ہندو مذہب حقیقت اور بدگمانی کے آئینے میں
جب تک ہندوؤں کی ظاہری شکل اور مورتی پوجاوغیرہ کی تصویر سامنے رہی ؛میں یہ سمجھتا رہا کہ ہندو مذہب چند رسم و رواج پر مبنی رشیوں منیوں کا بنایا ہوا مذہب ہے۔ لیکن جب میں نے گیتا کا مطالعہ کیا تو یہ بات سمجھ میں آئی کہ نہیں جو حال آج ہم نے اپنی کتاب اور مذہب کا کیا ہے ۔وہ ہندو ایک زمانہ پہلے کر چکے ہیں اور دیگر قوموں نے بھی وہی کیا ہے ۔بس فرق یہ ہے کہ ان کی تاریخ ہم سے بھی ہزار ڈیڑھ ہزار سال پرانی ہے ۔یہ بھی ہے کہ لوگوں کو مذہب سے بیزار کرنے میں ہر قوم کے اپنے علماء اور سیاستدانوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں ۔بیسویں صدی میں جب مذہب بیزار افراد کی اکثریت سامنے آئی تو طاغوتی طاقتوں نے اس گروہ کے تعاون سے تمام اہل کتاب کو بھی آزادی انصاف اور مساوات کے عنوان پر ایک نئے ورلڈ آرڈر پر متفق کر لیا اور مذھب لوگوں کی ذاتی زندگی تک محدود ہوکر رہ گیا ۔آسمانی مذاھب میں جو حرام حلال کی تمیز تھی ؛نئے مذھب میں اس کی کوئی قانونی پابندی کا جواز نہیں رہا ۔عورت عورت سے نکاح کر سکتی ہے۔ مرد مرد سے زنا کر سکتا ہے ۔باقی لبرلزم کی کوئی حد اور تشریح مقرر نہیں رہی ۔نئے خداؤں نے حرام وحلال کی ساری حدوں کو توڑ دیا ہے ۔نئے ورلڈ آرڈر نے آسمانی مذاھب کے درمیان نفرت پیدا کرنے کیلئے جہاں مسجد اقصیٰ کا تنازعہ کھڑا کیا۔ بھارت میں بابری مسجد رام جنم بھومی کے تنازعے کو ہوا دی گئی ۔مسلسل آدھی صدی تک اس تنازعے پر خون خرابے کی ایک تصویر یہ ابھر کر آئی کہ مندر مسجد اور کلیسا کے نام پر خون خرابہ کرنے والے آسمانی مذاھب ہی سارے فساد کی جڑ ہیں ۔بدقسمتی سے سدبھاونا کانفرنس یا بین المذاھب مکالمے کی تقریبات میں مسلمانوں، عیسائیوں ،یہودیوں یا ہندوؤں کے مذہبی رہنماؤں نے اس نیو ورلڈ آرڈر کے نکتے پر کبھی نہ تو غور کرنے کی کوشش کی اور نہ اس پر کبھی بحث کی جسارت کی ۔اور کرتے بھی کیسے جماعت کی آستینوں میں بت بھی تو تھے ۔
علامہ نے کہا بھی ہے کہ
یہ مانا بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الااللہ
اتفاق سے بیسویں صدی میں جن تین شخصیات نے مذہب کے نام پر راشٹرواد کا نعرہ دیا۔ا ان میں اقبال کے سوا ریاست اسرائیل کے نظریہ ساز ہرتزل اور ہندو راشٹر کے خالق ویر ساورکر یا تو مذہب بیزار تھے یا انہیں مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ ہاں اگر مذہب کے نام پر پاکستان کی تخلیق میں محمد علی جناح کو بھی شامل کر لیا جاۓ تو یہ تینوں شخصیات ایک لبرل سوچ کی حامل تھیں ۔ خیر میں بحث کر رہا تھا ہندو مذہب کے بارے میں کہ ان کی کتابوں کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ان کی تعلیمات بھی آسمانی کتابوں کے جیسی ہی ہے ۔قرآن میں چار کتابوں کا تذکرہ آتا ہے ۔ان چار کتابوں میں زبور اور زبور کی قوم کا کہیں پتہ نہیں ہے ۔قران میں جب اللہ تعالٰی یہود و نصارٰی کے ساتھ اہل ایمان کا تذکرہ کرتا ہے تو صائبین کا بھی ذکر کرتا ہے۔ علامہ حمیدالدین فراہی نے کہیں پر صائبین کو ہی ہندو قوم بتایا ہے اور ہندؤں کی وید کو ہی زبور مانا ہے جو کہ کئی حصوں میں بٹ چکی ہے ۔
