Happy New Year

HAPPY NEW YEAR

دسمبر کی۱ ۳؍ویں تاریخ کو سال کا آخری دن سمجھتے ہوئے نئے سال کی ابتداکا جشن نہایت ہی دھوم دھام سے منایاجاتا ہے۔ جب رات کے ٹھیک ۱۲بجے گھڑی کی سوئیاں تاریخ میں تبدیلی کا اعلان کرتی ہیں تو ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا کے بڑے بڑے شہروںکے ہوٹلوں، کلبوں، شراب خانوں، شاپنگ ہالوں، اور تفریح گاہوں میںغول در غول لوگ جمع ہو کر کچھ دیر کے لیے اپنے سارے رنج وغم بھلا کر نئے سال کا پرتپاک استقبال کرتے ہیں،تقریبات منعقد کیے جاتے ہیں،رات بھر موج ومستی ہوتی ہے اور شراب کابھرپور لطف اٹھایا جاتا ہے، بوس وکنار ہی نہیں شراب کے نشے میں شباب کی بھی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور یوں سال کی آخری رات گناہوں میں ڈوب جاتی ہے جس میں شریک ہر فرد خوشی ظاہر کرنے کے فراق میں شرم وحیا کے سارے پردے چاک کرڈالتا ہے اور جو جس قدر چاہتا ہے مٹرگشتی، بے حیائی اورعریانی کی گندگیوں سے اپنے دامن کو گندہ کرلیتا ہے جسے مہذب دنیا ’’ہیپی نیو ایئر‘‘ کانام دیتی ہے۔

تاریخی روایات سے اس کا شجرۂ نسب رائل نیوی کے منچلے نوجوانوں سے جاملتا ہے ۔ اس کا پس منظر یہ ہیکہ رائل نیوی کے نوجوان اکثر بحری جہاز کا سفر کیا کرتے تھے جو بہت دوردراز کا سفر ہوا کرتا تھا،اس طویل سفر کی وجہ سے ان کی طبیعتیں اکثر بے چینی اور بوریت کا شکار ہوجاتی تھیں،چنانچہ وہ اس بے چینی ،بوریت اور اکتاہٹ کو دور کرنے کے لیے مختلف تقریبات منعقد کیا کرتے تھے، کبھی تو یہ تقریبات ایک دوسرے کی سالگرہ کی شکل میں مناتے،کبھی اپنے بچوں کی سالگرہ کرتے، تو کبھی اپنے گھروں کی سالگرہ بھی مناتے،جب تمام لوگ خود اپنے، اپنے ہمسفر، اولاد، اور گھروں تک کی سالگرہ منانے سے فارغ ہوگئے لیکن ان کی بے چینی ابھی دور نہ ہوئی تو انہوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر خوشی منانے کا نیا طریقہ ایجاد کرلیا یعنی اپنے جانوروںکتے، بلیوں کی سالگرہ منانے لگے، جب یہ چیزیں بھی ان کی اضطراری واکتاہٹ کو ختم نہ کرسکیںاور ان کا دل نہ بھرا تو دوسرے طریقہ سے اپنی خواہش کا سامان مہیا کرنے میں کوشاں رہے۔ اتفاقاً اسی دوران دسمبر کا مہینہ تاریخ کی منزلیں طے کرتا ہوا اپنی انتہا کو پہنچنے کے قریب تھاکہ اچانک ان نوجوانوں میں سے ایک کے ذہن میں یہ فاسد خیال ابھرا کہ کیوں نہ ہم نئے سال کا استقبال کریں،اسے خوش آمدید کہیںاور اس کی خوشی منائیں،چنانچہ دسمبر کی ۳۱تاریخ یکم جنوری میں تبدیل ہونے سے قبل جہاز کا سارا عملہ جمع ہوا اور جہاز کو خوب آراستہ کیا گیا، شراب نوشی کی گئی، موسیقی بجائی گئی، ناچ گانے کااہتمام کیا گیااور رات ٹھیک ۱۲بج کر ایک منٹ پر تمام لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے کو Happy new year کہہ کر مبارکبادیاں دیں، خوشیاں منائیں اور اس طرح اس فتنہ کا آغاز ہوا جو ہرسال ترقی کرتا گیا۔ آئندہ سال ۳۱؍دسمبر کو جونیر آفیسروں نے اپنے سنیئر آفیسروں سے اس بیہودہ رسم میں شرکت کرنے اور خوشی کے اظہار کے لیے چند رقاص عورتوں کا مطالبہ کیا، سنیئرآفسیروں نے ان کی اس خواہش کو ضرورت کا تقاضا سمجھ کر ساحلِ سمندر سے چند فاحشہ قسم کی عورتوں کو منگواکر ان جونیر آفیسروں کو پیش کردیا، پھر یوں ہوا کہ ٹھیک بارہ بجے جہاز کی جملہ روشنی گل کردی گئی ، جس سے تمام مسافرین کی چیخیں نکل گئیںاور پھر یکایک جہاز کو روشن کیا گیا اور جہاز کے بڑے کمانڈر نے ہاتھ میں مائک لے کر تمام مسافرین کو نئے سال کی نیپی نیو ایرکہہ کر مبارکباد پیش کی اور تمام لوگوں نے خوشی خوشی تالیاں بجاکر اس کا شکریہ ادا کیا۔اس کے بعد والے سال اس قبیح رسم میں مزید اضافہ ہواکہ شادی شدہ لوگ اپنی بیویوں، منگیتروںاور زنانہ دوستوں یعنی گرل فرینڈز کو ساتھ لے کر اسکاٹ لینڈ کے ’’اناڈین‘‘ ساحل پر جمع ہوئے، کچھ کنواری نوجوان لڑکیاں بھی وہاں جمع ہوئیں،جو اپنے آپ کو کنوارے اور اکیلے آنے والے نوجوان لڑکوں کے سپرد کردیتیں، جہاں شہنائیاں، ڈھول، تاشے،باجے اور ناچ گانوں کا سلسلہ شروع ہوا، پھر اس طرح بے حیائی، بے غیرتی، فحاشی،بدکاری وزناکاری کے ساتھ ہیپی نیوایئرکا  اانسانیت سوز، ، ایمان سوز اور اخلاق سوز فتنہ پروان چڑھتا گیا۔گویا عدم سے وجود میں آکر عروج کو پہنچا۔ (پیام حمانیہ:۱۵-۱۶، دسمبر۲۰۱۴)

