بقلم: معصوم مرادآبادی
مغربی اترپردیش کا شہر رامپور جہاں اپنے پرسکون طرززندگی کے لیے مشہور ہے تو وہیں اس کی شہرت کا بنیادی حوالہ یہاں کی رضا لائبریری ہے، جو ایشیاء کے کتب خانوں میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ اس لائبریری کی خصوصیتاتنی ہی نہیں ہے کہ یہاں نادرونایاب کتابیں،قلمی نسخے اور پینٹنگ موجود ہیں بلکہ جس دل آویز عمارت میں یہ لائبریری قایم ہے، وہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی لائبریری ہو جو ایک ایسے محل میں قایم کی گئی ہے جس کے ستون وگنبدپر سونے کی ملمع کاری ہے اور جہاں سو سال پہلے آویزاں کئے گئے قمقمے اب بھی ویسے ہی روشن ہیں۔ جی ہاں یہ رضا لائبریری ہے جو اپنے قیام کے ڈھائی سوسال پورے کررہی ہے۔
میں نے گزشتہ ہفتہ اس لائبریری میں کچھ وقت گزارا، اور وہاں سے آپ کے لیے کچھ موتی چن کر لایا ہوں۔سبھی جانتے ہیں کہ آزادی سے قبل ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں جو شخصی حکومتیں قایم تھیں اور جن کی قیادت نوابین کرتے تھے، ان میں کئی ریاستیں ایسی بھی تھیں جنھوں نے اپنے وسائل کا بڑا حصہ علم وفن کی توسیع وتبلیغ پر صرف کیا۔ ان میں اولین ریاست حیدرآباددکن کی تھی جہاں کا سالارجنگ میوزیم اور لائبریری اس کے گواہ ہیں، جبکہ دوسرا نام ریاست رامپور کا ہے، جہاں کی رضا لائبریری اپنے نادر ونایاب مخطوطوں اور نوادرات کی وجہسے اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔گزشتہ تیس برسوں سے یہاں لائبریرین کی خدمات انجام دے رہے ڈاکٹر ابوسعد اصلاحی نے اس لائبریری کے تعلق سے نہایت کارآمد معلومات فراہم کیں۔ انھیں اگر اس لائبریری کا انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔
درحقیقت کتب خانوں کے قیام اور ان کی ترقی میں مسلمانوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں، انھیں تاریخ فراموش نہیں کرسکتی۔مسلمانوں نے جن جن فنون میں عروج حاصل کیا، علم وکمال کے ساتھ ساتھ علمی ذخیرے بھی وہاں محفوظ کردئیے۔کتابیں جمع کرنے کا یہ ذوق وشوق اتنا عام تھا کہ حکمراں اور والیان ریاست کے علاوہ ہر خوشحال گھرانے کو کتابوں سے شغف اور انھیں جمع کرنے کا جنون تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لائبریریوں کے علاوہ جگہ جگہ شخصی کتب خانے بھی موجود ہیں۔
عہدوسطیٰ کے مسلمان دوسری ہم عصر قوموں سے اس اعتبار سے ممتاز نظر آتے ہیں کہ اس عہد میں یوروپ کے لوگ کتب خانے کے اہتمام سے عام طورپر ناواقف تھے، کتابوں سے عام استفادے پر پابندی تھی اور انھیں زنجیروں سے باندھ کر رکھا جاتا تھا، اس وقت مسلم ریاستوں میں بڑے بڑے کتب خانے قایم تھے، جہاں دنیا بھر کے علوم کے ذخائر گوشے گوشے سے لاکر جمع کئے جاتے تھے اور ان کی شہرت سن سن کر تشنگان علم وادب دوردراز کا سفر کرکے وہاں آتے تھے۔یہ کتب خانے اسلامی علوم وفنون اور مسلمانوں کے علمی کارناموں کی زندہ مثال تھے۔اس میں کسی کو کلام نہیں ہوسکتا کہ مشرق ومغرب نے بغداد اور قرطبہ کے کتب خانوں اورمدرسوں سے جو اکتساب کیا تھا، وہ موجودہ دور کی علمی وتہذیبی ترقیوں کی اساس ہے۔ مشہور مورخ ایچ جی ویلز کے الفاظ میں ”اسلامی تمدن،مشرقی تمدن کا پیش رو ہے۔بصرہ، کوفہ، قاہرہ، بغداد اور قرطبہ وغیرہ یونیورسٹیاں علم وحکمت کا مرکزتھیں اور تمام جہان میں نور پھیلارہی تھیں۔“
