مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
اللہ رب العزت نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری کائنات کے لئے رسول بنا کر بھیجا ، اور آپ کی رحمت کو اس قدر عام کر دیا کہ آپ رحمۃ للعالمین قرار پائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو تمام انس وجن کے لیے نمونۂ عمل بنا دیا ، چونکہ نبی اور رسول کے اعمال وعقائد ، معاملات و تعلقات کی نگہبانی منجانب اللہ کی جاتی ہے، اس لیے وہ پیدائشی طور پر معصوم اور گناہوں سے پاک ہوتے ہیں، اسی وجہ سے ان سے اعلان نبوت و رسالت سے پہلے بھی کوئی ایسا کام نہیں ہوتا جو عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ کے خلاف ہو، اسی بنیاد پر نبی ورسول کی زندگی اسوہ قرار پاتی ہے اور اعلان نبوت سے پہلے کی زندگی بھی مثالی ہوتی ہے، اور اس طرح پاک وصاف ہوتی ہے کہ اس کی پیروی کی جا سکتی ہے۔
ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کا فیصلہ تو اسی وقت ہو گیا تھا جب آدم علیہ السلام تخلیق کے مرحلے سے گذر رہے تھے، پھر آپ کی ولادت با سعادت ہوئی ، جو انسانوں پر اللہ کا بڑا فضل تھا، سن شعور تک پہونچنے کے بعد آپ نے ذکر وفکر اور یاد الٰہی کے لیے غار حرا کا رخ کیا، جہاں خلوت تھی، تنہائی تھی، رب کائنات کی نوازش تھی، انعامات تھے، ان دنوں اللہ رب العزت کی جانب سے آپ کی ذہنی اور جسمانی نشوو نما، وحی الٰہی کے بوجھ کو بر داشت کرنے کے لیے کی گئی ، اس کے باوجود جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ پر کپکپی طاری ہوئی اور خوف نے آپ کے دل ودماغ کو ہلا کر رکھ دیا ، زَمِّلُوْنِی ، زَمِّلُوْنِی کی صدا سے یہی سمجھ میں آتا ہے ، اور یَا اَیُّھَا الْمُزَّمِّلْ، یَا اَیُّھَا الْمُدَّثِّر کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے اس خوف وہراس کے ماحول سے نکال کرآپ کو کار نبوت کی ادائیگی کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم دیا ، اور آپ ایک داعی کی حیثیت سے سر گرم عمل ہو گیے۔
یوں تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اور زندگی کا ہر لمحہ ہمارے لیے قیمتی ہے، لیکن جب غار حرا میں آپ پر نزول قرآن کا آغاز ہوا، اور آپ وہاں سے نکل کر باہر آئے تو امت کے لیے اقراء کا پیغام لے کر آئے ، علم کا وہ تصور جو اللہ رب العزت کی معرفت عطا کرے اور زندگی کے کسی حصے میں انسان کا رشتہ رب سے نہ ٹوٹے، یہ اشارہ تھا اس بات کی طرف کہ جہالت کی تاریکیاں دور ہوں گی اور علم کے نور سے دنیا منور ہوگی ، اللہ رب العزت نے آپ کو اُمی بنا کرسارے علوم وتحقیقات کے دروازے آپ پر کھول دیئے، خاندان ، پڑوس ، سماج اور ملک کے تئیں جو ذمہ داریاں اور حقوق ہیں، ان تمام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف واقف کرایا؛ بلکہ عمل کرکے دکھایا ، علم وعمل کا ایسا حسین سنگم کسی اور کی زندگی میں دیکھنے کو نہیں ملتا ، اللہ رب العزت نے بکریاں چرانے ، مزدوری کرنے، صلح صفائی کرانے، جہاں داری اور جہانبانی کرنے کے علوم وفنون سے آپ کو آراستہ کر دیا ، کام بہت سارے تھے، اوصاف بھی بہت تھے،لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تعارف معلم کی حیثیت سے کرایا ، اور یہ بھی واضح کر دیا کہ میں کتابوں کے جامد حروف والفاظ پڑھانے والا معلم نہیں ہوں، بلکہ ان الفاظ کے پیچھے چھپے معانی وحقائق کو عملی زندگی میں اس طرح رائج کرنے والا ہوںکہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی ترویج واشاعت ہو اورانسان آخرت میں جنت کا مستحق قرار پائے۔