کہیں پر راشد شاذ نے بھی ہندوؤں کو اہل کتاب کہا ہے اور گیتا کے میرے اپنے مطالعے سے جو میں نے آریہ کا مطلب سمجھا ہے آریہ کوئی نسل نہیں بلکہ اس کا قدیم تصور اہل کتاب کے ہی ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ دور اکبری کے اکابر علماء اسلام مبارک ملا فیض و فیضی اور قاضی ثناءاللہ پانی پتی اور ابوالکلام آزاد نے ہندوؤں کیلئے اہل کتاب کی اصطلاح استعمال کی ہے۔
تفسیر مظہری:۲۴۰۔ جامع الشواہد: ۵۲۔۵۵
بدقسمتی سے خود ہندوؤں میں سواۓ پنڈتوں کے یا یوں کہہ لیں کہ بیسویں صدی کا پنڈت بھی اپنے مذہب کے بارے میں اتنا ہی پڑھتا ہے جتنا اسے ہندو تیو ہاروں کے موقع پر پوجا پاٹھ کر کے کمانے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ کبھی اپنے لوگوں کو اس کا صحیح مفہوم بھی نہیں بتاتا یا اسے خود پتہ نہیں ہوتا ۔اب سوال یہ ہے کہ جو ہندو پنڈت سنسکرت کے ایک سلوک کا مفہوم نہیں جانتا وہ سناتن دھرم ۔۔۔اوم ۔۔منو یا آریہ کے بارے میں کسی خاص مفہوم کے نتیجے پر کیسے پہنچ سکتا ہے ۔اسی طرح مسلمانوں میں بھی جھاڑ پھونک اور دعا کرنے والے بابا بھی مل جائیں گے جنھیں ٹھیک سے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم یا لاالہ الااللہ کا صحیح مفہوم پتہ نہیں ہوتا ۔رہا سوال قرآن کے معنی اور مفہوم کا تو علماء کے ایک طبقے نے خود مسلمانوں کو ڈرایا ہے کہ تم قرآن کا ترجمہ مت پڑھو ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے ۔اس کا اثر دکھاتی بھی دے رہا ہے کہ عام مسلمانوں کا بچہ سلمان خان شاہ رخ خان ایشوریہ اور مادھوری کے بارے میں تو سارا علم رکھتا ہے لیکن صحابہ کرام یا مجاہدین اسلام کے بارے میں انہیں کچھ پتہ نہیں ہوتا ۔یہی وہ بھیڑ ہے جو مہدی کو دہشت گرد اور دجال کو مسیحا مان کر اس کے پیچھے ہونے کو بے چین ہے ۔اب آپ بتائیں جو ہندو تین ہزار سال سے اپنے پنڈتوں کے ذریعے گمراہ کئے جارہے ہیں وہ”اوم نمہ شواہ "کے معنی کیسے بتا پائیں گے ۔
سنسکرت کا یہ سلوک بھی ہندو قوم کا توحید پر مبنی ایک کلمہ ہی ہے جس کے معنی ہوتے ہیں کہ ایک خدا یعنی اوم کے سوا کوئی پوجنے کے لائق نہیں ہے یا اوم کے سوا میرا سر کسی کے سامنے نہیں جھکتا ۔
اس موضوع پر گیتا کے اپنے ذاتی مطالعے کی بنیاد پر ہم دوسرے کسی مضمون پر بحث کریں گے تاکہ مولانا ارشد مدنی صاحب کے تبصرے پر جو کچھ منفی باتیں ہو رہی ہیں اس پر کچھ روشنی ڈال سکیں ۔
ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ بیسویں صدی کے سرمایہ دارانہ دور کا مسلمان بھی کہاں تک اپنے دین و مذہب کے بارے میں سنجیدہ ہے ۔کیا آج ہم نے بھی اپنے بچوں کو صوم و صلوٰۃ کی ادائیگی کیلئے پیشہ وارانہ یا رسمی طورپر چند قرآن کی آیات تک ہی محدود تو نہیں کر دیا ہے ۔باقی اب دین جمہوریت کے ماتحت خلافت اور ملوکیت کی بحث تو علماء اسلام کیلئے بھی ایک ٹیڑھی کھیر کے جیسی ہے ۔حالانکہ مسلمانوں کے ہر بچے کو دین کے نام پر اتنا علم تو ہونا ہی چاہئے کہ دین کیا ہے اسلام کسے کہتے ہیں اور وہ مسلمان کیوں ہے اور ایمان لانے کے بعد اس کا اصل نصب العین کیا ہے ۔سچ کہوں تو نناوے فیصد مسلمان اپنے کلمے اور اس بنیاد پر قائم نماز اور اقامت الصلوٰۃ کے حقیقی مفہوم سے بھی واقف نہیں ہے ۔
(جاری)