از قلم:عبدالعلیم بن عبدالعظیم الاعظمی
اس وقت ہندوستان میں مسلم معاشرہ جن مسائل سے دو چار ہے، ان میں سے ایک بڑا مسئلہ شادی میں غیر اسلام رسوم و رواج کا در آنا ہے، اگر یہ چیزیں محض رسوم و رواج تک رہتی تو شرعا اس کی گنجائش بھی نکل سکتی تھی، لیکن ان رسوم و رواج میں بعض ؛ بلکہ اکثر وہ ہیں جو ہندو معاشرہ سے مسلمانوں میں چلی آئیں، مسلمانوں نے ان رسوم و رواج پر اتنی سختی سے عمل کرنا شروع کردیا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دین کا حصہ ہے اور اسلام کا طریقہ ہے۔اسلام ایک فطری مذھب ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ کو اپنے تخلیق کردہ انسانوں کی فطرت کا بخوبی علم ہے، اسلام نے برائی کو مٹانے کے لیے "نکاح” کا حکم دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے نکاح کو آسان قرار دیا ہے؛ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی زندگیوں میں اس بات کا عملی نمونہ ملتا ہے۔ اسلام کے خیر القرون ؛ بلکہ آج بھی اسلامی ممالک کا جائزہ لیں تو نکاح آسان ہی ہے۔ مذھب اسلام نے نکاح کے لیے دو گواہ کو ضروری قرار دیا ہے،البتہ اعلان کا مشورہ دیا ہے؛ تاکہ تمام لوگوں کو علم ہوجائے، مرد پر مہر لازم ہے۔اس کے علاوہ مرد کے لیے ولیمہ کرنا سنت ہے، ضروری بھی نہیں، اسلام نے ہر شخص کو اپنی استطاعت کے مطابق ولیمہ کا حکم دیا ہے حتی کہ رسول اللہ نے فرمایا ولیمہ کرو اگرچہ صرف کھجور سے ہو۔
اسلام نے شادی کو اتنا آسان بنایا ہے؛ لیکن آج مسلم معاشرہ میں شادی سب سے زیادہ مشکل ہوگئی ہے، ایک بیٹی کی شادی کرنے کے لیے باپ دسیوں سال کی پونجی جمع کرنی پڑتی ہے، قرض لینا پڑتا ہے اور پھر پوری زندگی قرض اتارنے میں گذر جاتی ہے، معاشرہ کا ہر دوسرا شخص ان رسوم و رواج کو ختم کرنا چاھتا ہے، ہر شخص کے دل میں تمنا ہے کہ یہ رسوم و رواج ختم ہوں، محنت کمائی یوں پل بھر میں بغیر مقصد کے خرچ کرنا کوئی نہیں چاھتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہمیں اس کی اصلاح میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، معاشرہ میں اصلاح معاشرہ کے طرح طرح کے پروگرامات ہوتے ہیں لیکن اس کا ایک فیصد رزلٹ نہیں نکلتا ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کے اسباب کیا ہیں ؟ کیوں ہم معاشرہ کی اصلاح کرنے میں بری طرح ناکام ہیں ؟ یاد رکھیں شادی وغیرہ میں آسانی ہر شخص چاھتا ہے، کسی معاشرہ کے سو افراد کو آپ جمع کریں اور ایک ساتھ ان سے شادی بیاہ میں آسانی کرنے کا مشورہ لیں، تو ممکن ہیں کہ نوے فیصد افراد مروجہ شادی ہی کی تائید کریں،لیکن انہیں افراد سے جب فردا فردا رائے طلب کی جائے گی تو مروجہ شادی کے سخت مخالف ہوں گے۔ یہ ایک نفسیات مسئلہ ہے،ہر شخص چاھتا ہے کہ سادگی سے شادی ہو،لیکن انا کا مسئلہ آجاتا ہے، غریب شادی کرے گا، تو لوگ مذاق اڑائیں گے،مجبوری باور کرائیں گے،امیر کے دل میں بھی اگر سادگی کی شادی بیٹھ جائی گی تو اس کو غیرت آئے گی کہ محلے پڑوس کی لڑکیوں کی شادیوں میں اس نے بڑھ چڑھ کر کھایا پیا ہے، اب جب کھلانے کی بات آگئی ہے تو سادگی کی شادی کررہا ہے، بغید نہیں ہے کہ لوگ بخیل اور نہ جانے کیا کیا کہیں۔ یاد رکھیں یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اگر کسی معاشرہ میں سو گھر ہیں اور دس گھر سادگی کے ساتھ شادی کرنے لگے تو باقی میں سے اکثر خود بخود سادگی سے کرنا شروع کردیں گے، لیکن اگر کسی معاشرہ کے 95 فیصد لوگوں کی شادی میں غیر اسلامی رسوم و رواج رہتی ہے تو باقی کے پانچ فیصد لوگ جن کے دل میں سادگی کے ساتھ شادی کا تصور ہے بعید نہیں ہے کہ معاشرہ کے دباؤ کی وجہ سے وہ ابھی اسی طرح شادی کریں۔
بات طویل ہوری ہے،بندہ اپنے اصل پوائنٹ کی طرف واپس آتا ہے، اور ناکامی کے اسباب تلاش کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرہ میں جن لوگوں کی حیثیت رہنما رہبر اور دینی قائد کی ہے، اور جو لوگ معاشرہ کی اصلاح کرتے ہیں، خواہ جلسہ جلوس کے ذریعہ ہو یا مسجد کے ممبر کے ذریعہ ہو۔ یہ عظیم کام علماء کا طبقہ انجام دیتا ہے۔ برابر مسجد کے منبر کے ذریعہ، اصلاح معاشرہ کے اسٹیج سے ان رسوم و رواج کے خلاف اوآز اٹھائی جاتی ہے، اسلام کے نظام نکاح سے واقف کرایا جاتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ علماء کی یہ باتیں موثر نہیں ہوتی ہے، معاشرہ پر ایک فیصد عمل نہیں ہورہا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ اصل بات یہ کہ انسان قول سے زیادہ عمل سے متاثر ہوتا ہے، کوئی بات آپ دس مرتبہ سمجھائیں، ممکن ہے بات سمجھ میں نہ آئے، لیکن عملی طور پر اسے پہلی مرتبہ میں سمجھ آجائے گی۔ قول اور عمل میں یکسانیت ضروری ہے۔ الفاظ میں تاثیر کے لیے خلوص کے ساتھ ساتھ قول و عمل میں یکسانیت بھی ضروری ہے۔ عوام کے سامنے ان رسوم و رواج کو ترک کرنے پر زور دیا جاتا ہے؛ لیکن جب عوام انہیں مصلحین کو دیکھتی ہے کہ وہ ان رسوم و رواج سے جڑے ہوئے ہیں تو ان کی سنی اَن سنی کردیتی ہے۔ آئیے ہم دیکھتے ہیں علماء ممبر سے جو باتیں کہتے ہیں کیا اس پر عمل کرتے ہیں۔ ان کے قول و عمل میں کتنا تضاد ہے۔
- 1۔ علماء جہیز وغیرہ کو سماجی ناسور کہتے ہیں؛ لیکن خود جہیز لیتے ہیں(اکثریت کے اعتبار سے ہے،باقی استثناء ہر چیز میں رہتا ہے۔)
- 2۔علماء میں سے پچاس فیصد یا اس سے زیادہ ایک بڑی تعداد میں بارات لیکر جاتے ہیں۔