اسلام میں نئے سال کی ابتدامیں یوں مٹر گشتی، اباحیت اور فحاشیت کی قطعی اجازت نہیں ہے مگر المیہ یہ ہیکہ مسلمان مغربی تہذیب وثقافت کے بہاؤ میں بندباندھنے کے بجائے خود اس کے سیلاب میں بہتے چلے جارہے ہیںیہی وجہ ہیکہ سال کی ابتدا عبرت خیزی کے بجائے لایعنی چیزوں میں دب کر اپنے حقیقی پیغام کو کھودیتی ہے:

آدمی نشۂ غفلت میں بھلا دیتا ہے
ورنہ جو سانس ہے، پیغام فنا دیتا ہے

دنیا میں مختلف سنین رائج ہیں اور ہر سنہ کی تاریخ کسی نہ کسی اہم وعظیم شخصیت سے وابستہ ہے چاہے وہ عیسوی سنہ ہویا کوئی اور سن ہر ایک کے ساتھ کوئی نہ کوئی تاریخ اور اس کی نسبت کسی بڑی شخصیت کی طرف ہے مثلاً سنہ عیسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کی یادگار، یہودی سنہ کی بنیاد حضرت سلیمان علیہ السلام کی تخت نشینی اور رومی سنہ سکندرفاتحِ اعظم کی یادگار ہے جبکہ سنہ ہجری کی بنیاد واقعہ ہجرت پر رکھی گئی ہے جو بظاہر مسلمانوں کی شکست وریخت کی علامت ہے مگر صحابۂ کرام کی دوربین نگاہوں میں یہی ہجرت ان کی کامیابی،شان وشوکت، عبادت میں آزادی،تبلیغ دین اور اشاعتِ اسلام کی پہلی آزادانہ کڑی ہے، اس لیے کہ مکی دور کی جاں گسل، صبر آزما ، حوصلہ شکن اور بے بسی وبے کسی کے حالات سے نجات کی وجہ ہجرت ہی بنی ہے،اسی نے تنگ دستی، مظلومی اور لاچاری سے نجات دلائی ہے، اسی کی وجہ سے اسلام کو منظم ،مضبوط اور مستحکم مستقر ملاہے اور یہیں سے کفارکی پسائی و معبودانِ باطلہ کے پیروکاروں کی شکست وریخت کا دور شروع ہواہے۔
ہجرت کا واقعہ یہ درس بھی دیتا ہیکہ جب بھی مسلمان مصائب وآلام میں گھر جائیں، دین پرچلنا دشوار ہوجائے،اعزاواقارب اسلام کی وجہ سے عداوت ودشمنی پر آمادہ ہوجائیں، اسلام کی آوازجبروقہر کے ساتھ دبائی جائے اور زمین باوجود وسعت کے ان پر تنگ کردی جائے تو اسوۂ نبی واسوۂ اصحابِ رسول اپناکر اس علاقہ کو خیر باد کہہ دینا چاہیے جو یقینا ظاہر بینوں کی نگاہوں میںمظلومی ، بے کسی،اور لاچاری کی مثال بنتی ہے لیکن اسی میں کامیابی کے راز پوشیدہ ہوتے ہیں۔ کہ مظلومی میں سربلندی، گمنامی میں رفعت وبالادستی،اور صبروثبات میں کامیابی وکامرانی ہی ہجرت کا دوسرا نام ہے۔
مگر افسوس! مغربی تہذیب نے ہمیں اس قدر متاثر کیا ہے کہ ہمیں خود ہی اسلامی کلینڈر کا علم نہیں رہتا، ہمارے کلینڈروںاور ڈائریوں میں نمایاں مقام سنہ عیسوی کو ہی ملتا ہے، دفتروںاور آفسوں حتی کہ بہت سے مدرسوں میں بھی عیسوی کلینڈر ہی رائج ہے حالانکہ اس کی بنیاد شمسی ہے اس وجہ سے اس میں غلطیوں کا کافی امکان رہتا ہے جبکہ اسلامی سنہ کی بنیاد قمری ہے جو باقاعدہ ترتیب شدہ اوراعلیٰ ومعیاری ہے۔ مگر ہم نے اسلامی ثقافت کو چھوڑ کر عیسائی تہذیب وتمدن کو اپنانے کا جیسے ٹھیکہ لے رکھا ہے اور ان ہی کے انداز میں’’ ہیپی نیو ایئر‘‘ کا نعرہ لگاکر ننگے بدن ہونے، برہنہ رقص وسرور کرنے کو فخر کا مقام سمجھتے ہیں:۔