رامپور رضا لائبریری کی بنیادریاست کے بانی نواب فیض اللہ خاں (1774تا1794)نے رکھی تھی، جو علم وفن کے سرپرست اور علم دوست انسان تھے، لیکن اس کتب خانے کی ترقی کا اصل دور نواب محمدسعید خاں کی مسند نشینی (1840)سے شروع ہوتا ہے۔ انھوں نے دیگر محکموں کی اصلاح کے ساتھ کتب خانے کی طرف توجہ دی۔قلمی کتابوں کی فراہمی کے ساتھ نادر ونایاب کتابوں کی نقلیں بھی کرائیں۔بعدازاں نواب کلب علی خاں نے 1865میں اپنی مسند نشینی کے بعد اس کتب خانے کو چارچاند لگائے۔نواب حامد علی خاں کی1889میں تخت نشینی کے بعد مسیح الملک حکیم اجمل خاں اس لائبریری کے افسراعلیٰ مقرر ہوئے اور انھوں نے عربی کتب کی طرف خاص توجہ دی۔نواب حامد علی خاں کے انتقال کے بعد 1930نواب رضا علی خاں نے زمام حکومت سنبھالی تو مولوی نجم الغنی خاں (مولف’اخبار الصنادید‘)کو لائبریری کا ناظم مقرر کیا۔1932میں ان کے انتقال کے بعد مولانا امتیازعلی خاں عرشی کو کتب خانہ کا ناظم بنایا گیا، جو رضا لائبریری کے سب سے مشہور ناظم کہے جاتے ہیں۔ عرشی صاحب نہ صرف ماہر غالبیات تھے بلکہ انھوں نے اپنے گراں قدرعلمی وتحقیقی کارناموں کی چھاپ چھوڑی۔
1975میں سابق وزیرتعلیم پروفیسر نورالحسن کی کوششوں سے مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں ایکٹ پاس کرکے اسے اپنی تحویل میں لے کر قومی ادارہ بنادیا۔اس وقت یہ لائبریری مرکزی وزارت ثقافت کے زیرانتظام ہے اور2024 میں اپنے قیام کے ڈھائی سوسال(1774تا2024) منارہی ہے۔یہاں ایک لاکھ مطبوعہ کتابوں کے علاوہ اردو، عربی، فارسی، سنسکرت اور ہندی کے ہزاروں نادر ونایاب قلمی نسخے موجود ہیں۔یہ عظیم الشان کتب خانہ نادر مخطوطات، نایاب قلمی تصویروں، نہایت اہم کتابوں اور قیمتی وصیلوں اور نوادرات کی وجہ سے ہندوستان ہی نہیں چہاردانگ عالم میں شہرت رکھتا ہے۔یہاں عربی، فارسی، سنسکرت، اردو،ترکی اور پشتو وغیرہ کے 17ہزار مخطوطات، تاڑ کے پتوں پر تمل، تلگو، کنڑاور سنہالی کے 200 مخطوطات کے ساتھ ساتھ پانچ ہزار قلمی تصویریں اوراسلامی خطاطی کے تین ہزار نمونے محفوظ ہیں۔مخطوطات کے علاوہ ایک لاکھ کے قریب مطبوعہ کتب ہیں جن میں ہزاروں کتابیں نہایت اہم اور نادر ہیں، جن کے نسخے اب ناپید یا کمیاب ہیں۔ 1914 میں علامہ شبلی نعمانی نے اس لائبریری کو دیکھ کر کہا تھا کہ ”میں نے روم اور مصر کے کتب خانے بھی دیکھے ہیں، لیکن کسی کتب خانے کو مجموعی اعتبار سے اس سے افضل نہیں دیکھا۔“اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد نے 1952میں اس لائبریری کی وزیٹر بک میں لکھا تھا کہ ”ہندوستان میں جو گنتی کے قیمتی علمی ذخائر ہیں، ان میں ایک گراں مایہ ذخیرہ یہ ہے۔“
مجموعی اعتبار سے یہ ہندوستان میں اپنی طرز کا واحد کتب خانہ ہے، جہاں عربی اور فارسی کی قلمی کتابیں بڑی حفاظت سے رکھی ہوئی ہیں۔کئی قدیم نسخے خود مصنّفین کے لکھے ہوئے ہیں۔347 عربی اور 523فارسی نسخے ایسے ہیں جو نہایت خوش خط خود مصنّفین اور اور مشہور خطاطوں کے ہاتھوں کے لکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مشہور ومعروف مصوروں کی تصاویر اس کتب خانے میں بکثرت موجود ہیں، جن میں چند پر ان کے دستخط بھی ہیں۔
لائبریری کے ذخیرے میں سب سے قدیم اور قیمتی مخطوطہ پہلی صدی ہجری مطابق ساتویں صدی عیسوی کا قرآن مجید کا وہ نسخہ ہے، جو خط کوفی میں چمڑے پر لکھا ہوا ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دست مبارک کا تحریر کردہ بتایا جاتا ہے۔اسی طرح دوسری صدی ہجری مطابق آٹھویں صدی عیسوی کا ایک قرآن مجید امام جعفر صادق سے منسوب ہے۔اسی طرح بغداد کے وزیراعظم اور خط نسخ کے موجد شہرہ آفاق خطاط ابن مقلہ سے منسوب کاغذ پر لکھا ہوا چوتھی صدی ہجری ایک قرآن مجید بھی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ ابن مقلہ نے اپنی زندگی میں قرآن مجید کی جو دوکاپیاں تیار کی تھیں، ان میں سے ایک رضا لائبریری کی زینت ہے۔قرآن مجید کا ایک اور نسخہ مشہورخطاط یاقوت مستعصمی (متوفی 698 ہجری)کے ہاتھ کا لکھا ہوا بھی یہاں موجود ہے۔قرآن مجید کے اس کے علاوہ بھی کئی نادر ونایاب نسخوں کے علاوہ عربی زبان کی بیش قیمت کتب اس لائبریری میں پائی جاتی ہیں۔
اگرچہ عربی اور فارسی کے مقابلے میں یہاں اردو کی قلمی کتابیں کچھ کم ہیں، لیکن وہ اپنی قدر وقیمت کے اعتبار سے بہت باوزن ہیں۔ان میں ”دیوان زادہ شاہ حاتم“، ”کلیات میر“،”کلیات سودا“اور ”دیوان غالب“وغیرہ کے بڑے اہم مخطوطے یہاں موجود ہیں۔یہاں غالب کا وہ اردو دیوان بھی موجود ہے جسے انھوں نے 1857سے کچھ پہلے مرتب کرکے نواب رامپور کو ہدیہ کیا تھا۔ان کے علاوہ ہندی اور سنسکرت کے اہم مخطوطات بھی اس لائبریری میں موجود ہیں۔لائبریری میں تاڑ کے پتوں پر سنسکرت، تلگو، کنڑ، ملیالم اور سنہالی زبانوں کے دوسو سے زائد آثار ہیں، جن کے پتوں کی مجموعی تعداد بیس ہزار ہے۔لائبریری میں قلمی کتابوں اور مصور نسخوں کے علاوہ ایک ہزار سے زائد نہایت نادر ونایاب قلمی تصویروں کا ذخیرہ ہے، جس کا بڑا حصہ مغل مصوری پر مشتمل ہے۔عہداکبری کا ایک دلچسپ البم”طلسم“ کے نام سے ہے، جس میں تقریباً 150لاجواب تصاویر ہیں، جن میں اس عہد کی سماجی، معاشی وثقافتی زندگی کی بھرپورعکاسی ہوتی ہے۔ایک البم ”مرقع اولیاء اللہ“ کے نام سے ہے جس میں مشہور صوفی سنتوں کی تصاویر ہیں۔اس کے علاوہ جن بادشاہوں، امراء، نوابین، راجہ مہاراجہ اورمشہور سیاسی، مذہبی اور تاریخی شخصیتوں کی تصویریں اس ذخیرے میں موجود ہیں ان میں ہلاکو خاں، امیرتیمور، بابر، ہمایوں،اکبر، گلبدن بیگم، ابوالفضل، فیضی، بیربل، جہانگیر، نورجہاں،اورنگزیب اور بہادر شاہ ظفر وغیرہ کی تصاویر شامل ہیں۔صوفی اور سنتوں میں خواجہ معین الدین چشتی، حضرت نظام الدین، شیخ سلیم چشتی، تلسی داس اور میرانیس وغیرہ کی تصویریں یہاں موجود ہیں۔لائبریری کی یہ قلمی تصویریں فن مصوری کے سبھی اسکولوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔اسی طرح مشہور خطاطوں کی ایک ہزار سے زیادہ وصلیاں یہاں موجود ہیں۔مجموعی طورپر یہ لائبریری نادرونایاب کتابوں، قلمی نسخوں، فن پاروں اور نوادرات کا ایک منفرد مرکزہے۔