Site icon

قرآنِ کریم سمجھ کر پڑھنے کی اہمیت اور عدمِ تَدَبُّر کے نقصانات

تحریر. مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی 

قرآن کریم اللہ رب العالمین کا لازوال کلام ہے. جو قیامت تک کی انسانیت کے لیے سرچشمۂ ہدایت اور حق و باطل کی کسوٹی ہے. جس کا ہر ہر حرف منارۂ نور، ہر ہر آیت مشعلِ راہ اور ہر ہر جملہ ہدایت کی روشن دلیل ہے.قر آن مجید خالقِ کائنات کا وہ سدا بہار، دائمی، عالمی اورا نقلابی پیغام  ہے، جو کتاب ہدایت بھی ہے اور کتاب زندگی بھی. قرآن کریم کے الفاظ بھی محفوظ ہیں کہ اس کی ذمہ داری خود صاحب کلام نے لی ہے.. جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الحجر:۹)

بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔)

 اس کے معانی بھی مجموعی طور پر محفوظ ہیں کہ اس کے معانی کو بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا.جنھوں نے اس کے حقیقی معانی کو امت کے سامنے واضح طور پر بیان فرمایا.جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا { وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ } (النحل:۴۴) ’’اور ہم نے (اے نبیؐ) آپ کی طرف’ قرآنِ کریم ‘ نازل کیا‘ تاکہ جو چیز اُن کے لیے اتاری گئی ہے آپ اسے ان پر واضح کریں‘‘۔ 

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ قرآن کریم کی تشریح وتبیین فرمائی؛ بلکہ آپ نے عملی طور پر اس کو برت کر بھی دکھایا. جیسا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں (کان خلقہ القرآن) کہ رسول اللہ کے اخلاق کلام الہی کا پرتو تھے. 

نہ تو اس کے الفاظ میں کسی قسم کے شک کی گنجائش ہے، نہ معانی میں شبہ کا کوئی امکان ہے. اس لیے کہ یہ کتاب (لاریب فیہ) ہے. 

اس کے الفاظ میں برکت اور اس کے معانی میں ہدایت ہے… تدبر و تفکر کے ذریعے ہم اس کی ہدایت تک پہنچ سکتے ہیں اور اس کی برکتوں سے مالا مال ہوسکتے ہیں (كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْۤا اٰیٰتِهٖ وَ لِیَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۲۹)

ترجمہ:(یہ قرآن) بڑی برکت والی کتاب ہے، جو ہم نے  آپ پر نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور وفکر کریں اور عقلمند نصیحت حاصل کریں ۔

 الفاظ قالب ہیں اور معانی و مضامین اس کے لیے روح ہیں… اور قرآن  الفاظ ومعانی دونوں کے مجموعہ کا نام ہے. (القرآن ھو اسم للنظم و المعنی جمیعا.) 

اسے بغیر سمجھے بھی پڑھنا خیر وبرکت کا سبب اور اجر کا باعث ہے..جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے؛ (منْ قرأَ حرفًا من كتابِ اللهِ فله به حسنةٌ ، والحسنةُ بعشرِ أمثالِها (ترمذی ) یعنی جو شخص کتاب اللہ کا ایک حرف بھی پڑھے گا اس کے لیے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کو دس گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔

نزولِ قرآن کا مقصد حصول ثواب یا تحصیل ہدایت :

قر آن کریم تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا معجزہ، انوار وبرکات اور اجر و ثواب کا خزانہ اور تمام انسانیت کے لیے آب حیات ہے. 

لیکن سوال یہ ہے کہ کہ کیا نزول قرآن کا مقصد صرف حصول ثواب ہے. کہ امت کو زیادہ سے زیادہ اجر وثواب پانے  کے مواقع فراہم کرنے لیے یہ کتاب مقدس نازل کی گئی ہے؟ 

یا اس کے نزول  کا مقصد کچھ اور ہے اور اس مقصد کو پانے کے لیے بطور ترغیب و عطا ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے. دیکھنا یہ ہے کہ قرآن کریم خود اپنا تعارف کس طرح کراتا ہے اور نزول کا مقصد کیا بتاتا ہے. 

قرآن مجید کے نزول کے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے سورہ بقرہ  میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

شَهْرُ‌ رَ‌مَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْ‌آنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْ‌قَانِ

رمضان کامہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے سراپا ہدایت اور ایسی روشن نشانیوں کا حامل ہے جو صحیح راستہ دکھاتی اور حق وباطل کے درمیان دوٹوک فیصلہ کر دیتی ہیں (بقره 185)

سورہ بقرہ ہی کی دوسری آیت ہے :الٓمّٓ. ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَیْبَ فِیْهِ هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ.

(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔

اگرچہ قرآن کریم نے  ہر ایک کو صحیح راستہ دکھایا ہے. خواہ وہ مومن ہو یا کافر. اس لئے اس معنی کے لحاظ سے اس کی ہدایت سب کے لئے ہے؛ لیکن نتیجے کے اعتبار سے دیکھاجائے تو اس ہدایت کا فائدہ انہی کو پہنچتا ہے، جو اس کی بات کو مان کر اس کے تمام احکام اور تعلیمات پر عمل کریں، اس لئے فرمایا گیا کہ یہ قرآن ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لئے. 

سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا 

قَدْ جَاءكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ (المائدہ 15) 

یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ یَهْدِیْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۶)

ترجمہ: 

تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی(قرآن) آئی ہے، اور ایک ایسی کتاب جو حق کو واضح کر دینے والی ہے، جس کے ذریعہ اللہ ان لوگوں کو سلامتی کی راہ دکھاتا ہے جو اس کی خوشنودی کے طالب ہیں، اور انہیں اپنے حکم سے اندھیریوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے، اور انہیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا کرتا ہے. 

سورۃ نساء آیت: 174 میں  فرمایا گیا:  وَاَنْزَلْـنَا اِلَـیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا:  ،،اور نازل کر دیا ہے ہم نے آپ کی طرف ایک روشن نور،، یعنی قرآن کریم. 

سورۂ یونس میں فرمایا: {ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۷﴾} یہ کتاب ہدایت ہے اور رحمت ہے، ایمان والوں کے لیے 

۔سورۂ لقمان میں فرمایا: {ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لِّلۡمُحۡسِنِیۡنَ ۙ﴿۳﴾} ۔قرآن کریم ہدایت اور رحمت ہے محسنین کے لیے. 

سورۃ بقرۃ (آیت ۹۷) اور سورۃ النمل (آیت۲) میں ہے {ہُدًی وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۙ﴿۲﴾}قرآن کریم خوش خبری اور ہدایت ہے مومنوں کے لیے. 

 جبکہ سورۂ آل عمران میں اور سورۃ المائدۃ میں {ہُدًی وَّ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿ؕ۴۶﴾} کے الفاظ آئے۔یعنی قرآن کریم ہدایت اور نصیحت کا سامان ہےپرہیز گاروں  کے لیے. 

 معلوم ہوا کہ قرآن کریم کا مقصد نزول” ھدی” یعنی ہدایت ہے. اسی وجہ سے ’’ھُدًی‘‘ کا لفظ قرآن حکیم کے لیے کثرت کے ساتھ آیا ہے۔ ۔ 

تین مرتبہ تو اِس آیت مبارکہ میں آیا جو رسول اللہﷺ کے مقصدِ بعثت کو بیان کرتی ہے : {ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ} (التوبۃ:۳۳‘ الفتح:۲۸‘ الصف:۹) یعنی وہی اللّٰہ ہے جس نے اپنے رسول محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت کا سامان قرآن کریم اور اس سچے دین کے ساتھ بھیجا .تاکہ اسے سب دینوں  پر غالب کردے اگرچہ مشرکوں  کو یہ غلبہ ناپسند ہو۔

 اسی طرح سورۃ النجم میں فرمایا : {وَ لَقَدۡ جَآءَہُمۡ مِّنۡ رَّبِّہِمُ الۡہُدٰی ﴿ؕ۲۳﴾} ۔یعنی ان کے رب کی طرف سے ھدایت کی کتاب آچکی. 

