Site icon

اذان کواس کاحق دیجئے

بقلم: مفتی ناصرالدین مظاہری 

اذان:  توحید ورسالت کی صدائے بازگشت ہے…اذان اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا اقرارمسلسل،اعلان مسلسل، صدائے مسلسل،دعوت مسلسل اورتلقین مسلسل ہے …اذان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ عظیم سنت ہے جو دن میں پانچ وقت قطب شمالی سے جنوب کے انتہائی کنارے تک اور سورج کے طلوع ہونے کی جگہ سے سورج کے ڈوبنے کی جگہ تک ہرجگہ اللہ کی الوہیت اور رسول کی رسالت کا ڈنکا بجاتی ہے…ان پاک کلمات سے ہر انسان کی سماعت محظوظ ہوتی ہے تو اسی پاک نام کی برکت سے تمام دنیامحفوظ رہتی ہے۔

اذان کے سلسلہ میں ہم سے عموماً بڑی غفلت اورکوتاہی ہوتی ہے ،ہم ایسے لوگوں کو اذان پر مامور کردیتے ہیں جن کی دینی معلومات صفرکے درجے میں ہیں، جن کواذان کے آداب کا بھی علم نہیں ہے ،جن کی آوازنہایت مکروہ اورجن کالہجہ بہت ہی خراب ہوتاہے،جن کومخارج کابھی علم نہیں ،اذان کی سنتوں سے لاعلم ہیں، جنھیں کب کہاں اپنی آوازکتنی گھٹانی اور بڑھانی چاہئے پتہ ہی نہیں ہے ،کچھ لوگ تو مدکی یاتو رعایت ہی نہیں کرتے یا رعایت کے چکر میں مد کوکھینچ کھانچ کر ربڑ بنادیتے ہیں جو ختم ہونے کانام نہیں لیتی۔

حالانکہ اذان نمازکے لئے پکار ہے، اذان نماز کی تمہیدہے، اذان اللہ تعالیٰ کے ایک فرض کی تکمیل کا دیباچہ ہے لیکن ہماری غفلت کایہ عالم ہے کہ اگرامام رکھ لیا تو مؤذن نہیں ،بہتوں کوتو یہ کہتے سناہے کہ اذان تو سبھی کوآتی ہے اس لئے اذان کے لئے کسی مؤذن کا تقرر کرکے پیسے ضائع کرنے سے کیا فائدہ؟

۲۱؍نومبر۲۰۲۲کو دہلی کے ایک اردو اخبار میں پڑھا کہ قطری حکومت کے زیراہتمام ’’ فیفاورلڈکپ‘‘کے نام سے ایک بڑا کھیل منعقد ہورہا ہے جس کی تیاریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قطری حکومت نے اسٹیڈیم کے قرب وجوارمیں موجود مساجد میں شاندار مؤذن متعین کردئے ہیں تاکہ روزآنہ پنج وقتہ خوبصورت اذان دنیا بھرسے آئے مہمانان سنیں توانھیں دین اسلام کاپیغام اچھی آوازمیں پہنچ سکے۔

غیرمسلم کاشکوہ:

مجھ سے ایک غیرمسلم پڑوسی نے شکایت بھرے اندازمیں کئی سال پہلے کہاتھا:

’’ مولانا صاحب!ہم کہیں رشتہ داری میں جاتے ہیں تو وہاں اذان بہت اچھی ہوتی ہے من کرتاہے کہ سنتے ہی رہو لیکن یہاں جو اذان ہوتی ہے اس کوسن کر طبیعت خراب ہونے لگتی ہے ،ڈرلگنے لگتا ہے،بچے رونے لگتے ہیں،اذان وہ بھی ہے جس کوسننے کومن چاہتاہے اور اذان یہ بھی ہے جس کوسننے سے بدن کانپتاہے، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ اذان ایسا آدمی دے جواچھی آواز کامالک ہو؟‘‘۔

اچھی آوازکی کشش:

عموماً دیکھا گیاہے کہ اگرپڑھنے والا اچھاہو،قاری ہو،حسن صوت کا مالک ہو، لحن داؤدی پرقادر ہو،تلفظ شاندار اور ادائیگی لاحواب ہوتو گھنٹوں طبیعت طبیعت نہیں اکتاتی ۔

قراء ت سن کرسڑک جام:

