از قلم: محمد نصر الله ندوی
بابری مسجد کا زخم ابھی تازہ تھا کہ،مسلمانوں کو گیان واپی کا زخم ملا،ابھی یہ زخم مندمل بھی نہیں ہوا تھا کہ،متھرا کی شاہی عید گاہ کا مسئلہ اچھال دیا گیا،مسلمان ابھی ان زخموں سے چور تھے کہ،ایک دل دوز خبر نے ان کے پرانے غموں کو پھر سے تازہ کردیا!۔
میڈیا کی خبروں کی مطابق بابری مسجد کے عوض ایودھیا کے دھنی پور میں مجوزہ مسجد کا افتتاح رئیس ائمہ حرم شیخ سدیس کریں گے،ان کو مسجد کمیٹی کے چیئر مین کی طرف سے دعوت دی گئی ہے،اور پوری امید ہے کہ وہ افتتاحی پروگرام میں شرکت فرمائیں گے،اور اپنے دست مبارک سے نئی مسجد کا سنگ بنیاد رکھیں گے!۔
اس کے ذریعہ سے حکومت عالمی سطح پر یہ پیغام دینے کی کوشش کرے گی کہ،ہندوستانی حکومت نے بابری مسجد کے مسئلہ میں کسی طرح کی ناانصافی سے کام نہیں لیا،اگر ایسا ہوتا تو عالم اسلام کی مقدس ترین ہستی امام کعبہ اس کے افتتاحی پروگرام میں ہر گز شرکت نہ کرتے،لیکن حکومت کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ،اس طرح کے فرضی اور سطحی پروپیگنڈوں سے حقیقت کی پردہ پوشی نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی صداقت کو جھٹلایا سکتا ہے،جب بھی ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ لکھی جائے گی،شہید بابری مسجد کا ذکر ضرور کیا جائے گا،یہ لکھا جائے گا کہ ایک مسجد جس کو صدیوں تک مسلمانوں نے اپنی جبینوں سے آباد رکھا،6-دسمبر 1992 کو دن کی روشنی میں پوری دنیا کی نگاہوں کے سامنے بزور طاقت اس کو شہید کردیا گیا اور پھر اسی جگہ عارضی مندر کی بنیاد رکھ گئی،یہ ایک ایسا حادثہ تھا جس نے مسلمانان ہند کو تڑپایا دیا،اس کی گونج پورے عالم میں سنی گئی،سالہا سال تک عدالتوں میں مقدمہ چلا،شہادتوں اور ثبوتوں کے انبار لگادیئے گئے،تمام حقائق کو عدالت عظمی کے سامنے واضح کیا گیا،مسلم پرسنل لا بورڈ نے پوری توانائی اس میں لگادی،لیکن آخر کار سپریم کورٹ نے تمام ثبوتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا فیصلہ سنادیا،اور اس طرح مسلمانوں کی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا گیا۔
شہید بابری مسجد کے چپے چپے پر مسلمانوں کے خون کے دھبے ہیں،اس مسجد کے نام پر خون کی ندیاں بہائی گئیں،عصمتیں نیلام ہوئیں،ہزاروں فسادات ہوئے اور مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا،نفرت وعداوت کا ایک طوفان کھڑا گیا اور اسی کے سہارے بی جے پی اقتدار کی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی،اس مسجد کے بارے میں مسلمانوں کا بالکل واضح موقف ہے کہ بابری مسجد تھی،شرعی طور پر اس کا وجود ہے، اور قیامت تک رہے گا،اس پر ہزار مندر تعمیر ہوجائیں،اس کی شرعی حیثیت میں کوئی فرق نہیں آئے گا،اس کے عوض دھنی پور میں مجوزہ مسجد کا خاکہ غصب شدہ مسجد کی نشانی ہوگی،اس کا مقصد الله کی عبادت نہیں ہے،بلکہ مسلمانوں کی مظلومیت کی ایک یادگار قائم کرنا ہے،ایک مسلمان کیلئے اس طرح کی کسی بھی کوشش میں حصہ لینا،نہ صرف یہ کہ ناجائز ہے،بلکہ اس کی بے غیرتی اور بے حمیتی کا واضح ثبوت ہے،امام کعبہ جیسی مقدس شخصیت کا اس کے افتتاحی پروگرام میں شریک ہونا،نہایت افسوسناک فیصلہ ہے،یہ نہ صرف حرم مقدس کی عظمت کو پامال کرنے والا قدم ہے،بلکہ مسلمانان ہند کو منھ چڑھانے اور ان کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے!۔
مسلمانان ہند کو چاہئے کہ وہ امام کعبہ کے اس فیصلہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں اور سعودی سفارت کے ذریعہ سعودی حکومت تک یہ پیغام پہنچائیں کہ،ہم اس فیصلہ پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں،اور یہ مطالبہ کرتے ہیں ،کہ امام کعبہ مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ہندوستان کا مجوزہ دور منسوخ کریں،اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے مسلمانان ہند کی ایذا رسانی ہو نیز باعث شرمندگی ہو۔