قرآن کریم نے علم والوں کے فضائل بیان کیے اور واضح کر دیا کہ علم والے اور بے علم اسی طرح برابر نہیں ہو سکتے، جس طرح اندھیرا اور اجالا برابر نہیں ہے، دن، رات برابر نہیں ہیں، اعلان یہ بھی کیا گیا کہ علم والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں، ان کے اندر معرفت رب ہوتا ہے جو ان کو خودشناشی اور خدا شناشی پر آمادہ کرتا ہے ، یہ معرفت خدا وندی انسانی زندگی کو ایسے معتدل اور متوازن راہ پر ڈالتی ہے کہ ہر دو جہاں میں فوز وفلاح کے دروازے کھلتے ہیں، اس طرح دیکھیں تو غار حرا کاپہلا سبق اور امت کے لیے پہلا تحفہ تعلیم ہے ، اور یہ امت تعلیم کے نام پر ہی اٹھائی گئی ہے، اس پہلے تحفہ سے مسلم سماج کی بے اعتنائی سے ہم سب واقف ہیں، آج صورت حال یہ ہے کہ جہاں مسلم آبادی زیادہ ہے، وہاں تعلیم کا گراف خطرے کے نشان سے بہت اونچا ہو گیا ہے ، مسلم بچے، بچیاں زری کے کارخانوں میں لگے ہوئے ہیں، ہوٹل میں بیرے کا کام کر رہے ہیں اور کچڑے کے ڈھیر سے ردی چننے میں لگے ہیں، ان کا بچپنہ اس طرح تباہ ہو رہا ہے؛ بلکہ تباہ کیا جارہا ہے، تعلیمی اداروں میں پڑھنے والوں کی بھیڑ کو دیکھ کر ہم سمجھتے ہیں کہ ملت پڑھ رہی ہے، حالانکہ یہ بہت معمولی تعداد ہے جو مدارس کی چٹائی اور اسکول کی بینچ پر آپ کو نظر آرہی ہے، جب تک ہم بھینس کی پیٹھ سے بچوں کو اتار کر تعلیم گاہوں میں نہیں لاتے ، بیرے کے کام کو چھڑوا کر پڑھنے میں نہیں لگاتے، بال مزدوری سے انہیں نہیں بچاتے ،ہم نہیں کہہ سکتے کہ ملت پڑھ رہی ہے ، ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اثرات، اپنے وسائل ، اپنی طاقت وتوانائی علم کے فروغ میں لگائیں اور اس راہ کی دشواریاں دور کرنے کے لیے جد وجہد کریں یہ ہمارا اسلامی اور ایمانی تقاضہ بھی ہے اور مذہبی فریضہ بھی ۔
دوسری چیز جو آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیات مبارکہ میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے اور جس کے ذریعہ آپ نے مشکل حالات ، مصائب وپریشانیوں کا مقابلہ کیا وہ آپ کی قوتِ برداشت ، عفو ودر گذر ، صبر وطمانینت ہے، زندگی کا ہر لمحہ صفت حِلم سے متصف اور مزین ہے، ہمیں سیرت کا مطالعہ اس نہج سے کرنا چاہیے اور آج کے دور میں جب کہ برداشت کا مزاج ختم ہو تا جا رہا ہے ، پہلے سے کہیں زیادہ اس حوالہ سے سوچنے ، سمجھنے پڑھنے اور بتانے کی ضرورت ہے۔
یاد کیجئے!جب آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بار کوہ صفا سے آواز لگائی تو ابو لہب نے جو سلوک آپ کے ساتھ کیا ، طائف کی گلیوں میں جن مراحل سے آپ کو گذرنا پڑا، کعبۃ اللہ میں نماز پڑھتے وقت جس طرح گلے میں پھندا ڈالا گیا، راستوں میں کانٹے بچھائے گیے اور جسم اطہر پر اوجھ اور غلاظت ڈالی گئی ، عرب کی روایت کے خلاف عمرہ کی ادائیگی کے بغیر حدیبیہ سے آپ کی واپسی ہوئی، کفار مکہ کی شرطوں پر صلح حدیبیہ انجام پذیر ہوا، لیکن آپ نے حلم وبردباری کا دامن کہیں اور کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا، خدائی مدد کے باوجود آپ نے ان کے لیے بد دعائیں نہیں کیں ، زبان مبارک سے جاری ہونے والے کلمے آج بھی رکارڈ ہیں، اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے یہ مجھے نہیں جانتے اور امید بھرے یہ جملے بھی کہ ابھی یہ ایمان نہیں لائے، شاید ان کی نسلوں میں کوئی ایمان لے آئے ، اس تحمل اور برداشت نے تپ تپا کر وہ ماحول بنا دیا کہ اسلام تیزی سے پھیلتا چلا گیا، وہ لوگ جو اسلام کے ماننے والے کو باپ دادا کے دین سے منحرف سمجھتے تھے، اسلام کی عظمت کو سمجھنے لگے اور اسلام ایک بڑی طاقت بن کر ابھرا۔
خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ تحمل اور برداشت بزدلی نہیں ہے، یہ کام کی حکمت عملی ہے، اس کے ساتھ اللہ کی نصرت اور مدد آتی ہے، اللہ رب العزت نے خود ہی اعلان کر رکھا ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، واقعہ یہ ہے کہ تحمل اور برداشت کمزورلوگوں کا کام نہیں ہے، اس کے لیے مضبوط قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے، آج سماج میں اس کی کمی ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے ہمارا خاندان، ہمارا پڑوس اور سماج سب ہم سے پریشان ہے، بات بات پر بھڑک جانا، ہماری عادت بن گئی ہے، نئی نسلوں میں یہ بیماری زیادہ عام ہو گئی ہے ، اس لیے بڑے بوڑھے بھی ان سے ایک فاصلہ بنائے رکھتے ہیں، پتہ نہیں کب وہ بھڑک جائیں، ان کی مثال پٹرول کی ٹنکی کی طرح ہو گئی ہے جو جلد آگ پکڑ لیتی ہے اور سب کچھ جلا کرچھوڑ تی ہے؛ اسی لیے پٹرول ٹنکی پر (Keep Distence)فاصلہ بنائے رکھیے، لکھا ہوتا ہے۔تیسری اور اہم چیز ذکر اللہ ہے، بلکہ کہنا چاہیے کہ یہی قوت کا اصل سر چشمہ ہے، اللہ کے ذکر اور رجوع الی اللہ سے جو قوت ملتی ہے اس سے آدمی علم کی طرف بھی متوجہ ہوتا ہے، اور قوت برداشت بھی اس کے اندر پیدا ہوتی ہے، اس لیے ذکر اللہ پر خصوصی توجہ دینی چاہیے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر کثیر کا حکم دیا ہے اور ذکر کثیر تسبیح کے دانوں پر ذکر میں محدود نہیں ہے، ذکر کثیر کا مطلب ہے کہ ہر وقت خدا یاد رہے، ہر کام کے کرتے وقت اللہ کا حکم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر نگاہ رہے، اس سلسلے میں مختلف اعمال کے وقت جو دعائیں قرآن واحادیث میں مذکور ہیں، اس کا پڑھنا بھی ذکر اللہ ہی ہے، ذکر اللہ کا بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے بندے کے اندر خوف خدا اور فکر آخرت پیدا ہوتی ہے، جو در اصل ہماری زندگی میں نیکیوں کی طرف رغبت اور اعمال کو معتدل اور متوازن کرنے کا بڑا ذریعہ ہے، اس کی وجہ سے دنیا وآخرت دونوں سنور جاتی ہے،در اصل علم سے ہمیں معرفت رب ملتا ہے، خدا شناشی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، برداشت ہمیں مشکل حالات اور مصائب پر صبر کرنا سکھاتا ہے اور جو صبر کرتا ہے اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے، بر داشت کی یہ قوت بھی اللہ دیتا ہے، اس لیے اللہ کی طرف رجوع کرنا اور اللہ کو یاد کرتے رہنا ضروری ہے، قوت کے یہ تینوں سرچشمے ہمیں حاصل ہوجائیں تو ہماری دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی