Slide
Slide
Slide

مسلم علاقوں کا فوڈ کلچر بمقابلہ تعلیمی ثقافت

از قلم:محمد علم اللہ، نئی دہلی 

گذشتہ دنوں میٹرو سے سفر کے دوران بیٹھے بیٹھے فیس بک دیکھنے لگا تو کسی دوست کی ایک پوسٹ پر نظر ٹِک کر رہ گئی۔ اس کا مفہوم کچھ اس طرح سے تھا:

’’مسلم محلوں سے گزرتے ہوئے اکثر مجھے اندلس کے معروف فلسفی ابن رشد (1198-1126) اور ایک عیسائی پادری کے درمیان ہوئے مکالمے کی یاد آجاتی ہے جسے اپنے شہر پر بڑا فخر تھا،  پادری کہہ رہا تھا کہ پورے اندلس میں میرے شہر جیسا کوئی شہر نہیں ہے، جواباً ابن رشد نے یہ کہہ کر اسے لاجواب کر دیا تھا کہ ہمارے شہر میں جب کوئی گویا (گانے والا) مرتا ہے تو اس کے ساز بکِنے کے لیے تمہارے شہر (غالباً اشبیلیہ) جاتے ہیں اور جب کوئی عالم، محقق یا دانش ور تمہارے شہر میں وفات پاتا ہے تو اسکی کتابیں فروخت ہونے کے لیے ہمارے شہر (قرطبہ) آتی ہیں۔

یہ ہمارے دورِ عروج کی داستان تھی مگر آج معاملہ بالکل برعکس ہے۔ وہ لوگ (پادری کے وارث) کھانے پینے کے لیے ہمارے محلوں میں آتے ہیں اور ہم (ابن رشد کے وارث) پڑھنے لکھنے کے لیے اُن کے علاقوں میں جاتے ہیں۔ وہ تھی ہمارے عروج کی وجہ اور یہ ہے ہمارے زوال کا سبب۔‘‘

اِس بات میں اگر مبالغہ آرائی نظر آئے تو پرانی دہلی کے اردو بازار کا دورہ کرلیجیے۔یہاں کبھی کتابوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں مگر اب اس کے بجائے آپ کو ہوٹل زیادہ دیکھنے کو ملیں گے۔ علاقے کے کسی پرانے پڑھے لکھے شخص سے معلوم کرلیجیے کہ جو بازار کتابوں کی دکانوں کے لیے مشہور تھا، وہاں سے کتابوں کی اکثر دکانیں کہاں چلی گئیں۔ صرف پرانی دہلی ہی نہیں آپ کسی بھی بستی میں چلے جائیے۔ لائبریری کا وہ تصور کہ جس میں گشتی لائبریریاں تک شامل تھیں ہمارے معاشرہ سے عنقا ہوچکا ہے۔ راقم الحروف جب بھی کسی مسلم بستی سے گزرتا ہے اسے وہاں کی لائبریری دیکھنے کا اشتیاق رہتا ہے جو کہ ہمیشہ ایک خواب کی طرح تشنۂ تعبیر ثابت ہوا ہے۔ اب تو پرانی لائبریریوں کے بھی بند ہونے کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔

ممکن ہے کچھ لوگوں کو یہ عام سی بات معلوم ہو مگر یقینا یہ سچ ہے کہ آج غیر مسلم علاقوں کے لوگ کھانے پینے سے لطف اندوز ہونے کے لیے مسلم محلوں میں آتے ہیں، جب کہ مسلم علاقوں کے لوگ تعلیم و تعلم کے لیے غیر مسلم علاقوں کا سفر کرتے ہیں۔ یہ تشویش اور فکر مندی کا باعث ہے، کیوں کہ علوم و فنون کی ترقی ہی نے ماضی میں مسلمانوں کو نمایاں مقام تک پہنچنے میں مدد کی تھی، نیز فکری پرواز اور علمی و تحقیقی سرگرمیوں کی اس لہر نے یورپ سمیت دنیا کے کئی خطوں کی نسل کو علم و فن کی نئی بلندیاں سرکرنے کا خوشگوار موقع دیا تھا مگر علم و حکمت اور تحقیق و عمل کی ان روشن قندیلوں کی جگمگاہٹ اب نظر نہیں آتی۔ 

