جامعہ ام سلمیٰ للبنات پرسونی میں شیخ عامل ندوی کی کتاب کا اجرا
مدھوبنی بسفی: دنیائے یاری میں کتاب سے بہتر اور مناسب دوست کوئی نہیں، کتاب کا مطالعہ انسان کو بیٹھے بیٹھے دنیا کی بلکہ آخرت کی سیر کراتا ہے اور اس کے ذریعہ احساس اور فکری آگہی کی دولتِ بیش بہا سے مالامال ہوجاتا ہے۔
انسانی زندگیوں پر سب سے زیادہ موثر حالات حاضرہ پر مطالعہ ہی ہوتا ہے، آج اگر میں کہوں کہ ہمیں فلسطین کی تاریخ ، ثقافت، اسلامی حیثیت اور بنی اسرائیل کی تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کرنا چاہئے تو بےجا نہ ہوگا۔
لھذا انہی موضوعات پر مشتمل محمد عامل شیخ ندوی کی کتاب "ارض فلسطین منظر پس منظر” جو چند ماہ قبل منظر عام پر آئی ہے، جس کا تیسرا اجرا صاحب کتاب اپنے پرسونی گاؤں کے معروف علمی دانش گاہ جامعہ ام سلمیٰ للبنات میں کرارہے ہیں۔17 جون کی دوپہر کو اس تقریب کا انعقاد عمل میں آیا ہے، اس موقع پر کتاب اور مؤلف سے متعلق تشفی بخش تبصرہ مولانا ساجد حسین ندوی (ناظم و بانی مدرسہ ہٰذا) نے اپنے نرالے لہجے اور پر اثر اسلوب میں طالبات و عالمات اور علماء و حفاظ کے سامنے کیا، انہوں نے کہا کہ مؤلف نے یہ کتاب تالیف کرکے ملت پر بڑا احسان کیا ہے کہ مسلمان اپنی اسلامی زمین کے حقائق سے روشناس ہوسکے گی، مؤلف کے علمی گھرانے کا بھی مختصر تعارف کرایا، یہ بھی کہا کہ مؤلف کے چچا مولانا صابر قاسمیؒ بڑے خطیب تھے لیکن تحریری شوق نہیں رکھتے تھے ، اس زاویے سے دیکھا جائے تو مولانا عامل شیخ ندوی دونوں میں مہارت رکھتے ہیں، ان سے امید کی
جاتی ہے کہ یہ دونوں میدانوں کو ہمیشہ سرسبز و شاداب رکھے گے اور اپنے گاؤں اور گھر کا نام روشن کرتے رہے گے۔
بعدہ حضرت مولانا طاہر حسین قاسمی نے مختصر مگر جامع گفتگو کی کہ ہمیں لکھنے کا عادی ہونا چاہئے اور لکھنے والے کی کاوش کو سراہنا چاہیے کہ اس تالیف و تصنیف کی دنیا میں کام کرنے والوں کے لیے حضرت علی میاں ندویؒ اور حضرت سعید پالنپوریؒ کے حوصلہ بخش کلمات کا سہارا اس میدان کو فتح کرنے میں مدد و معاون ثابت ہوگا۔ ارض فلسطین کے عناوین سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحب کتاب نے عرق ریزی سے اس کی تحقیق کی ہے اور ایک اچھا کام ملت کے لیے کیا ہے، اس وقت مسئلہ فلسطین موضوع بحث ہے، لھذا ہمیں چاہئے کا اس کا باریک سے مطالعہ کرے اور فہم مسئلہ سے مکمل واقف ہوں۔
اس تقریب کے موقع پر دیگر حضرات میں سر فہرست مولانا ذاکر حسین نعمانی (نائب مہتمم مدرسہ امدادیہ اورنگ آباد)، مولانا قمر عالم صاحب (مہتمم و بانی جامعہ ہٰذا)، حافظ شمشاد صاحب (استاذ جامعہ ہٰذا)، قاری رضی احمد اشاعتی (استاذ جامعہ ہٰذا)، حافظ شمس الدین التمش (استاذ جامعہ ہٰذا)، مولانا عارف عبداللہ قاسمی ( استاذ انگلش لیکچر دیوبند)، قاری سیف اللہ مدنی ۔ اور صاحب کتاب محمد عامل ذاکر شیخ ندوی ( بانی وخادم کل ہند تحریک فلاح ملت و سابق استاذ شعبۂ عربی جامعہ ہٰذا)، نیز عالمہ آفرین صاحبہ (معلمہ جامعہ ہٰذا) اور اہلیہ ناظم جامعہ سمیت جامعہ کے سینئر اور جونیئر کلاس کی طالبات شریک تقریب رہیں۔