حافظ نوریز عالم کی اچانک وفات

از:- عارف حسین ندوی

حافظ نوریز عالم اشاعتی کی اچانک وفات کی خبر دل کو موم اور آنکھوں کو نم کر دینے والی ہے۔ نوجوانی کے عالم میں اس دارِ فانی سے رخصت ہو جانا ایسا سانحہ ہے جسے قبول کرنا انسان کے لیے نہایت دشوار ہوتا ہے۔

حافظ نوریز عالم، لال ٹولی رنگریا (امور، ضلع پورنیہ) کے رہنے والے تھے۔ نرم گفتار، شفیق اور خوش مزاج نوجوان تھے۔ جو بھی ان سے ایک بار ملاقات کرتا، یوں محسوس کرتا جیسے برسوں سے پہچان ہو۔ ان کی مسکراہٹ اور خلیق مزاجی ہر دل کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی۔ مگر دنیا جس کی تقدیر میں فنا ہے اور یہاں کی ہر چیز فانی ہے۔

قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (آل عمران: 185)
یعنی "ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے”۔ یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ چاہے انسان کتنا ہی جوان اور صحت مند کیوں نہ ہو، زندگی کا ہر لمحہ عارضی ہے اور موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

نبی اکرم ﷺ نے بھی فرمایا:
اَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ
(یعنی: لذتوں کو توڑنے والی چیز، موت کو کثرت سے یاد کیا کرو – سنن ابن ماجہ)۔

یہی وہ حقیقت ہے جسے ہم اکثر دنیا کی رنگینیوں میں بھلا دیتے ہیں، مگر حافظ نوریز عالم جیسے اچانک جانے والے ہمیں یہ سبق دے جاتے ہیں کہ اصل زندگی موت کے بعد شروع ہوتی ہے۔

ان کی جدائی نہ صرف اہلِ خانہ بلکہ دوستوں اور شاگردوں کے لیے گہرا صدمہ ہے۔ جان لیوا مرض نے انہیں آہستہ آہستہ اپنی لپیٹ میں لیا، مگر علاج اور کوششوں کے باوجود وہ صحت یاب نہ ہو سکے۔ یہ دنیا کی بے ثباتی کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ کوئی تدبیر تقدیر کو بدل نہیں سکتی۔ جوانی کی موت ایک ایسا زخم ہے جو جلد بھرنے والا نہیں۔

کسی شاعر نے اس حقیقت کو بڑے درد انگیز انداز میں بیان کیا ہے:
؎ یہی حقیقتِ کائنات ہے اے دلِ نادان
جو آیا ہے، اسے ایک دن جانا ہی پڑے گا

ایک اور شعر دل کو جھنجھوڑ دیتا ہے:
؎ موت اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی
جس کے کردار سے روشنی پھیلتی ہے

حافظ نوریز عالم کی نیک سیرتی، ان کی محبت اور ان کا حسنِ اخلاق ہی ان کی اصل پہچان ہیں۔ دنیا کی یہ زندگی عارضی ہے مگر نیک اعمال اور اچھے اخلاق انسان کو مرنے کے بعد بھی زندہ رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے مرحوم کو کامل مغفرت عطا فرمائے، ان کی قبر کو نور سے بھر دے، درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا کرے۔
یقیناً وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوکر اپنے رب کے حضور پہنچ گئے، مگر ان کی یادیں اور دعاؤں کی خوشبو ہمیشہ دلوں میں زندہ رہے گی۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