Site icon

ہم جنسی کی شادی قانونی نہیں

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی،نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 

مغرب سے بے راہ روی کی جو آندھی ہندوستان پہونچی، اس میں ہم جنسی کے آپسی رشتے اور پھر لڑکا کا لڑکا سے اور لڑکی کا لڑکی سے شادی کرنے کا تصور بھی آیا، پہلے اس مسئلہ پر گفتگو بھی معیوب تھی اور ڈھکے چھپے کبھی کبھی ایسے واقعات سامنے آتے تھے، لیکن اب یہ وبا اس قدر عام ہو گئی ہے کہ اس عمل کی قباحت وشناعت بھی دلوں سے نکل گئی، اب یہ طبقہ اپنے کو تسلیم کرانے کے لیے سپریم کورٹ تک پہونچ گیا او رسپریم کورٹ نے پانچ ججوں کی بنچ بنا کر ان کے دلائل سنے اور اسے لائیو نشر بھی کیا گیا، یعنی اس بیماری کو عام کرنے کے لییبھی جتن کیے گیے، اکیس عرضیاں ہم جنس شادی کو قانونی تسلیم کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں داخل  کی گئی تھیں، بعض ملی تنظیمیں بھی اس نحوست کو قانونی نہیں قرار دینے کے لیے پارٹی بنی تھیں اور بالآخر پانچ ججوں کی بینچ نے اسے بنیادی حقوق ماننے سے انکار کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ جب شادی ہی بنیادی حقوق میں نہیں تو ہم جنسوں کی شادی کو بنیادی حق کس طرح مانا جا سکتا ہے، البتہ ہم جنسوں کی شادی کو قانونی ماننے کے مسئلے پر تین اور دو جج کی رائے الگ الگ تھی، جسٹس روندر بھٹ، جسٹس سنجے کشن اور جسٹس پی ایس نرسمہا نے کہا کہ ہم جنسوں کو شادی نہ کرنے دینے کا کوئی جواز نہیں ہے کیوں کہ وہ دونوں باہمی رضا مندی سے بغیر شادی کے بھی قانونی طور پر ساتھ رہ سکتے ہیں اور یہ جرم کے دائرہ میں نہیں آتا تو اگر وہ با ضابطہ طور پر رشتے میں بندھ جائیں اور انہیں قانونی طور پر وہ سہولتیں حاصل ہوں جو ایک   شادی شدہ جوڑے کو حاصل ہوتا ہے تو اس میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے، بقیہ تین ججوں نے اسے غیرقانونی قرار دیا اور کپل سبل  کے ذریعہ پیش کی گئی ملی تنظیموں کی اس دلیل  کو مان لیا کہ ہندوستان مختلف مذاہب کا گہوارہ ہے اور کسی بھی مذہب میں ہم جنسوں کی شادی کا تصور نہیں پایا جاتا ہے، اس سے خاندان ٹوٹے گا اور غیراخلاقی حرکت کو قانونی پشت پناہی حاصل ہوگی، اس عمل سے وراثت، نامزدگی وغیرہ کے قوانین بھی متاثر ہوں گے، اس لیے اس شادی کو قانونی درجہ نہیں دیا جاسکتا اور ججوں نے اس حقیقت کو تسلیم کرکے فیصلہ سنا دیا اور یہ بھی واضح کردیا کہ عدلیہ کا کام قانون کی تشریح  اور اس کا نفاذ ہے، اسے قانون بنانے کا اختیار نہیں ہے، اس معاملہ میں مرکزی حکومت کا موقف بھی یہی تھا کہ ہم جنسوں کے درمیان شادی اسپیشل میرج ایکٹ سے باہر کی چیز ہے۔

ہم جنسوں کو اس حد تک جانے کا حوصلہ اس لیے بھی ملا کہ 2018 میں آئی پی سی کی دفعہ377 کے ایک حصہ کو سپریم کورٹ نے رد کرکے ہم جنسی کو جرم کے دائرے سے نکال دیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ پولیس کے ذریعہ ہم جنسوں کو ہراساں نہ کیا جائے، شاید اسی ہدایت کی روشنی میں سپریم کورٹ نے ہم جنسوں کے معاملات کو حل کرنے کے لیے حکومت کوایک کمیٹی بنانے کا حکم دیا ہے، جو  غور کرے گی کہ کس طرح شادی کو غیرقانونی قرار دینے کے باوجود راشن کارڈ بینک اکاؤنٹ، ال آئی سی پنشن اور گریچوٹی وغیرہ میں شادی شدہ جوڑوں کو حاصل سہولیات ومراعات کا حصول ہم جنسوں کے لیے بھی ہوسکے، سپریم کورٹ نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ ان کے لئے ایک محفوظ حلقہ بنایا جائے، جس میں کسی بھی قسم کا بھید بھاؤ نہ کیا جائے، پولس انہیں پریشان نہ کرے، ان کے لیے ایک فون نمبر بھی ہو جس پر وہ اپنی شکاتیں درج کراسکیں، کل ملاکر اس فیصلہ کے بعد ہم جنسوں کو اطمینان ہوگا کہ

اے عشق مرحبا وہ یہاں تک تو آگیے

مرکزی حکومت نے اس سلسلے میں جو موقف اختیار کیا ہے وہ ہندوستانی تہذیب وثقافت اور مختلف مذاہب کی تعلیمات کے مطابق ہے، اس لیے کسی بھی عنوان سے  ہندوستان میں ہم جنسوں کے درمیان شادی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، جہاں تک اسلام کا سوال ہے اس کے نزدیک یہ گناہ کبیرہ اور قابل سزا جرم ہے، اللہ رب العزت نے قوم لوط کو اسی جرم میں تباہ کردیا تھا، جس کا ذکر قرآن کریم میں جابجا ہے، اس لیے ضرورت ہے کہ تمام مذاہب کے لوگ اس کے خلاف منظم انداز میں آواز بلند کریں، تاکہ کم از کم ہندوستان  میں اس عمل کو قانونی جواز فراہم نہ ہوسکے۔

Exit mobile version