ہمارے مدرسہ ضیاء العلوم تمبورضلع سیتاپور میں حضرت قاری محمدعمرلکھیم پوریؒ استاذ تجوید تھے ،وہ مدرسہ کے اندر جب طلبہ کوتجوید کی مشق کراتے تھے تو باہرمتصلاً سڑک پرلوگوں کااژدحام ہوجاتا تھا، کیونکہ انسان کی تخلیق تو بہرحال فطرت اسلام پرہوئی ہے وہ جب کلام الٰہی سنتاہے تواس کی روح ایک کیف و سرور سے سرشار ہوجاتی ہے،اس پروجد اور رقت طاری ہوجاتی ہے،اس کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں ،اس کا دل نرم پڑجاتا ہے ،کوئل کی آواز کتنی بھلی لگتی ہے،کتے اورگدہے کی آواز کتنی تکلیف دہ ہوتی ہے۔

اللہ کاپاک نام اوراللہ کاپاک کلام یہ تواس لائق ہیں کہ ان کوسب سے زیادہ لیاجائے ،سب سے زیادہ پڑھا جائے ،لیکن ہوتااس کے برعکس ہے ،ہم کہنے کوتو ڈیڑھ ارب سے بھی زیادہ ہیں ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ صحیح قرآن کریم پڑھنے والے یاصحیح اذان دینے والے چند کروڑبھی نہیں ہوں گے۔

مؤذن کی بھدی آواز اور مائک:

اگرمؤذن کی آوازبھی خراب ہو،لہجہ بھی دہاتی ہو،تجوید اور مخارج کی رعایت بھی نہ ہو،اوپر سے مائک بڑا شاندار اور معیاری ہوتو اندازہ کریں ہماری اذان کیا’’انقلاب‘‘پیداکرسکتی ہے۔

اذان سن کرشیطان کا بھاگنا:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 ’’جب نمازکے لئے اذان دی جاتی ہے تو اذان کی آواز سنتے ہی شیطان پادتا ہوا بھاگتا ہے‘‘۔اذا أذن بالصلاۃ أدبر الشیطان ۔

ہمارے ہرشہرہرمحلہ بلکہ محلہ میں کئی کئی مساجد ہیں لیکن بہت سے مؤذنین کی کریہہ آواز سن کر شیطان ہی پادتا ہوا نہیں بھاگتا بلکہ بہت سے لوگ بھی خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔آپ عربوں کی اذانیں سنیں ، یا گجرات وغیرہ میں مساجدسے پنج وقتہ پکار کوسنیں تو جی چاہتا ہے کہ کاش یہ اذان ہوتی ہی رہے ،جب کہ ہمارے یوپی، بہار، بنگال، اڑیسہ، جھارکھنڈ،آسام وغیرہ کی اکثر مساجد کی اکثر اذانیں سن کرطبیعت چاہتی ہے کہ کسی اورمسجدمیں نماز ادا کرلی جاتی توبہتر تھا۔

علامہ قرطبیؒ کاارشاد:

حضرت علامہ قرطبی ؒکا ارشاد ہے کہ اذان میں اگرچہ مختصرکلمات ہیں تاہم یہ عقیدہ کے بنیادی مسائل پرمشتمل ہے،اس کی شروعات ہی اللہ تعالیٰ کی توحید، بڑائی ،کبریائی ،اس کے وجود اور اس کی قوت کاملہ، توحید کے اقرار، شرک کے انکار، رسالت محمدی کے اعلان ، طاعت وعبادت کی پکار،فلاح اور نجاح کی  دعوت ، معاد کی طرف اشارہ اورنماز و جماعت کی طرف بلاوا ہے۔

علامہ ابن قیم کاارشاد:

حضرت علامہ ابن قیم کا ارشاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذان اور تلاوت قرآن میں اچھی آواز کو پسند فرماتے تھے۔ان صلی اللّٰہ علیہ وسلم یحب حسن الصوت بالآذان والقرآن ویستمع الیہ۔

قرآن کریم کی تلاوت کے سلسلہ میں ہمیں حکم ہواہے کہ زینوا القرآن بأصواتکم۔ اپنی حسن آوازسے قرآن کریم کو زینت دو۔ (احمد) حاکم نے اپنی مستدرک میں ’’فان الصوت الحسن یزید القرآن حسناً‘‘ کا بھی اضافہ کیاہے یعنی خوش آوازی قرآن کریم کے حسن میں اضافہ کاباعث ہے۔اذان کا بھی یہی حال ہے۔

حضرت بلالؓ کاانتخاب:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کااذان کے لئے انتخاب اس لئے بھی فرمایا تھا کیونکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ خوش وگلو و خوش آواز تھے،ان کی آواز بلندتھی ،اچھی آواز کی اپنی ایک فطری کشش ہوتی ہے، لوگوں کے قلوب اچھی آواز کی طرف کھنچتے ہیں لیکن افسوس کہ ہم اذان کے سلسلہ میں نہایت ہی غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اس دائمی عبادت کو وقتی سمجھ کر درگزر سے کام لیتے ہیں۔

فقہائے امت کااجماع:

فقہائے امت نے تاذین کے لئے ایسے شخص کو فوقیت اور اہمیت دی ہے جو خوش گلو، خوش آواز، بلند آواز بھی ہو۔

مؤذن کے لئے مسنون ہے کہ وہ خوش آواز ہو کیونکہ اس کی آواز سامعین کوبھلی محسوس ہوتی ہے۔اس پرتمام فقہی مذاہب حنفی،مالکی،شافعی اورحنبلی سبھی متفق ہیں۔یُسْتَحَبُّ فِی المُؤذِّنِ ان یکونَ حَسَنَ الصَّوتِ۔

ہماری غفلت:

ہم کھاناکھاتے ہیں اور کھانا حلق کے نیچے جاتے ہی پاخانہ میں بدل جاتا ہے ، اس کھانے کے لئے ہم کتنی کوششیں کرتے ہیں،کتنے مصالحہ جات جمع کرتے ہیں،کتنی دلچسپی سے تیار کرتے ہیں،کتنے ہاتھ اور کتنے دماغ اس کی تیاری میں لگتے ہیں تب کہیں جاکر کھانا تیار ہوتا ہے اور ہم چندمنٹوں میں اسے ہضم کرجاتے ہیں سوچنے کی بات ہے کہ چندمنٹ کی لذت کے لئے ہمارا یہ عمل ہے اور اذان جیسے عظیم شعارکے سلسلہ میں ہماری یہ غفلت ہے کہ کسی ادارہ میں تصحیح اذان کا شعبہ نہیں ملے گا،کسی مسجدمیں اذان سکھانے کا باقاعدہ کوئی نظام نہیں دِکھے گا، اصلاح معاشرہ کی کسی تنظیم کے کسی اہداف میں آپ کو مؤذنین کی تعلیم وتربیت کا کوئی پہلود کھائی نہیں دے گا،مکتب میں بچے بہترین قرآن پڑھتے ہیں،مدارس میں طلبہ شاندار قراء ت کرتے ہیں، جامعات میں اسٹوڈنٹ قرآن کریم کے ایک ایک مضمون اور موضوع پرتحقیقات کرتے ہیں،دارالافتاؤں میں مفتیان کرام صبح سے شام تک فتوے تحریر فرماتے ہیں لیکن اذان کے بارے میں نہ یہاں دلچسپی نہ وہاں دلچسپی ،نہ زور اِدھر نہ زور اُدھر،دونوں طرف بلکہ چاروں طرف ایک سناٹا پسرا ہوا ہے، سبھی نے غفلت کی ایسی چادر تان رکھی ہے۔

اللہ رے سناٹا کہ آواز نہیں آتی 

اذان ہمارے اسلامی جذبے اور دینی شعارکی کسوٹی بھی ہے ،ہم اگر اذان سے محبت کرتے ہیں تومؤذن بھی اچھا رکھیں گے، اذان سے ہمیں پیار ہوگا تو مؤذن سے بھی ہمیں پیار ہوگا، کتنے لوگ ہیں جن کو اذان سے محبت ہے ، اذان ہورہی ہوتی ہے اور ہم گفتگوؤں میں لگے رہتے ہیں، اذان ہورہی ہوتی ہے اورہم کاروبار میں لگے رہتے ہیں ،مؤذن بار باراللہ کی کبریائی کااعلان کرتاہے اورہم مؤذن کے کلمات کا جواب بھی نہیں دیتے،اذان کے وقت بھی بکواس جاری رہتی ہے۔

Exit mobile version