 سورۃ الجن کا آغاز جنات کی ایک جماعت کے اس قول سے ہوتا ہے :{اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا ۙ﴿۱﴾یَّهْدِیْۤ اِلَى الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِهٖؕ-وَ لَنْ نُّشْرِكَ بِرَبِّنَاۤ اَحَدًاۙ(۲)}  انہوں نے کہا:بیشک ہم نے ایک عجیب قرآن سنا۔جو بھلائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے تو ہم اس پر ایمان لائے اور ہم ہرگز کسی کو اپنے رب کا شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ آگے چل کر ان کے الفاظ ہیں: {وَّ اَنَّا لَمَّا سَمِعۡنَا الۡہُدٰۤی اٰمَنَّا بِہٖ ؕ} (آیت ۱۳) یعنی جب ہم نے ہدی یعنی قرآن کو سنا تو ہم اس پر ایمان لے آئے.. گویا سورۃ الجن نے یہ متعین کردیا کہ ’’قُرْاٰنًا عَجَبًا‘‘ اور ’’اَلْھُدٰی‘‘ مترادف الفاظ ہیں۔

سورۂ بنی اسرائیل اور سورۃ الکہف میں ہے : {وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡۤا اِذۡ جَآءَہُمُ الۡہُدٰۤی} (بنی اسرائیل:۹۴‘ الکہف:۵۵) ۔’’کیا شیئ ہے جو لوگوں کو ایمان لانے سے روکتی ہے جب کہ اُن کے پاس الہدیٰ یعنی قرآن آچکا ہے؟‘‘ 

اسی طرح سورہ شوری کے ذیل کی آیت میں قرآن مجید کو روح نور اور ہدایت قرار دیا گیا :

وَ كَذٰلِكَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَاؕ-مَا كُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْكِتٰبُ وَ لَا الْاِیْمَانُ وَ لٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِیْ بِهٖ مَنْ نَّشَآءُ مِنْ عِبَادِنَاؕ-وَ اِنَّكَ لَتَهْدِیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍۙ(۵۲)

اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح (قرآن) کی وحی بھیجی۔اس سے پہلے نہ آپ کتاب کوجانتے تھے نہ شریعت کے احکام کی تفصیل کو۔لیکن ہم نے قرآن کو نور بنایا. جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں سیدھی راہ دکھاتے ہیں اور بیشک آپ سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں. 

ذیل کی آیت میں قرآن کو ہدی اور رحمت کے ساتھ بصائر بھی قرار دیا گیا. 

ہٰذَا بَصَآئِرُ لِلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ ﴿ جاثیہ ۲۰﴾ یہ عام لوگو ں کے لئے بصیرتیں ہیں اور یقین کر نے والو ں کیلئے ہدایت ورحمت ہے۔ 

عاقل یعنی غور و فکر کرنے والے اور سوچ بچار کرنے والے کے لیے ایمان کا منبع و سرچشمہ صرف قرآنِ حکیم ہے۔ ظفر علی خان نے اس کی شاندار تعبیر اس شعر میں کی ہے. 

وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئیں دکانِ فلسفہ سے

ڈھونڈے سے ملے گی عاقل کو یہ قرآں کے سیپاروں میں!

مذکورہ آیات کریمہ سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ قرآن کریم کا اصل موضوع انسانوں کی ہدایت ہے.. یہ ایسا کامل مکمل دستور حیات ہے جس کی اتباع کے نتیجے میں انسان حقیقی فوز فلاح اور دائمی سعادت کا مستحق بن جاتا ہے. 

رحمت، برکت اور ہدایت ملے گی تدبر قرآن کے ذریعے :

جب یہ بات واضح ہو گئی کہ قرآن کریم کے نزول کا اصد مقصد ہدایت ہے، قرآن کریم انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے … اب یہ سوال ہے کہ قرآن کریم سے ہدایت کیسے ملے گی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کہ ہدایت ملے گی قرآن کریم کی آیات میں تدبر تفکر کے ذریعہ، سمجھ بوجھ کر تلاوت کے ذریعے. اس کے حقوق کو ادا کرنے کے ذریعے… ایک صاحب ایمان کے لیے اپنی زندگیوں کو قرآن کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کے لیے یقیناً بہت سے ذرائع ہوسکتے ہیں مگر ان تمام ذرائع میں قرآن ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسان کو براہِ راست اپنی خوب صورت، واضح اور دو ٹوک زبان میں اپنا پیغام سناتا ہے۔ قرآنِ مجید کا یہ پیغام قرآن کے حروف میں پوشیدہ ہے اور یہ حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کی غالب اکثریت اس کو براہِ راست سمجھنے کی کوشش نہیں کرتی ہے ۔ معمول کی تلاوتِ قرآن کی صورت میں محض حروف و الفاظ کی حد تک قرآن سے وابستگی ہوتی ہے.. 

اگرچہ قرآن کریم کے الفاظ کے تلفظ و ترنم کے اندر یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ انسان پر اثر انداز ہو، اور خرق عادت کے طور پر بھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کہ قرآن کے محض الفاظ سن کر ہی اشکوں کا سیل رواں جاری ہوجاتا ہے. 

مگر بالعموم دلوں کی کیفیت اسی وقت بدلتی ہے جب الفاظ کا معنی و مفہوم انسان کے دل و دماغ اور قلب و شعور میں اتر رہا ہو۔ ہم آیات تو پڑھ لیتے ہیں مگر ان کے اندر بیان کی گئی ہدایات سے یکسر ناآشنا رہتے ہیں۔

ہر صاحبِ ایمان کو قرآن کے ساتھ اپنے اس تعلق پر نظرثانی کی ضرورت ہے:

ہر صاحبِ ایمان کو قرآن کے ساتھ اپنے اس تعلق پر نظرثانی کی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کے الفاظ کی برکت مسلم! لیکن اس کی حقیقی روح تو اس کے معانی اور مفاہیم میں مضمر ہے. اسی بنیاد پر اکتاہٹ اور بے دلی کی کیفیت میں قرآن کی قرأت سے منع کیا گیا ہے کہ اس طرح قرآن کے الفاظ کی ادائیگی تو ہو سکتی ہے، لیکن ان کے مفہوم سے آگاہ ہونا ممکن نہیں ہوتا۔

قرآن کی تلاوت یا سماعت کے وقت تدبر و تفکر کی اہمیت تو قرآن کی اپنی آیات سے واضح ہے۔ قرآن پر عمل کرنے کے لیے قرآن کو سمجھنا اور اس کا فہم حاصل کرنا ضروری ہے اور جب فہم حاصل ہوتا ہے تو یہ دل کے اندر تاثیر چھوڑتا ہے اور یہی تاثیر عمل کا محرک بنتی ہے. 

اللہ کی سب سے عظیم نعمت قرآن کریم :

اللہ تعالیٰ نے بندو ں کو جتنی نعمتیں عطاکی ہیں، ان میں قرآن پاک سب سے بڑی نعمت ہے

جس کی تلاوت اور معانی میں تدبر کے ذریعے ایک مسلمان خدا سے قر یب ہو تاہے اور خدا اس کے قریب آجاتا ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ کہ لوگو ں میں کچھ اللہ کے خاص گھر کے لوگ ہیں، صحابہ کرام نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ آپ ﷺ نے فر مایاکہ وہ قر آن والے ہیں، یہ اللہ کے گھر کے لوگ اور خاص بند ے ہیں، (اھل اللہ وخاصتہ) 

یہ تعلق بندے کو اللہ سے اتنا قر یب کر دیتاہے جیسے کہ دنیا میں کسی کے خاص گھر کے لوگ ہوں۔ 

قرآن کریم میں تدبر کی لزومیت آیات کریمہ کی روشنی میں:

مندرجہ ذیل آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح انداز میں قرآن مجید کی آیات میں تدبر کرنے، سمجھ کر پڑھنے اور اس سے نصیحت حاصل کرنے اور اس کی ہدایتوں پر عمل کرنے کا حکم فرمایا۔اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں تذکر اور تدبر کے الفاظ استعمال کیے۔

 تذکر اور تدبر دونوں ایک دوسرے سے ملتے جلتے الفاظ ہیں. الگ الگ یہ دونوں قرآن کریم کے بہت سے مقامات پر آئے ہیں‘ البتہ سورۃ صٓ کی آیت ۲۹ میں دونوں الفاظ یکجا آ گئے ہیں: {کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوۡۤا اٰیٰتِہٖ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿۲۹﴾} ’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبیؐ) ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں‘‘۔ تذکر کا مطلب ہے قرآن مجید سے ہدایت اخذ کر لینا‘ نصیحت حاصل کر لینا‘ اصل راہ نمائی حاصل کرلینا‘ جس کو کہ مولانا روم نے کہا ؏ ’’مازِ قرآں مغز ہا برداشتیم‘‘ یعنی قرآن کا جو اصل مغز ہے وہ تو ہم نے لے لیا۔ قرآن کا اصل مغز ’’ہدایت‘‘ ہے۔

مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے قرآن مجید کے اتارنے کا اصل مقصد یہ بتایا کہ اس میں غور و تدبر کیا جائے اور اس سے عبرت و نصیحت حاصل کی جائے یہ مقصد نہیں ہے کہ بلاتدبرصرف زبانی تلاوت کی جائے . اگرچہ تلاوت کا بھی بڑا اجر و ثواب ہے. چوں کہ یہی تدبر اور ہدایت تک پہنچانے کا ذریعہ ہے. 

