محبت ، نشہ اور فریب
انسان اپنی سوچ کو پاک کر لے تو جنگل میں بھی خوش رہ سکتا ہے نہیں تو اسے خوبصورت گاڑی بنگلہ اور مال و دولت کی فراوانی سے بھی خوشی نہیں مل سکتی ۔
انسان فطرتاً پیار ، محبت اور خوشی کا بھوکا ہوتا ہے اور یہ اس کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہوتی ہے۔ محبت نشہ بھی ہے اور عبادت بھی ہے لیکن جب یہ خالص جنون کی شکل اختیار کرتی ہے تو اندھی ہو جاتی ہے ۔عاشق اور معشوق کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے اور پھر وہ اپنی دولت اور شہرت اور نتائج کی بھی پرواہ نہیں کرتے اور دھوکا بھی کھا جاتے ہیں ۔
برطانیہ کے شاہی خاندان کی بہو پرنس ڈائنا اپنے شاہی محل اور دنیا کے امیر ترین شخص کی زوجیت میں بھی وہ خوشی نہیں پاسکی جو اس کے قلب کو سکون پہنچا سکے اور اپنے سے کہیں زیادہ کمتر شخص پاکستان کے ڈاکٹر حسنات کی محبت میں گرفتار ہوگئی ۔جب وہ اپنی اس محبت میں ناکام ہوئی تو مصر کے ایک دوسرے تاجر کے بیٹے ڈوڈی الفاید کی زندگی میں داخل ہوئی اور پھر ایک کار حادثے میں دونوں زندگی سے ہی ہار گئے ۔ڈوڈی الفاید اور ڈاکٹر حسنات دونوں ہی مسلمان تھے ۔ایسا کہا جاتا ہے کہ چونکہ پرنس ڈائنا ڈوڈی الفاید کی محبت میں اسلام بھی قبول کرنے کو تیار تھی اس لئے شاہی خاندان نے اپنی بدنامی کے ڈر سے ایک سازش کے تحت ان کی کار کا ایکسیڈنٹ کروا دیا ۔کہتے ہیں کہ شراب کا نشہ تو وقتی ہوتا ہے مگر عشق اور اقتدار کا نشہ سلطنتوں کے تخت و طاؤس کو بھی ہلا کر رکھ دیتا ہے ۔قرآن میں ہاروت و ماروت فرشتوں کا جو تذکرہ آتا ہے ان کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں فرشتے ایک زہرہ نام کی عورت کے عشق میں گرفتار ہوکر اس برائی کی طرف راغب ہوۓ جو ان کے شایان شان نہیں تھی ۔جہانگیر اور نورجہاں کے عشق کے قصے میں کہاں تک سچائی ہے مگر ایک معتبر عالم دین نے اورنگزیب کے بارے میں لکھا ہے کہ جب وہ جوان تھے تو ایک دوشیزہ یا کنیز کے عشق میں شراب پینے کیلئے ہاتھ میں جام بھی اٹھا لیا تھا ۔
آجکل ہندوستانی میڈیا میں سورا بھاسکر اور فہد احمد کی شادی پر کئی زاویے سے دیکھا جارہا ہے ۔کہا جارہا ہے کہ ایک ایسے ماحول میں جبکہ ملک میں مسلمانوں کے تئیں بہت سازگار ماحول نہیں پایا جار ہے سورا بھاسکر نے فہد سے شادی کا اعلان کر کے محبت کرنے والوں کو ایک نئے رخ سے سوچنے کا زاویہ دیا ہے ۔آپ اسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک شہنشاہ نے اگر ایک عورت سے اپنی دولت کے سہارے محبت کو لازوال بنا دیا تو ایک عورت نے اپنی دولت سے ایک نوجوا کی محبت کو جو کہ عمر میں اس عورت سے چار سال چھوٹا ہے لازوال بنانے کی جرات کی ہے ۔اور یقیناً سورا بھاسکر جو کہ اس وقت پانچ ملین امریکی ڈالر کی مالک ہیں چاہتی تو کسی امیر ترین صنعت کار یا کھلاڑی سے شادی کر کے اپنی دولت میں اضافہ کرتی مگر اس نے ایک ایسے نوجوان سے اپنی محبت کا اعلان کیا جو ابھی سوشل سائینس کا طالب علم ہے اور ایک ڈوبتی ہوئی سیاسی پارٹی کے نوجوان مورچہ کا صدر ہے بس ۔لیکن فہد کے اندر کوئی تو ایسی خوبی ضرور ہو گی جو ڈائنا نے ڈاکٹر حسنات میں دیکھی تھی اور سورا بھاسکر کو فہد میں نظر آئی ۔اس خوبی کو آج کی جدید سوشل سائنس کی زبان میں ویبس کہتے ہیں ۔یعنی کسی بھی تعلق اور رومانس میں دولت ، شہرت مذہب اور عمر اتنی معنی نہیں رکھتی اگر دل سے دل کا میل نہ کھاتا ہو ۔لیکن ضروری ہے محبت دو طرفہ ہو؛ نہیں تو ایسے رشتے زیادہ دنوں تک ٹھہر نہیں پاتے یا کوئی ایک کسی کو چیٹ کر جاتا ہے ۔
کچھ دنوں پہلے مصری اداکارہ سامیہ جمال کی ایسی ہی اندھی محبت کی کہانی سامنے آئی تھی ۔سامیہ ایک امریکی نوجوان کو دل دے بیٹھی اور امریکی نوجوان نے بھی سامیہ سے شادی کرکے نہ صرف اسلام قبول کر لیا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ سامیہ! تم جس خدا پر یقین رکھتی ہو وہ بہت عظیم ہوگا ۔سامیہ اتنی خوبصورت تھی اور مصری جوان اس پر اتنے فدا تھے کہ جب انہوں نے اس خبر کو سنا ؛تو ان میں سے کئی نے خودکشی کرنے کی بھی کوشش کی ۔اخبارات میں ابھی ان دونوں کی شادی کو محبت کی ایک لازوال داستان قرار دینے کے چرچے ہو ہی رہے تھے کہ ایک دن مصر کے اخبارات میں اچانک اس خبر سے سنسنی پھیل گئی کہ سامیہ کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے ۔ہوا یوں کہ ایک دن جب وہ سو کر اٹھی تو دیکھا کہ اس کا شوہر غائب ہے اور اس کے زیورات بھی نہیں ہیں ۔جب اس نے اپنے بینک بیلنس کی جانچ کی تو دیکھا کہ اس کے بینک سے سارے پیسے بھی صاف ہیں ۔بعد میں یہ کہانی سامنے آئی کہ امریکی نوجوان اس کی زندگی میں صرف اس کو لوٹنے آیا تھا۔