- 3۔ باقی علماء خود کی بارات تو بہت مختصر لے جاتے ہیں، چائے پانی پر صرف نکاح کرتے ہیں، لیکن دوسروں کی بارات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں خواہ تعداد کتنی ہی زیادہ ہو، خواہ کھانے کے نام پر لڑکی والوں پر کتنا ہی ظلم کیا جائے۔
- 3۔ علماء کی ایک بڑی تعداد لڑکیوں کے نکاح میں بھی دعوت کا اہتمام کرتی ہے، جو کہ سراسر اسراف ہے، اسلام کا نظام یہ ہے کہ لڑکے کے والوں کی طرف سے چند لوگ آئیں اور نکاح کرکے چلے جائیں، باقی ولیمہ لڑکے کے ذمہ ہے۔ لڑکی کی طرف سے جو دعوت دی جاتی ہے اس کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے، یہ ایک ہندوانہ رسم و رواج ہے۔
- 4۔ بعض متقی علماء جب اپنی گھر کی لڑکیوں کے شادی کرتے ہیں تو بہت ہی سادگی کے ساتھ کرتے ہیں، بالکل اسلامی طریقے پر، لیکن جب اسی معاشرہ میں لڑکیوں کی شادی غیر اسلامی طریقے پر ہوتی ہے تو اس میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، جب ایک چیز غلط ہے تو اس میں حصہ لینا کیسے درست ہے ؟
- 5۔ شادی بیاہ میں بہت سی ہندوانہ رسم و رواج مثلا ہلدی، مڑوہ وغیرہ کی تقریب ذوق و شوق سے خود عالم و علماء کے گھرانے میں منعقد کی جاتی ہے۔
- 6۔ ہمارے جو علماء بارات وغیرہ میں نہیں جاتے وہ بھی نکاح کے نام پر اسراف والی شادیوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔
- اس سلسلے میں ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاھئے
اگر ہم واقعی معاشرہ سے غیر اسلامی رسوم و رواج کو ختم کرنا چاھتے ہیں، تو اسلام طریقہ پر ہمیں شدت سے عمل کرنا چاھئے، اس سلسلے میں ہمارا طرز عمل دو ٹوک ہو، مصلحت کے نام پر ہمیں بالکل غیر اسلامی طرز پر منعقد شادیوں میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں ہمارا لائحہ عمل کچھ ایسا ہونا چاہیے:
- 1۔ جہیز ہم سختی سے نہ لیں۔
- 2۔ جن لوگوں کے متعلق معلوم ہو کہ وہ جہیز باقاعدہ طلب کررہے ہیں ان کے ولیمہ تک میں شریک نہ ہوں۔
- 3۔ نکاح کے لیے چند افراد کو ساتھ لیں جائیں، مختصر چائے پانی کے ساتھ نکاح کیا جائے،ممکن ہو تو نکاح مسجد میں کیا جائے۔
- 4۔ جو لوگ بڑی تعداد میں نکاح کے لیے بارات لے جارتے ہیں، ان کی بارات میں شریک نہ ہوا جائے، اسی طرح جن کے نکاح میں مختلف طرح کے لوازم ہو، کھانے وغیرہ کا انتظام ہو، لمبی چوڑی دعوت ہو ایسی بارات میں بھی شرکت نہ جائے۔
- 5۔ لڑکی کی طرف سے جو لمبی چوڑی دعوت ہوتی ہے، اس میں بالکل ہی شرکت نہ کی جائے۔
- 6۔ جس نکاح میں بڑی تعداد میں بارات آئے، یا پھر لڑکی کی طرف سے لمبی چوڑی دعوت کا اہتمام کیا جائے،ایسی جگہ نکاح نہ پڑھایا جائے، اگر تعلقات کی وجہ سے نکاح پڑھایا جائے تو کھانا وغیرہ نہیں کھایا جائے۔ (بعض متقی علماء ایسا ہی کرتے ہیں۔)
- 7۔ علماء اپنے ماتحت لڑکیوں کا نکاح سادگی کے ساتھ کریں، لمبی چوڑی دعوت کا اہتمام نہ کریں۔