Site icon

میر انیسؔ کی مرثیہ نگاری

از قلم:  محمد علقمہ صفدر ہزاری باغ

مرثیہ گوئی کی تاریخ اور مرثیہ نگاری کی فہرست اگر دیکھی جائے تو میر انیسؔ کا نام سب سے اول اور سرِ فہرست نظر آتا ہے، تقریباً پانچ صدیوں سے اردو میں مرثیہ گوئی کا رواج و مزاج رہا ہے مگر مرثیہ گوئی میں مر انیسؔ کا جو مقام و مرتبہ ہے اس تک کوئی شاعر نہیں پہنچ سکا، ان کے اس فنی مہارت اور قدر و عظمت کا اعتراف شبلی و حالی جیسے عظیم شخصیات نے کی ہے، اور ان کے نام کے نغمے وترانے گنگنائے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ میر انیسؔ مرثیہ گوئی میں طاق و نادر ہیں، ان کی قادر الکلامی اور کمال تخلیقی کا یہ عالم ہے کہ باریک سے باریک تر خیالات، لطیف سے لطیف کیفیات کو الفاظ و حروف کا جامہ پہنا دیتے ہیں، خیال و تصور کے مزاج کے موافق و مناسب الفاظ کا انتخاب و بندش کرتے ہیں، واقعات کی تہ تک پہنچ کر جزئیات کو بھی اسی دلکش اسلوب میں بیان کر جاتے ہیں جو ان کا امتیاز و خاصہ ہے، اور جن تک بہتوں کی رسائی نہیں ہو پاتی۔

             میر انیسؔ نے رزمیہ اور بزمیہ دونوں قسم کے مرثیہ لکھیں ہیں، ان کے مرثیوں میں داستان نگاری کی کیفیت زیادہ نمایاں ہے، اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ مرثیہ نگاری کے لیے سب سے زیادہ موضوع اسلوب داستان نگاری ہی سمجھا گیا ہے، چونکہ میر انیسؔ نرا مرثیہ نگار ہی نہیں تھے بلکہ اسرار کائنات، حیاتیات اور انسانی نفسیات سے بخوبی آگاہ تھے، زندگی کے ہر پہلو پر نظر رکھتے تھے لہذا ان کی داستان نگاری میں وہ تمام خوبیاں نظر آتی ہیں جو ایک حساس، رازدار، رموزداں اور بیدار مغز شاعر کے لیے ناگزیر ہے۔

                  انیسؔ کے کمال شاعری کا بڑا جوہر یہ ہے کہ باوجود اس کے کی انہوں نے اردو شعرا میں سب سے زیادہ الفاظ استعمال کیے، اور سینکڑوں مختلف واقعات و حالات کے بیان میں ہر قسم اور ہر درجے کے الفاظ استعمال کرنے کی ضرورت پڑی، تاہم ان کے تمام کلام میں غیر فصیح الفاظ نہایت کم پائے جاتے ہیں، اور جہاں اس قسم کے الفاظ عبارت میں در آے ہیں وہاں سیاق و سباق کے مابین اس خوبی اور ربط کے ساتھ مستعمل ہوئے ہیں کہ اس کے علاوہ کی وہاں گنجائش نہیں معلوم ہوتی، مزید یہ کہ میر انیسؔ صاحب ہر موقع، مرحلے میں فصیح سے فصیح تر الفاظ عبارات و ترکیب تلاش کر کے لاتے ہیں، غریب و نادر، ثقیل و مغلق الفاظ و تراکیب سے ہر ممکن اجتناب کرتے ہیں، اپنے کلام میں عامیانہ لفظ تو کثرت سے لاتے ہیں، تاہم سوقیانہ، مبتذل، پست یا غیر معیاری کا دھبہ ان کے دامن شاعری پر نہیں آنے پاتا۔

                دراصل میر انیسؔ کی تمام شاعرانہ خوبی کے پس منظر میں ان کا نظریہ کار فرما تھا، وہ نظریہ اور اس کی وجہ کچھ اس طرح ہے کہ میر انیسؔ کا کوئی غزل کسی مشاعرے میں کافی مقبول ہوئی، یہ شہرت ان کے والد کے کانوں تک بھی پہنچی، ان کے والد میر خلیقؔ (جو خود ایک باکمال مرثیہ نگار تھے) نے غزل گوئی پر تنبیہ کی اور دینی کام کرنے کی ہدایت کی جس میں دنیا و عقبیٰ کی فوز و فلاح مضمر ہو، میر انیسؔ اسی دن سے مرثیہ گوئی کی طرف باقاعدہ متوجہ ہوئے، اور اپنی تمام شاعرانہ صلاحیت کو مرثیہ نگاری یا اس سے ملتے جلتے اصناف کے سپرد کر دی، اور تادمِ حیات مرثیہ نگاری اور اس سے قریب تر اصناف سخن میں ہی مصروف رہے، اس سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ ان کے نظریے کے مطابق مرثیہ نگاری محض ایک فنون لطیفہ ہی نہیں، بلکہ یہ کار ثواب تھا جس کی سعادت اسے حاصل تھی، اسی بنا پر میر انیسؔ نے اپنی تمام تر قابلیت و لیاقت کے جوہر اسی مرثیہ گوئی میں دکھاے ہیں۔

                میر انیسؔ کے مرثیوں میں جس مرثیے نے سب سے زیادہ شہرت و قبولیت کی داد حاصل کی ہے وہ حضرت حسینؓ اور واقعہ کربلا پر مشتمل مرثیہ ہے، اور ان کے مرثیہ گوئی میں مذہبیت کا دخل دراصل اسی پہلو سے ہوا، میر انیسؔ حضرت حسینؓ کی کی صرف مدح سراہی ہی نہیں کرتے بلکہ اس توفیق و سعادت پر شکرانے کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔

عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں 

پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں

 اور ساتھ ساتھ اسے حوالے سے خاندانی کارنامے کو بھی موضوع سخن بناتے ہیں:

 اس ثنا خواں کے بزرگوں میں ہیں کیا کیا مداح

جد اعلی سا نہ ہوگا کوئی اعلی مداح

 باپ مداح کا مداح ہے دادا مداح 

 عم ذی قدر ثنا خوانوں میں یکتا مداح

ہمارے یہاں بعض لوگوں کے خیال میں شاعری اور مداحی ہم معنی ہیں، یعنی عوامی طبقہ بالعموم عام روایت کی بنا پر مدح سرائی کو ہی شاعری سمجھتی ہے، حالانکہ ان کے درمیان جزو کل کی نسبت بالکل واضح ہے، مداحی کا عام طریقہ یہ رہا ہے کہ مداح ممدوحِ موصوف کو تمام کمال و جمال سے آراستہ و پیراستہ کر کے، تمام اوصاف سے متصف کر کے پیش کرنا چاہتا ہے، اور ان کی انفرادیت کے ثبوت کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے، میر انیسؔ نے بھی یہی کیا ہے، اور وہی روایتی عذر پیش کر کے حضرت حسینؓ کے متعلق گویا ہوئے:

 کیا مدح کف خاک سے ہو نور خدا کی

لکنت نہیں کرتی ہے زبانیں فصحا کی

 میر انیسؔ نے رزمیہ مراثی میں مرثیہ نگاری کے رسوم کو بھی خوب برتا ہے، یہ رسوم علامہ شبلی نعمانی کے بیان کے مطابق درج ذیل ہیں ”سب سے پہلے لڑائی کی تیاری، معرکہ کا زور و شور، تلاطم، ہنگامہ خیزی، ہلچل، شور و غل، نقاروں کی گونج، ٹاپوں کی آواز، ہتھیاروں کی جھنکار، تلواروں کی چمک دمک، نیزوں کی لچک، کمانوں کا کڑکنا، نقیبوں کا گرجنا، ان چیزوں کو اس طرح بیان کیا جائے کہ آنکھوں کے سامنے معرکۂ جنگ کا سماں چھا جاے، اور پھر بہادروں کا میدان جنگ میں جانا، مبارزت طلب ہونا، باہم معرکہ آرائی کرنا، لڑائی کے داؤ پیچ دکھانا، ان سب کا بیان کیا جائے، اس کے ساتھ اسلحۂ جنگ اور دیگر سامان جنگ کی الگ الگ تصویر کھینچی جائے، پھر فتح یا شکست کا بیان کیا جائے، کہ دل ہل جائیں یا طبیعتوں پر اداسی اور غم کا عالم چھا جائے“ علامہ شبلی نے رزمیہ کے ان تمام پہلوؤں اور خصوصیات کو بیان کر کے میر انیس کے کلام کو ان تمام خصوصیات کا جامع ہونا بتلایا ہے، پھر ہر ایک کی مثالیں بھی پیش کی ہیں، اور اپنی کتاب ”موازنۂ انیس و دبیر“ میں یہ ثابت کیے ہیں کہ میر انیسؔ کی مرثیہ نگاری بوجوہ مرزا دبیر وغیرہ سے فائق ہے، اور بے شمار خوبیوں کا حامل ہے، تاہم بعض اہل علم ناقدین نے میر انیس کے مرثیوں کی خامیوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ مرثیہ نگاری کے لیے اعلی علمی ذہنیت و علمیت درکار ہے، جو کہ میر انیسؔ کے پاس نہیں ہے، اور اگر وہ مرثیہ نگاری میں کامیاب ہوے ہیں تو اس لیے ہوئے کہ ان کی ذہنیت اور سامعین کی ذہنیت زیادہ بعید نہ تھا، ورنہ علمیت مفقود ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ میر انیسؔ کسی طرح کے مفکر نہ تھے، اس لیے ان کے مراثی ان لوگوں کے لیے کسی طرح کی خاص دلچسپی کا باعث نہیں ہو سکتے جو شاعری میں فکر و فلسفے کے عنصر کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، ان کے رباعیات ایک آدھ شعر کے علاوہ فلسفیانہ فکر و نظر سے خالی ہیں، مزید یہ کہ میر انیسؔ کے مرثیوں کی تاریخی اہمیت نہیں ہے کیونکہ میر انیسؔ نے ایک ہی واقعہ کو مختلف طریقوں سے مختلف مرثیوں میں بیان کیا ہے، جس کی وجہ سے کسی ایک روایت پر اعتماد جم نہیں پاتا، اور اس طرح میر انیسؔ کی تاریخ دانی کی سنجیدگی برقرار نہیں رہ پاتی، اور آخر میں مرثیہ میں اگر کوئی فضا قائم کیا ہے تو وہ لکھنؤ کی ہے عراق کی ہرگز نہیں، اور یہ کہ میر انیسؔ واقعہ کربلا اور ایثارِ حضرت حسین کی اخلاقی نوعیت سے بالکل بے پروا ہیں، انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ ان کے مرثیوں سے کبھی اخلاقی سبق بھی اخذ کیے جائیں گے، میر کے مرثیوں میں حضرت حسینؓ کا جو اخلاق پیش ہوا ہے، وہ نہ تو اسلامی ہے اور نہ ایسا آفاقی جس کو تمام مذاہب والے مانیں، ایک شخص جو اسلام اور حضرت حسین سے بے خبر اور ناواقف ہو وہ مرثیوں کے مطالعے سے ان کی مظلومیت کے سوا کیا نتیجہ اخذ کرے گا ؟  اس کے برخلاف ان کے مرثیوں میں ایسی کئی باتیں پائی جاتی ہیں جو ایک شریف و عظیم انسان کے لیے قطعاً زیبا نہیں ہیں، مثلاً یہ کہ حضرت حسینؓ مرقد رسول پر جا کر کسی بلند ارادے کا اظہار نہیں کرتے ہیں بلکہ اپنے خاندان پر مظالم کی شکایت کرتے ہیں۔

” امّاں سے یوں ہی باغ فدک چھینا تھا نانا“ 

یوں تو یہ بتایا جاتا ہے کہ حضرت حسینؓ کامل طور پر صابر ہیں مگر وہ ہر بات پر روئے دیتے ہیں اور جذباتیت سے بھر جاتے ہیں، اپنے رفقا اور انصار کو اس طرح رخصت نہیں کرتے جیسے کوئی مستقل ارادہ اور مضبوط اعصاب والا ہیرو کرتا ہے بلکہ اس طرح جیسے کوئی مجبور شخص کو ان کے عزیزوں سے قسمت یا ظالم الگ کر رہا ہو وغیرہ وغیرہ، میر انیسؔ کے ناقدین اس بات کی بھی قائل ہیں کہ میر انیسؔ نفسیاتِ انسانی کے بھی ماہر نہیں ہیں، گویا کہ میر انیس کے ثنا خوانوں میں جہاں شبلی و حالی جیسے بلند پایا، عظیم اہل علم ہیں، وہیں ان کی خامیوں اور ان کے کلام کے نقائص کو واضح کرنے والے بھی اہل علم ہیں۔

Exit mobile version