ازقلم: محمد قمر الزماں ندوی
استاد مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپگڑھ
ہر دور اور زمانے میں بغیر تحقیق کے بات پھیلانے والوں اور اس کے ذریعہ لوگوں کو خوف زدہ و ہراساں کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد رہی ہے ، دور نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں اکثر یہ حرکت منافقین کیا کرتے تھے ، اور مسلمانوں میں خوف و انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے، بعد میں یہی حرکت کان کے کچے ، کم علم و کم فہم اور ناتجربہ کار لوگ بھی کرنے لگے۔ بلا تحقیق خبر پھیلانا ایک ناپسندیدہ، شنیع اور غیر شرعی عمل ہے ،قران و حدیث میں اس عمل کی اور اس میں مبتلا لوگوں مذمت آئی ہے ۔ موجودہ دور چونکہ سوشل میڈیا کا دور ہے ،ہر ایک کے ہاتھ میں سوشل نیٹ ورکنگ آلہ موجود ہے ،اس لئے ہر وقت بے سند و بے تحقیق باتیں اور خبریں گردش میں رہتی ہیں اور لوگ بلا سوچے سمجھے اس کو نشر کرتے رہتے ہیں ،جس سے بہت سے سماجی، سیاسی اور قانونی مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں ، اس لئے ہم کو اس سے بچنے کی سخت ضرورت ہے ۔۔۔۔آج کی مجلس اور آج کے پیغام میں، ہم اسی موضوع پر خامہ فرسائی کرتے ہیں تاکہ اس مسئلہ کی نزاکت اور اس کا مالہ و ما علیہ ہمارے سامنے رہے ،اور ہم ایسی بے سر و پر کی خبروں کو شئیر کرنے سے بچ سکیں ۔
انسان کو اللہ تعالٰی نے بصیرت و بصارت سے نوازا ہے،عقل و شعور فہم و ادراک کی دولت سے مالا مال کیا ہے، انہیں سننے،سمجھنے، پرکھنے اور دیکھنے کی بھر پور صلاحیتوں سے نوازا ہے، یہ صلاحتیں خدائی نعمت ،عطیہ اور انعام ہیں ، اس لئے ان کا استعمال بھی جائز اور درست طریقے سے کرنا چاہیے، لیکن دیکھنے سننے اور سمجھنے کی ان تمام صلاحیتوں کے باوجود بہت سی باتیں اور خبریں جاننے میں انسان دوسروں کی اطلاع اور خبر دینے کا محتاج اور ضرورت مند ہوتا ہے ،اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انسان کی صلاحیتوں کو اللہ تعالٰی نے بعض حکمت اور مصلحت کے پیش نظر محدود بھی رکھا ہے – انسان مجبور ہوتا ہے اور اس کو اس کی ضرورت پڑتی ہے، کہ وہ بہت سی خبروں ،واقعات اور حقائق نیز حالات کے تجزیئے کو اپنی آنکھوں سے دیکھے بغیر تسلیم کرے اور دوسروں کی اطلاع اور خبر پر یقین اور بھروسہ کرے – یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کا پورا نظام، مکمل سسٹم اور سارا کارو وبار دوسروں کی دی ہوئی خبروں، اطلاع اور یقین و اعتماد سے متعلق ہے ۔
خبریں اور اطلاعات سچی بھی ہوتی ہیں، اور بے سروپر اور جھوٹی بھی ،قابل اعتبار بھی اور ناقابل اعتبار بھی ،خبر دینے والے جھوٹے بھی ہوتے ہیں اور سچے بھی ،بعض لوگ جھوٹے نہیں ہوتے، لیکن مزاج میں غلو اور مبالغہ ہوتا ہے( اور کبھی ہلکا پن بھی اس کی وجہ ہوتی ہے،) وہ لفظوں کے ایسے جادوگر اور بازی گر ہوتے ہیں کہ ان کی باتیں سننے والے کو رائی پہاڑ محسوس ہوتا ہے – بعض حضرات اپنی تقریروں،بیانوں اور تحریروں میں بھی واقعات اور حالات کا تجزیہ پیش کرنے میں مبالغہ اور غلو سے کام لیتے ہیں اور بعض بے بنیاد خبروں کو سامنے رکھ کر امت کو مایوس اور خوف زدہ کر دیتے ہیں اور حالات کی سنگینی کو کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑ ھاکر اور نمک مرچ لگا کر پیش کرتے ہیں، بسا اوقات خطرہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دشمن نے جو پلانگ نہ بھی کی ہو ہماری باتیں سن کر وہ پلانگ کرنے لگیں گے – بعض حضرات کو کسی واقعہ اور خبر کو سننے یا سمجھنے میں غلط فہمی بھی ہوجاتی ہے، اس کو صحیح طور سن اور محفوظ نہیں کر پاتے اور وہ بلا تحقیق اور بلا سند پھر اس کو لوگوں میں پھیلا دیتے ہیں، پھر بلا ارادہ خلاف واقعہ خبریں اور باتیں لوگوں میں پھیل پڑتی ہیں اور گردش کرنے لگتی ہیں لوگ اس کو سچ اور صحیح سمجھنے لگتے ہیں اور متاثر ہو جاتے ہیں، واٹ سیپ اور فیس بک اور یو ٹوب اور ٹویٹر وغیرہ پر آج جو کچھ ہو رہا ہے اور جو بے بنیاد خبریں پھیلائی جارہی ہیں، نوے فیصد غلط اطلاعات اور بے بنیاد خبریں پھیلائی جاتی ہیں، آج کا ماس میڈیا الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا جھوٹ پھیلانے کا سب سے بڑا مرکز اور اڈہ ہے، سوشل میڈیا پر منافقین اور افواہ پھیلانے والوں کا قبضہ ہے غلط بیانی اور خلاف واقعہ خبریں پھیلانا ہی اس کا کام ہے،اس لئے ان خبروں کو سننے اور متاثر ہونے سے بچنا ضروری ہے ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے اس سلسلہ میں سورہ حجرات میں اور بعض دیگر سورتوں میں رہنمائی کی ہے اور اس کا حل بتایا ہے – ارشاد خداوندی ہے – ..یا ایھا اللذین آمنوا ان جاءکم فاسق بنباء فتبینوا ان تصیبوا قوما بجھالة فتصبحوا علی ما فعلتم نادمین .. (الحجرات :6) اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق ناقابل بھروسہ شخص کوئی اہم خبر دے تو اچھی طرح سے تحقیق کرلیا کرو،کہ کہیں کسی قوم پر تم ناواقفیت میں حملہ نہ کر دو کہ پھر تمہیں اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔
اس آیت کے ضمن میں مفسرین نے جو کچھ لکھا ہے ، اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے :
اللہ تعالٰی نے اس آیت کریمہ میں یہ اصولی ہدایت دی کہ جب کوئی اہمیت رکھنے والی خبر ،جس پر کوئی بڑا نتیجہ مرتب ہوتا ہو،تمہیں ملے تو اس کو قبول کرنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ خبر لانے والا کیسا آدمی ہے؟ ۔ اگر وہ کوئی فاسق شخص ہو ،یعنی جس کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ اس کی بات اعتماد کے لائق نہیں ہے،تو اس کی دی ہوئی خبر پر عمل کرنے سے پہلے تحقیق کر لیا کرو کہ امر واقعہ کیا ہے ۔ اس حکم ربانی سے ایک اہم شرعی قاعدہ نکلتا ہے، جس کا دائرئہ اطلاق بہت وسیع ہے ۔ اس کی رو سے مسلمانوں کی حکومت یا جماعت اور ادارہ کے لئے یہ جائز نہیں ہے، کہ کسی شخص یا گروہ اور قوم کے خلاف کوئی کارروائی ایسے مخبروں کی دی ہوئی خبروں کی بنا پر کر ڈالے جن کی سیرت بھروسے کے لائق نہ ہو ۔ اسی قاعدے اور اصول کی بنا پر محدثین نے علم حدیث میں جرح و تعدیل کا فن ایجاد کیا تاکہ ان لوگوں کے حالات کی تحقیق کریں جن کے ذریعہ سے بعد کی نسلوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پہنچی تھیں ۔ اور فقہاء نے قانون شہادت میں یہ اصول قائم کیا کہ کسی معاملہ میں جس سے کوئی حکم شرعی ثابت ہو، یا کسی انسان پر کوئی حق عائد ہوتا ہو ،فاسق کی گواہی قابل قبول نہیں ہے ۔ (مستفاد تفہیم القرآن : تفسیر سورہ حجرات)
اس آیت سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ بے تحقیق خبروں پر یقین اور اعتماد و بھروسہ بالکل نہیں کرنا چاہئیے اور اگر اس پر اعتماد کیا گیا تو نقصان اور مضرت کا باعث ہوگا ،اور حالات مزید خراب بھی ہوسکتے ہیں –