حروف کو یاد اور حدود کو پامال؟ 

مشہور تابعی حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اللہ کی قسم! قرآن میں غور و فکر اسے نہیں کہتے کہ اس کے حروف کو تو یاد کیا جائے مگر اس کے حدود کو پامال کیا جائے، یہاں تک کہ بعض لوگ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ میں نے پورا قرآن ختم کر لیا جبکہ ان کے اخلاق و کردار میں قرآن کا کوئی اثر دکھائی نہيں دیتا. (تفسیر ابن کثیر 7/64)

  قرآن نے بار بار تذکر اور تفکر پر آمادہ کیا ہے ’’تذکر‘‘  ذکر سے بنا ہے۔ تذکر یاددہانی کو کہتے ہیں

سورہ قمر میں یہ لفظ چار مرتبہ آیا ہے. وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ(۱۷)

اور بیشک ہم نے قرآن کو یاد کرنے / نصیحت لینے کیلئے آسان فرمادیا تو ہے کوئی یاد کرنے / نصیحت لینے والا؟

قابلِ ذکر ہے کہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی نوراللہ مرقدہ نے اس آیت کریمہ کا ترجمہ ان جملوں سے کیا ہے :

اور ہم نے آسان کردیا قرآن،  سمجھنے کو، پھر ہے کوئی سوچنے والا؟ 

سورہ تکویر میں فرمایا 

اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَۙ(۲۷)لِمَنْ شَآءَ مِنْكُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَؕ(۲۸)وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۠(۲۹)

وہ تو سارے جہانوں کے لیے نصیحت ہی ہے۔اس کے لیے جو تم میں سے سیدھا ہونا چاہے۔اور تم کچھ نہیں چاہ سکتے مگر یہ کہ اللہ چاہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔

سورہ رحمن میں فرمایا 

اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌۙ(۶۹)

 وہ تو نہیں مگر نصیحت اور روشن قرآن. 

قرآن کا اصل ہدف یہی تذکر ہے اور اس اعتبار سے قرآن کا دعویٰ سورۃ القمر میں چار مرتبہ آیا ہے: {وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ ﴿﴾} ’’ہم نے قرآن کو تذکر کے لیے بہت آسان بنا دیا ہے‘ تو کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا؟‘‘ 

 قرآن تمام ذی شعور انسانوں کو جنہیں وہ ’’اُولُوا الْاَلْبَابِ‘‘ اور ’’قَوْمٌ یَّعْقِلُوْنَ‘‘ قرار دیتا ہے ‘تفکر اور تعقل کی دعوت دیتا ہے  اور کہتا ہے کہ :

کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ  (یونس)’’

اسی طرح ہم کھولتے ہیں اپنی آیات ان لوگوں کے لیے جو تفکر کریں۔‘‘اور فرمایا :

وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ (النحل)

اور اتارا ہم نے آپ پر ذکر تاکہ آپ جو کچھ لوگوں کے لیے اتارا گیا ہے اس کی وضاحت کردیں ‘تاکہ وہ تفکر کریں۔

اسی طرح فرمایا :

کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ  (البقرۃ)

اسی طرح اللہ اپنی آیات کی وضاحت فرماتا ہے تاکہ تم اچھی طرح سمجھ بوجھ سکو۔‘‘

سورہ زخرف میں فرمایا :

اِنَّا جَعَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ۚ (الزخرف)

ہم نے اسے قرآن عربی بنا کر اتارا تاکہ تم اسے سمجھ سکو۔‘‘

سورہ ص میں فرمایا 

کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوۡۤا اٰیٰتِہٖ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ(صٓ)’’

(یہ قرآن) ایک کتابِ مبارک ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی تاکہ لوگ اس کی آیات پر تدبر کریں اور سمجھ دارلوگ نصیحت حاصل کریں

تدبر کے ساتھ تلاوت کرنے والے کی کیفیت :

جب انسان تدبر تفکر کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے تو اس کی کیفیت بدل جاتی، اللہ کی عظمت کے احساس سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، جنت اور اس کی نعمتوں کے تذکرے سے پر شوق ہوتا ہے اور جہنم اور اس کی ہولناکیوں کے تذکرے سے خائف ہوتا ہے.. اس کیفیت کی عکاسی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا. 

اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ ﳓ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْۚ-ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ(۲۳)

ترجمہ:  اللہ نے بہترین کلام نازل فرمایا، ایسی کتاب جس کی تمام باتیں ایک جیسی ہیں، بار بار دہرائی ہوئی، جو مسلمان اپنے رب سے ڈرتے ہیں اس سے ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف نرم ہوجاتے ہیں (الزمر :23)

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِيۡنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُهُمۡ وَاِذَا تُلِيَتۡ عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتُهٗ زَادَتۡهُمۡ اِيۡمَانًا وَّعَلٰى رَبِّهِمۡ يَتَوَكَّلُوۡنَ ۞

ترجمہ: وہی لوگ مومن کامل ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل خوفزدہ ہوجائیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں تلاوت کی جائیں تو وہ ان کے ایمان کو زیادہ کردیں اور وہ اپنے رب پر ہی توکل کرتے رہیں. 

چوں کہ قرآن کریم میں سب سے زیادہ تدبر تفکر رسول اللہ صلی علیہ وسلم کرتے تھے ۔ یہ کیفیت سب سے زیادہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوتی تھی۔

ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ بوڑھے نظر آ رہے ہیں کہ آپ کے بال سفید ہوگئے) آپ نے فرمایا مجھے سورة ھود، سورة الواقعہ اور سورة المرسلات نے بوڑھا کردیا۔ (ان سورتوں میں قیامت کا ذکر ہے، یعنی قیامت کی ہولناکیوں کے خوف سے آپ کے بال سفید ہوگئے۔ ) (شمائل ترمذی رقم الحدیث  ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 3297 ۔ 

حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے قرآن سناؤ۔ تو میں نے سورة النساء پڑھی۔ حتی کہ جب میں اس آیت پر پہنچا : فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشہید و جئنا بک علی ھؤلاء شہیدا : اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ہم آپ کو ان پر گواہ بنا کر لائیں گے۔ (النساء :41) ۔ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے حضور کی طرف دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 4582 ۔ صحیح مسلم رقم الحدیث :800

قرآن مجید کے پانچ حقوق :

 ہر مسلمان پر حسب استعداد قرآن مجید کے پانچ حقوق عائد ہوتے ہیں:

  • ۱)   اسے مانے جیسا کہ ماننے کا حق ہے ۔ (ایمان و تعظیم)
  • ۲) اسے پڑھے جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے ۔ (تلاوت و ترتیل)
  • ۳) اسے سمجھے جیسا کہ سمجھنے کا حق ہے ۔ (تذکر و تدبر)
  • ۴) اس پر عمل کرے جیسا کہ عمل کرنے کا حق ہے۔ (حکم وا قامت)
  • ۵) قرآن کو دوسروں تک پہنچانا ‘ اسے پھیلانا اور عام کرنا۔ (تبلیغ و تبیین)

حسبِ صلاحیت ان حقوق کی ادائیگی لازمی ہے اور ان میں کوتاہی کرنا حق تلفی ہے. (مستفاد از فضائل قرآن، بیان القرآن) 

قرآن مجید کے حقوق کو ادا نہ کرنا قرآن کو ترک کر دینے کے مترادف ہے۔ سورۃ الفرقان میں محمد رسول اللہﷺ کی یہ فریاد نقل ہوئی ہے، جو روز قیامت آپ اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں کریں.. فریاد کیا وہ مستقل مقدمہ ہوگا، ان لوگوں کے خلاف جو قرآن کریم کو چھوڑے ہوئے ہیں. :

{وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا ﴿۳۰﴾}

’’اور رسول اللہ فریاد کریں گے کہ اے میرے ربّ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھاتھا۔‘‘

علامہ اقبال اسی آیت قرآنی کی طرف اپنے اس شعر میں اشارہ کرتے ہیں : ؎

خوار از مہجوریٔ قرآں شدی

شکوہ سنج گردشِ دوراں شدی!

