فتنہ و فساد کی جننی کہیں اسے
نوک قلم: آفتاب رشکِ مصباحی ، القدس لائبریری داراپٹی مظفرپور
کہتے ہیں کہ بدگمانی ام الفساد ہے۔
جی! یہی سارے فتنہ و فساد کی جننی ہے۔ کیوں کہ انسانی معاشرے میں فتنہ و فساد اور آپسی اختلاف و انتشار میں جہاں دوسرے اسباب کی کار فرمائی ہوتی ہے، وہیں بد گمانی کا بھی اہم رول ہوتا ہے۔یہ ایک ایسا ناسور ہے جو اجماعی طور پر پورے سماج کا اور انفرادی طور پر ہر فرد بشر کا سکون غارت کر دیتا ہے ۔بد قسمتی سے اس کے شکار عوام و خواص سب ہوتے جا رہے ہیں۔
بد گمانی کیا ہے؟
کسی بھی شخص کے تعلق سے اپنے دل و دماغ میں کوئی منفی بات پال لینا بد گمانی کہلاتا ہے۔ یہ کبھی چند ثانیہ کے لیے ہو سکتا ہے اور کبھی محض چند دنوں اور بعض اوقات لمبے وقتوں کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔
بد گمانی کیسے ہوتی ہے؟
بد گمانی کبھی اپنی سماعت و بصارت کے دھوکے سے پیدا ہوتی ہے، کبھی صاحب معاملہ کے علاوہ کسی دوسرے ( خواہ نیک ہو یا بد ) کی باتیں سن کر اور کبھی افواہوں پر کان دھرنے سے پیدا ہو تی ہے۔ کبھی اپنی ہی عقل و فہم کو کامل اور مصیب سمجھنے سے ہوتی ہے ، تو کبھی ایسے بد اخلاق و بد اطوار لوگوں کی صحبت سے بھی بدگمانی پیدا ہو جاتی ہے ، جو بذات خود بد گمانی میں مبتلا ہوتے ہیں ۔
صحبۃ الاشرار تورث سوء الظن بالاخیار۔ بروں کی صحبت نیک لوگوں کے تعلق سے ( دلوں میں ) بد گمانی پیدا کرتی ہے۔ جب کہ پر امن معاشرے کی تشکیل اور فرد سے لے کر جماعت تک ہر ایک کی ہمہ جہت ترقی کے لیے بد گمانی سے اجتناب ایک لازمی ضرورت ہے۔ اسی وجہ سے قرآن و حدیث میں اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی مذمت بھی کی ہے۔ چنانچہ سورہ حجرات میں ہے: اے ایمان والو ! زیادہ گمان کرنے سے بچو کہ بعض گمان (ایسے ) گناہ ہوتے ہیں ( جن پر آخرت میں پکڑ ہوگی) ۔ اور کسی کی ٹوہ میں نہ پڑو ، نہ اور ایک دوسرے کی غیبت کرو۔ کیا تم میں کا کوئی شخص اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا ؟( ہرگز نہیں) تم تو خود ( اس طرح کے کام سے ) نفرت کرتے ہو ۔ اللہ سے ڈرو۔ بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔ سورہ یونس میں ہے:حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں، حالاں کہ گمان حق کی جگہ کبھی نہیں لے سکتا۔ اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ یہ کر رہے ہیں۔صحیح بخاری میں ہے: حضرت اعرج سے مروی ہے ، انھوں نے کہا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: بد گمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی بد ترین جھوٹ ہے۔ کسی کی ٹوہ میں نہ پڑو ،نہ کسی کی بات پر کان لگاؤ اور نہ کسی سے بغض رکھو۔(بلکہ) سب لوگ بھائی بھائی ہو جاؤ۔ یہی حدیث چند الفاظ کے اضافے کے ساتھ اس طرح بھی آئی ہے کہ بد گمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے بڑی جھوٹ ہے۔ نہ کسی کی بات پر کان لگاؤ نہ کسی کی ٹوہ میں پڑو ، نہ کسی سے حسد رکھو نہ کسی سے دشمنی رکھو اور نہ کسی سے بغض ہی رکھو۔اے اللہ کے بندو! سب لوگ بھائی بھائی ہو جاؤ۔بخاری شریف ہی میں یہی حدیث ‘‘ولا تناجشوا’’(خرید و فروخت میں قیمت بڑھا کر کسی کو دھوکا نہ دو ) کے اضافے کے ساتھ بھی مروی ہے۔ مسلم شریف میں یہی حدیث ‘‘ولا تنافسوا’’ ( اور لالچی نہ بنو ) کے اضافے کے ساتھ مروی ہے۔
بد گمانی کے نتیجے میں کیا ہوتا ہے؟
بخاری و مسلم کی مروی احادیث سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ آپسی منافرت اور اخلاقی گراوٹ میں بد گمانی کا بڑا ہاتھ ہے۔ مثلا: بد گمانی ہی کی وجہ سے انسان ایک دوسرے کی ٹوہ میں پڑ جاتا ہے، اس کے عیوب کا متلاشی رہتا ہے۔ آپس میں ایک دوسرےسے کون کیا بات کر رہا ہے ، اسے سننے کے لیے ہمہ دم کان لگائےپھرتا ہے۔ پھر ایک دوسرے سے حسد، بغض، کینہ اور دشمنی بڑھنے لگتی ہے۔ بہتان بازی، الزام تراشی اور چغل خوری کا بازار گرم ہوجاتا ہے ۔ انسان اخلاقی سطح پر اتنا گر جاتا ہے کہ جس سے وہ بد گمان ہوتا ہے اپنے اعتبار سے انتہائی حد تک اسے بدنام اور برباد کرنےکی ہر ممکنہ کوشش کرتا ہے۔زبان و قلم سے اس کی عزتیں اچھالتا ہے، اس کے خلاف قسم قسم کے پروپگنڈے کرتا ہے اور ان سے بھی جی نہیں بھرتا ،تو بسا اوقات تمام حدیں پار کر کے اس کی مرمت کروانے سے بھی نہیں چوکتا۔ اور کمال تو یہ ہے کہ یہ سب کرنے کے باوجود بھی وہ خود کو صائب اور اگلے کو خاطی ہی قرار دیتا ہے۔
بد گمانی سے کیسے بچیں؟
بد گمانی سے بچنے کے متعدد طریقے ہیں:
- ۱۔ کبھی کسی کے تعلق سے دل میں کوئی برا خیال آ جائے ، تو کثرت سے تعوذ ( اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم) پڑھنا چاہیے ، کیوں کہ ایسے خیالات شیطانی وسوسے ہوتے ہیں۔ اور اگر شیطان کی طرف سے (دل میں کبھی کوئی) وسوسہ (بد گمانی) آ جائے، تو اللہ کی پناہ مانگو، وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔
- ۲۔ کبھی کسی کے تعلق سے کوئی بھی شخص آپ سے کوئی نامناسب بات کہے ، تو بلا تحقیق انیق اسے قبول نہ کریں ۔
معاشرے میں بد گمانی کی بڑھتی روش میں اگلے کی بات کو منزل من السماء کی طرح قبول کر لینے کی غلط روایت نے اپنا کام خوب کیا ہے۔ اور اگر بات کسی مذہبی شخص یا ادارے کی ہو ،نیز اس کے متعلق پہلے سے ہماری کانوں نے کچھ سن رکھا ہو یا ہمارے دلوں میں کچھ ہو اور وہاں کا کوئی طالب علم یا کوئی خادم کسی جرم کی بنا پر بھگا دیا جائے اور وہ ہمارے پاس آکر کہے کہ وہاں سے ہم اس لیے چلے آئے کہ وہاں اس اس طرح کی باتیں ہوتی ہیں، وہ اس اس طرح کی باتیں کرتے ہیں ، تو آنے والے کو ہم فرشتہ مان کر اس کی ہر بات پر وحی الہی کی طرح ایمان لے آتے ہیں اور پھر سب سے کہتے پھرتے ہیں کہ دیکھا! وہاں کا طالب علم یا خادم کیا کہہ رہا ہے؟ حالاں کہ وہ طالب علم یا خادم صرف اپنے جرم کو چھپانے کے لیے اگلے پر یا اس کے ادارے پر عیب و الزام لگا رہا ہوتا ہے۔ اس لیے اپنے آپ کو بد گمانی سے محفوظ رکھنے کے لیےضروری ہے کہ انتہائی درجے کی تحقیق کے بغیر کسی کی بات تسلیم نہ کریں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے: اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق ( شخص) تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی خوب اچھی طرح تحقیق کر لیاکرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ ( جذبات سے مغلوب ہو کر ) نادانستہ طور پر کسی گروہ کو نقصان (پہنچانے کی کوشش ) کر بیٹھو ، پھر تمھیں اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔ بلکہ اگر کوئی کسی دوسرے کی نامناسب بات آپ تک پہنچائے تو آپ کو چاہیے کہ اسے سرے رد کر دیں کہ قرآن میں اللہ رب العالمین نے مومنین کو اسی کی تعلیم دی ہے۔ جیسا کہ سورہ نور میں ہے: تم لوگوں نے جب یہ بات سنی تو کیوں نہ مومن مرد و عورت نے اپنے لوگوں کے بارے میں نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو صریح بہتان ہے؟۔
- ۳۔ نامناسب بات کی پردہ پوشی کریں ۔
اولا تو کسی کے عیوب کا متلاشی نہیں ہونا چاہیے، پھر بھی اگر کسی پر کسی کا کوئی عیب کھل جائے تو اب اسے دوسروں تک پہنچاتا نہ پھرے، بلکہ پردہ پوشی سے کام لے، کیوں کہ انبیا کے علاوہ کوئی بھی فرد بشر ایسا نہیں ہے جو من جملہ تمام تر عبوب و نقائص سے پاک ہو۔ ہر شخص میں کسی نہ کسی جہت سے کوئی نہ کوئی عیب و نقص ہوتا ہے۔ اس لیے دوسروں کے عیوب دیکھنے اور اسے مشتہر کرنے کی بجاے اپنے عیوب پر نظر رکھنی چاہیے اور اگلے کی اصلاح کے لیے اللہ رب العالمین سے ہمہ دم دعا گو بھی رہنا چاہیے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مسلمان ( کے عیوب ) کی پردہ پوشی کی ، تو اللہ رب العالمین دنیا و آخرت ( دونوں جہان ) میں اس کی پردہ پوشی فرمائےگا۔
- ۴۔ صالحین کی صحبت میں بیٹھا کریں ۔
کسی بھی برائی سے بچنے کا ایک آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے جن کی صبح و شام ، جن کی ہر نقل و حرکت صرف اور صرف رضاے مولیٰ کے لیے ہو اور وہ ہر لمحہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے اللہ کے ذکر و فکر میں مگن رہتے ہوں ۔ ایسو ں کی صحبت یقینا مثبت تبدیلی کا ایک مؤ ثر ذریعہ ہوتی ہے، کیوں کہ صحبت کا بہر حال اثر ہوتا ہے۔ چنانچہ متفق علیہ حدیث ہے: حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: نیک آدمی اور برے آدمی کی صحبت کی مثال عطار (عطر بینے والا) اور لوہار کی طرح ہے ، کہ -عطر فروش – یا تو تمہیں کچھ عطر دے دےگا یا تم اس سے خرید لوگے، یا (کم از کم اس کے پاس جانے کی وجہ سے ) خوشبو تو سونگھ ہی لوگے۔ جب کہ –لوہار- ( کے پاس جانے کی وجہ سے) یا تو وہ تمہارا کپڑا جلا دےگا یا پھر تم دھونئیں دار بدبو کا سامنا کروگے۔
بہر حال انسانی معاشرے کو پر امن، بقاے باہم اور ترقی پذیر دیکھنا ہو تو بدگمانی جیسے ام الفساد سے انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر اجتناب لازم ہے۔