از قلم: محمد عمرفراہی
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہم عشرہ مبشرہ اور بدری صحابہ میں سے ایک اچھے تاجر تھے ۔جب مدینہ ہجرت کر کے آۓ تو انہیں مدینہ کے جس انصار کا بھائی بنایا گیا تھا اس انصاری نے کہا کہ آپ میری دولت میں سے آدھی دولت لے لیں اور چاہیں تو میں اپنی ایک بیوی کو طلاق دے دیتا ہوں آپ اس سے شادی کر لیں ۔حضرت عبدالرحمن بن عوف نے کہا کہ مجھے تم صرف مدینے کا بازار بتا دو ۔بازار سے مراد صرف جگہ نہیں ہوتی بلکہ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ مدینے والوں کی ضروریات کیا ہیں یعنی یہاں سے کیا خرید کر دوسری جگہ بیچا جاسکتا ہے اور یہاں کے لوگ کیا خریدتے ہیں ۔حضرت عبدالرحمن بن عوف کا ایک دن مدینے کی مالدار شخصیتوں میں شمار ہونے لگا ۔اس واقعے سے ہماری مراد یہ ہے کہ صنعت و تجارت کی دنیا میں جس قوم اور برادری کے قبضے میں بازار ہوتا ہے یا اسے بازار کی واقفیت ہوتی ہے وہی قوم ترقی کرتی ہے۔ باقی جو قوم بازار سے دور ہو جاتی ہے اس کا حال یوں ہوجاتا ہے جیسے کسی زمانے میں زمیندار ساہو کار اور کاشتکاروں کا تھا ۔یعنی ایک زمیندار کے ماتحت سیکڑوں کاشتکار ہوتے تھے اور انہیں ہمیشہ زمیندار کی مرضی اور اصول کا محتاج ہونا پڑتا تھا جبکہ زمیندار سے زیادہ نفع ساہوکار زمینداروں کے اناج کو بیچ کر کماتے تھے ۔
آج وہی صورتحال جدید صنعت و تجارت کا بھی ہے ۔ شہروں میں جگہ جگہ کھل رہے شاپنگ مال نے چھوٹے کاروباریوں پر برا اثر چھوڑا ہے ۔
آج کی صنعت و تجارت اتنا ترقی کر چکی ہے کہ بھارت کا مسلمان جس رفتار اور حکمت عملی کے تحت چل رہا ہے اگلے سو سالوں میں نہ صرف وہ وہاں تک پہنچ نہیں سکتا موجودہ کارپوریٹ طرز کے کاروبار میں جو خرافات اور دیگر برائیاں داخل ہو چکی ہیں ایک اچھا مسلمان اور ایک اچھا تاجر دونوں ایک ساتھ ہونا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔اب پروڈکٹ نہیں کمپنی ،میڈیا ہاؤس اور پورے بینک اور مالیاتی ادارے کا سودا ہو رہا ہے ۔
پچھلے کچھ سال پہلے ممبئی کے مسلمان مالکان نے اپنے اخبار مڈے اور انقلاب کو دینک جاگرن کو بیچ دیا۔اور ابھی حال میں این ڈی ٹی وی کو اڈانی نے خرید لیا ۔کوئی بتاۓ گا کہ آزادی کے بعد کسی مسلم سرمایہ دار نے کسی ایسے اخبار کے دفتر یا کمپنی کا سودا کیا ہو ۔اب کارپوریٹ مالکان خود کمپنیاں بناتے ہیں اور کمپنی کو مزدور اور مشین کے ساتھ بیچ دیتے ہیں ۔آج پوری دنیا میں Frenchise کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ بھی اسی کی ایک شکل ہے ۔یعنی پیسے لگانے والوں کو بہت سی کمپنیاں اپنا برانڈ اور سارے طریقے ایک معاہدے کے تحت دے دیتی ہیں اور اس کا کچھ فیصد منافع اصول کرتی ہیں ۔یہ تو خیر تجارت ہے سیاست میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے ۔پاکستان میں عالمی سرمایہ داروں نے عمران خان کے تقریباً ممبران کو خرید کر ان کی مخالف سیاسی پارٹیوں کو ایک دن میں اقتدار کا مالک بنا دیا ۔بھارت میں بی جے پی نے اپنے دیسی سرمایہ داروں کی مدد سے مہاراشٹر میں کیا کیا بتانے کی ضرورت نہیں ۔اب آپ سوچیں کہ بھارت میں مسلمانوں کی کوئی تنظیم وہی روایتی فکری اصولی اور نظریاتی بنیاد پر اگر لوگوں کی ذہن سازی کے ذریعے پارلیمنٹ کے ایک ایک ایم پی جوڑ کر انقلاب لانا چاہتی ہے تو کیا یہ ممکن ہے ؟
ایسا تو نہرو جی کے دور میں بھی ممکن نہیں تھا ۔اب تو خیر تجارت کے ساتھ ساتھ سیاست نے بھی کارپوریٹ کی شکل اختیار کر لی ہے ۔آپ کے اندر پوری کی پوری پارٹی خریدنے کی طاقت ہے تو اقتدار تک پہنچنے کی بات کریں ورنہ شرافت سے جوہو چوپاٹی پر دعوت و تبلیغ کر کے بھی خوش رہا جا سکتا ہے ۔آپ کہیں گے کہ یوروپ میں تو ایسا نہیں ہے ۔وہاں تو جمہوریت بہت اچھے سے کام کر رہی ہے ۔ہمارے لئے یوروپ کی سیاست دور کے ڈھول سہانے کی طرح ہے ۔دراصل یوروپ کا معاملہ بہت پیچیدہ ہے ۔یوں تو عالمی اور صہیونی طاقتیں اس وقت اپنے عالمی بینک اور مالیاتی اداروں کے ذریعے پوری دنیا کو قرض دے کر اپنا غلام بنا چکی ہیں لیکن یوروپ پر ان کی خاص نظر عنایت اس لئے ہے کہ وہ جس لبرل سرمایہ دارانہ نظام کو نئے ورلڈ آرڈر یا عالمی نظام کے طور پر خوشنما بنا کر زندہ رکھنا چاہتی ہیں اگر وہ یوروپ کے تمام قرض اور اخراجات کے بوجھ کو برداشت کرتے ہوۓ دنیا کے لئے رول ماڈل بنا کر نہیں پیش کریں گی تو یہ نظام جو کہ مسلسل جنگ ناانصافی اور فساد کے ماحول سے اپنی کشش کھو چکا ہے کبھی بھی اچانک ڈھ سکتا ہے ۔اور اب پچھلے دو سو سالوں کے مختلف سیاسی تجربات کے بعد لادینی لبرل طرز سیاست ہی عوام کو اپنے اختیار میں رکھنے کا دجالی طاقتوں کا یہ آخری ہتھیار ہے اور یہ مسلسل اسلامی تہذیب تمدن سے متصادم ہے ۔