یہ آیت ایک خاص پس پس منظر میں نازل ہوئی تھی جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو مصطلق کی طرف —– جو مسلمان ہو چکے تھے —-اپنے نمائندہ ولید بن عقبہ کو بھیجا ،بنو مصطلق نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندہ کو دیکھا تو ان کے استقبال اور احترام و توقیر کے لئے آبادی سے باہر نکل آئے ،ولید نے سمجھا کہ لوگ ان کے قتل کے درپے ہیں اور پچھلے پاوں واپس آگئے،آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ یہ لوگ مرتد ہوگئے ہیں ،یہ زکوة ادا کرنے کے منکر ہیں ،اور ان کے قتل کے درپے ہوگئے تھے ،آپ نے ان سے جہاد کا ارادہ فرما لیا ،ابھی تیاری ہی کے مرحلے میں تھے، اتنے میں بنو مصطلق کا وفد آپنہچا ،انہوں نے عرض کیا کہ آپ کے قاصد آ رہے تھے ،ہم اس لئے نکلے کہ ان کا استقبال کریں اور اپنی زکوة ان کی خدمت میں پیش کریں ہمیں معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے یہ خیال کیا ہے کہ ہم لوگ ان سے جنگ کے لئے نکلے تھے ،سو یہ غلط ہے ،اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (قرطبی 16/311/ بحوالہ عصر حاضر کے سماجی مسائل ص:165)
اندازہ لگائے کہ یہ واقعہ عہد نبوی کا ہے اور یہ اطلاع ایک صحابی رسول کی تھی،انہوں نے جان بوجھ کر غلط بیانی سے یقینا کام نہیں لیا تھا کہ یہ چیز مقام صحابیت سے فروتر ہے،بلکہ یہ محض غلط فہمی کا نتیجہ تھا، یہ نادانستہ غلط فہمی بھی کتنے بڑے فتنے اور انتشار کی وجہ اور پیش خیمہ بن سکتا تھا ،تو جس ماحول میں افواہیں اور جھوٹی خبر جان بوجھ کر اور بالقصد پھیلائی جاتی ہوں اس کے لئے پوری پلانگ اور سازش کی جاتی ہو اس ماحول اور معاشرہ کا کیا حال ہوگا ؟ ۔
یاد رکھئے کہ افواہوں کو پھیلانا ان کو جنم دینا ان کو تقویت دینا غیر شرعی حرکت اور ناسائشتہ و نامناسب عمل ہے – اس سے ہر ایک کو بچنا چاہئے اور اس کے روک کے لئے سماج کے ذی ہوش لوگوں کو آگے آنا چاہئے اور سب سے بڑی ذمہ داری تو حکومت وقت کی ہے، کہ وہ اس کے لئے ٹھوس تدبیر کرے اور ایسے لوگوں کو جو ملک و معاشرے میں افواہ پھیلا کر امن و شانتی کو توڑنا اور بھنگ کرنا چاہتے ہیں ان کو کیفر کردار تک پہنچائے اور سخت سزائیں دے ۔
دوسری طرف علماء اور اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو اس کی شناعت اور خطرناکی اور مضر اثرات سے واقف کرائیں، اور امت کو بلکہ ساری انسانیت کو یہ بتائیں کہ ہر سنی سنائی بات کو ہرگز نقل نہ کریں، یہ بھی خدا سے بے خوفی کی بات ہے – آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیماری کی تشخیص کرتے ہوئے فرمایا : کہ آدمی کے گنہگار ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو نقل کرتا چلے۔ (ابوداؤد)
آج کے حالات میں سخت ضرورت ہے کہ ہم سورئہ حجرات کی مذکورہ آیت اور اس سلسلے میں جو حدیثیں اوپر پیش کی گئیں ان پر خود بھی عمل کریں اور لوگوں تک بھی اس کو پہنچائیں ۔ اور حکومت و انتظامیہ، جماعتیں و جمعیتیں اور تنظیمیں اس رہنما اصول پر ضرور عمل کریں ۔
لیکن افسوس کہ امت کا ایک بڑا پڑھا لکھا اور باشعور طبقہ بھی آج کان کے کچے ہوتے جارہے ہیں ۔بلا تحقیق خبروں پر اعتماد کرلیتے ہیں ، دوسروں تک اسے پھیلاتے ہیں اور افواہوں کے پھیلانے کا اور ماحول کو کشیدہ کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے اور افواہ پھیلانے اور ماحول کو پراگندہ کرنے کی لعنت سے ہم سب کو بچائے اور ساری انسانیت کی حفاظت فرمائے آمین