’’(اے مسلمان!) تیری ذلت اور رسوائی کا اصل سبب تو یہ ہے کہ توقرآن سے دُور اور بے تعلق ہو گیا ہے‘ لیکن تو اپنی اس زبوں حالی پر الزام گردشِ زمانہ کو دے رہا ہے!‘‘

اللہ کے رسو ل ﷺ نے فر ما یا: ان اللہ یرفع بہذا الکتاب اقواما ویضع آخرین۔ حق تعالیٰ سبحانہ اس کتاب سے کسی قوم کو عزت دیتا ہے اور کسی کو ذلت ، یعنی جس نے اپنا تعلق قر آن سے پیدا کر کیا معزز ہو ا اور جس نے نہ کیا ذلیل ہو. 

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر 

تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر 

قرآن مجید میں دو مقامات پر قرآن کے حقوق ادا نہ کرنے کو قرآن کی تکذیب قرار دیا گیا ہے۔ آپ لاکھ سمجھیں کہ آپ قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں‘ لیکن اگر آپ اس کے حقوق کی ادائیگی اپنی استعداد کے مطابق‘ اپنی امکانی حد تک نہیں کر رہے تو درحقیقت آپ قرآن کو جھٹلا رہے ہیں

امت مسلمہ کے زوال کے دو اسباب شیخ الہند کی نظر میں :

شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی  نے مالٹا کی تنہائیوں میں جو غور و خوض کرکے اس بیمار ملت کے لیے دوا تجویز کی تھی اے کاش اس ملت نے اگر اس نصیحت پر عمل کیا ہوتا تو شاید آج حالات اتنے ناگفتہ بہ نہ ہوتے ، اور نہ صرف دوا تجویز کی تھی؛ بلکہ ترجمہ تفسير کی شکل میں مالٹا سے نسخہ کیمیا بھی لے کر آئے تھے. 

حضرت مفتی محمدشفیع عثمانی  اس سلسلے میں شیخ الہند کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” رہائی کے بعد ایک مرتبہ دارلعلوم دیوبند میں علما کے ایک مجمع میں آپؒ نے فرمایا:’’ہم نے تو مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں‘‘۔ یہ الفاظ سُن کر سارا مجمع ہمہ تن گوش ہو گیا کہ اس استاذ العلماء درویش نے اسّی سال علماء کو درس دینے کے بعد آخر عمر میں جو سبق سیکھے ہیں وہ کیا ہیں؟ فرمایاکہ: ’’ میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیامیں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں؟ تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے: ایک ان کا قرآن کریم کو چھوڑ دینا، دوسرے ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے، بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی بستی میں قائم کیے جائیں ، بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے، اور مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔‘‘ مفتی صاحب  فرماتے ہیں: ’’ نبَّاضِ امّت نے مِلّت ِمرحومہ کے مرض کی جو تشخیص اور تجویز فرمائی تھی، باقی ایّام زندگی میں ضعف وعلالت اور ہجومِ مشاغل کے باوجود اس کے لیے سعی پیہم فرمائی‘‘۔(وحدتِ امت) ۔ (الخیر الکثیروحدتِ امت از مفتی شفیع عثمانی ص ۴۰۔ ۳۹) 

قرآن کریم کو چھوڑ نے کی وجہ سے دنیا میں بھی ذلت اٹھانی پڑ رہی ہے اور آخرت میں بھی چھوڑنے والوں کے خلاف رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کی شکایت فرمائیں گے. 

ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم جو شفیع المذنبین ہیں ،جن کی شفاعت ایک مسلمان کے لئے آخرت میں آخری سہارا ہے،اگر انہوں نے بھی آخرت میں ہمارے بارے میں یہ شکایت اللہ تعالیٰ کی بارگا ہ میں کردی کہ ہم نے قرآن کریم کو چھوڑ دیا تھا تو پھر ہمارا ٹھکانہ کیا ہوگا؟

دنیا کی اکثر زبانوں کے مستند تراجم ہمارے لیے تحفہ ہیں :

اس لئے ہر مسلمان اس بات کا عزم کرے کہ اس کا کوئی دن بھی قرآن کریم کی تلاوت اور تدبر تفکر سے خالی نہیں جائے. 

یہ بات بھی نہیں کہ اس کو سمجھنے کے لئے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہو، الحمد للہ اس دور میں تقریباً ہر زبان میں ہی قرآن کریم کے تراجم اور تفاسیر علماء کی جانب سے لکھے جا چکے ہیں،اس لئے ہر مسلمان کوشش کرے کہ اپنے پاس کوئی مستند ترجمہ یا تفسیر رکھے اور اس کو پڑھ کر قرآن کریم کوسمجھنے کی کوشش کرے،چونکہ عام انسانوں کے لیے مستند ترجمہ تفسير کی شناخت مشکل ہے؛ اس لئے کسی مستند عالم دین سے مشورہ کر کے انھیں کی نگرانی میں کوئی ترجمہ یا تفسیر حاصل کریں اور اس کو روزانہ پڑھنے کا معمول بنائیں 

فہم کا حصول بلاشبہہ الفاظ کی قرأت کا ہی نتیجہ ہوتا ہے اور اگر فہم حاصل نہ ہو رہا ہو تو محض الفاظ کی قرأ ت کیوں کر مطلوب ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے فرمایا تھا:’’وہ آدمی اس (قرآن)کو سمجھ نہیں سکتا جو تین دن سے کم وقت میں اس کی قرأت کر لیتا ہے۔‘‘ (صحیح الجامع الصغیر)

تدبر نہ کرنے والوں پر زجر شدید :

قرآن کریم میں تدبر تفکر نہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ وہ سنگین عمل ہے جس پر اللہ تعالٰی کی طرف سے زجر شدید وارد ہوا ہے 

سورہ محمد میں اللہ تعالیٰ نے تدبر نہ کرنے والوں پر سخت زجر کرتے ہوئے فرمایا 

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ ٱلۡقُرۡءَانَ أَمۡ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقۡفَالُهَآ 24

تو کیا وہ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے؟ بلکہ ان کے دلوں پر  تالے لگے ہوئے ہیں ۔

اس آیت کریمہ کی تفسير میں علامہ 

ابن كثير لکھتے ہیں : 

يقول تعالى آمرا بتدبر القرآن وتفهمه ، وناهيا عن الإعراض عنه ، فقال : ( أفلا يتدبرون القرآن أم على قلوب أقفالها ) أي : بل على قلوب أقفالها ، فهي مطبقة لا يخلص إليها شيء من معانيه .

اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں قرآن میں غور و فکر کرنے اور سمجھنے کا حکم دیا اور اس سے روگردانی کرنے سے منع فرمایا،  (کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے ، یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں) مطلب یہ ہے کہ یقیناً ان کے دل بند ہیں۔ ان کے دل مقفل ہیں؛ لہٰذا اس کے معانی میں سے کچھ بھی ان کے دلوں تک نہیں پہنچ پاتا. 

علامہ عبد الرحمن سعدی اس کی تفسير کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 کیا وہ لوگ جو خدا کی کتاب سے روگردانی کرتے ہیں، اس میں غور و فکر اور تدبر وتفکر نہیں کرتے،  اگر وہ اس میں غور و فکر کریں تو یہ کتاب ان کو تمام بھلائیوں کی طرف رہنمائی کرے گی، اور ہر برائی سے خبردار کرے گی، اور ان کے دلوں کو ایمان یقین سے بھر دے گی۔  اور انہیں بلند تقاضوں اور قیمتی مواہب کی طرف رہنمائی کرے گی ، اور انہیں وہ راستہ دکھائے گی جو خدا کی طرف اور اس کی جنت اور اس کے اسباب  کی طرف لے جاتا ہے، ، اور وہ راستہ جو عذاب کی طرف لے جاتا ہے، اور جس سے تمہیں بچنا چاہیے۔ اس کی بھی رہنمائی کرتی ہے ، اور  رب العالمین کی ذات، اس کے اسماء اور صفات سے واقف کراتی ہے ، اور انھیں ثواب اور اجر عظیم کا شوق دلاتی ، اور دردناک عذاب سے ڈراتی ہے ۔

کیا ترک قرآن اور ترک تدبر کی وعید صرف کفار کے لیے ہے؟

جب کسی مجلس میں قرآن کو سمجھ کر پڑھنے، اس میں تدبر تفکر کرنے اور قرآن کریم کی ہدایت کو اپنانے کی ترغیب دی جاتی ہے اور اس سلسلے میں کوتاہیوں پر نکیر کرتے ہوئے ان آیات سے استدلال کیا جاتا ہے تو بعض فضلاء یہ کہہ کر معاملہ کو ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان آیات کے مخاطب تو کفار منافقین ہیں، حالاں کہ اہل علم کو معلوم ہے کہ” العبرۃ بعموم اللفظ لا لخصوص المورد "کہ تفسیر میں لفظ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے نزول کے خاص پس منظر کا نہیں،، اس کے علاوہ یہ بات بھی محل نظر ہے کہ اس آیت کا حکم صرف کفار کے لیے ہے. بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ زجر اور وعید ہر اس شخص کے لیے ہے، جس میں ترک قرآن اور عدم تدبر کی صفات ہوں… مشہور مفسر محدث شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ نے  آیت کریمہ :قال الرسول… کے ذیل میں حاشیہ میں لکھا ہے :

’’ آیت میں اگرچہ مذکور صرف کافروں کا ہے تاہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا‘ اس میں تدبر نہ کرنا‘ اس پر عمل نہ کرنا‘ اس کی تلاوت نہ کرنا‘ اس کی تصحیح قراء ت کی طرف توجہ نہ کرنا‘ اس سے اعراض کر کے دوسری لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا‘ یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجرانِ قرآن کے تحت میں داخل ہو سکتی ہیں‘‘۔ بحیثیت مسلمان ہم پر قرآن مجید کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں‘ اگر انہیں ہم ادا نہیں کر رہے تو حضورﷺ کے اس قول اور فریاد کا اطلاق ہم پر بھی ہو گا۔ گویا کہ حضورﷺ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہمارے خلاف مدعی کی حیثیت سے کھڑے ہوں گے۔

 آیت کریمہ ہے : وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ…. کی تفسير میں  ابن کثیر رحمہ فرماتے ہیں : قرآن میں غور و تدبر نہ کرنا اور اس کو سمجھ کر نہ پڑھنا بھی گویا قرآن کو ترک کرنا اور اسے بالائے طاق رکھنا ہے. (تفسیر ابن کثیر 6/108)

ابن قيم رحمہ اللہ نے قرآن کو چھوڑے رکھنے کی کئی اقسام بیان کی ہیں چنانچہ فرماتے ہیں : چوتھی قسم یہ ہے کہ بنده قرآن میں غور و فکر کرنا اور اسے سمجھ کر پڑھنا چهوڑ دے اور قرآن کے ذریعے اللہ تعالى کا کیا مطالبہ ہے اسے جاننے کی کوشش نہ کرے. (بدائع التفسير 2/292) 

ارشاد باری تعالٰی : اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ .… (سورة النساء 82 ) کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟۔

اس کے ذیل میں   ابن کثیر رحمہ فرماتے ہیں : اس آیت ميں اللہ تعالى نے اپنے بندوں کو قرآن میں غور و فکر کرنے اور اسے سمجھنے کا حکم دیا ہے اور اس کے الفاظ و معانی کو نہ سمجھنے اور اس سے اعراض کرنے سے منع فرمایا ہے، آیت کریمہ کے اس حکم سے صاف واضح ہے کہ قرآن میں غور و تدبر واجب ہے. (تفسیر ابن کثیر 3/364)

آیات تدبر اور مفسرین کی آراء :

جب ہم ہر چیز کو سمجھنے کے لیے توجہ اور غور کے ساتھ اسے پڑھنے کے اصول پر عمل کرتے ہیں تو قرآن کی قرأت کو اس اصول سے کیوں خارج کر ڈالتے ہیں۔ قرآن کے معاملے میں تو اس کا سب سے زیادہ لحاظ رکھا جانا چاہیے۔امام ابن تیمیہؒ کہتے ہیں:یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ہرکلام کا مقصد اس کے الفاظ کو نہیں بلکہ مفہوم کو سمجھنا ہوتا ہے اور قرآن اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے کہ اس کے معانی کو سمجھا جائے۔ (مقدمہ فی اصولِ التفسیر: ۵۷)۔امام قرطبی سورہ نساء آیت۸۲ کی تفسیر میں کہتے ہیں: یہ آیت قرآن میں تدبر کرنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے تاکہ قرآن کا مفہوم معلوم کیا جا سکے۔(الجامع لاحکام القرآن:۷۸۱)

امام قرطبیؒ آیت کریمہ :لو انزلنا ھذا القران کے تحت کہتے ہیں کہ اگر پہاڑوں کو عقل عطا کر کے ان سے قرآن کے الفاظ میں خطاب کیا جاتا تو پہاڑ اس کے مواعظ کے سامنے یوں مطیع ہو جاتے کہ تم ان کی سختی کے باوجود انھیں اللہ کے خوف وخشیت سے روتا اور ٹوٹتا پھوٹتا دیکھتے۔ (الجامع لاحکام القرآن:۳۰)

قرآن کی قوتِ تاثیر اس وقت مزید واضح ہوکر سامنے آتی ہے جب ہم رسول اللہؐ کے یہ کلمات سنتے ہیں کہ: ’’مجھے سورۂ ہود اور اس جیسی دیگر سورتوں نے بوڑھا ہونے سے قبل ہی بوڑھا کر دیا ہے‘‘۔

جب اللہ کے رسولؐ پوری پوری رات ایک آیت کو دہراتے گزار دیتے ہیں اور قرآن کی تذکرۂ آخرت پر مشتمل سورتیں آپؐ کے اوپر بڑھاپا طاری کر دیتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محض قرآن کے الفاظ کی تلاوت سے یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ لازماً قرآن کے مفہوم و معنٰی کے اثرات تھے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کی حقیقی قدروقیمت اس کے معانی و مفاہیم کے اندر ہے۔

سورہ بقرہ میں یہ آیت کریمہ ہے : الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (البقرة – الآية 121)

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے ، وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے ۔ وہ اس پر سچے دل سے ایمان لاتے ہیں ۔ اور جو اس کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کریں ، وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔

اس آیت کے ضمن میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے. وه فرماتے ہیں : قسم اس ذات کی جس کے ہاتهہ میں میری جان ہے قرآن کی کما حقہ تلاوت یہ ہے کہ بنده قرآن کی حلال کردہ چیزوں کو حلال اور حرام کرده چیزوں کو حرام سمجھے اور اس کو ویسے ہی پڑھے جیسے اللہ تعالى نے اسے اتارا ہے. (تفسیر ابن کثیر 1/403)

علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہاں تلاوت کرنے کا مطلب اس پر عمل کرنا ہے(فتح القدير 1/135)

 ارشاد ربانى ہے : وَ مِنۡهُمۡ اُمِّیُّوۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ الۡکِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ وَ اِنۡ هُمۡ اِلَّا یَظُنُّوۡنَ ( سورة البقرة 78)

ان میں سے بعض ان پڑھ ایسے بھی ہیں جو کتاب کے صرف ظاہری الفاظ کو ہی جانتے ہیں صرف گمان اور اٹکل ہی پر ہیں ۔

علامہ شوکانی رحمہ اللہ اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں : ایک قول کے مطابق یہاں "امانی” کا مطلب تلاوت ہے یعنی انہیں کتاب کی صرف زبانی تلاوت معلوم ہے وه کتاب کو سمجھنا اور اس ميں غور و فکر کر کے پڑھنا نہيں جانتے. (فتح القدير 1 / 156)

ابن قيم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہاں اللہ تعالى نے اپنی کتاب کو بدلنے والوں کی اور ایسے ان پڑھ لوگوں کی مذمت کی ہے جو صرف لفظی تلاوت کے سوا اور کچھ نہیں جانتے. (بدائع التفسير 1/300)

تدبر قرآن کی اہمیت و فضیلت احادیث مبارکہ کی روشنی میں

قرآن مجید میں تفکر تدبر کی اہمیت کے پیش نظر صحابہ کرام اور تابعین قرآن کو پڑھنے یاد کرنے اس کی آیات کو سمجھنے، غور و فکر کرنے اور ان پر عمل کرنے کا خاص اہتمام کرتے تھے، یہی حال اور یہی معمول دیگر تمام سلف صالحین کا تھا. بعد کے زمانے میں جس قدر امت کے اندر کمزوری آتی گئی قرآن کے ساتھ اس خاص تعلق و اہتمام سے لوگ دور ہوتے چلے گئے  جس کے نتیجے میں لوگوں نے قرآن پر عمل کرنا ترک کر دیا اور عملی زندگی میں کمی اور کوتاہی در آئی حالانكہ اللہ تعالى نے قرآن کو نازل فرمایا اور ہمیں اس میں غور و فکر کا حکم دیا اور خود اس کی حفاظت کی ذمے داری لی. اس سلسلے کی نبوی بشارتیں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛ جو لوگ اللہ کے گھر میں بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور اسے سمجھ کر پڑھنے پڑھانے اور مذاکرہ کرنے کا اہتمام کرتے ہیں تو ایسے لوگوں پر اللہ کی طرف سے سکون و اطمینان کا نزول ہوتا ہے، رحمت الہی انہیں ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے انهیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے پاس موجود فرشتوں کے درمیان ان کا ذکر خیر فرماتے ہیں.(صحیح مسلم حدیث نمبر 2699)

یہاں اس حدیث میں قابل غور بات یہ ہے کہ مذکورہ فضیلتیں یعنی سکون و اطمینان کا نزول، رحمت الہی کا ڈھانپنا اور فرشتوں کے درمیان ذکر خیر یہ سب اس تلاوت کے بدلے میں ہے جس تلاوت میں سمجھنا اور غور و فکر کرنا شامل ہو. مگر آج کل ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہم حدیث کے صرف ایک ٹکڑے پر عمل کرتے ہیں یعنی تلاوت، جبکہ سمجھ کر پڑهنے پڑھانے اور غور و تدبر کرنے کو بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے حفظ قرآن میں زیادہ وقت لگے گا اور تلاوت کی مقدار میں کمی آئے گی لہذا اس کی کوئی ضرورت نہيں۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ایک لمبی روایت ہے جس میں وه آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور قرأت کا آنکهوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رات نماز ادا كى تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹَھَہر ٹَھَہر کَر پڑھ رہے تھے، جب تسبیح کی آیت سے گزرتے تو سبحان الله کہتے، دعاء کی آیت پڑھتے تو دعاء مانگتے اور جب پناہ مانگنے والی آیت ہوتی تو پناہ مانگتے. (صحیح مسلم حدیث نمبر 772) 

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز میں کھڑے ہوئے، اور ایک آیت کو صبح تک دہراتے رہے، اور وہ آیت یہ تھی: «إن تعذبهم فإنهم عبادك وإن تغفر لهم فإنك أنت العزيز الحكيم» اگر تو ان کو عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو بخش دے، تو تو عزیز ( غالب ) ، اور حکیم ( حکمت والا ) ہے ( سورة المائدة: 118 ) ۔ (سنن ابن ماجہ حديث نمبر 1350)

”حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کے لئے قیام فرمایا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک ہی آیت (کی بار بار تلاوت) کرتے ہوئے صبح ہوگئی۔ وہ آیت یہ تھی: إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْلَهُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ ((اے اللہ!) اگر توانہیں عذاب دے تو وہ تیرے (ہی) بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی بڑا غالب حکمت والا ہے)۔“(نسائی احمد) 

”حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک شخض نے انہیں کہا: میں(سورہ) مفصل کو ایک رکعت میں پڑھتا ہوں۔ تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا: (تم) اس طرح جلدی جلدی پڑھتے ہو جس طرح شعر پڑھے جاتے ہیں۔ بیشک کچھ لوگ قرآن پڑھتے ہیں مگر قرآن اُن کے گلے سے نیچے نہیں اترتا۔ (لیکن یاد رکھو!) قرآن مجید جب دل و دماغ میں راسخ و پختہ ہو جائے تب ہی نفع دیتا ہے۔“(مسلم، احمد، ابن خیمہ)

   عدم تدبر پر وعید :

”حضرت عبید ابن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے عرض کیا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں جو سب سے حیران کن بات دیکھی اس کے بارے میں مجھے بتائیے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ رضی اﷲ عنہا کچھ دیر خاموش رہیں، پھر فرمایا: جن راتوں میں (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام) میرے پاس تھا ان میں سے ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے عائشہ! مجھے الگ چھوڑ دو کہ میں آج رات اپنے رب کی عبادت کروں۔ آپ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: خدا کی قسم! میں آپ کے قرب کو پسند کرتی ہوں اور اس چیز کو بھی پسند کرتی ہوں جو آپ کو پسند ہے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھے اور وضو کیا اور پھر نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل روتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود مبارک تر ہوگئی۔ پھر فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما رہے اور روتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی مبارک (آنسوؤں سے) تر ہوگئی۔ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل روتے رہے یہاں تک کہ زمین بھی تر ہوگئی۔ پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نمازِ فجر کی اطلاع دینے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روتے دیکھا تو عرض کیا: یا رسول اﷲ! آپ رو رہے ہیں حالانکہ  آپ کے اگلوں پچھلوں کے گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا میں (اپنے رب کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ پھر فرمایا: آج رات مجھ پر ایک آیت نازل ہوئی ہے۔( لَقَدْ نَزَلَتْ عَلَى اللَّيْلَةَ آيةٌ، وَيْلٌ لِمَنْ قَرَأَهَا وَلَمْ يَتَفَکَّرْ فِيْهَا: إنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ  الآيةَ، کُلّهَا) .اس کے لئے بربادی ہے جس نے اسے پڑھا اور اس میں غور و فکر نہ کیا۔ (وہ آیت یہ ہے:) إنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ (بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں) …. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخر تک مکمل آیت بیان کی۔“(صحیح ابن حبان) 

”حضرت سفیان سے مرفوعاً روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ جس نے سورہ آل عمران کی آخری آیات تلاوت کیں اور ان میں غور و فکر نہ کیا تو اس کے لئے بربادی ہے۔ انہوں نے اپنی انگلیوں پر یہ بات دس بار شمار کر کے بتائی۔“(الترغیب والترہیب) 

یہ رہا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ کہ آپ  غور و تدبر کے ساتھ پڑھنے کو کثرت تلاوت پر ترجیح دیتے تھے یہاں تک کہ بسا اوقات ایک آیت پڑھتے ہوئے پوری رات گزار دیتے تھے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :ہم لوگ دس آیتیں سیکھتے تھے پھر آگے اس وقت تک نہیں بڑھتے تھے جب تک ان دس آیات کے معانی سمجھ نہ لیتے اور ان پر عمل کرنا نہ سیکھ لیتے . ( رواه الطبري في تفسيره 1/80)

ایک بار جب عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین رات سے کم میں قرآن ختم کرنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرماتے ہوئے کہا : جو شخص قرآن کو تین رات سے کم میں ختم کرے وہ قرآن کو نہیں سمجھ سکتا. (سنن أبي داود حديث نمبر 1390)

اس سے معلوم ہوا کہ تلاوت قرآن کا اصل مقصد اسے سمجھنا اور اس کی آیات میں غور و فکر کرنا ہے . صرف لفظی طور پر تلاوت کرنا اس کے مقاصد میں سے نہیں ہے۔

 مؤطا امام مالک میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جہری نماز پڑھائی، دوران نماز کوئی ایک آیت چهوٹ گئی نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے دریافت کیا : کیا نماز ميں مجھ سے کوئی آیت چهوٹ گئی ہے؟ اس نے جواب دیا : مجھے نہیں معلوم، اسی طرح دو تین اور لوگوں سے پوچھا سب نے جواب دیا ہمیں نہیں معلوم، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا بات ہے لوگوں کے سامنے قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے مگر انهیں اتنا نہیں معلوم ہوتا کہ کیا پڑھا گیا اور کیا چهوٹ گیا، بنی اسرائیل کے دلوں سے اللہ کی عظمت و کبریائی اسی وجہ سے جاتی رہی کیونکہ ان کے بدن حاضر ہوتے تھے مگر دل و دماغ غائب ہوتے تھے اور اللہ کو وہی عمل مقبول اور پسند ہے جس میں بدن کے ساتھ دل بھی حاضر ہو.