اس رویہ کے بارے میں سوچ کر میرے ذہن میں مختلف قسم کے خیالات آنے لگے، مجھے ایواٹار فلم کا وہ منظر یاد آنے لگا جس کی پہلی قسط میں جیک سلی،ناوی قبیلے سے کہتا ہے کہ میں آپ لوگوں سے سیکھنا چاہتا ہوں۔ نیٹری کی ماں اس سے کہتی ہے کہ جو کپ پہلے سے بھرا ہوا ہو،اس میں اور کچھ نہیں ڈالا جاسکتا ہے۔ دنیا میں جو لوگ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس سب کچھ پہلے سے موجود ہے، سارا علم ان کے پاس پہلے سے ہے تو پھر وہ آگے بڑھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے بارے میں ایسا ہی فرض کر لیا ہے۔ میں ہندوستان کے متعدد شہر وں کا دورہ کر چکا ہوں، مجھے چند بستیوں کے علاوہ ایسی بستیاں کم ہی دکھائی دیں جنھیں ہم تعلیم و تعلم کے حوالے سے مثالی کہہ سکیں، ہاں کھانے پینے اور کپڑوں وغیرہ کے تعلق سے مسلم بستیوں کا نام ضرور لیا جا سکتا ہے۔ 

کہنے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت مسلم علاقوں میں توجہ نہیں دیتی اور جان بوجھ کر ان کی بستیوں کو نظر انداز کرتی ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ مسلم علاقوں میں اسکول کالج کم اور تھانے زیادہ حکو مت نے قائم کیے، اس میں بہت حد تک سچائی بھی ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ قوم کا مزاج تعلیم و تعلم کی طرف کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ ہندوستان کی چند بستیاں جنھیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے اگر انھیں علیحدہ کر دیا جائے تو کوچنگ سینٹرز اور دیگراہلیتی امتحانات وغیرہ کی تیاری کے لیے مسلم علاقوں میں آپ کو شاید ہی کہیں بیداری نظر آئے گی، خواہ میڈیکل کی تیاری کا معاملہ ہو، انجینئرنگ، ایس ایس سی یا پھر سول سروسز وغیرہ جیسے امتحانات کی تیاری، ایسے ادارے آپ کو غیر مسلم علاقوں میں ہی ملیں گے، آپ نام نکال کر دیکھ لیجیے، نمایاں نام غیر مسلم علاقوں میں ہی ہوں گے۔ 

دلی کا جامعہ نگر علاقہ ہندستان کے چند پڑھے لکھے علاقوں میں شمار کیا جاتاہے۔ یہاں پر اکثریت مسلمانوں کی ہے مگر اس علاقے میں بھی ڈھنگ کی کوئی عوامی لائبریری نہیں ملے گی، جہاں بچے یا بچیاں سکون سے دیر تک بیٹھ کر پڑھ سکیں، یا کسی مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کرسکیں۔ ان دنوں جامعہ نگر تھانے میں واقع لائبریری کا شہرہ ہے۔  ہماری بچیاں تھانے کی لائبریری میں پڑھنے جاتی ہیں۔اتنے بڑے علاقے کے علمی ضرو رتوں کی تکمیل میں یہ لائبریری کس قدر معاون بن سکتی ہے آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔ 

مختلف مقابلہ جاتی پروگرام کی تیاری کے لیے اس وقت ملکی سطح پر جو ادارے شہرت رکھتے ہیں اور جن پر لوگوں کو بہت بھروسہ بھی ہے مثلاً ای ای ٹی اور جے ای ای مین، آئی آئی ٹی وغیرہ کی تیاری کے لیے چل رہے کوچنگ انسٹی ٹیوٹ آکاش انسٹی ٹیوٹ، ٹاپر، کیریئر پوائنٹ، موشن جے ای ای، آئی آئی ٹی، ریسوننس، وابرنٹ کوچنگ انسٹی ٹیوٹ، ایلن کوچنگ انسٹی ٹیوٹ،ٹارگیٹ آئی آئی ٹی، جے ای ای، پی ایم ٹی کوچنگ انسٹی ٹیوٹ، راؤ آئی آئی ٹی اکیڈمی، بنسل کلاسز وغیرہ۔ قابل غور نکتہ یہی ہے کہ ان میں سے کوئی ایک سینٹر مسلمانوں کا نہیں ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ ان میں سے کوئی بھی مسلم علاقے میں نہیں۔ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ اور بھی کچھ ہو مگر ایک بات جو بڑی واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ ہم نے اپنے محلوں اور اکثریتی علاقوں کو اس نہج سے فروغ دینے کی کوشش ہی نہیں کی ہے۔ 

اسی طرح سول سروسیز کی تیاری کے لیے ممتازاداروں کی فہرست دیکھ لیجیے کلیئر آئی اے ایس، وژن آئی اے ایس، وجی رام اینڈ روی، فورم آئی اے ایس، شنکر آئی اے ایس اکیڈمی، انسائٹ آئی اے ایس، آئی اے ایس بابا،درشٹی آئی اے ایس، راؤزآئی اے ایس، بائجوس آئی اے ایس وغیرہ میں ایک بھی آپ کو مسلمانوں کے ذریعے مسلم علاقوں میں چلائے جانے والے ادارے نہیں ملیں گے۔ 

یہی حال اسکولوں اور یونیورسٹیوں کا ہے، علی گڑھ،جامعہ ملیہ اسلامیہ یا ہمدرد یونیورسٹی کو چھوڑ دیجیے تو ڈھنگ کی ہماری کوئی یونیورسٹی نہیں ہے۔ ہمارے یہاں ہر شہر میں بہت سے مدارس موجود ہیں جن کا نام خود اہل مدارس نے جامعہ یعنی یورنیورسٹی رکھا ہواہے مگر یہ یونیورسٹیاں اکثر وبیشتر لائبریری سے خالی ہوتی ہیں اور اگران میں لائبریری موجود بھی ہو تو وہاں آپ کو عا لمیت یا فضیلت کے نصاب سے باہر کوئی کتاب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ حالانکہ کچھ بڑے مدارس اور تنظیمیں ایسی ہیں جہاں بڑی بڑی لائبریریاں موجود ہیں اور ان میں بڑی تعداد میں علمی کتابوں کا ذخیرہ بھی ہے مگر افسوس کہ یہ لائبریریاں صرف ان اوقات میں کھُلتی ہیں جب طلبہ اپنی کلاسز میں استاد کے لکچر لینے میں مصروف ہوتے ہیں۔ یہاں اس طرح کا کوئی انتظام کم ہی ملے گا جو کہ طلبہ کے مسابقتی پروگرام کے لیے معاون ثابت ہو۔

 اس نظام کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ علم کا کوئی رَسیا اگر کبھی ہماری جامعات میں پیدا ہو بھی جائے تو اُسے کتابوں تک رسائی نہیں ہوتی۔ مسلم سوسائٹی کا یہ ماحول علمی ارتقا کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے،بھلا وہ قوم جو علم کے تصور سے نا آشنا ہو اس سے کوئی مقابلہ کیسے کرے گی جس کے پاس بڑی لائبریریاں ہوں، کوچنگ سینٹر ہوں،اسکالر شپ دینے والے بے شمار ادارے ہوں اور علم کی روایت کو زندہ رکھنے کے لیے قربانیوں کا بے پناہ جذبہ ہو۔ 

عالمی طور پر بھی اگر نظر ڈالیں تو تقریباہر جگہ مسلمانوں سے متعلق ایسے ہی تشویش ناک حالات ہیں۔ ٹاپ ٹین یونیورسٹیوں میں مسلم ممالک کی کوئی ایک یونیورسٹی نہیں ہوگی۔ عام طور پر تعلیم کے حوالے سے مسلمانوں کے تئیں تشویش ناک خبریں ہی سننے کو ملیں گی۔ گذشتہ دنوں میرے ایک انگریز دوست مائکل ہنٹ نے مجھے بتایا کہ محمد میں نے تدریس کے پیشے سے توبہ کر لی اور اب میں پڑھاؤں گا نہیں۔ میں نے حیرت سے کہا، آپ نے تو اپنا کاروبار چھوڑ کے بڑے شوق سے تدریس کا پیشہ اختیار کیا تھا تو پھر اچانک اسے چھوڑنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ تو اس دوست نے بتایا کہ وہ جس انسٹی ٹیوٹ میں پڑھا رہا تھا،اس میں عرب طلبہ، چوں کہ ان ممالک سے ان کا معاہدہ ہے تو اسکالرشپ اور کچھ ذاتی خرچ پر کثرت سے آتے ہیں۔مائکل نے مزید کہا کہ میں نے نوٹ کیا کہ یہ طلبہ عموماً پڑھائی میں توجہ نہیں دیتے، بیشتر کو مال و دولت کا زُعم ہوتا ہے،سیر و تفریح، عیش و مستی ان کا شیوہ ہوتا ہے، پڑھائی لکھائی پر وہ توجہ دینا ہی نہیں چاہتے اور اگر ذرا سرزنش کرو یا کم نمبر دو تو آگ بگولا ہو جاتے ہیں، ان کی حکومتیں اتنی خطیر رقم خرچ کرکے انھیں پڑھنے کے لیے یہاں بھیجتی ہیں، مگر وہ اس کی قدر نہیں کرتے، یہ سب دیکھ کر میرا دل دُکھتا ہے،اسی لیے میں نے اس پیشہ کو ہی ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مائکل نے مجھے بتایا اس انسٹی ٹیوٹ میں حالاں کہ چین، کوریا اور دوسری جگہوں سے بھی طلبہ آتے ہیں لیکن ان کے اندر سیکھنے کی جو چاہ ہوتی ہے ویسی عربوں میں نہیں ملتی۔ 

اگر عربوں کو ان کی دولت نے خراب کردیا ہے تو ہجرت کرکے مراکش، مصر یا برصغیر کے ان غریب مسلمانوں کے علمی دورے کے بارے میں کیا کہا جائے جو مغرب میں جا کر آباد ہوگئے ہیں۔ پیرس کے مسلم علاقوں کی آبادیوں کو’گھیٹو‘(یہ لفظ نازی جرمنی میں تحقیر کے لیے یہودی بستیوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا) کہا جاتا ہے جن میں تعلیم کی کمی، بے روزگاری اور جرائم دوسرے علاقوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔

 برطانیہ کا معاملہ بھی کوئی بہت زیادہ خوش کن نہیں ہے۔ 26 مارچ 2023کے ہندوستان ٹائمز میں پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے،جس میں برطانیہ کے محکمہ شماریات کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وہاں کی مذہبی اقلیتوں میں ہندو سب سے زیادہ خوش حال، برسرروزگار، تعلیم یافتہ اور تندرست ہیں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔

بہت سے نام نہاد ترقی پسند ان حالات کے ذمے دار مسلمانوں کی مذہبیت کو قرار دیں گے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی مذہبیت زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے تو مسلمان عملاً مذہب سے بہت دور ہیں، ورنہ جس دین کا ابتدائی حکم ہی’اقراء‘ہو وہ علم دشمن کیسے ہوسکتا تھا۔ جس امت کے نبی ﷺ نے دو بہنوں یا دو بیٹیوں کی اچھی تربیت اور عمدہ پرورش دینے والے کو جنت کی بشارت دی ہو، وہ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کے لیے اسکولوں اور مدارس کے دروزے تو کیا مساجد تک کے دروازے بند نہ کرتی۔

آخرایسا کیوں ہے، ہمیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ خود مذہب کا نہیں ہے بلکہ لوگوں کے رویوں اور ذہنیت کا ہے۔ بے شک مسلم علاقوں میں ہوٹلز بھی کھلنے چاہئیں، زندگی کے لیے یہ بھی ضروری ہیں،مگر کوچنگ سینٹر، اسکول اور تھنک ٹینک جیسے ادارے قائم کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان اپنی مادیت پسند خواہشات سے اوپر اٹھ کر اپنی تعلیم پر توجہ دیں، جس سے بالآخر انہیں اور ان کی برادری کو فائدہ پہنچے گا۔ علم کے توسط سے ہی مسلمان مختلف شعبوں میں اپنی شناخت قائم کر سکتے ہیں اور ان رکاوٹوں کو توڑ سکتے ہیں جو ان کی ترقی اور کامیابی کی راہ میں حائل ہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: