جس کاروبار کا گراونڈ پر وجود نہ ہو، اس میں سرمایہ کاری: حماقت اور نقصان — ایک تحقیقی و تنبیہی جائزہ

تحریر: محمد اعجاز شینواری

تمہید؛ تعجب کی بات یہ ہے کہ ماضی قریب میں ڈبل شاہ نے جس بے دردی کے ساتھ مذہبی طبقے کو لوٹا اسکی مثال نہیں ملتی،ہمارا خیال تھا کہ لوگ آئندہ کے لئے ایسے لوگوں سے میلوں دور بھاگیں گے، لیکن افسوس کہ دولت کی لالچ نے ان لوگوں کو اندھا کیا ہے،آج لوگوں کی ایک بڑی تعداد ڈبل شاہ جیسے دھوکے بازوں کی جال میں پھنس چکے ہیں،معاشرتی مسائل پر گھری نظر رکھنے والے جید عالم دین و سیاسی رھنماءمولانا امان اللہ حقانی نے ان جیسے نوسربازوں سے بروقت آگاہ کیا پھر نہ کہنا کہ ہمیں کسی نے بتایا نہیں تھا۔

سرمایہ کاری آج کے معاشی دور میں ایک عام رجحان بن چکی ہے۔ لوگ چھوٹی بڑی کمپنیوں، آن لائن منصوبوں اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز میں پیسہ لگاتے ہیں تاکہ منافع کما سکیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کسی کاروبار کا عملی، زمینی وجود ہی نہ ہو — یعنی نہ کوئی فزیکل پروڈکٹ، نہ سروس، نہ مارکیٹ، نہ اسٹاف، نہ دفتر — تو کیا اس میں سرمایہ کاری عقلمندی ہے؟ شریعت، تجربہ، اور مالی منطق کے اعتبار سے اس پر تفصیلی جائزہ درج ذیل ہے

1. اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

اسلام میں تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے شفافیت، صداقت، اور حقیقی اثاثے بنیادی شرط ہیں۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے:
“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ”
(سورۃ النساء: 29)
یہ آیت بتاتی ہے کہ مال باطل طریقے سے کھانا (یعنی دھوکہ، فریب، یا غیر حقیقی کاروبار کے ذریعے) ناجائز ہے۔ صرف وہ تجارت جائز ہے جو رضامندی اور حقیقت پر مبنی ہو۔

2. سیرتِ طیبہ ﷺ اور صحابہ کا طریقہ

نبی کریم ﷺ نے تجارت کی جو بنیادیں قائم کیں، وہ حقیقی اشیاء (اجناس، کپڑا، اناج، اونٹ وغیرہ) پر مبنی تھیں۔ نہ آپ ﷺ نے اور نہ صحابہ کرامؓ نے کبھی کسی خیالی یا فریب پر مبنی تجارت کو جائز قرار دیا۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے:

“نہی رسول الله ﷺ عن بيع ما ليس عندك”
(سنن ترمذی: 1232)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے اس چیز کے بیچنے سے منع فرمایا جو تمہارے پاس (ملکیت یا قبضے) میں نہ ہو۔

یہ حدیث اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جس کاروبار کا عملی وجود نہ ہو، اس میں لین دین یا سرمایہ کاری درست نہیں۔

3. شریعت میں غرر (فریب) کی ممانعت

“غرر” عربی میں ایسی چیز کو کہتے ہیں جس کی حقیقت مبہم ہو، انجام معلوم نہ ہو، یا جو وجود ہی نہ رکھتی ہو۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ”
(صحیح مسلم: 1513)

ایسا کاروبار جس میں کمپنی، پروڈکٹ، منافع، یا سرمایہ کا حقیقی وجود نہ ہو، وہ “بیع غرر” میں داخل ہو جاتا ہے، جو کہ حرام ہے۔

4. موجودہ دور کی غیر حقیقی سرمایہ کاری کی شکلیں

  • جعلی آن لائن کمپنیاں
  • کاغذی کاروبار جو صرف ویب سائٹ پر موجود ہوتے ہیں
  • کرپٹو کرنسی یا NFT کی وہ شکلیں جو حقیقی اثاثے سے جُڑی نہ ہوں
  • مضاربہ و انویسٹمنٹ اسکیمز جن میں منافع کی گارنٹی دی جاتی ہے مگر کمپنی کا وجود یا بزنس ماڈل سامنے نہیں ہوتا

ایسی اسکیمز میں عام لوگ لالچ میں آ کر سرمایہ لگاتے ہیں، مگر بعد میں ان کا سرمایہ ڈوب جاتا ہے۔

5. عقلی و معاشی دلیل

  • اگر کوئی کمپنی نہ رجسٹرڈ ہو، نہ اس کا دفتر ہو، نہ ملازمین ہوں، نہ پراڈکٹ یا سروس، تو یہ سرمایہ کاری نہیں بلکہ محض قیاس آرائی ہے۔
  • مارکیٹ کا بنیادی اصول ہے اگر کوئی منصوبہ بغیر کسی گراونڈ پر کام کیے منافع دے رہا ہے، تو وہ عموماً فراڈ ھوتا ھے
  • سرمایہ کاری ہمیشہ ان کاروباروں میں کی جاتی ہے جو کھل کر شفافیت اوروضاحت سے پوری تفصیل فراہم کرتے ہوں۔

6. تجربات اور نقصانات کے واقعات

  • پاکستان، انڈیا، بنگلادیش، اور خلیجی ممالک میں ہزاروں لوگ جعلی “آن لائن” انویسٹمنٹ اسکیمز کا شکار ہو چکے ہیں۔
  • 2020 میں ڈبل شاہ جیسے کیسز اور بعد میں مردان انلائن سکیم خیبر اورپشاور میں پرپل جیسے اسکینڈلز نے لاکھوں لوگوں کو کروڑوں کا نقصان پہنچایا۔
  • ان تمام اسکیمز میں مشترک بات یہ تھی کہ کوئی حقیقی گراونڈ پر بزنس ماڈل موجود نہیں تھا۔

7. احتیاطی تدابیر

  • کسی بھی سرمایہ کاری سے پہلے کمپنی کا سروے، رجسٹریشن، دفتر، ملازمین، کاروباری سرگرمیاں چیک کریں۔
  • سنت اور فقہ کے اصولوں کی روشنی میں سرمایہ کاری کریں۔
  • صرف شریعت کے مطابق اسلامی مالیاتی اداروں پر بھروسہ کریں۔

نتیجہ

ایسا کاروبار جس کا کوئی عملی وجود نہ ہو، نہ اس کے پاس پراڈکٹ ہے، نہ سروس، نہ مارکیٹ میں کام، نہ رجسٹریشن — اس میں سرمایہ لگانا صرف حماقت نہیں بلکہ شرعی اعتبار سے بھی ناجائز اور مالی اعتبار سے شدید نقصان دہ ہے۔
مسلمان کو چاہیے کہ:
• فریب سے بچے
• عقلمندی سے مال خرچ کرے
• حلال اور حقیقی کاروبار میں سرمایہ لگائے
• جلدی منافع کے دھوکے میں نہ آئے۔

حوالہ جات

1. القرآن، سورۃ النساء: 29
2. صحیح مسلم، حدیث: 1513
3. سنن ترمذی، حدیث: 1232
4. فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، کتاب البیوع

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