حضرت علی  فرماتے ہیں: میں نے حضور  سے سنا، آپ نے فرمایا: عنقریب فتنے ظاہر ہوں گے میں نے پوچھا اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہےآپ نے فرمایا: اس سے خلاصی اللہ کی کتاب قرآن ہے، اس میں تم سے پہلے اور بعد کی خبریں ہیں اور اس میں تمہارے درمیان فیصلے ہیں، وہ قول فیصل ہے، فضول بات نہیں ہے، جوجابر سرکش اس کو چھوڑے گا اللہ اس کو توڑکر رکھ دے گا، اور جو اس کے علاوہ ہدایت تلاش کرے گا اللہ اس کو گمراہ کردے گا،قرآن ہی حبل اللہ ہے،اور محکم نصیحت نامہ ہے،اور صراطِ مستقیم ہے‘‘

آنحضرت  نے فرمایا: ’’یا أھل القرآن ! لا تتوسدوا القرأٰن واتلوہ حق تلاوتہ من أٰناء اللیل والنھاروافشوہ وتغنوہ وتدبروا فیہ لعلکم تفلحون‘‘۔                 (رواہ البیہقی) 

ترجمہ:’’اے اہل قرآن! اس قرآن کو پس پشت نہ ڈالو، اور اس کی تلاوت کرو جیسا اس کا حق ہے صبح اور شام، اور اس کو پھیلاؤ، اور اسے خوبصورت آوازوں سے پڑھو، اور اس میں تدبر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ‘‘۔

 تدبر قرآن اور سلف صالحین 

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں : عمر رضی اللہ عنہ نے سورہ بقرہ باره سال میں سیکھا جب اسے مکمل سیکھ کر فارغ ہوئے تو ایک اونٹ ذبح کیا. (نزهة الفضلاء تهذيب سير أعلام النبلاء 1/35)

صرف ایک سورت کو سیکھنے میں اتنی لمبی مدت اس لئے لگی کیونکہ انهوں نے اسے غور و تدبر کے ساتھ پڑھا اور سیکھا تھا.

 ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی حاضر ہوا تو عمر رضی اللہ عنہ اس سے لوگوں کے احوال دریافت کرنے لگے انهوں نے کہا : اے امیر المومنین! ان میں سے بعض لوگوں نے اتنا اتنا قرآن پڑھ لیا ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : میں نے کہا : اللہ کی قسم مجھے پسند نہیں کہ لوگ قرآن پڑھنے میں اس قدر جلد بازی سے کام لیں ، میری یہ بات سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے ڈانٹا اور کہا خاموش ہو جاؤ، میں رنجیدہ خاطر ہو کر گھر واپس لوٹنے لگا تو عمر رضی اللہ عنہ آئے اور پوچھنے لگے : ابھی اس شخص کی کون سی بات تمہیں ناگوار گزری ہے؟ میں نے کہا : اگر یہ لوگ قرآن پڑھنے میں اس قدر جلد بازی کریں گے تو اس کے معانی و مفاہیم کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھ سکیں گے جس کے نتیجے میں باہم اختلاف ہوگا اور اس اختلاف کے نتیجے میں آپس میں لڑائی جھگڑے کریں گے ، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : اے ابن عباس تم نے سچ کہا یقینا میں اس بات کو لوگوں سے چھپاتا تھا مگر تم نے حقیقت بیان کر دیا. ( نزهة الفضلاء تهذيب سير أعلام النبلاء 1/278)

 

یقینا بعد میں وہی کچھ ہوا جس کا اندیشہ عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ظاہر کیا تھا چنانچہ خوارج کا ظہور ہوا جو قرآن کو پڑھتے ہیں مگر یہ قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : اس امت کے شروع کے دور میں ایک فاضل صحابی رسول کو صرف بعض سورتیں یاد ہوتی تهیں مگر انهیں قرآن پر عمل کرنے کی توفیق ملی ہوئی تھی جب کہ بعد کے دور کے لوگوں کا حال یہ ہے کہ یہ سب قرآن کو پڑھتے ہیں یہاں تک کہ بچے اور اندھے بھی مگر انهیں قرآن پر عمل کرنے کی توفیق نہیں ملتی .

اسی مفہوم کو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس طرح بیان کیا ہے : قرآن حفظ کرنا ہمارے لئے مشکل ہے مگر اللہ نے اس پر عمل کرنا آسان بنا دیا ہے جب کہ ہمارے بعد کے لوگوں کے لئے حفظ قرآن آسان ہے اور اس پر عمل كرنا مشکل ہے. (الجامع لأحكام القرآن 1/39)

حضرت عباد بن حمزہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت اَسماء رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ یہ آیت: فَمَنَّ اﷲُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ (پس اﷲ نے ہم پر احسان فرما دیا اور ہمیں نارِ جہنّم کے عذاب سے بچا لیا) پڑھ رہی تھیں۔آپ بیان کرتے ہیں کہ میں وہاں کھڑا ہوگیا تو آپ رضی اﷲ عنہا اس آیت کو دوہراتی جاتیں اور (ساتھ) دعا کرتی جاتیں۔ پس ان کا یہ عمل مجھ پر طول پکڑ گیا، پس (وہاں سے) میں بازار چلا گیا اور میں نے اپنی ضرورت پوری کی، پھر وہاں سے میں لوٹا (تو کیا دیکھا) وہ (ابھی تک) اس آیت کو دہرا رہی اور دعا کر رہی تھیں۔“ (رواه ابن أبي شيبة) 

”حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور محمد بن یحییٰ بن حبان بیٹھے ہوئے تھے، پس محمد نے ایک آدمی کو بلایا اور کہا: مجھے اس چیز کے بارے میں خبر دو جو تو نے اپنے والد سے سنی ہے۔ آدمی نے کہا: مجھے انہوں نے یہ خبر دی ہے کہ وہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کا سات دن میں قرآن پاک پڑھنے (ختم کرنے) کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایسا کرنا اچھا ہے مگر یقینا مجھے آدھے ماہ میں یا بیس دنوں میں قرآن پڑھنا زیادہ پسندیدہ اور محبوب ہے۔ اور مجھ سے بھی انہوں نے (یہی) سوال کیا اور فرمایا: پس میں تجھ سے (بھی ایسا) کرنے کو کہتا ہوں۔ پھر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں (قرآن پاک کی قرات کرتے ہوئے) اس میں تدبّر کرتا ہوں اور اس (کے اَسرار و رموز) پر آگاہ ہوتا ہوں۔“قَالَ زَيْدٌ: لَکِنِّي أَتَدَبَّرُ وَأَقِفُ عَلَيْهِ. رواه البيهقي.

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : بے شک اس قرآن کو غلاموں اور بچوں نے پڑھا جنہیں قرآن کی نہ کوئی سمجھ ہے اور نہ تفسیر کا کوئی علم ،قرآن میں غور و فکر قرآن پر عمل کرنے سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ صرف اس کے حروف کو یاد کرنے اور اس کے حدود و احکامات کو پامال کرنے سے، بعض لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ میں نے پورا قرآن پڑھ لیا ایک حرف بھی نہیں چهوڑا حالانکہ اللہ کی قسم اس نے پورا قرآن چهوڑ دیا کیونکہ قرآن پڑھنے کا کوئی اثر اس کے اخلاق و کردار میں نظر نهيں آتا، بعض لوگ فخریہ انداز میں یہ کہتے پھرتے ہیں : میں ایک سانس میں پوری سورت پڑھ لیتا ہوں،

اللہ کی قسم ایسے لوگ نہ قاری ہیں نہ عالم، نہ حکیم و دانا اور نہ متقی و پرہیزگار. بھلا قرآن پڑھنے والوں کا کب یہ طرز و انداز تھا. اللہ تعالى ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ نہ کرے. (الزهد 276)

 حضرت حسن بصری رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں : قرآن اس لئے نازل کیا گیا تاکہ اسے سمجھ کر پڑھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے لیکن لوگوں نے اس کی تلاوت ہی کو عمل بنا لیا (مدارج السالكين 1/485 )

یعنی انهوں نے قرآن کو عمل کی کتاب بنانے کے بجائے صرف لفظی تلاوت کی کتاب بنا لیا چنانچہ بغیر سمجھے اور عمل کئے صرف تلاوت کرتے ہیں.

 محمد بن كعب القرظی فرماتے ہیں : میں رات سے لے کر صبح تک صرف دو سورتیں إذا زلزلت الأرض اور القارعة غور و فکر کے ساتھ پڑھتا رہوں یہ میرے لیے اس سے کہیں بہتر ہے کہ پورا قرآن بغیر غور و تدبر کے جلدی جلدی پڑهوں. (الزهد لابن المبارك 97)

 ابن قيم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ایک انسان کے لئے دنیا و آخرت ميں سب سے زيادہ سود مند چیز اور اس کی نجات کا سب سے آسان راستہ یہ ہے کہ وہ قرآن میں غور و فکر کرے اور اس کی آیات کے معانی و مفاہیم کو سمجھنے کے لیے اپنی پوری توجہ اور کوشش صرف کرے 

اس سے معلوم ہوا کہ قرآن میں غور و فکر کرنا اعلیٰ درجے کی عبادت ہے۔ 

امام غزالی  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ احیاء العُلوم میں فرماتے ہیں کہ ایک آیت سمجھ کر اور غور و فکر کر کے پڑھنا بغیر غور و فکر کئے پورا قرآن پڑھنے سے بہتر ہے۔(احیاء العلوم، کتاب التفکر، بیان مجاری الفکر، ۵ / ۱۷۰)

”حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک شخض نے انہیں کہا: میں(سورہ) مفصل کو ایک رکعت میں پڑھتا ہوں۔ تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا: (تم) اس طرح جلدی جلدی پڑھتے ہو جس طرح شعر پڑھے جاتے ہیں۔ بیشک کچھ لوگ قرآن پڑھتے ہیں مگر قرآن اُن کے گلے سے نیچے نہیں اترتا۔ (لیکن یاد رکھو!) قرآن مجید جب دل و دماغ میں راسخ و پختہ ہو جائے تب ہی نفع دیتا ہے۔“ ( مسلم وأحمد وابن خزيمة.) 

تدبر قرآن کا صحیح منہج کیا ہے؟ 

قرآن کا ذکر کرنا، اسے پڑھنا، دیکھنا، چھونا سب عبادت ہے۔ قرآن میں غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ قرآن میں وہی غوروفکر مُعْتَبر اور صحیح ہے جو صاحب ِ قرآن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرامین اور آپ کے صحبت یافتہ صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم  اور ان سے تربیت حاصل کرنے والے تابعین  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے علوم کی روشنی میں ہو کیونکہ وہ غور و فکر جو اُس ذات کے فرامین کے خلاف ہو جن پر قرآن اترا اور اس غور و فکر کے خلاف ہو جو وحی کے نزول کا مُشاہدہ کرنے والے بزرگوں کے غوروفکر کے خلاف ہو، وہ یقینا معتبر نہیں ہوسکتا.

اکابر علماء ہند کا نقطۂ نظر :

 ہندوستان میں اس سلسلے کا محوری کام اور عوام کو قرآن کریم سے جوڑنے کی مہم حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے قرآن مجید کا فارسی ترجمہ کرکے شروع کیا… پھر شاہ ولی اللہ دہلوی کے صاحب زادے نے اردو ترجمہ کے ذریعے اس تحریک کو آگے بڑھایا، ان کے ترجمہ کو اردو کا الہامی ترجمہ کہا جاتا ہے. 

 شاہ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ نے ”موضع قرآن“ کے مقدمے میں اپنے اردو ترجمہ قرآن کو آسان زبان و عام فہم اسلوب میں پیش کرنے کی وہی غرض و غایت بیان کی ہے جو ان کے مرحوم والد محترم نے اپنے فارسی ترجمہ قرآن ( فتح الرحمن) کے مقدمہ میں واضح کی تھی ۔ 

"اس (اللہ) کے کلام میں جو ہدایت ہے دوسرے میں نہیں، پر کلام پاک اس کا عربی زبان میں ہے اور ہندوستانی کو اس کا ادر اک محال ہے۔ اس واسطے اس بندہ عاجز عبد القادر کو خیال آیا کہ جس طرح ہمارے والد بزرگوار حضرت شاہ ولی اللہ ابن عبد الرحیم محدث دہلوی ترجمہ فارسی کر گئے ہیں سہل اور آسان، اب ہندی زبان میں قرآن شریف کا ترجمہ کرے۔ الحمد للہ کہ سن ۱۲۰۵ھ میں میسر ہوا۔۔۔ اور اس کتاب کا نام ”موضح قرآن“ ہے۔ یہی اس کی صفت ہے اور یہی اس کی تاریخ ہے ۱۲۰۵ھ(۔معارف. جنوری ۲۰۲۳ء مقالہ نگار ڈاکٹر محمد انس حسان  ") 

مسند ہند حجۃ الاسلام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے فارسی ترجمہ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ :

قرآن مجید کا متن اور فارسی کے مختصر رسائل پڑھنے کے بعد جب فارسی زبان بے تکلف سمجھنے کی استعداد پیدا ہو جائے تو اس ترجمے کو شروع کرانا چاہئے خصوصا سپاہیوں اور پیشہ ور لوگوں کے بچوں کے سن شعور کو پہنچنے کے ساتھ ہی اس کی تعلیم دینی چاہئے کیوں کہ ان سے یہ امید نہیں کہ وہ علوم

عربیہ کی مکمل تحصیل کریں گے تاکہ ان کے دلوں میں پہلی چیز جو جاگزیں ہو وہ کتاب اللہ کے معانی و مطالب ہوں، اس سے ان کی فطری سلامتی باقی رہے گی“۔

شیخ الہند مولانا محمود حسن کے ترجمہ قرآن کے مقدمے کا دل میں نقش کر جانے والا یہ اقتباس قابلِ   توجہ اور مشعلِ راہ ہے. فرماتے ہیں :سب کو معلوم ہے کہ آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو سب چیزوں سے ناواقف اور محض انجان ہوتا ہے، پھر سکھلانے سے سب کچھ سیکھ لیتا ہے اور بتلانے سے ہر چیز جان لیتا ہے۔ اسی طرح حق کا پہچاننا اور اس کی صفات اور احکام کا جانا بھی بتلانے اور سکھلانے سے آتا ہے، لیکن جیسا حق تعالی نے ان باتوں کو قرآن شریف میں خود بتلایا ہے ویسا کوئی نہیں بتلا سکتا اور جو اثر اور برکت اور ہدایت  خدائے تعالی کے کلام میں ہے وہ کسی کے کلام میں نہیں ہے، اس لیے عام و خاص جملہ اہلِ اسلام کو لازم ہے کہ اپنے اپنے درجے کے موافق کلام اللہ کے سمجھنے میں غفلت اور کوتاہی نہ کریں۔

گذشتہ سطور میں تفصیل سے آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ، آثار صحابہ وسلف صالحین اور مستند مفسرین اور اکابر واساطین علماء کے اقوال کی روشنی میں قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے اس میں تفکر تدبر اور غور فکر کی اہمیت اور فضیلت کو بیان کیا گیا، تدبر قرآن کے سلسلے میں سلف صالحین کے طرز عمل کی نشاندہی کی گئی، جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں تدبر کتنا عظیم عمل اور کتنا ضروری ہے اور بلاسمجھے پڑھنا، عدم تفکر کو اپنی عادت بنالینا تدبر کی ضرورت سے انکار کرناکس حد تک قرآن کریم کے حقوق کی پامالی اور کتنا سنگین عمل ہے؟

اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم میں تدبر کرنے اور حسبِ استطاعت اس کے تمام حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے. آمین. واللہ ولی التوفیق

Exit mobile version