حلال کاروبار: ضرورت اور تنازع

از: ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی

گزشتہ ماہ گورکھپورمیں آر ایس ایس کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں منعقد ایک پروگرام کے دوران یو پی کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے حلال کاروبار کو ایک بار پھر متنازع انداز میں پیش کیا۔ وزیراعلی تو اپنی 10 منٹ کی تقریر میں کچھ مصدقہ اور کچھ غیر مصدقہ بیانا ت جاری کر کے چلے گئے لیکن ملک میں اس معاملے پر ایک بار پھر بحث چھڑ گئی۔ جہاں ان کی رائے کو اہمیت کے ساتھ اجاگر کرنے والے میڈیا نے ان کے الزامات کو مختلف قسم کے اعداد و شمار کے ساتھ مبنی برحقیقت جتانے کی بھرپور کوشش کی وہیں حلال کاروبار کی حمایت کرنےوالوں نے اسے بہت ہی مجہول طریقے سے خارج کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔مگر ،حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ۔ وزیراعلی کی بات نہ تو پورے طور پر درست ہے اور نہ پورے طور پر غلط ۔حلال کاروبار کا تنازع ملک میں گزشتہ دو دہائیوں سے سرخیوں میں ہے جبکہ ملک میں حلال کاروبار 1974 سے جاری ہے ۔حالانکہ یہ معاملہ اصلا حلال کاروبار کا نہیں ہے بلکہ اس کے سرٹیفکیشن کےطریقہ کار کا ہے جس کو لے کر ملک کی بہت سی تجارتی کمپنیوں کی تیوریوں پر بل رہتے ہیں ۔اور وہ سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے اس طریقہ استناد کو اپنے کاروباری فائدے کے لیے متنازع بنا تی آ رہی ہیں۔ ابھی دو دہائی پہلے تک ملک میں کوئی بھی تجارتی کمپنی اپنی تشہیر کے لیے مذہبی علامات یا جذبات کا استعمال نہیں کرتی تھی بلکہ اپنی مصنوعات کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر ہی اپناتشہیر ی مواد تیار کر کے اخبارات و رسائل، ٹی وی وغیرہ کو بھیجتی تھیں ۔خود حکومت ہند نے بھی ان کمپنیوں کے لیے کچھ تشہیری ضابطے مقرر کر رکھے تھے ۔اور تقریبا تمام ہی کمپنیاں ان ضابطوں کی پاسداری کرتی تھیں۔ اگر کوئی خلاف ورزی کرتا تھا تو شکایت کرنے پر عدالتیں ان کمپنیوں کی سرزنش بھی کرتی تھیں لیکن حالیہ دنوں میں ان تشہیری ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر کچھ کمپنیاں من مانے طریقے سے اپنی مصنوعات کو مذہبی ترجیحات کے طور پر پیش کرتی ہیں ۔اور اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات کی بنیاد بنا کراپنا مال فروخت کرنا چاہتی ہیں ۔اس سلسلے میں کچھ کمپنیوں کو تو عدالت سے معافی بھی مانگنی پڑی ہے مگر حیرت یہ ہے کہ ان پر کوئی جرمانہ یا تادیبی کاروائی نہیں ہوئی۔ اس قسم کی کمپنیوں کو یہ شکایت ہے کہ بیرون ملک درآمدکے لیے انہیں حلال سرٹیفکیٹ لینا پڑتا ہے کہ اس کے بغیر ان کی بہت سی اشیائے خوردو نوش ،سامان زیبائش و حسن کی فروخت ممکن نہیں ہے۔ دنیا کے زیادہ ترممالک میں ہندوستانی در آمد بغیر حلال سرٹیفیکیٹ ممکن نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ اس سرٹیفیکیٹ کی بدولت ہی ایک خطیر رقم ملک کو زر مبادلہ کے طور پر حاصل ہوتی ہے اور ہماری تجارتی اداروں کو فروغ حاصل ہوتا ہے ملک کی بیشتر تجارتی کمپنیوں کے مالکان بھی برادران وطن ہی ہیں گویا نفع میں وہ ذاتی کمپنیاں بھی ہیں اور خود ملک کی اقتصادیات بھی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں حلال سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر ہونے والا کاروبار تین ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ خود ملک کے اندر گزشتہ ایک سال میں غیر ملکی درآمدمیں تین لاکھ پچپن ہزار کروڑ روپے کا کاروبار ہوا۔ یہ صرف گوشت کا کاروبار تھا اس کے علاوہ دیگر اشیائے خوردو نوش، سامان زیبائش، ادویہ اور ہوٹل اور ریسٹورنٹ کی صنعت کا کاروبار اندرون ملک تقریبا 20 لاکھ کروڑ روپے سالانہ رہا۔جس میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور ملک کے مسلمانوں کی بڑی تعداد کے علاوہ غیر مسلم بھی حلال اشیاء کو استعمال کرنے پر زور دینے لگے ہیں۔ واضح رہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والا یہ کاروبار صرف اور صرف حلال سرٹیفکیٹ کا ہی مرہون منت ہے ۔بدقسمتی سے ملک میں حلال سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے لیے چند ہی ادارے موجود ہیں جو سب کے سب غیر سرکاری ہیں مثلا اس سلسلے میں سب سے بڑا ادارہ خود جمعیت علمائے کے دونوں دھڑے ہیں جو حلال ٹرسٹ انڈیا کے نام سے یہ سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں۔ اس کے بعد حلال کارپوریشن آف انڈیا ،حلال سرٹیفکیشن آف انڈیا جمعیت علمائے مہاراشٹر ،کیو ایف ایس مینجمنٹ ، ایکسس کیئر سرٹیفکیشن پرائیویٹ لمیٹیڈ، کورپ بز پرائیویٹ لمیٹڈ جیسی کمپنیاں حلال سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہیں ۔یہ تمام کمپنیاں مسلم اداروں، افراد اور تنظیموں کے زیر ملکیت ہی چلتی ہیں۔ ان تمام کمپنیوں کا دعوی ہے کہ وہ حلال کی جانچ کرنے کے لیے باقاعدہ لبرٹریز (تجربہ گاہ )ماہرسٹاف اور شرعی نقطہ نظر کا اہتمام رکھتے ہیں۔ اور ان ماہرین کی خدمات اختیار کرتے ہیں جو حلال و حرام کو ممیز کر سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہر کمپنی کی الگ الگ مصنوعات کے لیے الگ الگ فیس بھی ہے۔ اور ہر سال اس سرٹیفکیٹ کا اعادہ کرنے کی فیس الگ سے وصول کی جاتی ہے لیکن کس پروڈکٹ کی کتنی فیس لی جاتی ہے اور سالانہ اعادہ کی کیا فیس ہے ، اس کے کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں ۔یعنی اس معاملے میں قطع غیر شفافیت کا عالم ہے۔ حکومت ہند کی جانب سے بھی ایسا کوئی سروے نہیں ہے جس سے یہ اندازہ کیا جا سکے کہ حلال سرٹیفیکیشن کی یہ کمپنیاں سالانہ کتنا کاروبار کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ کمپنیوں کی آڈٹ رپورٹ کس انداز سے تیار کی جاتی ہے اس سے قارئین بخوبی واقف ہیں لیکن بہرحال یہ امر یقینی ہے کہ اگر بیرون واندرون ملک کا حلال کاروبار لاکھوں کروڑ وں روپے سالانہ کا ہے تو سرٹیفکیشن کی ان کمپنیوں کا کاروبار بھی کم از کم سالانہ سینکڑوں کروڑ کا تو ضرور ہوگا۔

ملک میں حلال سرٹیفکیٹ لینے والی کمپنیوں میں جہاں ریلائنس ،اڈانی ،ٹاٹا جیسی کمپنیاں شامل ہیں ۔وہیں ڈابر، ایم ڈی ایچ ،پتنجلی جیسی کمپنیاں بھی اب کسی سے پیچھے نہیں ہیں شو مئی قسمت کہ ان میں سے اشیائے خورد و نوش اوردوا سازکمپنیاں غیر معیاری اور مضر سپلائی کی وجہ سے بلیک لسٹ بھی کی جا چکی ہیں جو پورے ملک کے لیے شرم کا باعث بنا ۔اسی طرح پتنجلی جیسی کمپنیاں تو اپنی مصنوعات میں واضح طور پر اعلان کرتی ہیں کہ ان کی مصنوعات میں گائے کا پیشاب استعمال کیا جاتا ہے جس سے ملک کا اندرونی صارف اپنے عقیدے کی بنیاد پر تو یہ مصنوعات ترجیحی بنیادپر خرید تے ہےلیکن بیرون ملک خصوصا مسلم ممالک میں ان مصنوعات کی فروخت متاثر ہوتی ہے اس لیے حلال
سرٹیفیکیٹ وہاں اور لازمی ہو جاتا ہے۔ غالبا اسی وجہ سے عقیدے پر مبنی ان کمپنیوں کو حلال سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے میں بھی پریشانی ہوتی ہوگی اور قیمت بھی زیادہ دینی پڑتی ہوگی۔ شاید اسی وجہ سے ایک کاروباری اور تجارتی معاملےکو سیاسی رنگ میں پیش کرنا ایک مجبوری بن چکا ہے ۔بہرحال حلال سرٹیفکیٹ کا یہ منظر نامہ عدم شفافیت اور غیر سرکاری کنٹرول کی وجہ سے ایک منفی شناخت تو ضرور رکھتا ہے ۔جس کی اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جہاں حلال استناد کی ضرورت عموما شرعی طور پر حلال اشیاء خوردو نوش ،سامان زیبائش اور ادویہ وغیرہ استعمال کرنے میں حیوانی اجزاء کے لیے پڑتی ہے وہیں سوکھی اشیا ئے خوردو نوش مثلا چاول ،چائے ،مصالحے جات وغیرہ کے لیے اس کی لازمی ضرورت نہیں ہے ۔دیگر روز مرہ استعمال کی اشیاء پر تو بالکل نہیں ہے، مثلا تعمیراتی سامان ،کپڑا، برتن وغیرہ ۔ لیکن اگر ان اشیاء پر بھی کوئی حلال سرٹیفکیٹ جاری کر رہا ہے یا لوگوں کو اس زمرے کی اشیاء کے لیے بھی حلال سرٹیفکیٹ لینے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے توبہرحال یہ حرکت قابل مواخذہ ہے۔ یہ ذمہ داری حکومت وقت کی ہے کہ وہ اپنے زیر انتظام ہر تجارت و صنعت و حرفت کے اعلی پیمانے بھی مقررکرے اور ان کے نظم و نسق اور ان کی نگہداشت کا بھی انتظام کرے۔ مثلا اوزان کے پیمانے مقرر کرنے ادویہ کے معیار مقرر کرنا، ا شیائے خوردو نوش میں ملاوٹ کرنے کے پیمانے، درآمد وبر آمدکے کاروبار کے اصول و ضوابط مقرر کرنے جیسے سارے کام حکومت وقت کی ہی نگرانی میں انجام دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح حلال سرٹیفکیٹ کے لیے بھی حکومت کی جانب سے معیارات و پیمانے کیوں مقرر نہیں کیے جاتے ؟حکومت ہند کی وزارت تجارت کے تحت ایک حلال محکمہ قائم کر کے شرعی ماہرین سرکاری لیباریٹریز اور سائنس دانوں کی شراکت سے ایک خود مختار ادارہ مقرر کر کے اس محکمے کے اصول و ضوابط وہ معیارات مقرر کیے جا سکتے ہیں ۔جس سے عالمی سطح پر بھارت کی حلال اشیاء کے کاروبار کو زیادہ اعتبار حاصل ہوگا ۔اور اس کاروبار کی شفافیت میں بھی اضافہ ہوگا نیز اس کاروبار کا حجم بھی بڑھے گا۔ ملک کو زیادہ زر مبادلہ حاصل ہوگا۔ یوگی جی خود ملک کی سب سے بڑی ریاست کے وزیراعلی ہیں اور ان جیسی اہم اور مقتدر شخصیت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ عوامی سطح پر شکوہ کناں رہیں ،بلکہ یہ ان کے دائرہ اختیار میں ہے کہ وہ جب چاہیں اس قسم کی خود مختار باڈی تشکیل دے کر کہ شکایت کا ازالہ کر دیں ۔چنانچہ جہاں ان کی یہ بات درست ہے کہ حلال سرٹیفیکیشن کے نام پر ایک بے لگام کاروبار جاری ہے جس پر کنٹرول کیا جانا چاہیے، وہیں ان کی یہ بات بہرحال بالکل غلط ہے کہ اس کاروبار کی آمدنی دہشت گردی اور تبدیلئی مذہب اور اس قسم کی دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں استعمال کی جاتی ہے ۔یقینی طور پر یہ ایک نفرت انگیر سیاست کی مجبوری ہے اور ایک ایسا بے لگام جملہ ہے جسے تا روز قیامت ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ان کا چہیتا میڈیا اسی جملے کو زیادہ اجاگر کر کے پیش کرتا ہے ملک کے اعلی عہدوں پر فائز اصحاب اقتدار کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اب حزب اختلاف میں نہیں ہیں بلکہ حاکم کے طور پر انتظامی امور اب خود ان کو ہی انجام دینے ہیں ۔انتخاب جیتنے کی دوڑ سے آگے بڑھ کر اب انہیں ملک اورعمومی مفاد کو ترجیح دینا ہوگا۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