معلوم نہیں ’’ہیپی نیوایئر‘‘ منانے والے کس بات کی خوشی مناتے ہیں۔ کیا اس بات کی خوشی مناتے ہیںکہ ان کے نامۂ اعمال میں ایک سال کے گناہ کا مزید اضافہ ہوگیا اور نیا سال مزید گناہوں کا ان پر آرہا ہے۔ یا اس بات کی خوشی مناتے ہیں کہ سالِ گذشتہ ہمارے نامۂ اعمال میں نیکیوں کا تناسب صفر رہا اور امید کرتا ہوں کہ سالِ رواں میں یہ سلسلہ جاری وساری رہے۔ کیا کبھی ’’ہیپی نیوایر‘‘ منانے والوںنے یہ بھی سوچاہیکہ اصل سرمایۂ حیات میں کتنی کمی آگئی؟حیات مستعار سے ایک سال کم ہوگیا؟ موت سے ایک سال اور قریب ہوگئے؟ حساب وکتاب کا وقت قریب تر ہوگیامگرعارضی لذتوں اور گناہوں کی نحوست نے اس طرف توجہ دینے کی فرصت ہی کہاں دی۔

چاہے کامیابی اخروی ہو یا دنیوی دونوں کا انحصاروقت کے صحیح استعمال پر ہے ۔مشاہدہ گواہ ہیکہ ہر بڑا آدمی وقت کا قدرداں اور پابندِ وقت رہا ہے،آج دنیا میں جتنے بھی بڑے لوگ بڑے مناصب پر فائز ہیں وہ نہ تو اپنا وقت فضول ضائع کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کا وقت بے مصرف جگہوں میں ضائع کرنا پسند کرتے ہیںاس لیے کہ وہ جانتے ہیںکہ وقت کا بدل دنیا میں کچھ بھی نہیں ہے اور اگر ایک بار چلا جائے تو پھر دوبارہ حاصل کرنا محال ہے ۔

لہٰذاانسان کی زندگی کا ہرلمحہ نہایت ہی قیمتی ہے، اس کا بے محل اور بے جا استعمال انسان کے لیے بہت ہی خطرناک اور تباہ کن ہے،اوراجتماعی زندگیوں میں یہ لمحات بہت ہی اہم رول ادا کرتے ہیں۔ بسا اوقات ایک لمحہ کی غلطی صدیوں کو محیط ہوتی ہے جبکہ صدیوں کی غلطی کا ازالہ لمحہ بھر میں ہوجاتا ہے۔بہترین لوگ وہ ہیں جو ماہ وسال کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اورصحیح سمجھ یہ ہیکہ گذرے سال کا احتساب کریں کہ اللّٰہ تعالیٰ کی اِس دی ہوئی نعمت کا استعمال کتنا ہوااور ہم نے اس میں کیا کھویا اور کیا پایا، ہم سے کونسی غلطیاں سرزد ہوئیں، کہیں ہم نے زندگی کی یہ بیش قیمت مدت فضولیات، خرافات اور لہوولعب میں تو نہیں گذاردی۔ خدانخواستہ اگر ہم نے ایساہی کیا تویہ بہت بڑی بدقسمتی ہوگی۔

Exit mobile version