں اگر والد کا حکم ہے تو دیر کس بات کی ہے؟ چنانچہ انہوں نے الامر فوق الادب کے تحت حکم کو بجا لا یا ۔
گرچہ اس واقعے میں پیدا ہونے والے اشکال کا ازالہ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے بذل المجہود میں کیا ہے کہ حضرت عمر نے اپنے بیٹے کو بغیر کسی وجہ کہ طلاق دینے کا حکم نہیں دیا بلکہ شرعی بنیاد موجود تھی جس کی وجہ سے طلاق دینے کا حکم دیا یعنی حضرت ابن عمر کی بیوی میں وہ وجہ موجود تھی اس لیے حضرت عمر نے بیٹے کو طلاق دینے کا حکم دیا ورنہ وہ ایسا نہیں کرتے ( بذل المجہود)
والدین اور اولاد کے مابین جو تعلق اور رشتہ ہوتا ہے وہ فطری ہے اور عقلی بھی ، اس رشتے کو استوار کرنے میں اولاد جو بھی مثبت کردار ادا کرتی ہے، وہ خوش آئند باعث مغفرت ہے لیکن کافی نہیں ، اسی لئے حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ نے والدہ کی رضا کی خاطر مکہ نہیں آئے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا لیکن صحابہ کی سعادت حاصل نہیں ہوئی ، تاکہ والدہ کی خدمت میں کمی نہ ہو ، اور والدہ کو تکلیف نہ ہو۔
اولئک آبائ فجئنا بمثلھم
ان ہی نیک صفات اولاد کی طرح موجودہ قحط الرجال کے زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے شاگرد ہیں جو استاد کے حق اور رشتہ کو ہمیشہ بحال رکھنے کی کوشش کرتے ، نہ صرف استاذ سے دعا کی درخواست کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے استاد کے ساتھ وہ سلوک پیش کرتے ہیں کہ استاد اپنے شاگرد کے لیے غائبانہ طور پر دعا دیتے ہیں ، دعا کرنا ، کسی سے درخواست کرنا یہ کوئی کمال نہیں ، بلکہ کمال یہ ہے کہ استاد کے ساتھ اس طرح پیش آئے کہ ان کے دل کو جیت لے اور استاد خود دعا دے، چوں کہ یہ دعا دل سے نکلتی ہے ، دل سے جو نکلتی ہے وہ اثر رکھتی ہے۔
طبقہ مفسرین صحابہ میں حضرت عبداللہ بن عباس کا جو مقام و مرتبہ ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ، جانتے ہیں اس میں صرف ان کی محنت ذہانت ہی کا دخل نہیں ہے بلکہ اس میں ان کے اس عمل کا نمایاں کردار ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی خالہ حضرت میمونہ کے گھر حضور کے حکم بغیر وضو کا پانی پیش کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا ( اللھم فقہ فی الدین وعلمہ التاویل) اے اللہ انہیں دین کی سمجھ عطا فرما اور قرآن کی تفسیر سکھادے)( بخآری شریف)
مادر علمی دار العلوم ندوہ العلماء میں 20/21/22 اکتوبر کو مجلس تحقیقات شرعیہ کی طرف سے تین اہم موضوع (عوامی جگہوں پر نماز ادا کرنے کا حکم ، مساجد میں خواتین کی آمد کا مسئلہ اور سونا چاندی سے زکوٰۃ نکالنے میں دونوں کو معیار مانا جائے گا یا صرف چاندی کو) پر کانفرنس منعقد ہونے جارہی ہے ، ستمبر میں تینوں عنوان کے تحت راقم کے نام سے سوالنامہ آیا ، دو پر مقالہ لکھ کر بھیجا ، اور ایک ماہ قبل شرکت کے لیے دعوت نامہ بھی۔
اپنے لیے اس کو توفیق الٰہی نیک فالی سمجھ کر ٹکٹ کے لئے سرگرداں ہوا، بالاخر ممبئ سنٹرل بنارس اسپیشل ٹرین ملا ، لیکن یہ گاڑی بھروچ نہیں رکتی ہے اس لیے کل بعد نماز مغرب دوسری ٹرین سے برودہ آیا ، اسٹیشن سے متصل مغرب کی جانب مسلم محلہ ہے یہاں ایک مسجد میں ہمارے ایک ہونہار شاگرد مولانا نعمان منوبری سالوں سے امامت کرتے ہیں ،اساتذہ کی خدمت ان کی امتیازی شان ہے، جب بھی ان کو بھنک لگتی ہے کہ میرے استاد اسٹیشن آئے ہیں خود گاڑی لے کر آجاتے ، مسجد میں نہیں اپنے گھر ہی خاطر تواضع کرتے، اس مرتبہ جب ان کو میری آمد یہاں رات گزارنے اور صبحِ میں لکھنؤ کےلئے روانگی کی اطلاع ملی تو کل دن ہی میں فون کیا اور درخواست کی کہ حضرت قیام وطعام میرے گھر رہے گا ، بعد مغرب پھر فون کیا کہ اسٹیشن پر میں یا میرے دوست گاڑی لیکرر ہیں گے آپ فون کردیں گے چنانچہ جیسے ہی باہر نکلا دو اشخاص پر نظر پڑی، سلام ودعا کے بعد رکشے پر بیٹھا اور چند منٹوں میں مولانا کے گھر پہنچ گیا ،مولانا خؤد استقبال کے لئے باہر کھڑے تھے ،ملاقات ہوئی ،کافی دیرتک بات ہوئی ،کئ بار خوشی کا اظہار کیا ، یہ میرے وہ شاگرد ہیں جو امامت کے علاؤہ تین وقت للہ محلے کے بچوں کو قرآن اور دینیات کی تعلیم دیتے ہیں ان کی اس کارگزاری سے نہ صرف خوشی ہوئی بلکہ دل سے دعائیں بھی دی، نماز کے بعد کھانا کھایا ، کھانے کے اثناء میں مولانا نے کہا کھچڑی گرم کرکےلاتا ہوں آپ لیں میں نے کہا گجرات کی یہ محبوب غذا ہے، تھوڑا ضرور لوں گا ، لطیفۃ یہ سنا یا کہ گجراتی جہاں جاتے ، اپنے ساتھ تین چیزی ضرور لے جاتے ہیں ، مدرسہ و مکتب ، دعوت و تبلیغ اور کڑی کھچڑی ، بالخصوص پہلی دونوں باتیں اساسی ہیں، گجرات کے مسلمانوں میں دینی تشخصات کی بقا میں ان دونوں کا نمایاں کردار ہیں ، بہرحال رات کسی طرح گزری ، چار بجے آنکھ کھل گئی ، گاڑی کے بارے میں معلومات کیا پتہ چلا کہ ٹھیک ٹائم پر برودہ پانچ بجے آرہی ہے ،معمولات سے فراغت کے بعد مولانا کو فون کیا کہ مولانا آئے چائے پلائی ، پھر مجھے رخصت کرنے کے لیے اپنی گاڑی سے اسٹیشن آئے، گاڑی وقت پر ہی کیا بلکہ دو منٹ پہلے ہی آگئی ،اور سٹ پر جب میں بیٹھ گیا تب وہ دعا اور سلام کے بعد بعد وآپس چلے گئے ، یہ ان کا سلوک نہ میرے ساتھ خاص ہے بلکہ وہ ہر استاذکے ساتھ اسی طرح پیش آتے ہیں، اور اس رشتہ کو ہمیشہ برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں-